’’مشینی گلوکار‘‘ روح کی غذا کو روح کی سزا بنانے پر تُلے ہیں

موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے


Qaiser Iftikhar July 17, 2018
فوٹو : فائل

ہم اس خطے میں موسیقی کے ماضی کی بات کریں تووہ انتہائی شانداراورجانداررہا ہے۔ پاکستان ہویا بھارت ، ان گنت عظیم گلوکارموجود تھے، جو گیت، غزل، ٹھمری، فوک، صوفی اورقوالی کے ساتھ ساتھ پاپ میوزک میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔

اس کی بڑی وجہ ان کی ریاضت اوراس فن سے عشق تھا۔ مگر اب توصورتحال میں تبدیلی آچکی ہے۔ جب سے جدید ٹیکنالوجی نے اس شعبے میں قدم رکھا ہے، تب سے میوزک کی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ سامنے آچکے ہیں جن کو '' مشینی گلوکار'' کہیں توغلط نہ ہوگا۔ ایک طرف توان کی اکثریت نے موسیقی کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوئی لیکن ان کی دولت نے ان کی اس سب سے بڑی کمی کوایسا پورا کیا ہوا ہے کہ اب ہرجگہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔

حالانکہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اوردیگرذرائع سے ہمیشہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، محمد رفیع، ملکہ ترنم نورجہاں، لتامنگیشکر، فریدہ خانم، کشور کمار، استاد نصرت فتح علی خاں، آشا بھوسلے اوردیگرکے گیت سننے کوترجیح دی جاتی تھی، لیکن اب توٹی وی دیکھ لیں یا ریڈیوسنیں آپ کوایسے عجیب وغریب انداز کے سنگرسننے اوردیکھنے کوملیں گے کہ ان کی آواز اوراندازہمیں یہ سوچنے پرضرور مجبورکردیتا ہے کہ واقعی '' موسیقی کی روح کی غذا ہے یا روح کی سزا؟ ''

بلاشبہ موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روح کی غذا نہیں رہی بلکہ ایک وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پہلے ممی ڈیڈی گلوکاروں نے پاپ میوزک کی جگہ ریپ کومتعارف کروایا اوراب اس کوبھی اپنی ذہانت سے کچھ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میوزک کوکون سا نیا نام دیا جائے ؟ کیونکہ عظیم گائیکوں کی گائی ہوئی مقبول غزلوں، گیتوں کوبے سرے اوربے تالے گلوکاروں نے اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے۔ جس کا جودل چاہتا ہے وہ اس کوصرف گانے ہی نہیں لگتا بلکہ اس کوریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی چھت، کمرے یا گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے موبائل سے ویڈیو بنا کریوٹیوب اوردیگرسوشل ویب سائٹس پر'اپ لوڈ' کردیتا ہے۔

یہ سلسلہ نیا نہیں اب پرانا ہوچکا ہے لیکن اس میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہونے لگا ہے۔ ان کی گائیکی سن کریوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے موسیقی کے 7سُروں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اوراب کچھ نئے سُروں کے ساتھ دھرنے پربیٹھ کر بس روح کو'' بھوکا'' رکھنے کا راگ آلاپ رہے ہوں۔ یہ لوگ تواتنی زحمت بھی نہیں کرتے کہ کسی سے پوچھ لیں یا اس کو سیکھ لیں۔ حالانکہ ایک دور تھا جب آڈیو ریکارڈنگ سٹوڈیوز میں ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن، غلام علی، عابدہ پروین، استاد نصرت فتح علی خاں، غلام علی، فریدہ خانم، ریشماں، عالمگیر، نازیہ حسن، اے نیئر، بدر میانداد خاں، محمد علی شیکی، عارف لوہار، شوکت علی، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، مہناز اور سجاد علی جیسے باصلاحیت گائیک اپنے گیت تیار کرتے تھے۔

سازندوں سے سجے سٹوڈیوز میں جونہی میوزک بجنے لگتا تو ہر کوئی ان گیتوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے رکا رہتا۔ بس یوں کہئے کہ یہ وہ دورتھا جب پاکستانی میوزک اپنے عروج پرتھا۔ اس کے بعد کچھ پاپ میوزک کادورآیا تو بہت سے پڑھے لکھے نوجوان گلوکاروں نے اس شعبے میں قدم رکھا ، ان میں جواداحمد ، ابرارالحق، جنید جمشید، علی عظمت، حدیقہ کیانی، شفقت امانت علی خاں، جاوید بشیر، عاطف اسلم، علی ظفر، وارث بیگ، شازیہ منظور، حمیراارشد اورصنم ماروی سمیت دیگرنے بھی اس شعبے کوخوب آگے بڑھایا اورآج بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد دنیا بھرمیں موجودہیں۔ یہ تمام گلوکارجونہی سٹوڈیو کارخ کرتے تو ان کی اس شعبے سے محبت اورادب وآداب صاف دکھائی دیتا تھا۔

اس کے ساتھ معروف موسیقار، سازندے ، شاعر اوراس شعبے کے مستند اساتذہ ریکارڈنگ سٹوڈیوز میں دکھائی دیتے لیکن اب توایک عرصہ ہوا ہے کہ ایسی محفلیں ناجانے کہاں سجتی ہوں گی کیونکہ جہاں ملک بھرمیں آڈیو ریکارڈنگ سٹوڈیوز ویران ہوچکے ہیں، وہیں پیسے کے بل پربہت سے گلوکاروں نے اپنے گھروں میں ہی ریکارڈنگ سٹوڈیو قائم کرلئے ہیں جہاں تک بات سازندوں کی ہے تو ایک 'کی بورڈ' کی بدولت سازندوں کی بھی چھٹی کردی گئی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ موسیقی جیسے شعبے کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا، اس بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ تھا مگراب توحالات کچھ ایسے ہوتے جارہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی بے سرے اوربے تالے گلوکارچھائے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ وہ المیہ ہے جس کی بدولت پاکستان میں موسیقی کا شعبہ شدید بحران میں جاتا دکھائی دیتا ہے۔

موسیقی کے شعبے کی اس صورتحال پرسنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں موسیقی کا شعبہ شدید بحران سے دوچارہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کے مشکل ترین شعبے کولوگوں نے بے حد آسان سمجھ لیا ہے۔ اب جس کا دل چاہتا ہے وہ راتوں رات '' گلوکاری'' کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ ایک دور تھا جب پاکستان میں 18فلم سٹوڈیو ہوا کرتے تھے، جہاں پردن رات عظیم گلوکار، موسیقار، شاعر، فلمساز، ہدایتکار، فنکار اور سازندے کام کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ایک گیت کو سچے سُروں سے سجانے کیلئے باقاعدہ ریہرسلز کی جاتی تھیں لیکن اب توایک رات میں البم ریکارڈ کرلیا جاتا ہے۔ یہ سب ''کمال'' جدید ٹیکنالوجی کا ہے۔

یہ تو اچھی بات ہے کہ اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوئی ہے لیکن اس کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں، جن کا اس شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ 20برس سے کوئی بڑا شاعر، موسیقار، گلوکارسامنے نہیں آیا۔ نغمہ نگارخواجہ پرویز، ریاض الرحمان ساغر، حزئیں قادری کے بعد کوئی نغمہ نگارایسا نہیں جس کے کام کو سراہا جائے، موسیقار ایم اشرف اوروجاہت عطرے کے بعد کوئی مستند موسیقار سامنے نہیں آیا، پلے بیک سنگنگ کے شعبے میں گلوکارہ حمیراچنا، سائرہ نسیم اورشازیہ منظورکے بعد کوئی نئی آواز سنائی نہیں دی۔

اسی طرح فلمی ہیروئنوں میں اداکارہ ریما، صائمہ، میرا اورریشم کے بعد کوئی ایسی اداکارہ نہیں ہے، جس کوہیروئن کا مقام ملا ہو۔ اس کے علاوہ اگرفوک گائیکی پر نظر ڈالیں تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے بعد کوئی نیا فوک سنگر سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کہہ لیں یا اس شعبے سے وابستہ لوگوںکی عدم توجہ۔ آج یہ شعبے ان لوگوںکے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے، جن کواس کی ''الف ب '' کا پتہ نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے موسیقی سے عشق نہیں کیا اورنہ ہی یہ شعبہ ان کی آمدن کا ذریعہ ہے۔ یہ توشوقیہ لوگ ہیں، جن کوان کے قریبی دوستوں اوررشتے داروں نے گیت ریکارڈ کرنے کا مشورہ دیا اوروہ خو دکو''گلوکار'' سمجھ بیٹھے۔ ہمیں توآج کے دورمیں موسیقی کا کام مذاق سالگتا ہے کیونکہ ہمارا مقابلہ پڑوسی ملک بھارت کی بہت بڑی میوزک انڈسٹری سے ہے۔

ایسے میں اگر ہم مشینی گلوکاروں کو ان کے مقابلے میں متعارف کروائیں گے تویقینا ہمیں شکست کاسامنا کرنا پڑے گا حالانکہ ہمارے دوسنگرزجن میں استاد راحت فتح علی خاں اور عاطف اسلم شامل ہے، نے بھارت کی پوری میوزک انڈسٹری کی چھٹی کردی تھی۔ بھارت کے بہت سے ''مہان '' پلے بیک سنگرز کو گھربیٹھنا پڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک موسیقی کے شعبے میں بہت ذرخیزرہا ہے اورآج بھی ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے لیکن جس انداز سے کچھ پلیٹ فارمز میوزک کے شعبے کوتباہ وبرباد کرنے پرلگے ہیں، ان کوروکنے کی ضرورت ہے اوراس حوالے سے میوزک سے وابستہ گھرانوں اورسازندوںکو مل کرلائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، وگرنہ ''شوقیہ ''گلوکاراپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے موسیقی کے سروںکو ''ادھورا'' چھوڑ دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں