کراچی میں سائیکل چلانے کا رجحان انتہائی کم ہوگیا بچوں کا شوق تاحال برقرار
بچوں کی سائیکلیں زیادہ ترچین سے درآمد کی جارہی ہیں
شہر کی تیز رفتار زندگی میں سائیکل چلانے کا شوق متروک ہوگیا مختلف عمر کے بچوں میں سائیکلنگ کا شوق تاحال برقرار ہے اسکولوں کی چھٹیوں کے باعث سائیکلوں کی فروخت کا سیزن عروج پر ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں سائیکلوں کی فروخت کے مراکز قائم ہیں۔
تاہم مرکزی بازار گاڑی کھاتہ لائٹ ہاؤس میں قائم ہے جہاں سائیکلوں کی فروخت کی60 سے زائد چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، سائیکل چلانا ایک صحت مند سرگرمی ہے اور ماحول کے لیے بھی سود مند ہے تاہم بڑی عمر کے افراد میں سائیکل چلانے کا رجحان کم و بیش ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے سائیکل بنانے والی کمپنیوں کا کاروبار زوال کا شکار ہے بچوں کی سائیکلیں زیادہ تر چین سے درآمد کی جارہی ہیں دیدہ زیب رنگوں اور ڈیزائن کی حامل اسپورٹس سائیکلوں کی نئی اور قابل دید ورائٹی بازار میں فروخت کی جارہی ہے۔
سائیکلوں کی فروخت سے وابستہ افراد کے مطابق روپے کی قدر کم ہونے سے سائیکلوں کی قیمت میں بھی 500 سے ایک ہزار روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے موسم گرما میں اسکولوں کی تعطیلات سائیکلوں کی فروخت کا سب سے بڑا سیزن ہے جس میں فروخت عام دنوں کی نسبت 10گنا تک بڑھ جاتی ہے لائٹ ہاؤس کے دکاندار محمد حسیب کے مطابق سائیکل کا سائز بچوں کی عمر کے حساب سے مقرر ہے دو پہیوں کی سب سے چھوٹی 12نمبر کی سائیکل 4 سال کے بچوں کے لیے ہوتی ہے جس کی قیمت 3500روپے ہے جس کے بعد 16سے 26نمبر تک کی سائیکلیں ہوتی ہیں 16نمبر کی سائیکل 6سے8سال کے بچے چلاتے ہیں جس کی قیمت 6سے ساڑھے 6 ہزار روپے ہے بڑے سائز کی سائیکلوں کی قیمت 9سے 10ہزار روپے ہے لڑکوں کے علاوہ اب لڑکیوں کے لیے بھی خصوصی رنگ اور ڈیزائن کی سائیکلیں بازار میں دستیاب ہیں۔
سائیکل بازاروں میں 90فیصد چینی ساختہ درآمدی سائیکلیں فروخت کی جارہی ہیں، پاکستان میں چھوٹے بچوں کی تین پہیوں کی سائیکلیں تیار کی جارہی ہیں یا ایک سے دو سال کے بچوں کے لیے پلاسٹک کی چار پہیوں کی گاڑیاں تیار کی جارہی ہیں۔ سائیکل فروخت کرنے والوں کے مطابق لائٹ ہا?س کے مرکزی بازار میں اتوار کے روز سب سے زیادہ گاہک آتے ہیں شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے گاہک بچوں کے لیے نئی سائیکلوں کے ساتھ پرانی سائیکلیں بھی خریدتے ہیں بازار میں سائیکلوں کی مرمت بھی کی جاتی ہے اور سیکڑوں افراد کا روزگار سائیکلوں کی فروخت اور مرمت سے وابستہ ہے۔
بچوں کی ضد پروالدین پرانی سائیکل خرید کر بنوالیتے ہیں،کاریگر
سائیکلوں کی مرمت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی ضد پوری کرنے کے لیے 60سے 70فیصد والدین پرانی سائیکلیں خرید کر انھیں مرمت اور رنگ روغن کراکے کام چلاتے ہیں مہنگائی میں اضافہ اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے صرف 30فیصد طلب نئی سائیکلوں سے پوری کی جاتی ہے سائیکلوں کی مرمت کی دکانوں پر بھی ہفتہ اتوار کو گاہکوں کا زیادہ رش رہتا ہے تاہم رہائشی علاقوں کی مستقل دکانوں پر موسم گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کا رش لگا رہتا ہے، لائٹ ہاؤس گاڑی کھاتہ میں سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کاریگر سائیکلوں میں پرانے پرزے بھی لگاتے ہیں زیادہ تر سائیکلوں میں چین گراری، ہینڈل اور سیٹ کی مرمت کا کام کرایا جاتا ہے چھوٹے بچوں کی سائیکلوں میں اضافی چھوٹے پہیے لگوائے جاتے ہیں سائیکلوں کی مرمت کرنے والوں کے پاس پرانی سائیکلیں بھی فروخت کے لیے موجود رہتی ہیں جو گاہک کی قوت خرید کے مطابق فروخت کی جاتی ہیں۔
ہفتہ وار بازاروں میں پرانی سائیکلیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں
شہر کے مختلف علاقوں میں پرانی سائیکلوں کی فروخت کے ہفتہ وار بازار لگائے جاتے ہیں جس میں پرانی سائیکلوں کی خریدوفروخت کی جاتی ہے، زیادہ تر بچے اپنی پرانی سائیکلوں پر رنگ روغن کرکے اسے فروخت کرنے کے بعد اس سے زیادہ بہتر حالت کی سائیکل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، پرانی سائیکلوںکا اتوار بازار کراچی کے علاقے لیاقت آباد 10 نمبر پر بھی لگایا جاتا ہے جہاں مختلف علاقوں سے بچے اور نوجوان اپنی سائیکلیں فروخت کرنے آتے ہیں اسی بازار سے والدین اپنے بچوں کے لیے اچھی حالت کی سائیکلیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں بازار لب سڑک لگنے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے اور اکثر پولیس سائیکل فروخت کرنے والے بچوں کو روڈ سے ہٹانے کے لیے سختی کرتی ہے پرانی سائیکلوں کے بازار میں عموماً 2 سے 3 سال چلی ہوئی سائیکل 50 فیصد تک کم قیمت پر مل جاتی ہے زیادہ پرانی سائیکلیں ہزار سے 1500 روپے میں مل جاتی ہیں ان ہفتہ وار بازاروں میں پرانی اشیا فروخت کرنے والے بھی سائیکلیں فروخت کے لیے لاتے ہیں کئی سال سے لگنے والے اس بازار میں اتوار کے روز 200کے لگ بھگ سائیکلیں فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں۔
گرمیوںکی تعطیلات میں سائیکل کے کاریگروں کاروزگاربڑھ گیا
لائٹ ہاؤس بازار میں سائیکلوں کی فٹنگ کرنے والے کاریگر امجد نے بتایا کہ گرمیوں کی تعطیلات میں یومیہ اجرت پانے والے کاریگروں کا روزگار بھی بڑھ گیا ہے، ایک سائیکل کی فٹنگ کی اجرت 150سے 200 روپے وصول کی جاتی ہے ایک دن میں اوسطاً ہر کاریگر کو 5 سے 6 سائیکلوں کا کام مل جاتا ہے جس سے گزربسر ہوجاتی ہے انھوں نے بتایا کہ سائیکلوں کی فٹنگ محنت طلب کام ہے اجرت محنت کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن روزگار لگا ہوا ہے، سائیکلوں کی فٹنگ کرنے والے درجنوں افراد فٹ پاتھ اور سڑک پر اپنے اوزاروں کے ساتھ مارکیٹ کھلنے سے قبل ہی پہنچ جاتے ہیں اور دن ڈھلے تک مسلسل کام کرتے رہتے ہیں۔ نئی سائیکلوں کی فٹنگ میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے چھوٹی سائیکلوں کی فٹنگ 15سے 20 منٹ میں ہوجاتی ہے نئی سائیکل خریدنے والے اکثر اضافی سامان بھی لگواتے ہیں جس میں زیادہ تر سجاوٹ کا سامان شامل ہے فٹنگ کے کاریگروں کے مطابق عام دنوں میں سائیکلوں کی فروخت محدود ہوتی ہے اکا دکا گاہک آتے ہیں لیکن اسکولوں کی گرمیوں کی تعطیلات شروع ہوتے ہی سائیکلوں کی فروخت بڑھ جاتی ہے جس سے فٹنگ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی بڑھ جاتا ہے۔
سائیکلنگ صحت مند طرز زندگی پانےکا بہترین ذریعہ ہے،ماہرین طب
طبی ماہرین کے مطابق سائیکلنگ صحت مند طرز زندگی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے جن میں امراض قلب اور فشار خون، ذیابیطس، جوڑوں کی بیماریاں، موٹا پا اور مخصوص اقسام کے کینسر شامل ہیں، سائیکل چلانے سے انسانی مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور افسردگی، پریشانی، گھبراہٹ سمیت مختلف ذہنی امراض سے بچا جاسکتا ہے، ماہرین کے مطابق باقاعدگی سے سائیکل چلانے والوں کے جسم میں فالتو مادوں کی سطح کم رہتی ہے سائیکل چلانے والوں کی ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں، جسم میں چکنائی کی مقدار کنٹرول میں رہتی ہے، برطانوی محققین کے مطابق ایک دن میں نصف گھنٹہ سائیکل چلانے والوں کے جسم سے سال میں 5 کلو گرام چکنائی کم ہوتی ہے، چڑھائی کی جانب سائیکل چلانے سے ایک گھنٹے میں 300 کیلوریز برن (خرچ) ہوتی ہیں۔
میگا پولیٹن سٹی کراچی میں کوئی سائیکلنگ ٹریک نہیں
شہر میں پارکوں اور میدانوں کی شدید کمی اور سڑکوںپر تجاوزات کی وجہ سے بچے اور نوجوان سائیکلنگ کا شوق گلیوں اور محلوں میں سائیکل چلا کر پورا کرتے ہیں تاہم گلیوں اور سڑکوں میں تیزی سے دندناتی ہوئی موٹرسائیکلوں سے اکثر اوقات سائیکل چلانے والے بچوں کو چوٹ لگ جاتی ہے دنیا کے سرفہرست شہروں میں شامل اور میگا پولیٹن شہر کراچی میں سائیکلنگ کے لیے کوئی ٹریک یا سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے سائیکلنگ کا شوق کم عمری میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری نے نامور سائیکلسٹ پیدا کیے ہیں لیکن مواقع نہ ملنے، سہولتوں کے فقدان اور سرکاری سطح پر سرپرستی نہ ہونے سے پاکستان عالمی سطح پر سائیکلنگ کے کھیل میں کوئی مقام حاصل نہیں کرسکا سائیکلنگ کے کھیل میں مردوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے اورلڑکیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لیاری گرلز کیفے نامی این جی او نے لیاری میں لڑکیوں کی سائیکل ریس منعقد کیں جس میں لیاری کی بچیوں نے بھرپور اور بڑی تعداد میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ لڑکوں اور مردوں کی طرح بچیوں اور لڑکیوں میں بھی سائیکل کا شوق اور صلاحیت پائی جاتی ہے جس کی سرپرستی کی جائے تو پاکستان سائیکلنگ کے کھیل میں نامور کھلاڑی پیدا کر سکتا ہے۔
تاہم مرکزی بازار گاڑی کھاتہ لائٹ ہاؤس میں قائم ہے جہاں سائیکلوں کی فروخت کی60 سے زائد چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، سائیکل چلانا ایک صحت مند سرگرمی ہے اور ماحول کے لیے بھی سود مند ہے تاہم بڑی عمر کے افراد میں سائیکل چلانے کا رجحان کم و بیش ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے سائیکل بنانے والی کمپنیوں کا کاروبار زوال کا شکار ہے بچوں کی سائیکلیں زیادہ تر چین سے درآمد کی جارہی ہیں دیدہ زیب رنگوں اور ڈیزائن کی حامل اسپورٹس سائیکلوں کی نئی اور قابل دید ورائٹی بازار میں فروخت کی جارہی ہے۔
سائیکلوں کی فروخت سے وابستہ افراد کے مطابق روپے کی قدر کم ہونے سے سائیکلوں کی قیمت میں بھی 500 سے ایک ہزار روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے موسم گرما میں اسکولوں کی تعطیلات سائیکلوں کی فروخت کا سب سے بڑا سیزن ہے جس میں فروخت عام دنوں کی نسبت 10گنا تک بڑھ جاتی ہے لائٹ ہاؤس کے دکاندار محمد حسیب کے مطابق سائیکل کا سائز بچوں کی عمر کے حساب سے مقرر ہے دو پہیوں کی سب سے چھوٹی 12نمبر کی سائیکل 4 سال کے بچوں کے لیے ہوتی ہے جس کی قیمت 3500روپے ہے جس کے بعد 16سے 26نمبر تک کی سائیکلیں ہوتی ہیں 16نمبر کی سائیکل 6سے8سال کے بچے چلاتے ہیں جس کی قیمت 6سے ساڑھے 6 ہزار روپے ہے بڑے سائز کی سائیکلوں کی قیمت 9سے 10ہزار روپے ہے لڑکوں کے علاوہ اب لڑکیوں کے لیے بھی خصوصی رنگ اور ڈیزائن کی سائیکلیں بازار میں دستیاب ہیں۔
سائیکل بازاروں میں 90فیصد چینی ساختہ درآمدی سائیکلیں فروخت کی جارہی ہیں، پاکستان میں چھوٹے بچوں کی تین پہیوں کی سائیکلیں تیار کی جارہی ہیں یا ایک سے دو سال کے بچوں کے لیے پلاسٹک کی چار پہیوں کی گاڑیاں تیار کی جارہی ہیں۔ سائیکل فروخت کرنے والوں کے مطابق لائٹ ہا?س کے مرکزی بازار میں اتوار کے روز سب سے زیادہ گاہک آتے ہیں شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے گاہک بچوں کے لیے نئی سائیکلوں کے ساتھ پرانی سائیکلیں بھی خریدتے ہیں بازار میں سائیکلوں کی مرمت بھی کی جاتی ہے اور سیکڑوں افراد کا روزگار سائیکلوں کی فروخت اور مرمت سے وابستہ ہے۔
بچوں کی ضد پروالدین پرانی سائیکل خرید کر بنوالیتے ہیں،کاریگر
سائیکلوں کی مرمت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی ضد پوری کرنے کے لیے 60سے 70فیصد والدین پرانی سائیکلیں خرید کر انھیں مرمت اور رنگ روغن کراکے کام چلاتے ہیں مہنگائی میں اضافہ اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے صرف 30فیصد طلب نئی سائیکلوں سے پوری کی جاتی ہے سائیکلوں کی مرمت کی دکانوں پر بھی ہفتہ اتوار کو گاہکوں کا زیادہ رش رہتا ہے تاہم رہائشی علاقوں کی مستقل دکانوں پر موسم گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کا رش لگا رہتا ہے، لائٹ ہاؤس گاڑی کھاتہ میں سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کاریگر سائیکلوں میں پرانے پرزے بھی لگاتے ہیں زیادہ تر سائیکلوں میں چین گراری، ہینڈل اور سیٹ کی مرمت کا کام کرایا جاتا ہے چھوٹے بچوں کی سائیکلوں میں اضافی چھوٹے پہیے لگوائے جاتے ہیں سائیکلوں کی مرمت کرنے والوں کے پاس پرانی سائیکلیں بھی فروخت کے لیے موجود رہتی ہیں جو گاہک کی قوت خرید کے مطابق فروخت کی جاتی ہیں۔
ہفتہ وار بازاروں میں پرانی سائیکلیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں
شہر کے مختلف علاقوں میں پرانی سائیکلوں کی فروخت کے ہفتہ وار بازار لگائے جاتے ہیں جس میں پرانی سائیکلوں کی خریدوفروخت کی جاتی ہے، زیادہ تر بچے اپنی پرانی سائیکلوں پر رنگ روغن کرکے اسے فروخت کرنے کے بعد اس سے زیادہ بہتر حالت کی سائیکل خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، پرانی سائیکلوںکا اتوار بازار کراچی کے علاقے لیاقت آباد 10 نمبر پر بھی لگایا جاتا ہے جہاں مختلف علاقوں سے بچے اور نوجوان اپنی سائیکلیں فروخت کرنے آتے ہیں اسی بازار سے والدین اپنے بچوں کے لیے اچھی حالت کی سائیکلیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں بازار لب سڑک لگنے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے اور اکثر پولیس سائیکل فروخت کرنے والے بچوں کو روڈ سے ہٹانے کے لیے سختی کرتی ہے پرانی سائیکلوں کے بازار میں عموماً 2 سے 3 سال چلی ہوئی سائیکل 50 فیصد تک کم قیمت پر مل جاتی ہے زیادہ پرانی سائیکلیں ہزار سے 1500 روپے میں مل جاتی ہیں ان ہفتہ وار بازاروں میں پرانی اشیا فروخت کرنے والے بھی سائیکلیں فروخت کے لیے لاتے ہیں کئی سال سے لگنے والے اس بازار میں اتوار کے روز 200کے لگ بھگ سائیکلیں فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں۔
گرمیوںکی تعطیلات میں سائیکل کے کاریگروں کاروزگاربڑھ گیا
لائٹ ہاؤس بازار میں سائیکلوں کی فٹنگ کرنے والے کاریگر امجد نے بتایا کہ گرمیوں کی تعطیلات میں یومیہ اجرت پانے والے کاریگروں کا روزگار بھی بڑھ گیا ہے، ایک سائیکل کی فٹنگ کی اجرت 150سے 200 روپے وصول کی جاتی ہے ایک دن میں اوسطاً ہر کاریگر کو 5 سے 6 سائیکلوں کا کام مل جاتا ہے جس سے گزربسر ہوجاتی ہے انھوں نے بتایا کہ سائیکلوں کی فٹنگ محنت طلب کام ہے اجرت محنت کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن روزگار لگا ہوا ہے، سائیکلوں کی فٹنگ کرنے والے درجنوں افراد فٹ پاتھ اور سڑک پر اپنے اوزاروں کے ساتھ مارکیٹ کھلنے سے قبل ہی پہنچ جاتے ہیں اور دن ڈھلے تک مسلسل کام کرتے رہتے ہیں۔ نئی سائیکلوں کی فٹنگ میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے چھوٹی سائیکلوں کی فٹنگ 15سے 20 منٹ میں ہوجاتی ہے نئی سائیکل خریدنے والے اکثر اضافی سامان بھی لگواتے ہیں جس میں زیادہ تر سجاوٹ کا سامان شامل ہے فٹنگ کے کاریگروں کے مطابق عام دنوں میں سائیکلوں کی فروخت محدود ہوتی ہے اکا دکا گاہک آتے ہیں لیکن اسکولوں کی گرمیوں کی تعطیلات شروع ہوتے ہی سائیکلوں کی فروخت بڑھ جاتی ہے جس سے فٹنگ کا کام کرنے والوں کا روزگار بھی بڑھ جاتا ہے۔
سائیکلنگ صحت مند طرز زندگی پانےکا بہترین ذریعہ ہے،ماہرین طب
طبی ماہرین کے مطابق سائیکلنگ صحت مند طرز زندگی کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے جن میں امراض قلب اور فشار خون، ذیابیطس، جوڑوں کی بیماریاں، موٹا پا اور مخصوص اقسام کے کینسر شامل ہیں، سائیکل چلانے سے انسانی مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور افسردگی، پریشانی، گھبراہٹ سمیت مختلف ذہنی امراض سے بچا جاسکتا ہے، ماہرین کے مطابق باقاعدگی سے سائیکل چلانے والوں کے جسم میں فالتو مادوں کی سطح کم رہتی ہے سائیکل چلانے والوں کی ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں، جسم میں چکنائی کی مقدار کنٹرول میں رہتی ہے، برطانوی محققین کے مطابق ایک دن میں نصف گھنٹہ سائیکل چلانے والوں کے جسم سے سال میں 5 کلو گرام چکنائی کم ہوتی ہے، چڑھائی کی جانب سائیکل چلانے سے ایک گھنٹے میں 300 کیلوریز برن (خرچ) ہوتی ہیں۔
میگا پولیٹن سٹی کراچی میں کوئی سائیکلنگ ٹریک نہیں
شہر میں پارکوں اور میدانوں کی شدید کمی اور سڑکوںپر تجاوزات کی وجہ سے بچے اور نوجوان سائیکلنگ کا شوق گلیوں اور محلوں میں سائیکل چلا کر پورا کرتے ہیں تاہم گلیوں اور سڑکوں میں تیزی سے دندناتی ہوئی موٹرسائیکلوں سے اکثر اوقات سائیکل چلانے والے بچوں کو چوٹ لگ جاتی ہے دنیا کے سرفہرست شہروں میں شامل اور میگا پولیٹن شہر کراچی میں سائیکلنگ کے لیے کوئی ٹریک یا سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے سائیکلنگ کا شوق کم عمری میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری نے نامور سائیکلسٹ پیدا کیے ہیں لیکن مواقع نہ ملنے، سہولتوں کے فقدان اور سرکاری سطح پر سرپرستی نہ ہونے سے پاکستان عالمی سطح پر سائیکلنگ کے کھیل میں کوئی مقام حاصل نہیں کرسکا سائیکلنگ کے کھیل میں مردوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے اورلڑکیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لیاری گرلز کیفے نامی این جی او نے لیاری میں لڑکیوں کی سائیکل ریس منعقد کیں جس میں لیاری کی بچیوں نے بھرپور اور بڑی تعداد میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ لڑکوں اور مردوں کی طرح بچیوں اور لڑکیوں میں بھی سائیکل کا شوق اور صلاحیت پائی جاتی ہے جس کی سرپرستی کی جائے تو پاکستان سائیکلنگ کے کھیل میں نامور کھلاڑی پیدا کر سکتا ہے۔