ملی بھگت
مسلم لیگ ن کی تاریخ گواہ ہے کہ انھیں حماقتیں کرنے میں انتہائی مہارت حاصل ہے
لاہور میں میاں نواز شریف کی آمد پر ایئر پورٹ سے بہت دور رہنے کی ذمے داری اگر مسلم لیگی قیادت پر ڈالی جا رہی ہے تو یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ دراصل مسلم لیگی قیادت کا ہر قدم اپنے کارکنوں کو مایوس اور دل برداشتہ کر رہا ہے اور اب دبے دبے الفاظ میں اندرون خانہ شہباز شریف پر تنقید ہورہی ہے ، رکاوٹیں آسانی سے ہٹائی جارہی تھیں کرینوں سے کنٹینر ہٹا کر لوگ دوسرے شہروں سے پہنچ چکے تھے لیکن لیگی قیادت نے نوازشریف کی گرفتاری تک خود کو ایئر پورٹ سے بہت زیادہ دور رکھا اگر وہ چاہتے تو ایئر پورٹ کے حفاظتی حصار سے کچھ فاصلے تک اپنی ریلی کو لے جاسکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور اپنی ہی ریلی ایک مذاق بن کررہ گئی۔
مخالفین خوب تنقید کررہے ہیں نوازشریف کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگی حلقوں میں شدید مایوسی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ صبح سے یہ دعویٰ ہو رہا تھا کہ ہم ہر رکاوٹ عبورکرکے ایئر پورٹ پہنچیں گے لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارا شو ملی بھگت سے ہو رہا تھا اورانتظامیہ کو یہ باورکرا دیا گیا تھا کہ ہم ایئرپورٹ سے کئی میل دور اپنا پروگرام ختم کردیں گے اب مسلم لیگی قیادت جوکچھ کہے گی اس پر کون اعتبار کرے گا؟ بعض مسلم لیگی قائدین صرف اس بات کی فکر میں ہیں کہ کسی طرح وہ اسمبلی کی نشست حاصل کرلیں چاہے انھیں نوازشریف سے قطع تعلق ہی کیوں نہ کرنا پڑے لہذا صرف ووٹ کی خاطر فی الحال نوازشریف کا نام استعمال کیاجائے ۔ مسلم لیگ ن کا اندرونی خلفشار اس قدر زیادہ ہے کہ کون کس قیادت کے ساتھ ہے یہ کسی کو نہیں معلوم ہے۔
سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹرکھل کر یہ بات کر رہے ہیں جو کچھ لاہور میں نوازشریف کی گرفتاری کے موقعے پر ہوا وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی مرضی کا تیارکردہ اسکرپٹ تھا منصوبہ بندی سے بنا یا گیا شو تھا ۔ تماشا تھاصرف اس میں ایک خامی تھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ منصوبہ بری طرح بے نقاب ہو سکتا ہے اگر اب ہرگلی محلے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اندر سے سب ملے ہوئے ہیں تو اس میں کسی کوکوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔ انتخابات میں چند روز باقی ہیں۔
ایسے موقعے پر وہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر ائیر پورٹ کے باہر کسی مناسب جگہ کو طے کر کے اپنے کارکنوں کو وہاں جمع کرتے اور یہ یقین دہانی کرا دیتے تو زیادہ بہتر تماشا لگایا جا سکتا تھا اور اپنا کم ازکم مذا ق بنایا جاتا اور اس قدر جگ ہنسائی نہ ہوتی ۔ صبح سے ٹی وی دکھا رہا تھا کہ خیبر پختون خوا ، راولپنڈی ،فیصل آباد ، گجرات ، ساہیوال اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے کارکن آ رہے تھے اور وہ سب کسی نہ کسی طرح بروقت لاہور پہنچ بھی گئے تھے لیکن اس کے باوجود اس قدر مایوس کن ناکام شو پیش کرنا مسلم لیگ قیادت کی ناکامی تھی یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اندرون خانہ انتظامیہ سے معاملات طے کیے جاتے ہیں لیکن اس قدر ملی بھگت جوکہ لمحے بھر میں بے نقاب ہوگئی اس کا واضح مطلب غیر موثر سیاسی حکمت عملی ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگی قیادت یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکی کہ نوازشریف کی متبادل قیادت لائی جائے یا نہیں لائی جائے اور اگر لائی جائے تو ان کا اپنا کیا مقام ہوگا ۔ نشستوں ، اختیارات اور عہدے کی جنگ نچلی سطح تک جا پہنچی ہے ایک حلقے کو نئی قیادت سے امید مل رہی ہے دوسرے حلقے کی امید اب بھی نوازشریف سے وابستہ ہے اگر یہ حالات جاری رہے تو آنے والا وقت خود مسلم لیگ ن کے لیے انتہائی مشکل ترین ہے اگر ووٹر کو ان سارے معاملات کا احساس ہواکہ ان کا امیدوار ملی بھگت کے کھیل میں پوری طرح شامل ہے تو وہ کسی طرح بھی اپنے رد عمل کا اظہار کر سکتا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی کشتی میں جو سوراخ پہلے ہو گئے تھے اس میں اضافہ خود مسلم لیگ ن کے بعض رہنما اپنی نا قص حکمت عملی اور بہت زیادہ جلد بازی سے کر رہے ہیں۔ سیاسی عمل میں انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔ مر بوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا ہے اگر وہ خود ہی اپنے عجیب و غریب طرز عمل سے انتخابات میں ناکامی کے حالات پیدا کر رہے ہیں توکسی اور کو اس کا ذمے دار قرار دینا مزید حماقت ہو گی ۔
مسلم لیگ ن کی تاریخ گواہ ہے کہ انھیں حماقتیں کرنے میں انتہائی مہارت حاصل ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی حماقتوں کو سمجھ داری ، دور اندیشی ، دانش مندی قرار دیتے پھرتے ہیں اور مزید حماقتوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اصل میں ان کی تاریخ سے لاعلمی سب سے بڑا المیہ ہے نپولین کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولا جا سکتا ہے کہ ''خداکرے کہ میرا بیٹا تاریخ کا مطالعہ کرے کیونکہ تاریخ ہی صحیح فلسفہ ہے'' تاریخ ہی کی مدد سے ہم انسان کی صحیح فطرت کے متعلق نفیسات اور فلسفے سے زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور انسانوں کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں اور ساتھ ہی حالات و واقعات کا عقلی تجزیہ کرتے ہیں ، لیکن جب ہم تاریخ سے آگاہ اور واقف نہیں ہوتے ہیں تو پھر مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح فیصلے اور اقدامات کرتے ہیں اور پھر ملی بھگت کرتے پھرتے ہیں۔
مخالفین خوب تنقید کررہے ہیں نوازشریف کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگی حلقوں میں شدید مایوسی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ صبح سے یہ دعویٰ ہو رہا تھا کہ ہم ہر رکاوٹ عبورکرکے ایئر پورٹ پہنچیں گے لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارا شو ملی بھگت سے ہو رہا تھا اورانتظامیہ کو یہ باورکرا دیا گیا تھا کہ ہم ایئرپورٹ سے کئی میل دور اپنا پروگرام ختم کردیں گے اب مسلم لیگی قیادت جوکچھ کہے گی اس پر کون اعتبار کرے گا؟ بعض مسلم لیگی قائدین صرف اس بات کی فکر میں ہیں کہ کسی طرح وہ اسمبلی کی نشست حاصل کرلیں چاہے انھیں نوازشریف سے قطع تعلق ہی کیوں نہ کرنا پڑے لہذا صرف ووٹ کی خاطر فی الحال نوازشریف کا نام استعمال کیاجائے ۔ مسلم لیگ ن کا اندرونی خلفشار اس قدر زیادہ ہے کہ کون کس قیادت کے ساتھ ہے یہ کسی کو نہیں معلوم ہے۔
سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹرکھل کر یہ بات کر رہے ہیں جو کچھ لاہور میں نوازشریف کی گرفتاری کے موقعے پر ہوا وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی مرضی کا تیارکردہ اسکرپٹ تھا منصوبہ بندی سے بنا یا گیا شو تھا ۔ تماشا تھاصرف اس میں ایک خامی تھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ منصوبہ بری طرح بے نقاب ہو سکتا ہے اگر اب ہرگلی محلے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اندر سے سب ملے ہوئے ہیں تو اس میں کسی کوکوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔ انتخابات میں چند روز باقی ہیں۔
ایسے موقعے پر وہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر ائیر پورٹ کے باہر کسی مناسب جگہ کو طے کر کے اپنے کارکنوں کو وہاں جمع کرتے اور یہ یقین دہانی کرا دیتے تو زیادہ بہتر تماشا لگایا جا سکتا تھا اور اپنا کم ازکم مذا ق بنایا جاتا اور اس قدر جگ ہنسائی نہ ہوتی ۔ صبح سے ٹی وی دکھا رہا تھا کہ خیبر پختون خوا ، راولپنڈی ،فیصل آباد ، گجرات ، ساہیوال اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے کارکن آ رہے تھے اور وہ سب کسی نہ کسی طرح بروقت لاہور پہنچ بھی گئے تھے لیکن اس کے باوجود اس قدر مایوس کن ناکام شو پیش کرنا مسلم لیگ قیادت کی ناکامی تھی یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اندرون خانہ انتظامیہ سے معاملات طے کیے جاتے ہیں لیکن اس قدر ملی بھگت جوکہ لمحے بھر میں بے نقاب ہوگئی اس کا واضح مطلب غیر موثر سیاسی حکمت عملی ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگی قیادت یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکی کہ نوازشریف کی متبادل قیادت لائی جائے یا نہیں لائی جائے اور اگر لائی جائے تو ان کا اپنا کیا مقام ہوگا ۔ نشستوں ، اختیارات اور عہدے کی جنگ نچلی سطح تک جا پہنچی ہے ایک حلقے کو نئی قیادت سے امید مل رہی ہے دوسرے حلقے کی امید اب بھی نوازشریف سے وابستہ ہے اگر یہ حالات جاری رہے تو آنے والا وقت خود مسلم لیگ ن کے لیے انتہائی مشکل ترین ہے اگر ووٹر کو ان سارے معاملات کا احساس ہواکہ ان کا امیدوار ملی بھگت کے کھیل میں پوری طرح شامل ہے تو وہ کسی طرح بھی اپنے رد عمل کا اظہار کر سکتا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی کشتی میں جو سوراخ پہلے ہو گئے تھے اس میں اضافہ خود مسلم لیگ ن کے بعض رہنما اپنی نا قص حکمت عملی اور بہت زیادہ جلد بازی سے کر رہے ہیں۔ سیاسی عمل میں انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔ مر بوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا ہے اگر وہ خود ہی اپنے عجیب و غریب طرز عمل سے انتخابات میں ناکامی کے حالات پیدا کر رہے ہیں توکسی اور کو اس کا ذمے دار قرار دینا مزید حماقت ہو گی ۔
مسلم لیگ ن کی تاریخ گواہ ہے کہ انھیں حماقتیں کرنے میں انتہائی مہارت حاصل ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی حماقتوں کو سمجھ داری ، دور اندیشی ، دانش مندی قرار دیتے پھرتے ہیں اور مزید حماقتوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اصل میں ان کی تاریخ سے لاعلمی سب سے بڑا المیہ ہے نپولین کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولا جا سکتا ہے کہ ''خداکرے کہ میرا بیٹا تاریخ کا مطالعہ کرے کیونکہ تاریخ ہی صحیح فلسفہ ہے'' تاریخ ہی کی مدد سے ہم انسان کی صحیح فطرت کے متعلق نفیسات اور فلسفے سے زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور انسانوں کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں اور ساتھ ہی حالات و واقعات کا عقلی تجزیہ کرتے ہیں ، لیکن جب ہم تاریخ سے آگاہ اور واقف نہیں ہوتے ہیں تو پھر مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرح فیصلے اور اقدامات کرتے ہیں اور پھر ملی بھگت کرتے پھرتے ہیں۔