لیاری کے دکھ کون شیئر کرے
مجموعی طور پر لیاری میں سرکاری اسکولوں کی حالت حوصلہ افزا نہیں ہے
تجاوزات کے حوالے سے لیاری بہت زیادہ مشکل کیفیت میں ہے، ایک ایک گھر یا دکانیں، تجاوزات کی صورت میں موجود ہیں، اگر متعلقہ محکمے ان کو توڑتے ہیں تو بہت سارے لوگ بے گھر و بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس گمبھیر مسئلے کے حل کے لیے تجویز ہے کہ لیاری ایکسپریس وے اور لیاری ندی کی طرز پر بڑا آپریشن ہو۔ متاثرین کو متبادل پلاٹ اور تعمیر کے لیے نقد رقم کا بندوبست بھی ضروری ہے۔ اگر یہ کام ہوا تو لیاری کا نقشہ بالکل ہی تبدیل ہوجائے گا، جس کے بعد ایک کشادہ اور ترقی یافتہ لیاری سامنے آئے گا۔
لیاری میں بہت بڑے رقبے پر بلدیاتی پلاٹ ہیں، جن پر کارخانے یا گودام قائم ہیں، چونکہ اب لیاری انڈسٹریل علاقہ نہیں رہا اور پلاٹوں کی لیز بھی کافی عرصے سے ختم ہوچکی ہے، لہٰذا حکومت سندھ ان پلاٹوں کو فوری طور پر واگزار کروا کے ان پر لیاری کے غریب محنت کش عوام کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبے یعنی اسکول، کالج، پلے گراؤنڈ اور اسپتال وغیرہ بنائے۔ صحت عامہ کے حوالے سے کچرے اور گندگی جیسے مسائل کراچی کے دیگر علاقوں کی طرح لیاری میں بھی گمبھیر صورت اختیار کرچکے ہیں، لیکن ان دشواریوں کو بھی دیکھنا ہوگا جو متعلقہ محکمے کو درپیش ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ اور شہری آداب سے ناواقفیت کی وجہ سے صفائی کرنے کے باجود ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے۔ سیکڑوں ٹن کچرا روزانہ جمع ہوجاتا ہے۔
گزشتہ سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، جو کہ سندھ حکومت کا ایک ادارہ ہے، اس کے ذریعے ایک مشہور چینی کمپنی سے ضلع جنوبی میں صفائی کرنے کے سلسلے میں چند شرائط کی بنیاد پر معاہدہ کیا۔ لیاری بھی ضلع جنوبی میں واقع ہے۔ طے شدہ مقدار کے مطابق روزانہ کچرا علاقوں سے اٹھانا کمپنی کی ذمے داری ہے۔ ضلع جنوبی میں یومیہ ایک ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے اور جگہ جگہ 3420 عدد ڈسٹ بن رکھے گئے ہیں، تاکہ لوگ سڑک اور گلیوں میں کچرا پھینکنے کے بجائے کچرا ڈسٹ بن میں ڈالیں، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ ایسا نہیں کرتے، ڈسٹ بن خالی ہوتے ہیں اور کچرا باہر پھینک دیا جاتا ہے، جو افسوس ناک صورت حال ہے، اس کے لیے لوگوں میں شعور و آگہی فراہم کرنا لازمی ہے۔
لیاری بھر میں سرکاری و نجی اسپتال اور کلینک موجود ہیں، لیکن عوام کو شکایت ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ٹھیک طرح سے علاج نہیں کیا جاتا اور غیر معیاری ادویات انھیں فراہم کی جاتی ہیں، جب کہ نجی اسپتالوں اور کلینک کی فیسیں اور ان کی تجویز کردہ ادویات غریبوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ ان حالات میں ان کا بیمار ہونا کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ علاوہ ازیں لیاری میں سیکڑوں کی تعداد میں اتائی ڈاکٹرز بھی پائے جاتے ہیں، جو دونوں ہاتھوں سے عوام سے روپے بٹور کر انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیاری بھر میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے اور ساتھ ہی بڑے بڑے چوہے بھی سرعام پھرتے نظر آتے ہیں جو کہ خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ یہ خطرناک صورت حال فوری توجہ اور سدباب کی متقاضی ہے۔
مجموعی طور پر لیاری میں سرکاری اسکولوں کی حالت حوصلہ افزا نہیں ہے، علم زبوں حال ہے اور سندھ حکومت کی مہربانی سے اب تک 20 کے قریب سرکاری اسکولوں کو نجی طویل میں دے چکی ہے، جو معیار کے نام پر غریبوں سے تعلیم دور کرنے پر گامزن ہیں اور غریب اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کرنے سے قاصر ہیں۔
دوسرے معنوں میں یہ کہنا بجا ہے کہ لیاری میں تعلیم کو غریبوں کے بچوں سے دور کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضلع جنوبی کے دیگر علاقوں کی نسبت لیاری زون میں سب سے زیادہ 27 لائبریریاں قائم تھیں، اب ان کی تعداد 7 رہ گئی ہے، جن کی حالت افسوس ناک ہے۔ لیاری بھر میں ایک بھی تفریح گاہ موجود نہیں ہے، بچوں کے جو چھوٹے پارک ہیں، وہ عدم توجہی کا شکار ہیں، البتہ کھیل کے میدان یا گراؤنڈ آباد ہیں، جہاں بڑے اور بچے فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ تمام تر منصوبوں کے باجود لیاری کے رہائشی علاقوں میں قائم بس اور گڈز ٹرانسپورٹ کے اڈے مکینوں کے لیے پریشانیوں کا باعث ہیں۔ لیاری بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے، لیاری کے مکینوں کو شہر کے وسط تک جانے کے لیے دوسے تین گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں۔
لیاری میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیرات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، جب کہ لیاری میں دو منزلہ سے زائد عمارت کی تعمیر پر پابندی ہے، جس وجہ سے نت نئے بنیادی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ لیاری میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے کوئی کام نظر نہیں آتا۔ لیاری میں سینے، پھیپھڑوں، دماغ، دل اور خون کے امراض غیر معمولی طور پر بڑھ رہے ہیں، جس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ بات افسوس کی ہے مگر حقیقت ہے کہ لیاری کے نوجوانوں کو سرکاری سطح پر ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا ہے جہاں نوجوان اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروے کار لاسکیں۔ لیاری کے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
گزشتہ دس سال کے دوران لیاری میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں، لیاری کے نوجوان ڈگریاں حاصل کرکے بھی بے روزگار ہیں، شہر میں ان کے لیے نجی ملازمتوں پر غیر اعلانیہ پابندی اس لیے لگا دی گئی ہے کہ ان کا تعلق لیاری سے ہے اور لیاری کے ماتھے پر گینگ وار کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہے۔ لیاری میں غربت کی انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچ مائیں، بہنیں اور بہو، بیٹیاں کراچی کے بنگلوں میں ''ماسی'' بنی ہوئی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو صبح سویرے اٹھ کر دیکھ لو، لیاری کے ہر بس اسٹاپ اور چنگ چی اسٹاپ پر یہ محنت کش خواتین اپنے روزگار پر جاتی نظر آئیں گی۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بعض بلوچ عمر رسیدہ خواتین مارکیٹوں اور بازاروں میں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں جو کہ بلوچ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا ہے، بلکہ پس منظر میں ایک منظم سازش کارفرما نظرآتی ہے جو لیاری والوں پر مسلط کردہ لیاری گینگ وارکا شاخسانہ ہے، جس کا نتیجہ آج لیاری کے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور حقارت کی نگاہ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ آج بھی لیاری کے لوگوں کے در و دیوار، مساجد اور اسکول کی عمارتیں آزادانہ فائرنگ سے چھلنی ہیں، جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ لیاری کے مکینوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک کو ششیں کی گئیں۔ نہ جانے کتنے بے گناہ انسان مار دیے گئے جن میں جوان بھی تھے، بوڑھے بھی تھے، خواتین بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔
ان کی داستانیں میڈیا کی زینت بن کر لیاری کی سیاہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیاری میں امن پاک سپاہیوں کا مرہون منت ہے، ورنہ یہاں انسانیت اور سیاست دفن ہوچکی تھی۔ اس تکلیف دہ صورت حال نے لیاری کے نوجوانوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، حالات میں سدھار آگیا تو لیاری کے نوجوان لیاری کی کھوئی ہوئی پہچان کی بحالی میں جت گئے۔ یہ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت اپنی خداداد صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ لیاری کے طلبا و طالبات کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، اسی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی میں لیاری کے نوجوان ایک مثبت مثال قائم کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لیاری کے باصلاحیت نوجوان اپنی منزل پالیںگے ۔