ایف بی آر نے برطانیہ میں غیر منقولہ جائیداد والے پاکستانیوں کا ڈیٹا حاصل کرلیا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یہ ڈیٹا او ای سی ڈی اور برطانوی ٹیکس حکام کے تعاون سے حاصل کیا ہے


Khususi Reporter July 17, 2018
ٹیکس چوری پکڑنے،کالادھن بیرون ملک منتقل کرنے والوں کی معلومات کے لیے سافٹ ویئرفراہم،رولزتیار فوٹو : فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے برطانیہ میں غیر منقولہ جائیداد اور ملکیت رکھنے والے پاکستانیوںکا ڈیٹا حاصل کر لیا ہے اور مزید قانونی کارروائی کے لیے فراہم کردہ معلومات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے ۔

ایف بی آر نے یہ معلومات 'تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی' کے ممبر ممالک کے ساتھ معاہدہ کے تحت مقررہ تاریخ سے قبل ہی حاصل کرلیں۔ ایف بی آر نے تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے پائلٹ پراجیکٹ پرعملدرآمد شروع کردیا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یہ ڈیٹا او ای سی ڈی اور برطانوی ٹیکس حکام کے تعاون سے حاصل کیا ہے۔ایف بی آرحکام نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پاکستانیوں کے بیرون ممالک کھربوں روپے کے کالے دھن و اثاثہ جات کا سُراغ لگانے کے لیے او ای سی ڈی ممبر ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے پائلٹ پراجیکٹ کی منظوری دی تھی جس کے تحت اب یہ معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پائلٹ پراجیکٹ کے تحت او ای سی ڈی کے رکن ملک کے طور پر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ستمبر 2018 میں پہلی معلومات کا تبادلہ ہونا تھا ۔

ایف بی آرکے سینئر افسر نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا سنٹر سے او ای سی ڈی ممبر ممالک کے ساتھ معلومات تبادلہ کے حوالے سے افسران کا تربیتی سیشن 27جون2018 کو ریجینل ٹیکس آفس کراچی میں منعقد ہوا تھا ۔اس سیشن میں بین الاقوامی کمپنی میسز ویزور لمیٹڈ (Wizor Limited) کے ماہرین کی جانب سے ایف بی آر افسران کو تربیت دی گئی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پائلٹ پراجیکٹ برطانیہ کے تعاون سے شروع کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا مزیدکہنا ہے کہ بطور او ای سی ڈی رکن ملک پاکستان پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد او سی ڈی کے دیگر ممبر ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلے کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرے گااور اس کے ساتھ تمام ممبر ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ شروع ہوجائیگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے تعاون سے ٹیکس چوری پکڑنے اورکالادھن بیرون ملک منتقل کرنے والے پاکستانیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی کمپنی سے خودکار نظام کا سافٹ ویئر حاصل کیا گیا ہے اور اسی سافٹ ویئر سے متعلق ستائیس جون کو تربیتی سیشن ہوا تھا ۔ ایف بی آر او ای سی ڈی ممالک کے ساتھ معلومات کے تبادلہ پر عملدرآمد سے قبل انفارمیشن سکیورٹی منیجمنٹ کو یقینی بنانے کیلئے آئی ایس او 27001 سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور ڈاکیومنٹیشن اینڈکنٹری بائی کنٹری رپورٹنگ ریکوائرمنٹ رولز جاری کرنے کے علاوہ دیگر متعلقہ اقدامات کر چکا ہے ۔

ان رُولز کے تحت (ایف بی آرکی جانب سے پاکستانیوں کے بیرون ممالک کھربوں روپے کے کالے دھن و اثاثہ جات کا سُراغ لگانے کیلئے دس کروڑ روپے سے زائد ٹرن اوور رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور انٹر پرائززگروپس کیلئے ماسٹر فائل سمیت دیگر ریکارڈکو لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ عالمی اثاثے ظاہر نہ کرنیوالی کمپنیوں و ٹیکس دہندگان پردو ہزار روپے یومیہ کے حساب سے جرمانے عائد کیا جائیگااور ٹرانزیکشنزکا ریکارڈ اور دستاویزات نہ رکھنے والوں پر ایک فیصد جرمانہ عائدکیا جائیگا ۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 118کے تحت انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانا ہوںگے ،ہر ٹیکس دہندہ کو پچاس لاکھ روپے اور اس سے زائد مالیت کی ٹرانزیکشنز سے متعلق تمام لوکل فائلیں اپنے پاس رکھنا ہوںگی اورکمشنر ان لینڈ ریونیوکی جانب سے مانگنے پر انہیں فراہم کرنا ہونگی۔

ان رُولز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قائم کسی بھی ملٹی نیشنل انٹر پرائزز گروپ کے دس کروڑ روپے سالانہ سے زائد ٹرن اوور رکھنے والے ٹیکس دہندہ قانونی ذیلی ادارے کو ماسٹر فائل کے طور پر اپنا تمام ریکارڈ محفوظ رکھنا ہوگا اور تمام ملٹی نیشنل انٹر پرائززگروپ کے تمام ممبران کے بارے میں تمام تر معلومات بھی فراہم کرنا ہونگی اور اپنی ملٹی نیشنل انٹر پرائزز گروپ کی قانونی ملکیت کا سٹرکچر بھی بتانا ہوگا کہ گروپ کے مالکان کون کون ہیں اورکس کس کا کتنا شیئر ہے۔

یہ بھی بتانا ہوگا کہ گروپ کے کاروبارکی نوعیت کیا ہے اورگروپ سے حاصل منافع کی تفصیلات سے بھی آگاہ کرنا ہوگا کہ کون کتنا منافع لے رہا ہے۔اسی طرح گروپ کو اپنی پانچ بڑی پراڈکٹ اور سروسز کے بارے میں بھی بتانا ہوگا۔انکم ٹیکس آرڈیننس2001کے سیکشن 182میں بھی ترمیم کی جاچکی ہے جس کے تحت تمام رپورٹنگ فنانشل انسٹی ٹیوشنز اور اداروںکیلئے ایف بی آر کو درکارتمام معلومات کی فراہمی لازمی قراردی جاچکی ہے اورتمام رپورٹنگ فنانشل انسٹی ٹیوشنز اور اداروںکو مقررہ تاریخ تک ایف بی آرکو معلومات فراہم کرنا ہونگی،مقررہ تاریخ تک معلومات فراہم نہ کرنیوالے رپورٹنگ فنانشل انسٹی ٹیوشنز اور اداروں پرکم ازکم پچیس ہزار روپے یا دو ہزار روپے یومیہ جرمانہ عائدکیا جائے گا ۔

تمام لوگوں کو اپنے پاس ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ رکھنا ہوگا، معلومات کی فراہمی میں ناکامی پر ٹرانزیکشن کی مجموعی مالیت کے ایک فیصد کے برابرجرمانہ عائدکیا جائیگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ او ای سی ڈی کے ممبر ممالک کے ساتھ معلومات تبادلہ پر عملدرآمد سے قبل انفارمیشن سیکورٹی مینجمنٹ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں اور ایف بی آرنے آٹومیٹک ایکسچینج آف انفارمیشن نامی جدید سافٹ ویئر حاصل کیاہے جس کے لیے برطانیہ نے پاکستان کو 50لاکھ پونڈ سے زیادہ رقم فراہم کی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ سافٹ ویئر او ای سی ڈی کے وضع کردہ معیارکے مطابق ہے۔ذرائع کامزیدکہناہے کہ حکومت کی جانب سے معلومات کے الیکٹرانیکلی نظام متعارف کرانے کے لیے بینکوں اور دیگر متعلقہ اداروں سے معلومات کی فراہمی کو لازمی قرار دینے کیلئے بھی رُولز متعارف کرائے جاچکے ہیں،ان رُولز میں عدم تعاون پر جرمانوں سمیت دیگرسزائیں بھی متعارف کرائی جاچکی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں