اس نظام کو آخری موقع دینا چاہیے
اگر عمران خان اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی نہ لاسکے تو عوام کے پاس اس نظام کے خاتمے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا
پاکستان بننے کے بعد سے ہی بڑے جاگیرداروں نے سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی اور زرعی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے وہ آج تک قائم ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد سیاست میں سرمایہ دار طبقے کی انٹری ہوئی جسے سیاست میں بام عروج پر شریف فیملی نے پہنچایا اور اب ان کی تعداد بھی ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں بہت زیادہ ہے اور فیصلہ سازی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ اب جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کی گرفت اقتدار پر مضبوط ہے اور کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آئے، یہی طبقہ جسے آج الیکٹیبلز کا نام دیا جاتا ہے اسمبلی میں اکثریت میں موجود ہوتا ہے۔
اسی اکثریت کی بناء پر پارٹی ورکرز اور نچلی سطح سے آنے والے پارٹی لیڈران کا کردار پارٹی اور اس کے فیصلوں میں ثانوی رہ گیا ہے۔ فیصلے وہی ہوتے ہیں جو اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یہ نظام اسی طرح کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور عوام کی حالت بھی اسی وجہ سے بد سے بدتر ہورہی ہے۔
2012 وہ سال تھا جب اس جمود کے خلاف ارتعاش پیدا ہوا جس کا سہرا ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ انہوں نے اس نظام میں تبدیلی کی بات کی اور نوجوانوں اور پسے ہوئی عوام کی قابل ذکر تعداد کو اس نعرے نے اپنی جانب متوجہ کیا۔
2013 کے الیکشن میں تبدیلی کی خواہشمند ان دونوں جماعتوں میں تبدیلی کے طریقہ کار پر اختلاف سامنے آیا جب عوامی تحریک دھرنے اور الیکشن کے بائیکاٹ اور تحریک انصاف الیکشن کے ذریعے تبدیلی کی خواہش لیے الیکشن کے عمل میں شامل ہوئی۔ تحریک انصاف اسمبلی میں تو پہنچی لیکن اقتدار مسلم لیگ ن کے مقدر میں آیا اور پانچ سال کےلیے تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن 2018 سر پر ہے اور ایک بار پھر پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مؤقف ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، اس لیے پہلے ان تمام عناصر کا احتساب کیا جائے جو پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے، ساتھ ہی ریفارمز بھی کی جائیں کیونکہ موجودہ نظام میں ملک کی 98 فیصد عوام کا کوئی کردار نہیں۔ الیکشن کے نام پر وہی چند خاندان مسند اقتدار پر براجمان ہوجاتے ہیں کیونکہ الیکشن کے لوازمات کوئی پڑھا لکھا، قابل پاکستانی برداشت ہی نہیں کرسکتا چاہے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسنینِ پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے احتساب اور ریفارمز کے بغیر حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی اور چند خاندانوں کی آمریت ہی مسلط رہے گی۔
عمران خان صاحب ایک بار پھر الیکشن میں کامیابی کےلیے پرامید ہیں اور اس بار انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ الیکٹیبلز کو پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں جو ان کے بقول الیکشن کی سائنس (لوازمات) جانتے ہیں، بظاہر عمران خان نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس نظام میں ایسے لوگوں کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے پاس تبدیلی کی خواہشمند نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے اور وہ خود بھی اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں، تحریک انصاف نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ وہ الیکٹیبلز کے ذریعے اقتدار میں آکر اس نظام کو تبدیل کردے گی جو بظاہر ممکن نہیں لگتا؛ کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ممبران اسمبلی جو خود اس نظام سے فائدہ لینے والے ہیں، اپنے ہی مفادات کے خلاف قانون سازی کریں گے اور احتساب کے عمل کو آگے بڑھنے دیں گے جبکہ اس کا شکنجہ ان کے گرد بھی تنگ ہوگا۔ سابقہ ایسے تجربات کامیاب نہیں ہوئے اور ایسے عناصر کے کندھوں پر کھڑی حکومت نے ہمیشہ سمجھوتہ کیا یا انہیں حکومت سے ہی ہاتھ دھونا پڑا۔
اب تک کی صورتحال سے لگتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور کسی بھی جماعت کو حکومت سازی اور قانون سازی کےلیے دوسری جماعتوں اور آزاد ارکان کے گروپ کا سہارا لینا پڑے گا۔ اگر تحریک انصاف کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود حکومت سازی کےلیے دوسری پارٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ان کی حکومت آزاد ارکان، دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں اور اپنی پارٹی میں موجود اس نظام سے مفادات لینے والے الیکٹیبلز کے سہارے کھڑی ہوگی اور اقتدار ملنے کے باوجود تبدیلی ایک خواب ہی رہے گی۔
مسلم لیگ شہباز شریف کی قیادت میں پرامید ہے کہ وہ دیگر اتحادیوں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنالے گی کیونکہ پنجاب میں اب بھی ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی پرامید ہے کہ وہ شہری سندھ میں ایم کیو ایم کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے گی اور دیہی سندھ میں اب بھی اس کی پوزیشن کو چیلنج کرنے والی جی ڈی اے میں وہ دم خم نہیں کہ وہ اسے زیادہ ٹف ٹائم دے سکے، اس لیے سندھ سے پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کرلے گی۔ کے پی، بلوچستان اور پنجاب سے بھی اسے اتنی سیٹیں حاصل ہوجائیں گی کہ کوئی بھی حکومت اس کے بغیر نہیں بن سکے گی اور وہ ایسی صورت میں بارگیننگ کی صورت میں بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم بناسکتی ہے۔ چوہدری نثار بھی آزاد ارکان کی طاقت کے ساتھ حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن میں حصہ نہ لینے کی پریس کانفرنس کرکے یورپ کے تبلیغی دورے پر چلے گئے ہیں۔ ان کا ملک سے باہر چلے جانا اور بظاہر تحریک انصاف کو ٹف ٹائم نہ دینا اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کو آخری موقع دینے کی سبیل لگتی ہے، کیونکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ جب تک عوام کی انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی امید دم نہ توڑ دے، وہ اس نظام کے خلاف نہیں اٹھیں گے اور ان کا پاکستان میں رہتے ہوئے عوام کو الیکشن میں حصہ نہ لینے کےلیے متحرک کرنے کا فائدہ مسلم لیگ کو ہوگا اور وہ شریف خاندان کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتے۔
میری رائے میں یہ اس نظام اور عمران خان کے پاس یہ آخری موقع ہے۔ اگر وہ اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی نہ لاسکے تو پسی ہوئی عوام کے پاس اس نظام کے خاتمے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا اور عمران خان خود بھی اس نظام میں رہنے کا جواز کھو دیں گے؛ اور انہیں احتساب، ریفارمز اور پھر انتخابات کے ایجنڈے پر آنا ہی پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اسی اکثریت کی بناء پر پارٹی ورکرز اور نچلی سطح سے آنے والے پارٹی لیڈران کا کردار پارٹی اور اس کے فیصلوں میں ثانوی رہ گیا ہے۔ فیصلے وہی ہوتے ہیں جو اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کریں۔ یہ نظام اسی طرح کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور عوام کی حالت بھی اسی وجہ سے بد سے بدتر ہورہی ہے۔
2012 وہ سال تھا جب اس جمود کے خلاف ارتعاش پیدا ہوا جس کا سہرا ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ انہوں نے اس نظام میں تبدیلی کی بات کی اور نوجوانوں اور پسے ہوئی عوام کی قابل ذکر تعداد کو اس نعرے نے اپنی جانب متوجہ کیا۔
2013 کے الیکشن میں تبدیلی کی خواہشمند ان دونوں جماعتوں میں تبدیلی کے طریقہ کار پر اختلاف سامنے آیا جب عوامی تحریک دھرنے اور الیکشن کے بائیکاٹ اور تحریک انصاف الیکشن کے ذریعے تبدیلی کی خواہش لیے الیکشن کے عمل میں شامل ہوئی۔ تحریک انصاف اسمبلی میں تو پہنچی لیکن اقتدار مسلم لیگ ن کے مقدر میں آیا اور پانچ سال کےلیے تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن 2018 سر پر ہے اور ایک بار پھر پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مؤقف ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، اس لیے پہلے ان تمام عناصر کا احتساب کیا جائے جو پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے، ساتھ ہی ریفارمز بھی کی جائیں کیونکہ موجودہ نظام میں ملک کی 98 فیصد عوام کا کوئی کردار نہیں۔ الیکشن کے نام پر وہی چند خاندان مسند اقتدار پر براجمان ہوجاتے ہیں کیونکہ الیکشن کے لوازمات کوئی پڑھا لکھا، قابل پاکستانی برداشت ہی نہیں کرسکتا چاہے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسنینِ پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے احتساب اور ریفارمز کے بغیر حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی اور چند خاندانوں کی آمریت ہی مسلط رہے گی۔
عمران خان صاحب ایک بار پھر الیکشن میں کامیابی کےلیے پرامید ہیں اور اس بار انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ الیکٹیبلز کو پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں جو ان کے بقول الیکشن کی سائنس (لوازمات) جانتے ہیں، بظاہر عمران خان نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس نظام میں ایسے لوگوں کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے پاس تبدیلی کی خواہشمند نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے اور وہ خود بھی اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں، تحریک انصاف نے یہ نعرہ لگایا ہے کہ وہ الیکٹیبلز کے ذریعے اقتدار میں آکر اس نظام کو تبدیل کردے گی جو بظاہر ممکن نہیں لگتا؛ کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ممبران اسمبلی جو خود اس نظام سے فائدہ لینے والے ہیں، اپنے ہی مفادات کے خلاف قانون سازی کریں گے اور احتساب کے عمل کو آگے بڑھنے دیں گے جبکہ اس کا شکنجہ ان کے گرد بھی تنگ ہوگا۔ سابقہ ایسے تجربات کامیاب نہیں ہوئے اور ایسے عناصر کے کندھوں پر کھڑی حکومت نے ہمیشہ سمجھوتہ کیا یا انہیں حکومت سے ہی ہاتھ دھونا پڑا۔
اب تک کی صورتحال سے لگتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور کسی بھی جماعت کو حکومت سازی اور قانون سازی کےلیے دوسری جماعتوں اور آزاد ارکان کے گروپ کا سہارا لینا پڑے گا۔ اگر تحریک انصاف کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود حکومت سازی کےلیے دوسری پارٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ان کی حکومت آزاد ارکان، دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں اور اپنی پارٹی میں موجود اس نظام سے مفادات لینے والے الیکٹیبلز کے سہارے کھڑی ہوگی اور اقتدار ملنے کے باوجود تبدیلی ایک خواب ہی رہے گی۔
مسلم لیگ شہباز شریف کی قیادت میں پرامید ہے کہ وہ دیگر اتحادیوں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنالے گی کیونکہ پنجاب میں اب بھی ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی پرامید ہے کہ وہ شہری سندھ میں ایم کیو ایم کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے گی اور دیہی سندھ میں اب بھی اس کی پوزیشن کو چیلنج کرنے والی جی ڈی اے میں وہ دم خم نہیں کہ وہ اسے زیادہ ٹف ٹائم دے سکے، اس لیے سندھ سے پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کرلے گی۔ کے پی، بلوچستان اور پنجاب سے بھی اسے اتنی سیٹیں حاصل ہوجائیں گی کہ کوئی بھی حکومت اس کے بغیر نہیں بن سکے گی اور وہ ایسی صورت میں بارگیننگ کی صورت میں بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم بناسکتی ہے۔ چوہدری نثار بھی آزاد ارکان کی طاقت کے ساتھ حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن میں حصہ نہ لینے کی پریس کانفرنس کرکے یورپ کے تبلیغی دورے پر چلے گئے ہیں۔ ان کا ملک سے باہر چلے جانا اور بظاہر تحریک انصاف کو ٹف ٹائم نہ دینا اس نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کو آخری موقع دینے کی سبیل لگتی ہے، کیونکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ جب تک عوام کی انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی امید دم نہ توڑ دے، وہ اس نظام کے خلاف نہیں اٹھیں گے اور ان کا پاکستان میں رہتے ہوئے عوام کو الیکشن میں حصہ نہ لینے کےلیے متحرک کرنے کا فائدہ مسلم لیگ کو ہوگا اور وہ شریف خاندان کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتے۔
میری رائے میں یہ اس نظام اور عمران خان کے پاس یہ آخری موقع ہے۔ اگر وہ اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی نہ لاسکے تو پسی ہوئی عوام کے پاس اس نظام کے خاتمے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا اور عمران خان خود بھی اس نظام میں رہنے کا جواز کھو دیں گے؛ اور انہیں احتساب، ریفارمز اور پھر انتخابات کے ایجنڈے پر آنا ہی پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔