نواز شریف کا سیاسی وارث شہباز شریف
میں سمجھتا ہوں کہ اگلے آٹھ دن شہباز شریف کی سیاسی زندگی کے اہم ترین دن ہیں
نواز شریف کی سیاسی وراثت کے حوالے سے بحث کافی گرم ہے۔ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ نواز شریف کی سیاسی وارث ان کی بیٹی مریم نواز ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی یہ بات درست نہیں ہے۔ آج تا دم تحریر اور 2018کے انتخابات میں نواز شریف کے سیاسی وارث شہباز شریف ہیں۔ کل کیا ہو کس کو پتہ ہے۔ سیاسی وراثت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہو۔ یہ عوامی رائے کے بھی تابع رہتی ہے۔
اعتزاز احسن بہت تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف میں بہت اختلافات ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف نے نواز شریف سے غداری کر دی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ پیپلزپارٹی میں تحریک انصاف کی آواز ہیں جیسے رضا ربانی کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی میں ن لیگ کی آواز ہیں۔ اس لیے ان کی بات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس ضمن میں ان کی اور بلاول کی سوچ میں فرق واضح ہے۔ بہر حال پھر بھی نوازشریف اور شہباز شریف کے تعلقات کے حوالے سے ایک بحث موجود ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ نواز شریف اپنی سیاسی وراثت کبھی شہباز شریف کو نہیں دیں گے بلکہ یہ تک کہا جاتا تھا کہ وہ کسی غیر کو دے دیں گے لیکن شہباز کو نہیں دیں گے۔ مریم نواز کے حوالے سے بھی رائے موجود تھی کہ اصل وارث وہ ہیں۔
اس لیے جب مریم نواز اور شہباز شریف میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی باری آئے گی تب شہباز کا پتہ صاف ہو جائے گا۔ نواز شریف شہباز کو کچھ نہیں دیں گے ۔ بس شہباز کی سیاست ختم۔ یہ سب کچھ سیاست کے ایوانوں میں ہی نہیں ہر جگہ زیر بحث رہا ہے۔ اس کی شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف نے جہاں نواز شریف کے ساتھ وفاداری کی ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنی سیاسی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ ایک سیاسی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کھل کر اختلاف بھی کرتے رہے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھیں تو زبان زد عام ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کی محاذ آرائی کی پالیسی کے خلاف تھے۔ شہباز شریف افہام و تفہیم سے معاملات کو چلانے کے حق میں تھے۔ اس قدر خراب حالات میں بھی شہباز شریف یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی خلائی مخلوق کو نہیں جانتے۔ اس لیے دونوں بھائیوں کی سوچ میں ایک واضح فرق نظر آتا رہاہے۔
یہ فرق آج نہیں ہے، 1999میں بھی موجود تھا۔ اس کے بعد بھی رہا ہے۔ شہباز شریف نے ہمیشہ اپنی سیاسی رائے کا اظہار بھی کیا ہے اور پارٹی ڈسپلن کی مکمل پاسداری بھی کی ہے۔ آج نواز شریف ایک لمبی لڑائی لڑنے کے لیے جیل چلے گئے ہیں۔ وہ نا اہل ہو گئے ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نواز بھی جیل چلی گئی ہیں۔ وہ بھی نا اہل ہو گئی ہیں۔ مستقبل قریب میں دونوں کا پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن نواز شریف جیل جانے سے پہلے اپنی سیاسی وراثت شہباز شریف کو دے گئے ہیں۔ وہ پارٹی کی صدارت بھی شہباز شریف کو دے گئے ہیں۔ اگلا وزیر اعظم بھی شہباز شریف کو نامزد کر گئے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں اب ابہام ختم ہو جانا چاہیے۔ آج شہباز شریف ہی نواز شریف کے مکمل سیاسی وراث ہیں۔ کل کیا ہو کس کو پتہ ہے۔ سیاست میں ایک حد سے آگے کی پیش گوئی کوئی نہیں کر سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ جنہوں نے نواز شریف کو مائنس کیا ہے۔ کیا وہ پوی مسلم لیگ (ن) کو مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ شہباز شریف کو بھی مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا ایسی کوئی صورتحال ہے۔ ویسے تو نواز شریف کو بھی سیاسی طور پر مائنس کرنے کی تمام کوششیں نا کام ہو گئی ہیں۔
آج شہباز شریف ن لیگ میں مکمل کمان میں ہیں۔ جو لوگ ان کے اختیار کے حوالے سے ابہام اور شکوک و شبہات کا شکار تھے شائد اب دور ہو گئے ہیں۔ ان کی کمان روز بروز مضبوط ہو رہی ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ وہ فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ آپ نواز شریف کی واپسی کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ انھوں نے نواز شریف کی واپسی پر ان کا استقبال بھی کیا ہے۔ لیکن اداروں سے محاذ آرائی بھی نہیں کی ۔ وہ ن لیگ کی کشتی کو اس امتحان سے بھی نکال کر لے گئے ہیں۔ ورنہ ن لیگ کے اندر ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ استقبال کے موقع پر محاذ آرائی ن لیگ کی سا ری انتخابی مہم کو سبو تاژ کر دے گی۔ دوسری نواز شریف کی واپسی پر خاموشی بھی ممکن نہیں تھی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف کھائی اور دوسری طرف کنوئیں والی بات تھی۔ لیکن شہباز شریف اس امتحان میں سے نکل گئے ہیں۔ واپسی پر استقبال بھی ہوا ہے اور محاذ آرائی بھی نہیں ہوئی بلکہ حالات چوبیس گھنٹے میں ہی نارمل ہو گئے ہیں۔ جو ہوا وہ بھی نگران حکومت کی نالائقی تھی۔
نواز شریف کے جیل جانے کے اگلے دن مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت شہباز شریف کی سربراہی میں اجلاس میں شریک تھی۔ کیونکہ اب سارے اجلاس شہباز شریف کی صدارت میں ہی ہونے ہیں۔ جاتی عمرہ اور لندن میں ہونے والے اجلاس ختم ہو گئے ہیں۔ اس لیے شائد مسلم لیگ کی قیادت کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ اب شہباز شریف مکمل طور پر ڈارئیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔ اس ضمن میں تمام ابہام ختم ہو گئے ہیں۔ یہ ڈارئیونگ سیٹ شہباز نے کسی سازش سے نہیں لی ہے بلکہ نواز شریف اپنی خواہش اور چاہت سے دے کر گئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگلے آٹھ دن شہباز شریف کی سیاسی زندگی کے اہم ترین دن ہیں۔ اگر وہ ن لیگ کی کشتی کو انتخابات میں پار کرا لیتے ہیں تو ن لیگ میں ان کی کمان مضبوط ہو جائے گی۔ ان کی سیاسی وراثت پکی ہو جائے گی۔ لیکن اگر حالیہ انتخابات میں ن لیگ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو شہباز شریف کی کمان اور سیاسی وراثت دونوں پر ہی سوالیہ نشان پیدا ہو جائیں گے۔یہ شہباز شریف کی سیاسی سمجھداری ہے کہ انھوں نے نواز شریف سے محاذ آرائی کی پالیسی سے اختلاف بھی کیاہے لیکن انھوں نے چوہدری نثار علی خان کی طرح حد بھی پار نہیں کی۔ ایک حد کے اندر رہ کر اختلاف ہی شہباز شریف کی خوبصورتی رہی۔ یہی سیاست کا حسن بھی ہے۔
اگلے آٹھ دنوں میں یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ اسٹبلشمنٹ ن لیگ کی راہ کی رکاوٹ ہے۔ اس سے شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوںگی۔ بلکہ انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالیہ نشانات بھی ختم ہوںگے۔قومی اداروں کے حوالے سے سیاسی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔ پوری ن لیگ کو مائنس کرنے سے انتخابات کی نہ صرف شفافیت ختم ہو جائے گی بلکہ ایسا لگے گا سب کچھ ایک ڈیزائن کے تحت کیا گیا ہے۔ کوئی نہیں مانے گا بلکہ قومی ادارے سیاسی تنازعات اور سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہو جائیں گے۔ اگلے آٹھ دنوں میں ایک تبدیلی نظر آنی چاہیے۔ جس سے انتخابی ماحول پر مثبت اثر پڑے گا۔ ورنہ انتخابات کے بعد حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ایسا کرنے سے شہباز شریف کو بھی دیوار سے لگا دیا جائے گا۔ اور شائد شہباز کے پاس بھی محاذ آرائی کے سوا کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ ایسے وقت سے بچنا ہی سمجھداری ہوگا۔