نواز شریف مریم اور کیپٹن صفدر کی سزا کیخلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کا ریکارڈ طلب کرلیا، تفتیشی افسر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم
ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل کرنے کی اپیلوں کی سماعت کی۔ ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا اور تفتیشی افسر کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے کے خلاف نواز، مریم اور صفدر کی اپیلیں
دوران سماعت نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے، احتساب عدالت کے فیصلہ میں اثاثہ جات کی قدر و قیمت نہیں بتائی گئی، جب اثاثہ جات کی حقیقی قیمت کا علم نہ ہو تو کیسے زائد اثاثہ جات کا الزام ثابت ہو سکتا ہے، ہم نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ اور نیب کے گواہ واجد ضیاء سے بھی پوچھا کہ پراپرٹی کی قیمت بتائیں، تو وہ بھی ناکام رہے، ہم سزا کی معطلی چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ استغاثہ نے آپ کے خلاف کیا شواہد پیش کیے؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ نے صرف یہ کہا کہ نواز شریف کے بچوں کا 93-96 تک کاروبار نہیں تھا اور وہ نواز شریف کے زیر کفالت تھے، لیکن واجد ضیاء نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا کہ بچے کاروبار کے لیے والد کے زیر کفالت تھے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ٹائٹل دستاویزات ریکارڈ پر ہیں؟ ان میں مالک کون ہے؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پراپرٹی کی مالک دو کمپنیاں تھیں، اس پراپرٹی سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا شواہد و ثبوت کی کڑیاں آپس میں ملتی نہیں؟ ۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل شواہد کا لنک موجود ہی نہیں، تقاریر میں بھی نواز شریف نے نہیں کہا کہ پراپرٹی میری ہے، کسی ٹرانزیکشن پر بھی دستخط نہیں کیے، نواز شریف کی ملکیت سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے، فیصلہ پڑھیں اس میں کہیں نواز شریف کی ملکیت کا ذکر نہیں ہوگا۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا معلوم ذرائع آمدن ریکارڈ پر آ چکے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ یہی تو دلچسپ صورتحال ہے کہ معلوم ذرائع آمدن ہی ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز سے پوچھا کہ مریم کو کس بنیاد پر سزا ہوئی؟۔ امجد پرویز نے کہا کہ مریم نواز اس پراپرٹی کی مالک نہیں، صرف موزیک فونسیکا کے 2012 میں ایف آئی اے بی وی آئی کو لکھے گئے خطوط پر انحصار کیا گیا، کیپٹن صفدر کو کیلبری فانٹ کی ٹرسٹ ڈیڈ کے گواہ ہونے پر سزا سنائی گئی، ٹرسٹ ڈیڈ کے چار گواہ ہیں، سب نے ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی۔
عدالت نے شریف خاندان کے خلاف تفتیشی افسر اور استغاثہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو اگلی سماعت پر عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
ہائیکورٹ نے سماعت جولائی کے آخری ہفتہ تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جو بینچ بھی میسر ہو اس میں کیس لگایا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل کرنے کی اپیلوں کی سماعت کی۔ ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا اور تفتیشی افسر کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے کے خلاف نواز، مریم اور صفدر کی اپیلیں
دوران سماعت نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے، احتساب عدالت کے فیصلہ میں اثاثہ جات کی قدر و قیمت نہیں بتائی گئی، جب اثاثہ جات کی حقیقی قیمت کا علم نہ ہو تو کیسے زائد اثاثہ جات کا الزام ثابت ہو سکتا ہے، ہم نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ اور نیب کے گواہ واجد ضیاء سے بھی پوچھا کہ پراپرٹی کی قیمت بتائیں، تو وہ بھی ناکام رہے، ہم سزا کی معطلی چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ استغاثہ نے آپ کے خلاف کیا شواہد پیش کیے؟۔ خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ نے صرف یہ کہا کہ نواز شریف کے بچوں کا 93-96 تک کاروبار نہیں تھا اور وہ نواز شریف کے زیر کفالت تھے، لیکن واجد ضیاء نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا کہ بچے کاروبار کے لیے والد کے زیر کفالت تھے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ ٹائٹل دستاویزات ریکارڈ پر ہیں؟ ان میں مالک کون ہے؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پراپرٹی کی مالک دو کمپنیاں تھیں، اس پراپرٹی سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا شواہد و ثبوت کی کڑیاں آپس میں ملتی نہیں؟ ۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل شواہد کا لنک موجود ہی نہیں، تقاریر میں بھی نواز شریف نے نہیں کہا کہ پراپرٹی میری ہے، کسی ٹرانزیکشن پر بھی دستخط نہیں کیے، نواز شریف کی ملکیت سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے، فیصلہ پڑھیں اس میں کہیں نواز شریف کی ملکیت کا ذکر نہیں ہوگا۔
جسٹس محسن کیانی نے پوچھا کہ کیا معلوم ذرائع آمدن ریکارڈ پر آ چکے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ یہی تو دلچسپ صورتحال ہے کہ معلوم ذرائع آمدن ہی ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز سے پوچھا کہ مریم کو کس بنیاد پر سزا ہوئی؟۔ امجد پرویز نے کہا کہ مریم نواز اس پراپرٹی کی مالک نہیں، صرف موزیک فونسیکا کے 2012 میں ایف آئی اے بی وی آئی کو لکھے گئے خطوط پر انحصار کیا گیا، کیپٹن صفدر کو کیلبری فانٹ کی ٹرسٹ ڈیڈ کے گواہ ہونے پر سزا سنائی گئی، ٹرسٹ ڈیڈ کے چار گواہ ہیں، سب نے ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی۔
عدالت نے شریف خاندان کے خلاف تفتیشی افسر اور استغاثہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو اگلی سماعت پر عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
ہائیکورٹ نے سماعت جولائی کے آخری ہفتہ تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جو بینچ بھی میسر ہو اس میں کیس لگایا جائے۔