لیاری گینگ وار کے آغاز سے پیپلز پارٹی کے انجام تک
شہر قائد کے قدیم علاقے لیاری کے مکین پیپلز پارٹی کو مسترد کرنے کے بعد حالیہ دنوں نئے مسیحا کے منتظر دکھائی دکھاتے ہیں
کراچی کا قدیم علاقہ لیاری فصیل شہر سے باہر سب سے پہلے آباد ہوا تھا، کچھ ہی عرصے بعد اس مضافاتی بستی کی آبادی ہزاروں تک پہنچ چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ کئی بستیوں کا مجموعہ بن گیا۔ اس وقت اس علاقے میں پیلو کے درختوں کی بہتات تھی، لفظ ''پیلو'' مِلاپ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی بنا پر اس علاقے کو ''لے یاری'' کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری بن گیا۔
لیاری کا علاقہ قدیم بلوچ اور مکرانی تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں سب سے سے پہلے مکران کے وہ باشندے آ باد ہوئے تھے جو جیوانی اور پنجگور سے اٹھارویں صدی عیسوی میں ترک وطن کرکے یہاں مستقل آباد ہو گئے تھے۔ بعد ازاں اندرون سندھ اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ آ کر یہاں آباد ہونے لگے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آ یا کہ یہاں کی آ بادی فصیل شہر کے اندر کی آ بادی سے تجاوز کر گئی۔ بعد میں فصیل شہر کو توڑ کر تمام آ بادی کو یکجا کر دیا گیا جس کے بعد فصیل شہر''لیاری'' کے نام سے جانا اور پہنچانا جانے لگا۔
لیاری میں گینگ وار کا پہلا واقعہ 1960 میں پیش آ یا جس کے تحت دو گینگ اس علاقے میں منظر عام پر آئے۔ پہلا گینگ ''ڈاڈل'' تین بھائیوں پر مشتمل تھا جس میں داد محمد عرف دادل، شیر محمدعرف شیرو اور بیکھن شامل تھے۔ یہ تینوں بھائی لیاری کے مختلف علاقوں میں منشیات فروشی کے کام کے ساتھ ساتھ سینما کے ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کرتے تھے، جبکہ دوسرا گینگ نبی بخش عرف کالا ناگ کا تھا جو منشیات فروشوں کا سرغنہ تھا۔
دادل اور کالا ناگ کے گینگ میں آ ئے روز جھگڑے ہونا معمول کا حصہ تھے۔ ان کی لڑائیوں میں بم، اسلحہ، گولہ بارود کا ہرگز استعمال نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ یہ طاقت کے زور پر آپس میں لڑتے تھے۔ ان کے اسلحہ خنجر، ڈنڈا، چھرا و دیگر آلات ہوا کرتے تھے۔ دونوں گینگ منشیات کی فروخت اور سینما کی بلیک میں ٹکٹ فروخت کرتے تھے۔ اسلحے بارود کے بغیر لڑنے والے گینگ آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اس وقت بنے جب (ایوب خان کے دور میں ان کے حامیوں کی جانب سے دادل گروپ کی طاقت کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جانے لگا)۔ دیکھتے ہی دیکھتے جرائم پیشہ عناصر آہستہ آہستہ سیاست کےلیے استعمال کیے جانے لگے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا، چند ہی دن بعد کالا ناگ یعنی نبی بخش پولیس مقابلے میں مارا گیا، دادل کا ایک بھائی قتل ہو گیا جبکہ دادل اور شیرو تمام تر جرائم چھوڑنے پر مجبور ہوگئے؛ جس کے بعد 1964 میں بننے والے گینگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔
نبی بخش کی وفات کے بعد اس کا بیٹا فضلو کالا ناگ ٹو کے نام سے منظر عام پر آیا اور بابو ڈکیت نامی آدمی سے مل کر ایک نیا گینگ بنایا۔ بابو عرف اقبال ڈکیت کا خاندانی تعلق پولیس کے گھرانے سے تھا۔ بابو ڈکیت کی جانب سے اپنا نیٹ ورک پورے لیاری میں ایسے پراسرار طریقے سے منظم کیا گیا کہ چند ہی روز میں اس کے گینگ سے بابا لاڈلہ، عبد الجبار عرف جینگو اور شیراز کامریڈ نامی کئی گینگسٹر جرائم کی دنیا میں بھیانک روپ لیکر سامنے آ ئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے لیاری کے علاقے کلاکوٹ اور ریکسن لائن کے علاقوں میں بابو ڈکیت اور''کالا ناگ ٹو'' کا سکہ چلنے لگا، تو دوسری جانب لیاری کے دوسرے علاقوں جہان آباد، شیر شاہ اور لیاری ندی کی دوسری طرف لال محمد عرف لالو جس کا تعلق ڈاڈل گینگ سے تھا، آہستہ آہستہ سرگرم ہونے لگا۔ لالو کا شمارکالا ناگ یعنی نبی بخش کے مخالفین میں ہوتا تھا۔ لالو چند ہی روز میں داد محمد عرف داد کے بیٹے ''عبد الرحمان عرف رحمان ڈکیت'' کوجرائم کی دنیا میں لانے میں کامیاب ہو گیا؛ جس کے کچھ ہی عرصے میں رحمان ڈکیت جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ اس کے باپ داد محمد کے حمایتی اس کی صف میں شامل ہوگئے اور اس کا شمار لیاری کی طاقتور ترین شخصیات میں ہونے لگا۔
افغان جنگ کے بعد آنے والے کلاشنکوف نے گینگ وار کی شکل تبدیل کردی، جس کے بعد منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم میں ہوشربہ اضافہ ہونے لگا۔ کچھ عرصے بعد کالا ناگ ٹو یعنی''فضلو'' بھی اپنے باپ کی طرح پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ بابو ڈکیت کے تیار کیے گئے لڑکے اپنے اپنے علاقوں میں گینگ چلانے لگے جس میں استاد تاجو دریا آباد، شیراز کامریڈ لی مارکیٹ، بس اڈے جبکہ راشد ریکھا بغدادی کے علاقے پر قابض ہوگئے۔ بعد ازاں بابو ڈکیت بھی اپنے مخالفین کی جانب سے فائرنگ کے واقعے میں مارا گیا، جس کے بعد لیاری کا پورا اقتدار( رحمان ڈکیت اور لال محمد عرف لالو) کے ہاتھوں آ گیا۔ رحمان ڈکیت کے نام کی سیاہی پوری لیاری میں پھیلتی چلی گئی۔
اس دوران رحمان کا واسطہ خالد شہنشاہ سے پڑا جو بلاول ہاؤس کراچی کا اہم آدمی سمجھا جاتا تھا۔ خالد شہنشاہ نے رحمان ڈکیت کو پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں متعارف کروایا۔ 1990 کی دہائی میں رحمان ڈکیت کی جانب سے سلیم میمن نامی تاجر کو اغوا کیا گیا جس کے بعد لال محمد کی جانب سے رحمان ڈکیت سے فوری طور پر تاجر کو چھوڑ نے کا مطالبہ کیا گیا مگر رحمان ڈکیت نے تاجر سے تاوان کی رقم وصول کر لی جو لالو اور رحمان کے درمیان تنازعے کا باعث بنی۔ واقعہ کے چند روز بعد لالو کو جیل ہوگئی اور وہ جیل میں ہی بیمار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا؛ جس کے بعد اس کے بیٹے ارشد پپو نے اپنے باپ کا گینگ سنبھال لیا۔
لیاری میں ابھی گینگ وار جاری ہی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پرویز مشرف کا دور شروع ہو گیا، لیاری کے تمام علاقوں میں ارشد پپو اور رحمان ڈکیت کے گینگ سرگرم ہو نے لگے۔ ایک روز ارشد پپو کی جانب سے رحمان ڈکیت کو سبق سکھانے کےلیے''فیض محمد عرف فیضو'' نامی شخص کواغوا کیا گیا جو رحمان بلوچ کے والد کا قریبی دوست اور ڈاڈل گینگ کا نہایت وفادار آدمی سمجھا جاتا تھا۔ فیضو پیشے کے اعتبار سے ٹرانسپورٹر تھا جسے ارشد پپو گینگ نے قتل کر دیا، جس کے چند روز بعد ہی ارشد پپو کے ہاتھوں قتل ہونے والے فیض محمد فیضو کا بیٹا ''عزیر جان بلوچ''منظر عام پرگیا۔ باپ کی موت کا بدلہ لینے کےلیے وہ رحمان ڈکیت کے گینگ میں شامل ہوگیا۔
1990 میں رحمان ڈکیت کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا جس کے بعد لیاری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے لگی۔ 2008 میں رحمان ڈکیت کی جانب سے علاقے میں ''پیپلز امن کمیٹی'' کے نام سے پیپلز پارٹی کی ونگ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جس کی کمانڈ سنبھالنے کےلیے عزیر جان بلوچ کو اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔عزیر نے اپنے کزن بابا لاڈلہ کے ساتھ مل کر علاقے میں مہاجر سیاست سے تعلق رکھنے والی ابھرتی ہوئی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے داخلے کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی اینٹری روکنے کی کوشش کرنے لگا۔
پیپلز امن کمیٹی کا بنیادی ایجنڈا شہر قائد بالخصوص لیاری میں متحدہ کو فعال ہونے سے روکنا تھا، جس میں تنظیم خاصے حد تک کامیاب رہی۔ پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھنے والے رہنماؤں میں ظفر بلوچ سمیت حبیب جان بلوچ کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل تھا جنہیں پیپلز پارٹی کی بااثر شخصیات کی حمایت حاصل تھیں۔ پیپلز امن کمیٹی پر قدغن اس وقت لگی جب لیاری میں پارٹی سے تعلق رکھنے والے نہتے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما دیا گیا اور امن کمیٹی کے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے اہم شواہد سامنے آنے لگے۔ پیپلز امن کمیٹی کے دور میں لیاری کا اگر جائزہ لیا جائے تو لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے والے افراد جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر علاقوں کا گشت کرتے دکھائی دیتے تھے، نوجوانوں کی شناخت پوچھ کر انہیں دن دہاڑے اغوا کر لیا جاتا تھا اور رات کے کسی پہر ان کی لاشوں کو ان کے گھروں کے دروازوں پر پھینکا جانا معمول کا حصہ بننے لگا۔ بگڑتے حالات کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے 11 اکتوبر 2011 کو امن کمیٹی کی تمام تر سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
جرائم کی دنیا پر راج اور لیاری کو خون میں رنگنے کے بعد ارشد پپو کی جانب سے''غفار ذکری'' نامی ایک گینگسٹر جس کا باپ انٹرنیشنل فٹبالر تھا، کو علاقے کی مکمل کمانڈ سونپ دی گئی، جبکہ رحمان ڈکیت اور عزیر جان بلوچ کی جانب سے نور محمد عرف بابا لاڈلہ کوعلاقے کا مکمل اختیار دیدیا گیا جس کے کچھ عرصے بعد بابا لاڈلہ اور غفار ذکری میں لیاری کے علاقوں پر قبضے کی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ چند روز بعد سیاست سے گہری وابستگی رکھنے والے رحمان ڈکیت کے قریبی ساتھی خالد شہنشاہ کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا، خالد شہنشاہ کے قتل کے چند روز بعد ہی رحمان ڈکیت بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا اور لیاری کا نیا سردار عزیر جان بلوچ بن گیا۔
عزیر بلوچ رحمان ڈکیٹ کی موت کا ذمہ دار ارشد پپو اور پولیس کو سمجھتا تھا جس کی بنیاد پر سردار بننے کے فوری بعد ارشد پپو کو مارنے کےلیے کئی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔ کئی سال گزر جانے کے بعد (سال 2013 میں ارشد پپو اور اس کے ساتھیوں کو عزیر جان بلوچ کے کارندوں کی جانب سے قتل کر دیا گیا)۔ ارشد پپو کے قتل کے بعد اس کی گینگ کے اہم کارندے جن میں غفار ذکری و دیگر شامل ہیں، روپوش ہوگئے اور پورا لیاری عزیر جان بلوچ اور بابا لاڈلہ کے قبضے میں آگیا۔ اگست 2013 میں لیاری کے فٹ بال گراؤنڈ میں حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں بابا لاڈلہ معجزاتی طور پر بچ گیا۔ بابا لاڈلہ اس حملے کا ذمہ دار عزیر بلوچ کو سمجھتا تھا جس کی وجہ سے دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ اختلافات مزید شدت اس وقت اختیار کرگئے جب رحمان ڈکیت اور عزیر جان بلوچ کے قریبی ساتھی پیپلز امن کمیٹی کے رہنما ظفر بلوچ کے قتل کا الزام بابا لاڈلہ کے سر آگیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 2012 میں جب لیاری گینگ وار کے خلاف پہلا آپریشن کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی سے دو چار ہوئے، جس کے بعد آ پریشن کو غیر معینہ مدت تک روک دیا گیا۔ 7 ستمبر 2013 کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جب گینگ وار کے خاتمے کےلیے دوسرا آپریشن کیا جاتا ہے تو لیاری میں موجود گینگ وار کے منظم گروپ اور ان کے سربراہان روپوشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس صورتحال میں تمام گینگ کی ڈور سنبھالنے والوں کی ملک سے بیرون ملک روانگی پر لیاری میں موجود گینگ وار کے کارندے علاقے پر قابض ہونے کےلیے آپس میں ہی لڑ پڑے جس سے لیاری کا امن مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ بعد ازاں لیاری گینگ وار اور ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا بیڑہ سندھ رینجرز کے سپرد کر دیا گیا جسے پورا کرنے اور لیاری کا امن واپس لوٹانے میں رینجرز کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
گینگ وار کے قبضے اور خونی گلیوں کے نام سے مشہور شہر قائد کے قدیم علاقے لیاری کے مکین پیپلز پارٹی کو مسترد کرنے کے بعد حالیہ دنوں نئے مسیحا کے منتظر دکھائی دکھاتے ہیں۔ لیاری کے علاقہ مکین جو ایک طویل عرصے سے مختلف گینگ وار کے شکنجے کی زد میں روزانہ کی بنیادوں پر علاقے میں خون کی حولیاں دیکھنے پر مجبور تھے، آج ان تمام تر صورتحال سے چھٹکارا دلانے پر پاکستان رینجرز (سندھ) کے مشکور دکھائی دیتے ہیں۔ لیاری کو امن کا گہوارہ بنانے اور گینگ وار کا اس علاقے سے مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار نہایت قابل تحسین ہے جس کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ ایک ایسے علاقے سے گینگ وار کا صفایا کرنا جہاں موت کے سائے ہر لمحہ رقص کرتے تھے، اور علاقے کی رونقیں بحال کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کےلیے بڑا ہدف تھا جسے پورا کرنے کا مکمل کریڈٹ سابق آ رمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔
گینگ وار کے خاتمے کے بعد لیاری کے علاقہ مکین پیپلز پارٹی کے فارمولے کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ جس کی چند علامات گذشتہ دنوں بلاول بھٹو کی لیاری
میں ریلی پر پتھراؤ اور لیاری کے حلقہ پی ایس 108 کی سابقہ صوبائی اسمبلی کی امیدوار ثانیہ ناز بلوچ پر ان کے حلقے میں مختلف عورتوں کی جانب سے ان پر تشدد کے واقعات کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔
لیاری میں حالیہ دنوں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جہاں اس بات کے بڑے بڑے دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ وہ لیاری میں عام انتخابات میں ہمیشہ کی طرح کلین سوئپ کریگی وہیں لیاری کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے کو دوبارا کسی سیاسی جماعت یا جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں ہرگز یرغمال بننے نہیں دیں گے، وہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو کسی بھی صورت نہیں دہرائیں گے۔ یہ علاقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور سر توڑ کوششوں کے بعد امن کا گہوارہ بنا ہے، لہٰذا وہ اس علاقے سے گندی سیاست کو دور رکھیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لیاری کا علاقہ قدیم بلوچ اور مکرانی تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں سب سے سے پہلے مکران کے وہ باشندے آ باد ہوئے تھے جو جیوانی اور پنجگور سے اٹھارویں صدی عیسوی میں ترک وطن کرکے یہاں مستقل آباد ہو گئے تھے۔ بعد ازاں اندرون سندھ اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ آ کر یہاں آباد ہونے لگے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آ یا کہ یہاں کی آ بادی فصیل شہر کے اندر کی آ بادی سے تجاوز کر گئی۔ بعد میں فصیل شہر کو توڑ کر تمام آ بادی کو یکجا کر دیا گیا جس کے بعد فصیل شہر''لیاری'' کے نام سے جانا اور پہنچانا جانے لگا۔
لیاری میں گینگ وار کا پہلا واقعہ 1960 میں پیش آ یا جس کے تحت دو گینگ اس علاقے میں منظر عام پر آئے۔ پہلا گینگ ''ڈاڈل'' تین بھائیوں پر مشتمل تھا جس میں داد محمد عرف دادل، شیر محمدعرف شیرو اور بیکھن شامل تھے۔ یہ تینوں بھائی لیاری کے مختلف علاقوں میں منشیات فروشی کے کام کے ساتھ ساتھ سینما کے ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کرتے تھے، جبکہ دوسرا گینگ نبی بخش عرف کالا ناگ کا تھا جو منشیات فروشوں کا سرغنہ تھا۔
دادل اور کالا ناگ کے گینگ میں آ ئے روز جھگڑے ہونا معمول کا حصہ تھے۔ ان کی لڑائیوں میں بم، اسلحہ، گولہ بارود کا ہرگز استعمال نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ یہ طاقت کے زور پر آپس میں لڑتے تھے۔ ان کے اسلحہ خنجر، ڈنڈا، چھرا و دیگر آلات ہوا کرتے تھے۔ دونوں گینگ منشیات کی فروخت اور سینما کی بلیک میں ٹکٹ فروخت کرتے تھے۔ اسلحے بارود کے بغیر لڑنے والے گینگ آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اس وقت بنے جب (ایوب خان کے دور میں ان کے حامیوں کی جانب سے دادل گروپ کی طاقت کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جانے لگا)۔ دیکھتے ہی دیکھتے جرائم پیشہ عناصر آہستہ آہستہ سیاست کےلیے استعمال کیے جانے لگے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا، چند ہی دن بعد کالا ناگ یعنی نبی بخش پولیس مقابلے میں مارا گیا، دادل کا ایک بھائی قتل ہو گیا جبکہ دادل اور شیرو تمام تر جرائم چھوڑنے پر مجبور ہوگئے؛ جس کے بعد 1964 میں بننے والے گینگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔
نبی بخش کی وفات کے بعد اس کا بیٹا فضلو کالا ناگ ٹو کے نام سے منظر عام پر آیا اور بابو ڈکیت نامی آدمی سے مل کر ایک نیا گینگ بنایا۔ بابو عرف اقبال ڈکیت کا خاندانی تعلق پولیس کے گھرانے سے تھا۔ بابو ڈکیت کی جانب سے اپنا نیٹ ورک پورے لیاری میں ایسے پراسرار طریقے سے منظم کیا گیا کہ چند ہی روز میں اس کے گینگ سے بابا لاڈلہ، عبد الجبار عرف جینگو اور شیراز کامریڈ نامی کئی گینگسٹر جرائم کی دنیا میں بھیانک روپ لیکر سامنے آ ئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے لیاری کے علاقے کلاکوٹ اور ریکسن لائن کے علاقوں میں بابو ڈکیت اور''کالا ناگ ٹو'' کا سکہ چلنے لگا، تو دوسری جانب لیاری کے دوسرے علاقوں جہان آباد، شیر شاہ اور لیاری ندی کی دوسری طرف لال محمد عرف لالو جس کا تعلق ڈاڈل گینگ سے تھا، آہستہ آہستہ سرگرم ہونے لگا۔ لالو کا شمارکالا ناگ یعنی نبی بخش کے مخالفین میں ہوتا تھا۔ لالو چند ہی روز میں داد محمد عرف داد کے بیٹے ''عبد الرحمان عرف رحمان ڈکیت'' کوجرائم کی دنیا میں لانے میں کامیاب ہو گیا؛ جس کے کچھ ہی عرصے میں رحمان ڈکیت جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ اس کے باپ داد محمد کے حمایتی اس کی صف میں شامل ہوگئے اور اس کا شمار لیاری کی طاقتور ترین شخصیات میں ہونے لگا۔
افغان جنگ کے بعد آنے والے کلاشنکوف نے گینگ وار کی شکل تبدیل کردی، جس کے بعد منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم میں ہوشربہ اضافہ ہونے لگا۔ کچھ عرصے بعد کالا ناگ ٹو یعنی''فضلو'' بھی اپنے باپ کی طرح پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ بابو ڈکیت کے تیار کیے گئے لڑکے اپنے اپنے علاقوں میں گینگ چلانے لگے جس میں استاد تاجو دریا آباد، شیراز کامریڈ لی مارکیٹ، بس اڈے جبکہ راشد ریکھا بغدادی کے علاقے پر قابض ہوگئے۔ بعد ازاں بابو ڈکیت بھی اپنے مخالفین کی جانب سے فائرنگ کے واقعے میں مارا گیا، جس کے بعد لیاری کا پورا اقتدار( رحمان ڈکیت اور لال محمد عرف لالو) کے ہاتھوں آ گیا۔ رحمان ڈکیت کے نام کی سیاہی پوری لیاری میں پھیلتی چلی گئی۔
اس دوران رحمان کا واسطہ خالد شہنشاہ سے پڑا جو بلاول ہاؤس کراچی کا اہم آدمی سمجھا جاتا تھا۔ خالد شہنشاہ نے رحمان ڈکیت کو پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں متعارف کروایا۔ 1990 کی دہائی میں رحمان ڈکیت کی جانب سے سلیم میمن نامی تاجر کو اغوا کیا گیا جس کے بعد لال محمد کی جانب سے رحمان ڈکیت سے فوری طور پر تاجر کو چھوڑ نے کا مطالبہ کیا گیا مگر رحمان ڈکیت نے تاجر سے تاوان کی رقم وصول کر لی جو لالو اور رحمان کے درمیان تنازعے کا باعث بنی۔ واقعہ کے چند روز بعد لالو کو جیل ہوگئی اور وہ جیل میں ہی بیمار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا؛ جس کے بعد اس کے بیٹے ارشد پپو نے اپنے باپ کا گینگ سنبھال لیا۔
لیاری میں ابھی گینگ وار جاری ہی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پرویز مشرف کا دور شروع ہو گیا، لیاری کے تمام علاقوں میں ارشد پپو اور رحمان ڈکیت کے گینگ سرگرم ہو نے لگے۔ ایک روز ارشد پپو کی جانب سے رحمان ڈکیت کو سبق سکھانے کےلیے''فیض محمد عرف فیضو'' نامی شخص کواغوا کیا گیا جو رحمان بلوچ کے والد کا قریبی دوست اور ڈاڈل گینگ کا نہایت وفادار آدمی سمجھا جاتا تھا۔ فیضو پیشے کے اعتبار سے ٹرانسپورٹر تھا جسے ارشد پپو گینگ نے قتل کر دیا، جس کے چند روز بعد ہی ارشد پپو کے ہاتھوں قتل ہونے والے فیض محمد فیضو کا بیٹا ''عزیر جان بلوچ''منظر عام پرگیا۔ باپ کی موت کا بدلہ لینے کےلیے وہ رحمان ڈکیت کے گینگ میں شامل ہوگیا۔
1990 میں رحمان ڈکیت کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا جس کے بعد لیاری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے لگی۔ 2008 میں رحمان ڈکیت کی جانب سے علاقے میں ''پیپلز امن کمیٹی'' کے نام سے پیپلز پارٹی کی ونگ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جس کی کمانڈ سنبھالنے کےلیے عزیر جان بلوچ کو اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔عزیر نے اپنے کزن بابا لاڈلہ کے ساتھ مل کر علاقے میں مہاجر سیاست سے تعلق رکھنے والی ابھرتی ہوئی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے داخلے کو ممنوعہ قرار دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی اینٹری روکنے کی کوشش کرنے لگا۔
پیپلز امن کمیٹی کا بنیادی ایجنڈا شہر قائد بالخصوص لیاری میں متحدہ کو فعال ہونے سے روکنا تھا، جس میں تنظیم خاصے حد تک کامیاب رہی۔ پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھنے والے رہنماؤں میں ظفر بلوچ سمیت حبیب جان بلوچ کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل تھا جنہیں پیپلز پارٹی کی بااثر شخصیات کی حمایت حاصل تھیں۔ پیپلز امن کمیٹی پر قدغن اس وقت لگی جب لیاری میں پارٹی سے تعلق رکھنے والے نہتے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما دیا گیا اور امن کمیٹی کے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کے اہم شواہد سامنے آنے لگے۔ پیپلز امن کمیٹی کے دور میں لیاری کا اگر جائزہ لیا جائے تو لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے والے افراد جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر علاقوں کا گشت کرتے دکھائی دیتے تھے، نوجوانوں کی شناخت پوچھ کر انہیں دن دہاڑے اغوا کر لیا جاتا تھا اور رات کے کسی پہر ان کی لاشوں کو ان کے گھروں کے دروازوں پر پھینکا جانا معمول کا حصہ بننے لگا۔ بگڑتے حالات کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے 11 اکتوبر 2011 کو امن کمیٹی کی تمام تر سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔
جرائم کی دنیا پر راج اور لیاری کو خون میں رنگنے کے بعد ارشد پپو کی جانب سے''غفار ذکری'' نامی ایک گینگسٹر جس کا باپ انٹرنیشنل فٹبالر تھا، کو علاقے کی مکمل کمانڈ سونپ دی گئی، جبکہ رحمان ڈکیت اور عزیر جان بلوچ کی جانب سے نور محمد عرف بابا لاڈلہ کوعلاقے کا مکمل اختیار دیدیا گیا جس کے کچھ عرصے بعد بابا لاڈلہ اور غفار ذکری میں لیاری کے علاقوں پر قبضے کی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ چند روز بعد سیاست سے گہری وابستگی رکھنے والے رحمان ڈکیت کے قریبی ساتھی خالد شہنشاہ کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا، خالد شہنشاہ کے قتل کے چند روز بعد ہی رحمان ڈکیت بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا اور لیاری کا نیا سردار عزیر جان بلوچ بن گیا۔
عزیر بلوچ رحمان ڈکیٹ کی موت کا ذمہ دار ارشد پپو اور پولیس کو سمجھتا تھا جس کی بنیاد پر سردار بننے کے فوری بعد ارشد پپو کو مارنے کےلیے کئی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔ کئی سال گزر جانے کے بعد (سال 2013 میں ارشد پپو اور اس کے ساتھیوں کو عزیر جان بلوچ کے کارندوں کی جانب سے قتل کر دیا گیا)۔ ارشد پپو کے قتل کے بعد اس کی گینگ کے اہم کارندے جن میں غفار ذکری و دیگر شامل ہیں، روپوش ہوگئے اور پورا لیاری عزیر جان بلوچ اور بابا لاڈلہ کے قبضے میں آگیا۔ اگست 2013 میں لیاری کے فٹ بال گراؤنڈ میں حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں بابا لاڈلہ معجزاتی طور پر بچ گیا۔ بابا لاڈلہ اس حملے کا ذمہ دار عزیر بلوچ کو سمجھتا تھا جس کی وجہ سے دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ اختلافات مزید شدت اس وقت اختیار کرگئے جب رحمان ڈکیت اور عزیر جان بلوچ کے قریبی ساتھی پیپلز امن کمیٹی کے رہنما ظفر بلوچ کے قتل کا الزام بابا لاڈلہ کے سر آگیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 2012 میں جب لیاری گینگ وار کے خلاف پہلا آپریشن کیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی سے دو چار ہوئے، جس کے بعد آ پریشن کو غیر معینہ مدت تک روک دیا گیا۔ 7 ستمبر 2013 کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جب گینگ وار کے خاتمے کےلیے دوسرا آپریشن کیا جاتا ہے تو لیاری میں موجود گینگ وار کے منظم گروپ اور ان کے سربراہان روپوشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس صورتحال میں تمام گینگ کی ڈور سنبھالنے والوں کی ملک سے بیرون ملک روانگی پر لیاری میں موجود گینگ وار کے کارندے علاقے پر قابض ہونے کےلیے آپس میں ہی لڑ پڑے جس سے لیاری کا امن مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ بعد ازاں لیاری گینگ وار اور ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا بیڑہ سندھ رینجرز کے سپرد کر دیا گیا جسے پورا کرنے اور لیاری کا امن واپس لوٹانے میں رینجرز کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
گینگ وار کے قبضے اور خونی گلیوں کے نام سے مشہور شہر قائد کے قدیم علاقے لیاری کے مکین پیپلز پارٹی کو مسترد کرنے کے بعد حالیہ دنوں نئے مسیحا کے منتظر دکھائی دکھاتے ہیں۔ لیاری کے علاقہ مکین جو ایک طویل عرصے سے مختلف گینگ وار کے شکنجے کی زد میں روزانہ کی بنیادوں پر علاقے میں خون کی حولیاں دیکھنے پر مجبور تھے، آج ان تمام تر صورتحال سے چھٹکارا دلانے پر پاکستان رینجرز (سندھ) کے مشکور دکھائی دیتے ہیں۔ لیاری کو امن کا گہوارہ بنانے اور گینگ وار کا اس علاقے سے مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار نہایت قابل تحسین ہے جس کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ ایک ایسے علاقے سے گینگ وار کا صفایا کرنا جہاں موت کے سائے ہر لمحہ رقص کرتے تھے، اور علاقے کی رونقیں بحال کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کےلیے بڑا ہدف تھا جسے پورا کرنے کا مکمل کریڈٹ سابق آ رمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔
گینگ وار کے خاتمے کے بعد لیاری کے علاقہ مکین پیپلز پارٹی کے فارمولے کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ جس کی چند علامات گذشتہ دنوں بلاول بھٹو کی لیاری
میں ریلی پر پتھراؤ اور لیاری کے حلقہ پی ایس 108 کی سابقہ صوبائی اسمبلی کی امیدوار ثانیہ ناز بلوچ پر ان کے حلقے میں مختلف عورتوں کی جانب سے ان پر تشدد کے واقعات کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔
لیاری میں حالیہ دنوں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جہاں اس بات کے بڑے بڑے دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ وہ لیاری میں عام انتخابات میں ہمیشہ کی طرح کلین سوئپ کریگی وہیں لیاری کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے کو دوبارا کسی سیاسی جماعت یا جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں ہرگز یرغمال بننے نہیں دیں گے، وہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو کسی بھی صورت نہیں دہرائیں گے۔ یہ علاقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور سر توڑ کوششوں کے بعد امن کا گہوارہ بنا ہے، لہٰذا وہ اس علاقے سے گندی سیاست کو دور رکھیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔