میرا ہم سفر‘ عباس اطہر
میرا ایک اور ہم سفر عباس اطہر قافلے سے بچھڑ کر اپنی منزل پر اتر گیا ہے،ایک سال پہلے میں لاہور آیا تھا...
KARACHI:
میرا ایک اور ہم سفر عباس اطہر قافلے سے بچھڑ کر اپنی منزل پر اتر گیا ہے،ایک سال پہلے میں لاہور آیا تھا، شفقت تنویر مرزا جی کی بیماری کی مجھے خبر تھی لاہور پہنچ کے معلوم ہوا کہ عباس اطہر کو بھی کینسر نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے، میں اپنے دوست فخر ہمایوں کی بیوہ ساجدہ اور اس کی بہن رانی کے ساتھ ان دونوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے گیا، فخر بھی کینسر کی نذر ہوا تھا اس لیے ساجدہ اس بیماری کی پیچیدگیوں اور علاج کے انداز سے واقفیت رکھتی تھی، عباس کرید کرید کر اس سے اس بیماری سے صحت یاب ہونے کی تفصیلات پوچھتا رہا اور سگریٹ پیتا رہا،
ساجدہ نے اسے منع بھی کیا کہ عباس اب تو سگریٹ چھوڑ دے اس کا ایک ایک کش تیری بیماری کو مضبوط کرتا رہے گا، مگر اس نے بات ٹال دی اور بتانے لگا کہ کیسے ادارہ اس کا خیال رکھے ہوئے ہے اور علاج کے لیے لندن بھیج رہا ہے، اسے یقین تھا کہ وہ وہاں سے صحت یاب ہو کر آئے گا، میں نے اور ساجدہ نے ایسی کوئی امید نہیں باندھی تھی، ہم جانتے تھے چراغ میں تیل نہیں رہا، وہ واپس آیا میں نے سنا کہ وہ کافی بہتر ہے، مگر پھر اس کی صحت کے بگڑنے کی خبر ملی، اس کے بعد پتہ چلا کہ اس نے لوگوں کو شناخت کرنا تک چھوڑ دیا ہے اور اب بتایا گیا ہے کہ وہ نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گیا ہے، جب میری عباس سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو میں امروز کے مرکزی نیوز ڈیسک کا شفٹ انچارج تھا،
اس وقت یہ عہدہ اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کے برابر ہوتا تھا، آج کے حساب سے یہ نیوز ایڈیٹر کے برابر ٹھہرتا ہے، عباس اطہر میری شفٹ کا جونئیر ممبر تھا مگر اس میں ایک عجیب قسم کی شوخی و شرارت اور چلبلا پن تھا، اس لیے ہم جلد ہی دوست بن گئے، اس زمانے کے امروز میں فخر ہمایوں، عظیم قریشی، عباس اطہر اور مجھ کو ملا کر ایک ٹیم بن گئی تھی، امروز کی یونین میں ہماری آواز کی بڑی قوت تھی، ہم نوجوان انقلابی تھے، نیا اور مضبوط پاکستان دیکھنا اور محنت کی عظمت کا احترام پیدا کرنا چاہتے تھے اسی لیے جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ہم اس جماعت کے ہمنوا ہو گئے،
مجھے یاد ہے اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے احتجاج کی کال ہوئی تھی صحافیوں نے پریس کلب میں جمع ہونا تھا اور وہاں سے جی پی او کی طرف مارچ کرتے ہوئے جا کر دوسرے جلوسوں کے ساتھ ملنا تھا مگر جب پریس کلب میں کوئی وقت پر نہیں پہنچا تو ہم وہاں سے یوں نکلے کہ میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے سب سے آگے تھا میرے پیچھے میرے دونوں دوست فخر ہمایوں اور عباس اطہر قطار میں چل رہے تھے، یہ زمانہ آج دور بہت دور نظر آتا ہے اور اس زمانے کے تمام خواب پریشان دکھائی دیتے ہیں،ہمارا یہ ساتھ شروع سے ہی بہت عجیب تھا، فخر صاف گو اور بہت سوجھ بوجھ والا تھا، عظیم قریشی زیادہ نہیں بولتا تھا مگر اس کی رائے بہت صائب ہوتی تھی، میں جذباتی اور حق پرست تھا جب کہ عباس جوڑ توڑ کا ماہر تھا،
مجھے یہ سب آگے رکھتے تھے چنانچہ ہم امروز اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں امروز سے نکل آیا، اور ندائے ملت ، آزاد سے ہوتا ہوا جب مساوات پہنچا تو عباس اطہر اس اخبار کا نیوز ایڈیٹر تھا، مجھے میگزین کا انچارج لیا گیا تھا اور میرا عہدہ فیچر ایڈیٹر کا تھا، اگرچہ میرا اور عباس کا کوئی جھگڑا بنتا نہیں تھا ، وہ نیوز اور میں فیچر کو سنبھالے ہوئے تھا، تاہم ہمارے درمیان تلخی پیدا ہو ہی گئی۔ آج جب وہ اس دنیا سے منہ موڑ گیا ہے تو میری ساری توجہ اس موڑ پر مرکوز ہو گئی ہے جو ہمارے درمیان تلخی کا باعث ہوا تھا، سوچتے سوچتے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امروز کے زمانے کی ہماری سرگرمیوں نے ہم سب کی زندگی کی راہیں متعین کی تھیں، ہم اخباری صنعت سے وابستہ ان صحافیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
جنھیں کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی تھیں اور اگر ملتی بھی تھیں تو قسطوں میں، یہ کوئی آسان راستہ نہیں تھا، اس پر چلنے سے پہلے ہم نے امروز میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا، وہ عجیب دور تھا، چوالیس سال پہلے کی باتیں قطار باندھے چلی آ رہی ہیں، ان سب کو لکھنا کیا، اور گئے زمانے کا رنگ باندھنے سے کیا حاصل، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے جب ان لوگوں نے جن کے مسائل لے کر ہم اٹھے تھے ان سے ہاتھ ملا لیا جن کی وہ شکایت لے کر آئے تھے تو ہم سب کو بڑا دھچکا لگا، عظیم قریشی پہلے سے زیادہ خاموش اور محتاط ہو گیا، فخر ہمایوں نے امروز میں کچھ وقت زیر عتاب گزارا پھر لندن چلا گیا اور صحافت ترک کر بیٹھا، میری شوریدگی میں کوئی فرق نہیں آیا، میں اخبار سے نکل کر ٹیلیویژن میں چلا گیا۔ رہا عباس اطہر تو وہ اپنے فن کا ماہر تھا،
ہماری پرخلوص جہد کی ناکامی اور میرے امروز چھوڑنے کا اس نے بڑا اثر لیا تھا، اس کے تابع اس نے ہماری جہد کے سقم کو سمجھا، خود لیڈر بن کے میدان میں اترا اور پی پی ایل سے ہی اپنی مشق کا آغاز کیا اور اپنی مہارت کے طفیل اس نے اخباری صنعت کی بلندیوں کو چھو لیا، میرے اور عباس اطہر کے درمیان تلخی کی دراڑ کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ ایک طرح سے منقطع ہو گیا، وہ شاہی قلعے میں رہا، امریکا چلا گیا پھر واپس آیا اور کسی کا لحاظ کیے بغیر اخباری دنیا کا زینہ چڑھنے لگا، بہت سے لوگوں کے نزدیک اس کا طرز عمل درست نہیں تھا، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس نے کشتیاں جلائے بغیر جہد کا اپنا راستہ تلاش کر لیا تھا، چنانچہ اس کی ذات سے بیشمار لوگوں کو فائدہ پہنچا اور لوگوں کو یہ فائدہ اس چنگاری کی بدولت میسر آتا رہا ہے۔
جو اس کے اندر امروز کے زمانے میں سلگی تھی اور بظاہر بجھ جانے کے باوجود اندر ہی اندر آخر دم تک سلگتی رہی ہے، اب چار کے اس ٹولے کے دو ہی ''جوان'' عظیم قریشی اور میں باقی بچے ہیں،اس کے بعد عباس مجھے کبھی ملنے نہیں آیا، البتہ میں جب جب لاہور جاتا رہا ہوں اور جب مجھے وقت میسر آتا رہا ہے میں اس سے ضرور مل لیتا تھا، آخر ہم نے انسان دوستی کی راہ پر کچھ فاصلہ اکٹھے طے کیا تھا، پھر میں جسے ایک دفعہ اپنے قریب کر لیتا ہوں تو اس کے ساتھ فاصلے بڑھ سکتے ہیں، اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں مگر پیار نہ تو مرتا ہے اور نہ نفع، نقصان کی کسوٹی کا تابع ہوتا ہے، عباس اطہر مجھے پیارا تھا اور آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو ایک گہرے دکھ کی چادر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، میں سوچتا ہوں شاید شام کے دھندلکے میں مجھ جیسے تھکے ماندے لوگ اسی طرح اپنی آنکھوں سے یادوں کے سمندر بہاتے ہیں؟؟؟
میرا ایک اور ہم سفر عباس اطہر قافلے سے بچھڑ کر اپنی منزل پر اتر گیا ہے،ایک سال پہلے میں لاہور آیا تھا، شفقت تنویر مرزا جی کی بیماری کی مجھے خبر تھی لاہور پہنچ کے معلوم ہوا کہ عباس اطہر کو بھی کینسر نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے، میں اپنے دوست فخر ہمایوں کی بیوہ ساجدہ اور اس کی بہن رانی کے ساتھ ان دونوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے گیا، فخر بھی کینسر کی نذر ہوا تھا اس لیے ساجدہ اس بیماری کی پیچیدگیوں اور علاج کے انداز سے واقفیت رکھتی تھی، عباس کرید کرید کر اس سے اس بیماری سے صحت یاب ہونے کی تفصیلات پوچھتا رہا اور سگریٹ پیتا رہا،
ساجدہ نے اسے منع بھی کیا کہ عباس اب تو سگریٹ چھوڑ دے اس کا ایک ایک کش تیری بیماری کو مضبوط کرتا رہے گا، مگر اس نے بات ٹال دی اور بتانے لگا کہ کیسے ادارہ اس کا خیال رکھے ہوئے ہے اور علاج کے لیے لندن بھیج رہا ہے، اسے یقین تھا کہ وہ وہاں سے صحت یاب ہو کر آئے گا، میں نے اور ساجدہ نے ایسی کوئی امید نہیں باندھی تھی، ہم جانتے تھے چراغ میں تیل نہیں رہا، وہ واپس آیا میں نے سنا کہ وہ کافی بہتر ہے، مگر پھر اس کی صحت کے بگڑنے کی خبر ملی، اس کے بعد پتہ چلا کہ اس نے لوگوں کو شناخت کرنا تک چھوڑ دیا ہے اور اب بتایا گیا ہے کہ وہ نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گیا ہے، جب میری عباس سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو میں امروز کے مرکزی نیوز ڈیسک کا شفٹ انچارج تھا،
اس وقت یہ عہدہ اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کے برابر ہوتا تھا، آج کے حساب سے یہ نیوز ایڈیٹر کے برابر ٹھہرتا ہے، عباس اطہر میری شفٹ کا جونئیر ممبر تھا مگر اس میں ایک عجیب قسم کی شوخی و شرارت اور چلبلا پن تھا، اس لیے ہم جلد ہی دوست بن گئے، اس زمانے کے امروز میں فخر ہمایوں، عظیم قریشی، عباس اطہر اور مجھ کو ملا کر ایک ٹیم بن گئی تھی، امروز کی یونین میں ہماری آواز کی بڑی قوت تھی، ہم نوجوان انقلابی تھے، نیا اور مضبوط پاکستان دیکھنا اور محنت کی عظمت کا احترام پیدا کرنا چاہتے تھے اسی لیے جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ہم اس جماعت کے ہمنوا ہو گئے،
مجھے یاد ہے اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے احتجاج کی کال ہوئی تھی صحافیوں نے پریس کلب میں جمع ہونا تھا اور وہاں سے جی پی او کی طرف مارچ کرتے ہوئے جا کر دوسرے جلوسوں کے ساتھ ملنا تھا مگر جب پریس کلب میں کوئی وقت پر نہیں پہنچا تو ہم وہاں سے یوں نکلے کہ میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے سب سے آگے تھا میرے پیچھے میرے دونوں دوست فخر ہمایوں اور عباس اطہر قطار میں چل رہے تھے، یہ زمانہ آج دور بہت دور نظر آتا ہے اور اس زمانے کے تمام خواب پریشان دکھائی دیتے ہیں،ہمارا یہ ساتھ شروع سے ہی بہت عجیب تھا، فخر صاف گو اور بہت سوجھ بوجھ والا تھا، عظیم قریشی زیادہ نہیں بولتا تھا مگر اس کی رائے بہت صائب ہوتی تھی، میں جذباتی اور حق پرست تھا جب کہ عباس جوڑ توڑ کا ماہر تھا،
مجھے یہ سب آگے رکھتے تھے چنانچہ ہم امروز اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں امروز سے نکل آیا، اور ندائے ملت ، آزاد سے ہوتا ہوا جب مساوات پہنچا تو عباس اطہر اس اخبار کا نیوز ایڈیٹر تھا، مجھے میگزین کا انچارج لیا گیا تھا اور میرا عہدہ فیچر ایڈیٹر کا تھا، اگرچہ میرا اور عباس کا کوئی جھگڑا بنتا نہیں تھا ، وہ نیوز اور میں فیچر کو سنبھالے ہوئے تھا، تاہم ہمارے درمیان تلخی پیدا ہو ہی گئی۔ آج جب وہ اس دنیا سے منہ موڑ گیا ہے تو میری ساری توجہ اس موڑ پر مرکوز ہو گئی ہے جو ہمارے درمیان تلخی کا باعث ہوا تھا، سوچتے سوچتے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امروز کے زمانے کی ہماری سرگرمیوں نے ہم سب کی زندگی کی راہیں متعین کی تھیں، ہم اخباری صنعت سے وابستہ ان صحافیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
جنھیں کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں ملتی تھیں اور اگر ملتی بھی تھیں تو قسطوں میں، یہ کوئی آسان راستہ نہیں تھا، اس پر چلنے سے پہلے ہم نے امروز میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا، وہ عجیب دور تھا، چوالیس سال پہلے کی باتیں قطار باندھے چلی آ رہی ہیں، ان سب کو لکھنا کیا، اور گئے زمانے کا رنگ باندھنے سے کیا حاصل، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے جب ان لوگوں نے جن کے مسائل لے کر ہم اٹھے تھے ان سے ہاتھ ملا لیا جن کی وہ شکایت لے کر آئے تھے تو ہم سب کو بڑا دھچکا لگا، عظیم قریشی پہلے سے زیادہ خاموش اور محتاط ہو گیا، فخر ہمایوں نے امروز میں کچھ وقت زیر عتاب گزارا پھر لندن چلا گیا اور صحافت ترک کر بیٹھا، میری شوریدگی میں کوئی فرق نہیں آیا، میں اخبار سے نکل کر ٹیلیویژن میں چلا گیا۔ رہا عباس اطہر تو وہ اپنے فن کا ماہر تھا،
ہماری پرخلوص جہد کی ناکامی اور میرے امروز چھوڑنے کا اس نے بڑا اثر لیا تھا، اس کے تابع اس نے ہماری جہد کے سقم کو سمجھا، خود لیڈر بن کے میدان میں اترا اور پی پی ایل سے ہی اپنی مشق کا آغاز کیا اور اپنی مہارت کے طفیل اس نے اخباری صنعت کی بلندیوں کو چھو لیا، میرے اور عباس اطہر کے درمیان تلخی کی دراڑ کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ ایک طرح سے منقطع ہو گیا، وہ شاہی قلعے میں رہا، امریکا چلا گیا پھر واپس آیا اور کسی کا لحاظ کیے بغیر اخباری دنیا کا زینہ چڑھنے لگا، بہت سے لوگوں کے نزدیک اس کا طرز عمل درست نہیں تھا، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس نے کشتیاں جلائے بغیر جہد کا اپنا راستہ تلاش کر لیا تھا، چنانچہ اس کی ذات سے بیشمار لوگوں کو فائدہ پہنچا اور لوگوں کو یہ فائدہ اس چنگاری کی بدولت میسر آتا رہا ہے۔
جو اس کے اندر امروز کے زمانے میں سلگی تھی اور بظاہر بجھ جانے کے باوجود اندر ہی اندر آخر دم تک سلگتی رہی ہے، اب چار کے اس ٹولے کے دو ہی ''جوان'' عظیم قریشی اور میں باقی بچے ہیں،اس کے بعد عباس مجھے کبھی ملنے نہیں آیا، البتہ میں جب جب لاہور جاتا رہا ہوں اور جب مجھے وقت میسر آتا رہا ہے میں اس سے ضرور مل لیتا تھا، آخر ہم نے انسان دوستی کی راہ پر کچھ فاصلہ اکٹھے طے کیا تھا، پھر میں جسے ایک دفعہ اپنے قریب کر لیتا ہوں تو اس کے ساتھ فاصلے بڑھ سکتے ہیں، اختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں مگر پیار نہ تو مرتا ہے اور نہ نفع، نقصان کی کسوٹی کا تابع ہوتا ہے، عباس اطہر مجھے پیارا تھا اور آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو ایک گہرے دکھ کی چادر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، میں سوچتا ہوں شاید شام کے دھندلکے میں مجھ جیسے تھکے ماندے لوگ اسی طرح اپنی آنکھوں سے یادوں کے سمندر بہاتے ہیں؟؟؟