سندھ کی بدلتی سیاست

2018 کے الیکشن میں اب پیپلز پارٹی کے ہاتھ کھلے ہیں اور آصف زرداری نے کسی انتخابی جلسے سے خطاب نہیں کیا


Muhammad Saeed Arain July 17, 2018

سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف بنائے گئے سیاسی انتخابی اتحاد جی ڈی اے کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری ''کٹھ پتلی اتحاد'' قرار دے کر کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف ایسے اتحاد ماضی میں بھی بنے اور ناکام رہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ درست ہے کہ 2013 میں بھی سندھ میں پیر پگاڑا کی سربراہی میں اتحاد بنا تھا جو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکا تھا جس میں مسلم لیگ(ن) کے علاوہ سندھ کے قوم پرست رہنما بھی شامل تھے مگر وہ اتحاد مخصوص علاقوں میں ہی کچھ نشستیں لے سکا تھا اور اندرون سندھ مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تھی جس نے بعد میں مزید پانچ سال حکومت کی اوراس طرح پچھلے پانچ سال ملا کر دس سال تک سندھ پر حکومت کی۔

2008 سے 2013 تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور گزشتہ الیکشن کے وقت آصف علی زرداری صدر مملکت تھے اور پیپلز پارٹی کے بقول دہشت گردی کی وجہ سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ کھل کر ملک میں انتخابی مہم نہ چلا سکی تھی۔

2018 کے الیکشن میں اب پیپلز پارٹی کے ہاتھ کھلے ہیں اور آصف زرداری نے کسی انتخابی جلسے سے خطاب نہیں کیا اور بلاول زرداری نے لیاری سے جب اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو ان کی ریلی کو علاقے لوگوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تو پی پی کے رہنماؤں نے اسے پچیس تیس افراد کا احتجاج قرار دیا مگر ایف آئی آر میں تین سو سے زائد ملزمان نامزد کیے۔ بلاول زرداری سندھ کے بعد جنوبی پنجاب میں انتخابی مہم چلا کر لاہور چلے گئے مگر ان کے والد اور پی پی کی سب سے قدآور شخصیت اور کو چیئرمین آصف زرداری کسی جلسے میں شریک نظر نہیں آئے۔

سابق صدر نے شاید اپنی سیاسی ساکھ اور کسی مصلحت کے تحت بلاول زرداری کو آگے کیا ہوا ہے جو کوئی عوامی شخصیت نہیں ہیں اور تربیت یافتہ مسلح اپنے محافظوں کے نرغے میں رہ کر اب تک خود تقریر کرنے کے قابل نہیں ہوئے اور لکھی ہوئی تقریر میں کبھی کبھی اپنے نانا کا انداز اپنا کر کام چلا رہے ہیں۔ ان کی خوبی صرف محترمہ شہید کا بیٹا ہونا ہے جو کافی نہیں وہ اپنے نانا کی طرح عوامی سیاستدان بن سکے ہیں نہ کرشماتی شخصیت ہیں کہ عوام کو متاثر کرسکیں۔

سندھ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو انتخابی مہم میں عوام کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی ابتدا خورشید شاہ ، سید نوید قمر جیسے بڑے رہنماؤں سے ہوئی اور بڑھتی چلی گئی اور پی پی امیدواروں سے پوچھا جا رہا ہے کہ پی پی حکومت نے دس سالوں میں عوام کوکیا دیا کیونکہ کراچی سے کشمور تک پی پی کے امیدواروں کو بتایا جا رہا ہے کہ انھیں پینے کا پانی میسر نہیں ، ان کے علاقے سڑکوں، راستوں اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سندھ میں دس سالوں میں لگائے گئے کھربوں روپے کہاں گئے، پی پی رہنماؤں کے پاس ان سوالوں کا اطمینان بخش جواب نہیں ہے اس لیے وہ ایسے موقعے پر عوام میں موجود لوگوں کو ویڈیو اور تصویریں بنانے اور ویڈیو کو وائرل کرنے سے منع کرتے ہیں اور لوگوں سے موبائل بھی چھین لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج تحکمانہ انداز میں لوگوں کو دھمکاتے نظر آتے ہیں اور فریال تالپور کی وہ دھمکی آمیز تقریر سوشل میڈیا دکھا رہا ہے جس میں محترمہ نے ووٹ نہ دینے کے ردعمل کی دھمکی دی تھی اور وڈیرہ انداز میں غریبوں کو ڈرایا تھا۔

یہ پہلا موقعہ ہے کہ سندھ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سربراہ بھی کراچی سے انتخاب لڑ رہے ہیں جب کہ بلاول زرداری پہلی بار اپنے گڑھ لیاری اور لاڑکانہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں جب کہ آصف زرداری اپنے آبائی علاقے سے میدان میں ہیں اور یہ تینوں حلقوں سے جیت سکتے ہیں جب کہ شہباز شریف کی کامیابی کا واضح امکان جب کہ عمران خان کی گلشن اقبال سے شکست یقینی ہے۔

پیپلز پارٹی نے دس سالوں میں کراچی کو اہمیت نہیں دی جس کے رہنماؤں نے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھا مگر اندرون سندھ کو کچھ اہمیت دی۔ نواز شریف نے جان بوجھ کر سندھ پیپلز پارٹی کے حوالے کیے رکھا اور مسلم لیگ(ن) کا سندھ سے صفایا کرادیا۔ اندرون سندھ آباد پنجابی مسلم لیگ کے ووٹر تھے جو نواز شریف کی غلط پالیسی سے نالاں ہوکر اب مجبوری میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ موجودہ پیر پگاڑا میں اپنے والد جیسی سیاسی صلاحیت نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) سندھ میں کمزور ہوئی اور اس کے متعدد رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں جب کہ سندھ کے بعض علاقوں میں جے یو آئی بھی سیاسی طاقت رکھتی ہے مگر کراچی کے سوا شاید کہیں سے نشستیں نہ نکال سکے۔

پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما ناراض ہوکر آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں اور انھیں جی ڈی اے کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے بعض حلقوں میں پی پی اور جی ڈی اے میں مقابلہ سخت ہے اور جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار نہیں ہیں وہاں جی ڈی اے اور جی ڈی اے تحریک انصاف کے ساتھ تعاون پر مجبور ہیں۔ جے یو آئی اندرون سندھ جی ڈی اے کا ساتھ دے سکتی ہے۔ کراچی سے پی پی کو تین چار نشستیں مل جائیں مگر کراچی میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور ہے اور متحدہ بھی اپنی بعض نشستوں سے محروم ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں