تھکنا نہیں جدوجہد جاری رکھنا
11 مئی کو الیکشن 2013ء ہو گا۔ اس دن کے لیے لوگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ’’نامعلوم‘‘ قاتلوں کے ہاتھوں ہزاروں ...
KARACHI:
11 مئی کو الیکشن 2013ء ہو گا۔ اس دن کے لیے لوگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ''نامعلوم'' قاتلوں کے ہاتھوں ہزاروں ''معصوم'' قتل ہوئے ہیں۔ جس دن یہ ''نامعلوم'' معلوم ہو گئے وہ دن حقیقی تبدیلی کا دن ہو گا، انقلاب کا دن ہو گا، سکون کا دن ہو گا، خوشی کا دن ہو گا، پتہ تو سب کو ہے مگر بولتا کوئی نہیں ''سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں'' جس دن یہ چپ کا روزہ ٹوٹا وہ دن بڑا انقلابی دن ہو گا۔
یہ جو دو چار دن رہ گئے ہیں اور پھر الیکشن کا دن ہو گا، غم نہ کرو کہ یہ بھی گزر جائینگے۔ یہ طویل رات ہم پر مسلط ہے۔ ''یہ رات مختصر ہے مری جان غم نہ کر'' اور پھر ایک نیا سورج طلوع ہو گا اور وہ ضرور طلوع ہو گا کیونکہ ''راہ سورج کی کہاں روک سکے اہل ستم'' مگر اس نئے سورج کے طلوع کا منظر ہمیں بستر چھوڑ کر، گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھنا ہو گا۔ 11 مئی کا سورج ہمارے لیے ایک نیا مستقبل لے کر طلوع ہو گا اور اس دن صرف ایک دن ہم کو سورج کے ساتھ ساتھ چلنا ہو گا۔ حتیٰ کہ ظلم و ستم کی رات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔
یہ ہمارے لیے آخری موقع ہے اور ہمیں اسے مکمل حاصل کرنا ہے اور الیکشن والے دن طلوع آفتاب سے پہلے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ جانا ہے۔ 11 مئی کے دن ہمارا پیارا پاکستان پولنگ اسٹیشنوں پر ہمارا منتظر ہو گا۔ ہم نے اپنے پاکستان کو زیادہ انتظار نہیں کروانا اور جلد از جلد پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچنا ہے، تا کہ ہمارا پاکستان ہمیں پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھ کر خوش ہو جائے ہمارے پاکستان کا چہرہ خوشیوں سے چمک دمک جائے۔
11 مئی 2013ء ہمارے بچوں کے سنہرے مستقبل کا دن ہے۔ ہمارے خوابوں کی سچی تعبیر کا دن ہے۔ ہمارے بزرگوں کی خواہشات، تمناؤں کے پورے ہونے کا دن ہے جنھیں ہمارے بزرگ اپنے ساتھ لیے منوں مٹی تلے دفن ہو گئے۔ یہ دن بزرگوں کو خوشیاں فراہم کرنے کا دن ہے۔ یہ دن ہمارے ہزاروں ''معلوم'' پیاروں کا دن ہے کہ جو ''نامعلوم'' قاتلوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ جالب کا ایک شعر سن لیجیے پھر آگے بڑھوں گا:
آج سوئے ہیں تہہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ' کوئی شبنم' کوئی مہتاب جبیں تھا
11 مئی2013ء فیض، استاد دامن، شیخ ایاز، جالب، گل خان نصیر، خالد علیگ، فراز، اجمل خٹک کا دن ہے کہ جو اپنے آنکھوں میں سنہرے دنوں کے خواب سجائے، چلے گئے اور بقول جالب یہ پیغام چھوڑ گئے کہ میں ضرور آؤں گا اک عہد حسین کی صورت۔ 11 مئی 2013ء اسی عہد حسیں کی آمد کا دن ہے۔ اس دن ہم سب کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ہر حال میں گھروں سے نکلنا ہو گا۔
الیکشن میں حصہ لینے والے صف اول کے لیڈران کرام کی تقریریں ہم سن رہے ہیں، ابھی دو دن اور بھی سننا ہیں۔ ہمارے نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، الطاف حسین، اسفند یار ولی، منور حسن، مولانا فضل الرحمٰن اور اپنا پیارا بلاول ''ہر بلاول ہے دیس کا مقروض'' یہ زرداری صاحب کا مقروض بیٹا، یہ سبھی بڑی اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں، ان کے منشور بڑے عوام پرست ہیں، مگر یہ سارے منشور بہت بوسیدہ ہو چکے ہیں، عوام کو ان منشوروں سے رتی برابر دلچسپی نہیں ہے، کوئی ان منشوروں کو نہیں پڑھتا کیونکہ عوام بہت دھوکے کھا چکے، بہت کچھ گنوا چکے، بہت کچھ لٹا چکے اسپتالوں کی دہلیزوں پر بغیر دوا کے غریب مر چکے، تعلیم سے نا آشنا غریبوں کے بچے، گندی گلیوں، غلیظ ماحول کی نذر ہو گئے، پہلے اسکولوں کالجوں کے طلباء ہاتھوں میں ڈگریاں لیے، در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور غریبوں کو بچانے کوئی نہ آیا۔ یہ جو آج ہمارے سیاسی لیڈر پھر سے اپنے اپنے ایک جیسے منشور لے کر انتخابی جلسے گرما رہے ہیں، یہ بڑا اچھا کر رہے ہیں مگر اب ظلم و ستم کی حدیں ختم ہو چکیں، اب غریب، محنت کش، مزدور، ہاری، کسان، خصوصاً آج کا نوجوان صرف اپنے منشور پر عمل درآمد کروائے گا، کوئی یہ نہ سمجھے۔ کوئی لیڈر اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ الیکشن ہوا اور پھر وہی لوٹ مار، کرپشن، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، خودکش بمبار، نامعلوم قاتل، جلتا بلوچستان، خون آلود، خیبر پختون خوا، خونخوار درندے رقصاں، بوری بند لاشیں، لٹتے ہوئے بینک، دولت مندوں کے بھیڑیئے نما فرزند، گاؤں دیہاتوں میں ذاتی جیل خانے، جبریہ مشقت، پیروں، فقیروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں خانوں کا گٹھ جوڑ اور مجبور مقہور غریب آج کا عوامی منشور ان برائیوں کا مکمل خاتمہ ہے۔ آج کا نوجوان اس عوامی منشور پر عمل کروائے گا۔
الیکشن کے بعد اصل کہانی شروع ہو گی۔ بجلی اور پانی کا معاملہ اٹھایا جائے گا لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہے، گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے، یہ سب مسائل حل کرنا ہوں گے۔ بقول جالب:
بہر صورت مسائل کو تو حل کرنا ہی پڑتا ہے
مسائل تو مسائل ہیں' کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں
اب تک تو یہی ہوتا رہا کہ مسائل کو ٹالا جاتا رہا۔ مگر اب مسائل کو ٹالنے کے زمانے لد چکے۔ اب تو بس ان مسائل کے حل ہی میں سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی بھی نجات ہے۔ اب یوم حساب آن پہنچا ہے کہ جب بقول فیض : ''کوہ گراں' روئی کی طرح اڑ جائیں گے' تخت گرائے جائیں گے' تاج اچھالے جائیں گے' اور راج کرے گی خلق خدا''۔ آج کا نوجوان یہ کرے گا اور زمانہ دیکھے گا۔
تبدیلی کی اس گھڑی کو آخر آنا ہی تھا، ان ظالم دوست نما دشمن لیڈروں نے تو غریب سے محض جینے کا حق بھی چھین لیا۔ یہ تمام لیڈر مل کر ظلم و ستم ڈھاتے رہے، ڈھاتے رہے اور غریب مرتے رہے، مرتے رہے اور پھر یہ دور آ گیا کہ جب ''نامعلوم'' قاتلوں نے ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا' لاکھوں لوگ برباد ہو گئے ان ظالم حکمرانوں نے عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیا اور ان کے محل بنتے رہے، بینک بھرتے رہے، غریب اسی صدیوں پرانی جھونپڑی میں پڑا رہا جہاں بھوک اگتی رہی۔
جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے' پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں
الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں بہر صورت پاکستان کے گمبھیر مسائل کو حل کرنا ہو گا اور اس کام کا بیڑہ آج کے نوجوان نے اٹھا لیا ہے۔ یہ نوجوان خواہ کسی بھی جماعت میں ہوں، انھیں مل کر وطن کی شکستہ کشتی کو ڈوبنے سے بچا کر ساحل مراد تک لانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے وطن کی کشتی طوفانوں میں منجدھار میں بری طرح گھری ہوئی ہے، مگر ہمیں ہمت سے کام لینا ہے اور دیکھو، سنو! ساحل مراد سے ، کناروں سے، آواز آرہی ہے:
نہ چھوڑنا کبھی طوفاں میں آس کی پتوار
یہ آرہی ہے صدا' دم بہ دم کناروں سے
نوجوانو! مسائل میں گھرے انسانو! یہ شعر آپ کے ہمدم، آپ کے شاعر حبیب جالب کا ہے، جس نے بستر مرگ پر جانے سے چند روز پہلے اپنے نوجوانوں کے لیے، ساتھیوں کے لیے یہ پیغام دیا تھا کہ ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا''۔
11 مئی کو الیکشن 2013ء ہو گا۔ اس دن کے لیے لوگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ''نامعلوم'' قاتلوں کے ہاتھوں ہزاروں ''معصوم'' قتل ہوئے ہیں۔ جس دن یہ ''نامعلوم'' معلوم ہو گئے وہ دن حقیقی تبدیلی کا دن ہو گا، انقلاب کا دن ہو گا، سکون کا دن ہو گا، خوشی کا دن ہو گا، پتہ تو سب کو ہے مگر بولتا کوئی نہیں ''سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں'' جس دن یہ چپ کا روزہ ٹوٹا وہ دن بڑا انقلابی دن ہو گا۔
یہ جو دو چار دن رہ گئے ہیں اور پھر الیکشن کا دن ہو گا، غم نہ کرو کہ یہ بھی گزر جائینگے۔ یہ طویل رات ہم پر مسلط ہے۔ ''یہ رات مختصر ہے مری جان غم نہ کر'' اور پھر ایک نیا سورج طلوع ہو گا اور وہ ضرور طلوع ہو گا کیونکہ ''راہ سورج کی کہاں روک سکے اہل ستم'' مگر اس نئے سورج کے طلوع کا منظر ہمیں بستر چھوڑ کر، گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھنا ہو گا۔ 11 مئی کا سورج ہمارے لیے ایک نیا مستقبل لے کر طلوع ہو گا اور اس دن صرف ایک دن ہم کو سورج کے ساتھ ساتھ چلنا ہو گا۔ حتیٰ کہ ظلم و ستم کی رات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔
یہ ہمارے لیے آخری موقع ہے اور ہمیں اسے مکمل حاصل کرنا ہے اور الیکشن والے دن طلوع آفتاب سے پہلے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ جانا ہے۔ 11 مئی کے دن ہمارا پیارا پاکستان پولنگ اسٹیشنوں پر ہمارا منتظر ہو گا۔ ہم نے اپنے پاکستان کو زیادہ انتظار نہیں کروانا اور جلد از جلد پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچنا ہے، تا کہ ہمارا پاکستان ہمیں پولنگ اسٹیشنوں پر دیکھ کر خوش ہو جائے ہمارے پاکستان کا چہرہ خوشیوں سے چمک دمک جائے۔
11 مئی 2013ء ہمارے بچوں کے سنہرے مستقبل کا دن ہے۔ ہمارے خوابوں کی سچی تعبیر کا دن ہے۔ ہمارے بزرگوں کی خواہشات، تمناؤں کے پورے ہونے کا دن ہے جنھیں ہمارے بزرگ اپنے ساتھ لیے منوں مٹی تلے دفن ہو گئے۔ یہ دن بزرگوں کو خوشیاں فراہم کرنے کا دن ہے۔ یہ دن ہمارے ہزاروں ''معلوم'' پیاروں کا دن ہے کہ جو ''نامعلوم'' قاتلوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ جالب کا ایک شعر سن لیجیے پھر آگے بڑھوں گا:
آج سوئے ہیں تہہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ' کوئی شبنم' کوئی مہتاب جبیں تھا
11 مئی2013ء فیض، استاد دامن، شیخ ایاز، جالب، گل خان نصیر، خالد علیگ، فراز، اجمل خٹک کا دن ہے کہ جو اپنے آنکھوں میں سنہرے دنوں کے خواب سجائے، چلے گئے اور بقول جالب یہ پیغام چھوڑ گئے کہ میں ضرور آؤں گا اک عہد حسین کی صورت۔ 11 مئی 2013ء اسی عہد حسیں کی آمد کا دن ہے۔ اس دن ہم سب کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ہر حال میں گھروں سے نکلنا ہو گا۔
الیکشن میں حصہ لینے والے صف اول کے لیڈران کرام کی تقریریں ہم سن رہے ہیں، ابھی دو دن اور بھی سننا ہیں۔ ہمارے نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، الطاف حسین، اسفند یار ولی، منور حسن، مولانا فضل الرحمٰن اور اپنا پیارا بلاول ''ہر بلاول ہے دیس کا مقروض'' یہ زرداری صاحب کا مقروض بیٹا، یہ سبھی بڑی اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں، ان کے منشور بڑے عوام پرست ہیں، مگر یہ سارے منشور بہت بوسیدہ ہو چکے ہیں، عوام کو ان منشوروں سے رتی برابر دلچسپی نہیں ہے، کوئی ان منشوروں کو نہیں پڑھتا کیونکہ عوام بہت دھوکے کھا چکے، بہت کچھ گنوا چکے، بہت کچھ لٹا چکے اسپتالوں کی دہلیزوں پر بغیر دوا کے غریب مر چکے، تعلیم سے نا آشنا غریبوں کے بچے، گندی گلیوں، غلیظ ماحول کی نذر ہو گئے، پہلے اسکولوں کالجوں کے طلباء ہاتھوں میں ڈگریاں لیے، در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور غریبوں کو بچانے کوئی نہ آیا۔ یہ جو آج ہمارے سیاسی لیڈر پھر سے اپنے اپنے ایک جیسے منشور لے کر انتخابی جلسے گرما رہے ہیں، یہ بڑا اچھا کر رہے ہیں مگر اب ظلم و ستم کی حدیں ختم ہو چکیں، اب غریب، محنت کش، مزدور، ہاری، کسان، خصوصاً آج کا نوجوان صرف اپنے منشور پر عمل درآمد کروائے گا، کوئی یہ نہ سمجھے۔ کوئی لیڈر اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ الیکشن ہوا اور پھر وہی لوٹ مار، کرپشن، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، خودکش بمبار، نامعلوم قاتل، جلتا بلوچستان، خون آلود، خیبر پختون خوا، خونخوار درندے رقصاں، بوری بند لاشیں، لٹتے ہوئے بینک، دولت مندوں کے بھیڑیئے نما فرزند، گاؤں دیہاتوں میں ذاتی جیل خانے، جبریہ مشقت، پیروں، فقیروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں خانوں کا گٹھ جوڑ اور مجبور مقہور غریب آج کا عوامی منشور ان برائیوں کا مکمل خاتمہ ہے۔ آج کا نوجوان اس عوامی منشور پر عمل کروائے گا۔
الیکشن کے بعد اصل کہانی شروع ہو گی۔ بجلی اور پانی کا معاملہ اٹھایا جائے گا لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہے، گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے، یہ سب مسائل حل کرنا ہوں گے۔ بقول جالب:
بہر صورت مسائل کو تو حل کرنا ہی پڑتا ہے
مسائل تو مسائل ہیں' کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں
اب تک تو یہی ہوتا رہا کہ مسائل کو ٹالا جاتا رہا۔ مگر اب مسائل کو ٹالنے کے زمانے لد چکے۔ اب تو بس ان مسائل کے حل ہی میں سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی بھی نجات ہے۔ اب یوم حساب آن پہنچا ہے کہ جب بقول فیض : ''کوہ گراں' روئی کی طرح اڑ جائیں گے' تخت گرائے جائیں گے' تاج اچھالے جائیں گے' اور راج کرے گی خلق خدا''۔ آج کا نوجوان یہ کرے گا اور زمانہ دیکھے گا۔
تبدیلی کی اس گھڑی کو آخر آنا ہی تھا، ان ظالم دوست نما دشمن لیڈروں نے تو غریب سے محض جینے کا حق بھی چھین لیا۔ یہ تمام لیڈر مل کر ظلم و ستم ڈھاتے رہے، ڈھاتے رہے اور غریب مرتے رہے، مرتے رہے اور پھر یہ دور آ گیا کہ جب ''نامعلوم'' قاتلوں نے ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا' لاکھوں لوگ برباد ہو گئے ان ظالم حکمرانوں نے عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیا اور ان کے محل بنتے رہے، بینک بھرتے رہے، غریب اسی صدیوں پرانی جھونپڑی میں پڑا رہا جہاں بھوک اگتی رہی۔
جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے' پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں
الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں بہر صورت پاکستان کے گمبھیر مسائل کو حل کرنا ہو گا اور اس کام کا بیڑہ آج کے نوجوان نے اٹھا لیا ہے۔ یہ نوجوان خواہ کسی بھی جماعت میں ہوں، انھیں مل کر وطن کی شکستہ کشتی کو ڈوبنے سے بچا کر ساحل مراد تک لانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے وطن کی کشتی طوفانوں میں منجدھار میں بری طرح گھری ہوئی ہے، مگر ہمیں ہمت سے کام لینا ہے اور دیکھو، سنو! ساحل مراد سے ، کناروں سے، آواز آرہی ہے:
نہ چھوڑنا کبھی طوفاں میں آس کی پتوار
یہ آرہی ہے صدا' دم بہ دم کناروں سے
نوجوانو! مسائل میں گھرے انسانو! یہ شعر آپ کے ہمدم، آپ کے شاعر حبیب جالب کا ہے، جس نے بستر مرگ پر جانے سے چند روز پہلے اپنے نوجوانوں کے لیے، ساتھیوں کے لیے یہ پیغام دیا تھا کہ ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا''۔