محترمہ فاطمہ جناح کی کتنی فیکٹریاں تھیں
اطلاعات کی دنیا میں جوانقلاب برپا ہوا ہے اس نے حکومتوں کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے
نئی ایجاد اور نئی دریافت ہمیشہ سماج کوآگے بڑھانے میں اپناکردار ادا کرتی ہے ۔ موجودہ صدی کے دوران ایسی حیرت انگیز ایجادات جس برق رفتاری سے جنم لے رہی ہیں ان کودیکھ کر با آسانی یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ محض اس صدی کی ایجادات لاکھوں سال کی انسانی تاریخ کی کُل ایجادات سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوں گی۔ اطلاعات کی دنیا میں ٹیکنالوجی نے ایک حیرت انگیزانقلاب برپا کر رکھا ہے۔ یہ ایک انقلاب مسلسل ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ ماضی کی دنیا میں انقلاب صدیوں کے بعدآیا کرتے تھے، اب ہر روز ایک نیا انقلاب آرہا ہے۔ سیاسی، سماجی اورمعاشی زندگی کاکون ساشعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں رونما نہ ہو رہی ہوں ۔
ابھی کچھ عرصے بلکہ صرف دس بیس سال پہلے تک لوگوں کے پاس باہمی رابطوں کے ذرایع نہایت محدود تھے۔ وہ زمانہ زیادہ پرانا نہیں ، جب ٹیلی فون لگوانے کے لیے بڑی بڑی سفارشیںکرانی پڑتی تھیں، بعض نہیں اکثر اوقات اس مقصد کے لیے اعلیٰ افسروں حتیٰ کہ وزیروں تک سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کرنی پڑتی تھی ۔ جس گھر میںفون کی لائن آجاتی تھی وہ گھر محلے میں معتبر ہو جاتا تھا۔ اکثر حضرات توفون لگنے کی خوشی میں مٹھائیاں تک تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اڑوس پڑوس کے لوگ ان گھروں سے بہتر بلکہ پرجوش تعلقات قائم رکھتے تھے جہاںٹیلی فون کی سہولت موجود ہوا کرتی تھی کہ نہ جانے کب کسی مشکل صورتحال میں وہاں سے فون استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجائے ۔ اس زمانے میںکسی شہر یا بیرون ملک بات کرنے کے لیے ٹرنک کال بک کرانی پڑتی تھی۔ ٹیلی فون آپریٹرکی خصوصی اہمیت ہواکرتی تھی ۔
شہر کے اہم اور با اثرافراد اس سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے کہ بہ وقت ضرورت نہ صرف ان کی مطلوبہ کال جلد ملوا دی جائے بلکہ زیادہ دیر تک بات بھی ہوسکے اور اس کی ادائیگی بھی معمولی کرنی پڑے ۔آج بھی آپ کو اپنے آس پاس اس دورکے ریٹائرڈ ٹیلی فون آپریٹر مل جائیں گے جو سرد آہیں بھرکر ماضی کے سنہری دنوںکو یاد کیا کرتے ہیں ۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ لوگ گھروںمیں فون لگوانا پسند نہیں کرتے۔جن گھروں کے بڑے اور بزرگ ابھی زندہ ہیں وہاں پہلے کے لگے ہوئے یہ فون ابھی تک موجود ہیں لیکن جہاں یہ بزرگ اب زندہ نہیں ان گھروں سے فون بھی انتقال کرچکا ہے ۔
اب سیل فون کا زمانہ ہے، اسمارٹ فون تقریبا سب کے پاس ہے کیونکہ اس کی قیمت دن بہ دن کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں جس سے جب چاہیں رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ آڈیواوروڈیوکالزعام ہیں ۔ سماجی رابطوںکی ایسی سائٹس قائم ہوگئی ہیں ، جن کے ذریعے صارف دنیا میںکسی بھی جگہ مفت بات کرسکتا ہے یا اپناپیغام پہنچا سکتا ہے۔ اس حوالے سے فیس بک، میسنجر اورواٹس ایپ کی بڑی شہرت ہے اوردنیاکی آدھی سے زیادہ آبادی سماجی رابطوں کے ان ذرایع کواستعمال کر رہی ہے۔
اطلاعات کی دنیا میں جوانقلاب برپا ہوا ہے اس نے حکومتوں کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔ بالخصوص ایسی آمرانہ حکومتیں یا ادارے زیادہ پریشان نظرآتے ہیں جن کے لیے اظہار رائے کی آزادی ہمیشہ ایک خطرہ بنی رہتی ہے۔ماضی قریب میں اطلاعات اور خبروںکوروکنا بہت آسان تھا۔ ایسی حکومتیں جوجمہوریت کواپنے لیے ایک خطرہ تصورکرتی تھیں وہ محض ایک حکم کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی ختم کرنے کی صلاحیت اورطاقت رکھتی تھیں۔ اب صورتحال کافی حد تک تبدیل ہوئی ہے ۔ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں باآسانی رابطہ قائم کرلیتے ہیںاورچشم زدن میںکوئی بھی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
نوازشریف کی لاہورآمد پرشہرمیں موبائیل اور انٹرنیٹ سروس بندکردی گئی تھی، اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا بھی دباؤ میں تھا ۔نوازشریف کی آمد کی لمحہ بہ لمحہ کوریج تقریباً ناممکن تھی لیکن اس کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگ صورتحال سے آگاہ رہے۔ تاہم، یہ اوربات ہے کہ مذکورہ پابندیاں عائد نہ کی جاتیں تو سیاسی منظرنامہ کچھ اور زیادہ دلکش ہوتا۔ لوگوں نے پورے واقعے کی وڈیوفلمیں بنائیںاورانھیں پوری دنیا میں پھیلا دیا جن میں بعض وائرل ہوگئیں جنھیں ہزاروں لوگوں نے دیکھا اورتبصرے کیے۔ لہٰذا یہ عارضی پابندی بھی زیادہ کارگر ثابت نہیںہوئی ۔ وہ دن بھی زیادہ دورنہیںہے جب خلائی سیارے وائی فائی کی سہولتیں فراہم کریںگے اور لوگوںکو انٹرنیٹ کمپنیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا ۔
افریقہ کے دوردراز علاقوں میں بڑے بڑے غباروںکے ذریعے وائی فائی کی سہولت ان افریقیوں کوفراہم کی جانے لگی ہیں جوآج بھی ماضی بعیدکی دنیا میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ عرض مدعا یہ ہے کہ بہت جلد حکومتیں، اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بندکرنے کی طاقت اورصلاحیت سے بھی محروم ہوجائیںگی۔
جب سے نوازشریف نے سول بالادستی کے لیے ایک ٹھوس موقف اپنایا ہے اس کے بعد سے ملک میں ذرایع ابلاغ ایک دباؤکی کیفیت میں ہیں ۔ بعض دیدہ اور نادیدہ اقدامات کے ذریعے نوازشریف کے سیاسی موقف کو زیادہ بھرپور طریقے سے پیش کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس نوع کے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیںہوگا ۔ اطلاعات کاانقلاب پوری دنیا میں ہر رکاوٹ کوبہاکرلے جارہا ہے۔ ہم اپنے ملک میں بعض خبروںکوروک سکتے ہیںلیکن یہ نہیںسمجھتے کہ عالمی ذرایع ابلاغ کے ذریعے تمام خبریںلوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ ان دیکھی پابندیاںعائد نہ ہوتیںتوعالمی میڈیا میں نوازشریف کی آمد کواتنی بڑی کوریج نہ ملتی ۔ پاکستان کے ذرایع ابلاغ کی راہ میں رکاوٹیںحائل کرنے سے کیاحاصل ہوا ؟کوئی خبرچھپائی نہ جا سکی، نواز شریف کی آمد ایک بڑا عالمی واقعہ بن گیا اور پوری دنیا میں حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔
اگرنوازشریف کی جماعت کوان کا استقبال کرنے دیا جاتا، موبائیل فون، انٹرنیٹ سروس اوردیگرنوعیت کی انتظامی پابندیاںعائد نہ کی جاتیں تو نگراں حکومت یا نوازشریف کی مخالف قوتوں کودنیا سے داد ملتی اوران کی ساکھ خراب ہونے کے بجائے بہترہوتی۔ یہ سادہ سی بات تھی لیکن سمجھ میںنہیںآئی۔ ہماری زندگیوں میں بڑے بحران بسا اوقات اس لیے پیدا ہوتے ہیںکہ ہم سادہ اورآسان سی بات کوبھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سادہ سی بات یہ تھی کہ 1970کے الیکشن میں جس جماعت کو اکثریت ملی تھی حکومت اس کے سپردکردی جاتی ۔ یہ بات نہیںسمجھی گئی اور پاکستان ٹوٹ گیا ۔ سادہ سی بات ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کااحترام نہ کیا جائے توسیاسی بحران جنم لیتا ہے اورملک عذاب میںگرفتار ہو جاتا ہے لیکن یہ سیدھی اورسادہ سی بات بھی وہ لوگ نہیں سمجھتے جنھیں اس کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بات نکلی تھی کہ جدید دنیا کے اطلاعاتی انقلاب کے بعد غیر جمہوری حکومتوںاورطاقتوںکے لیے اظہار رائے کی آزادی کو محدود یا مسدود کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 21 ویںصدی کے حقائق اپنی جگہ لیکن مجھے سماجی رابطے کے کسی ذریعے پرایک پوسٹ پڑھ کراس موضوع پر لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی کہ حکومتیںجن حقائق کو پابندیوں کے ذریعے لوگوںکے سامنے آنے سے روکناچاہتی ہیں وہ حقائق زیادہ زورداراندازمیں پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جن سوالات کو دبانا مقصود ہوتا ہے وہ زیادہ طاقت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ مذکورہ پوسٹ آپ سے بھی شیئر کرکے میںاپنا کالم ختم کرتی ہوں۔
''ٹوپی ڈرامہ''
لیاقت علی خان کی کون سے پراپرٹی تھی ؟
خواجہ ناظم الدین نے کیاکرپشن کی تھی ؟
حسین شہید سہروردی کے کون سے بچے زیرکفالت تھے ؟
محترمہ فاطمہ جناح کی کتنی فیکٹریاںتھیں ؟
شیخ مجیب کے کتنے فلیٹ تھے ؟
ذوالفقارعلی بھٹو کا اقامہ کب نکلا تھا ؟
محمد خان جونیجو پرکیا مقدمات تھے؟
بے نظیربھٹو نے کون سے منی ٹریل جمع نہیں کرائی تھی ؟
ابھی کچھ عرصے بلکہ صرف دس بیس سال پہلے تک لوگوں کے پاس باہمی رابطوں کے ذرایع نہایت محدود تھے۔ وہ زمانہ زیادہ پرانا نہیں ، جب ٹیلی فون لگوانے کے لیے بڑی بڑی سفارشیںکرانی پڑتی تھیں، بعض نہیں اکثر اوقات اس مقصد کے لیے اعلیٰ افسروں حتیٰ کہ وزیروں تک سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کرنی پڑتی تھی ۔ جس گھر میںفون کی لائن آجاتی تھی وہ گھر محلے میں معتبر ہو جاتا تھا۔ اکثر حضرات توفون لگنے کی خوشی میں مٹھائیاں تک تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اڑوس پڑوس کے لوگ ان گھروں سے بہتر بلکہ پرجوش تعلقات قائم رکھتے تھے جہاںٹیلی فون کی سہولت موجود ہوا کرتی تھی کہ نہ جانے کب کسی مشکل صورتحال میں وہاں سے فون استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجائے ۔ اس زمانے میںکسی شہر یا بیرون ملک بات کرنے کے لیے ٹرنک کال بک کرانی پڑتی تھی۔ ٹیلی فون آپریٹرکی خصوصی اہمیت ہواکرتی تھی ۔
شہر کے اہم اور با اثرافراد اس سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے کہ بہ وقت ضرورت نہ صرف ان کی مطلوبہ کال جلد ملوا دی جائے بلکہ زیادہ دیر تک بات بھی ہوسکے اور اس کی ادائیگی بھی معمولی کرنی پڑے ۔آج بھی آپ کو اپنے آس پاس اس دورکے ریٹائرڈ ٹیلی فون آپریٹر مل جائیں گے جو سرد آہیں بھرکر ماضی کے سنہری دنوںکو یاد کیا کرتے ہیں ۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ لوگ گھروںمیں فون لگوانا پسند نہیں کرتے۔جن گھروں کے بڑے اور بزرگ ابھی زندہ ہیں وہاں پہلے کے لگے ہوئے یہ فون ابھی تک موجود ہیں لیکن جہاں یہ بزرگ اب زندہ نہیں ان گھروں سے فون بھی انتقال کرچکا ہے ۔
اب سیل فون کا زمانہ ہے، اسمارٹ فون تقریبا سب کے پاس ہے کیونکہ اس کی قیمت دن بہ دن کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں جس سے جب چاہیں رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ آڈیواوروڈیوکالزعام ہیں ۔ سماجی رابطوںکی ایسی سائٹس قائم ہوگئی ہیں ، جن کے ذریعے صارف دنیا میںکسی بھی جگہ مفت بات کرسکتا ہے یا اپناپیغام پہنچا سکتا ہے۔ اس حوالے سے فیس بک، میسنجر اورواٹس ایپ کی بڑی شہرت ہے اوردنیاکی آدھی سے زیادہ آبادی سماجی رابطوں کے ان ذرایع کواستعمال کر رہی ہے۔
اطلاعات کی دنیا میں جوانقلاب برپا ہوا ہے اس نے حکومتوں کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔ بالخصوص ایسی آمرانہ حکومتیں یا ادارے زیادہ پریشان نظرآتے ہیں جن کے لیے اظہار رائے کی آزادی ہمیشہ ایک خطرہ بنی رہتی ہے۔ماضی قریب میں اطلاعات اور خبروںکوروکنا بہت آسان تھا۔ ایسی حکومتیں جوجمہوریت کواپنے لیے ایک خطرہ تصورکرتی تھیں وہ محض ایک حکم کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی ختم کرنے کی صلاحیت اورطاقت رکھتی تھیں۔ اب صورتحال کافی حد تک تبدیل ہوئی ہے ۔ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں باآسانی رابطہ قائم کرلیتے ہیںاورچشم زدن میںکوئی بھی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
نوازشریف کی لاہورآمد پرشہرمیں موبائیل اور انٹرنیٹ سروس بندکردی گئی تھی، اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا بھی دباؤ میں تھا ۔نوازشریف کی آمد کی لمحہ بہ لمحہ کوریج تقریباً ناممکن تھی لیکن اس کے باوجود جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگ صورتحال سے آگاہ رہے۔ تاہم، یہ اوربات ہے کہ مذکورہ پابندیاں عائد نہ کی جاتیں تو سیاسی منظرنامہ کچھ اور زیادہ دلکش ہوتا۔ لوگوں نے پورے واقعے کی وڈیوفلمیں بنائیںاورانھیں پوری دنیا میں پھیلا دیا جن میں بعض وائرل ہوگئیں جنھیں ہزاروں لوگوں نے دیکھا اورتبصرے کیے۔ لہٰذا یہ عارضی پابندی بھی زیادہ کارگر ثابت نہیںہوئی ۔ وہ دن بھی زیادہ دورنہیںہے جب خلائی سیارے وائی فائی کی سہولتیں فراہم کریںگے اور لوگوںکو انٹرنیٹ کمپنیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا ۔
افریقہ کے دوردراز علاقوں میں بڑے بڑے غباروںکے ذریعے وائی فائی کی سہولت ان افریقیوں کوفراہم کی جانے لگی ہیں جوآج بھی ماضی بعیدکی دنیا میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ عرض مدعا یہ ہے کہ بہت جلد حکومتیں، اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بندکرنے کی طاقت اورصلاحیت سے بھی محروم ہوجائیںگی۔
جب سے نوازشریف نے سول بالادستی کے لیے ایک ٹھوس موقف اپنایا ہے اس کے بعد سے ملک میں ذرایع ابلاغ ایک دباؤکی کیفیت میں ہیں ۔ بعض دیدہ اور نادیدہ اقدامات کے ذریعے نوازشریف کے سیاسی موقف کو زیادہ بھرپور طریقے سے پیش کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس نوع کے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیںہوگا ۔ اطلاعات کاانقلاب پوری دنیا میں ہر رکاوٹ کوبہاکرلے جارہا ہے۔ ہم اپنے ملک میں بعض خبروںکوروک سکتے ہیںلیکن یہ نہیںسمجھتے کہ عالمی ذرایع ابلاغ کے ذریعے تمام خبریںلوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ ان دیکھی پابندیاںعائد نہ ہوتیںتوعالمی میڈیا میں نوازشریف کی آمد کواتنی بڑی کوریج نہ ملتی ۔ پاکستان کے ذرایع ابلاغ کی راہ میں رکاوٹیںحائل کرنے سے کیاحاصل ہوا ؟کوئی خبرچھپائی نہ جا سکی، نواز شریف کی آمد ایک بڑا عالمی واقعہ بن گیا اور پوری دنیا میں حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔
اگرنوازشریف کی جماعت کوان کا استقبال کرنے دیا جاتا، موبائیل فون، انٹرنیٹ سروس اوردیگرنوعیت کی انتظامی پابندیاںعائد نہ کی جاتیں تو نگراں حکومت یا نوازشریف کی مخالف قوتوں کودنیا سے داد ملتی اوران کی ساکھ خراب ہونے کے بجائے بہترہوتی۔ یہ سادہ سی بات تھی لیکن سمجھ میںنہیںآئی۔ ہماری زندگیوں میں بڑے بحران بسا اوقات اس لیے پیدا ہوتے ہیںکہ ہم سادہ اورآسان سی بات کوبھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سادہ سی بات یہ تھی کہ 1970کے الیکشن میں جس جماعت کو اکثریت ملی تھی حکومت اس کے سپردکردی جاتی ۔ یہ بات نہیںسمجھی گئی اور پاکستان ٹوٹ گیا ۔ سادہ سی بات ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کااحترام نہ کیا جائے توسیاسی بحران جنم لیتا ہے اورملک عذاب میںگرفتار ہو جاتا ہے لیکن یہ سیدھی اورسادہ سی بات بھی وہ لوگ نہیں سمجھتے جنھیں اس کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بات نکلی تھی کہ جدید دنیا کے اطلاعاتی انقلاب کے بعد غیر جمہوری حکومتوںاورطاقتوںکے لیے اظہار رائے کی آزادی کو محدود یا مسدود کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 21 ویںصدی کے حقائق اپنی جگہ لیکن مجھے سماجی رابطے کے کسی ذریعے پرایک پوسٹ پڑھ کراس موضوع پر لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی کہ حکومتیںجن حقائق کو پابندیوں کے ذریعے لوگوںکے سامنے آنے سے روکناچاہتی ہیں وہ حقائق زیادہ زورداراندازمیں پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جن سوالات کو دبانا مقصود ہوتا ہے وہ زیادہ طاقت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ مذکورہ پوسٹ آپ سے بھی شیئر کرکے میںاپنا کالم ختم کرتی ہوں۔
''ٹوپی ڈرامہ''
لیاقت علی خان کی کون سے پراپرٹی تھی ؟
خواجہ ناظم الدین نے کیاکرپشن کی تھی ؟
حسین شہید سہروردی کے کون سے بچے زیرکفالت تھے ؟
محترمہ فاطمہ جناح کی کتنی فیکٹریاںتھیں ؟
شیخ مجیب کے کتنے فلیٹ تھے ؟
ذوالفقارعلی بھٹو کا اقامہ کب نکلا تھا ؟
محمد خان جونیجو پرکیا مقدمات تھے؟
بے نظیربھٹو نے کون سے منی ٹریل جمع نہیں کرائی تھی ؟