بزم صبوحی
اشرف صبوحی نے مزاحیہ افسانے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ایسے دو مضامین اس کتاب میں شامل ہیں
''بزم صبوحی'' اشرف صبوحی دہلوی کی نمایندہ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ صبوحی کی شخصیت اور فن کا جائزہ ڈاکٹر اسلم فرخی نے لیا ہے اور ان کی نمایندہ تحریروں کا انتخاب آصف فرخی کا ہے۔ کتاب میں محمد حسن عسکری کا یہ تبصرہ بھی شامل ہے کہ اس وقت زندوں میں انھیں ایسا کوئی نام یاد نہیں آرہا ہے جو اشرف صبوحی سے بہتر نثر لکھتا ہو، ایسی نثر جو تخیل کی زبان ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں۔ ''صبوحی صاحب کی نثر بڑی چوکھی اور گھٹی ہوئی ہے۔ انھوں نے اس پر محنت بھی بہت کی ہے۔ مولویانہ انداز سے روزمرہ اور محاورے پر آنے میں انھیں بڑی جانکاری سے کام کرنا پڑا ہے۔ صبوحی نے جن موضوعات کو اپنے لیے مخصوص کیا اپنی نثر کو بھی انھیں کے مطابق ڈھالا۔ ان سب سے کامیاب پرائیہ اظہار خاکہ نگاری اور ماضی کی یافت ہے۔ ان کی نثر بھی ان موضوعات میں منہ سے بولتی محسوس ہوتی ہے۔ ستھری، نکھری، فنکارانہ مشاہدے اور ظاہر سے باطن تک کا احاطہ کرنے والی، فقروں میں پھلجھڑیاں چھوڑتی محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان پھلجھڑیوں سے ہاتھ ہی نہیں دل بھی جلنے لگتے ہیں۔ صبوحی صاحب کی تحریروں میں خیر و شر کی کشمکش بہت نمایاں ہے۔ مقصدی انداز کی بحثیں ہیں۔''
اشرف صبوحی نے مزاحیہ افسانے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ایسے دو مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ وہ شگفتہ مزاج انسان تھے۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔ اسلم فرخی کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کا چوتھا اور پانچواں عشرہ صبوحی صاحب کے اسلوب کی پختگی اور ان کے فنی عروج کا دور تھا۔ اس عہد میں انھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں، خاکے بھی لکھے، مضامین و افسانے بھی لکھے۔ ترجمے بھی کیے۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں 1943ء میں شایع ہوئی خاکوں اور افسانوں کا مجموعہ ''جھروکے'' 1944ء میں شایع ہوا۔
اسلم فرخی لکھتے ہیں ''صبوحی صاحب نے اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا جو شاہی عہد کے دیکھنے والوں کی یادگار تھے۔ انھیں ان لوگوں سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ ان لوگوں کی باتوں میں انھیں لطف آتا تھا۔ اد بداکر ایسے ہی لوگوں میں بیٹھتے یا ان کی باتیں سنتے۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں جنم جنم کا بوڑھا ہوں۔ مجھے انھیں لوگوں کی باتوں میں مزا آتا ہے۔
''صبوحی صاحب کی سکونت جامع مسجد کے سامنے چوڑی والوں میں تخت والی گلی میں تھی۔ جامع مسجد کا یہ علاقہ دلی کا دل تھا۔ ہر فن کے صاحبان کمال یہاں موجود تھے۔ ادیب، شاعر، عالم، فاضل، حکیم، درویش، پہلوان، موسیقار، خوش نویس، اہل حرفہ، ساری خدائی یہاں نظر آتی تھی۔ صبوحی صاحب نے ان سب کی اور زمانے کی خوب سیر کی جس بوڑھے سے ملے، حالات کرید کرید کر پوچھے۔ ان کے طرز احساس کو دل و دماغ میں اتارلیا۔ بچپن میں ماں اور نانی سے شاہجہان آباد کی سرگزشت سنی تھی جوانی میں بوڑھوں کی زبانی حالات سنے۔ وضع داری کے نمونے دیکھے، دلی کے میلوں ٹھیلوں اور تماشوں میں شریک ہوئے۔ نئے زمانے کے ہوتے ہوئے پرانے عہد کے طلسم میں ڈوبے رہے۔''
اسلم فرخی نے اشرف صبوحی کی شخصی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بڑے وضع دار بزرگ تھے۔ اعزا پر جان چھڑکتے تھے، دوستوں اور غیروں سب کے لیے خلیق تھے۔ حد درجہ مفکر المزاج، صوم و صلوٰۃ کے پابند، حج کی سعادت بھی حاصل کرچکے تھے۔ دنیاوی اعتبار سے صبوحی صاحب کی زندگی میں یکسانیت، ہمواری اور سادگی تھی۔ ایک خط مستقیم نہ کوئی پیچ نہ موڑ۔ دلی میں پیدا ہوئے، دلی ہی میں رہے۔ پاکستان وجود میں آیا تو لاہور آگئے۔ زندگی کے آخری چند سال کراچی میں گزارے اور یہی پیوند خاک ہوئے۔
آصف فرخی نے ''بزم صبوحی'' کے لیے ان کی جو تحریریں منتخب کی ہیں ان میں ان کا پہلا اور آخری مضمون بھی ہے۔ دوسری تحریروں میں جو ان کی نثر کی نمایندہ ہیں ۔ میر باقر علی، مٹھو بھٹیارا، سیدانی بی ، بانکے مرزا ، دیوانی آپا ، مرزا طاؤس ، حاجی بغلول لاہور میں ، موقع خیال ،مرزا محمد سعید ، برادرم شاہد دہلوی ، بازارشوق ، صاحب عالم شامل ہیں۔
میر باقر علی داستان گو تھے۔ ان کی مجلس کا حال اشرف صبوحی بیان کرتے ہیں۔ ''اس مختصر سی مجلس میں یہ صاحب کے کئی ہم مشرب یعنی چنیا بیگم کے عاشق بھی تھے۔ میر صاحب کو گھولوے کی لت کب سے تھی اور کس طرح لگی اس کا تو علم نہیں مگر تھی اور اس حد تک تھی کہ بغیر نشہ گھٹے داستان نہیں کہہ سکتے تھے۔ البتہ اور باتیں افیمیوں کی سی نہ تھیں، مزاج صفائی پسند تھا۔ طبیعت میں بھی کثافت نہیں تھی۔ جب پیالی چڑھاکر داستان کہنے بیٹھتے تو انجانوں کو افیمی ہونے کا شبہ بھی نہ ہوتا۔ میر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ سطحی نظر والے جانتے ہی نہیں کہ افیم کیا ہے؟ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ دیکھنے میں کالی اور مزے میں کڑوی ایک شے ہے جسے اہل ظاہر نے مکروہ کہہ دیا ہے۔ انھیں کیا خبر کہ اس چوگے میں ایک زبردست فلسفہ ایک اعلیٰ مذہب بند ہے۔ مردانِ خدا سے پوچھو اس کا باطن کیا لالوں لال ہے، جہاں اسے گھولنا شروع کیا دوستی، اخلاق اورتزکیہ نفس کی بنیاد پڑی سرکش سے سرکش اور ظالم سے ظالم انسان رحم کا پتلا اور خدا ترس بن جاتا ہے۔''
''مرقع خیال'' میں دنیا کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔ '' یہ قید خانہ یا دنیا ایک طلسم تھا۔ محبت ، نفرت ، دوستی ، دشمنی ، پاکی، ناپاکی، رحم، ظلم، امن، خون، خوشی، رنج، راحت، مصیبت، وفا، جفا، رنگ برنگ کے جذبات اس کی فضا میں تیرتے پھرتے تھے۔ قضا و قدرکی پوشیدہ ہاتھ کارگزاریاں کررہے تھے۔ آگ ، پانی ، خاک اور ہوا کے متضاد تعلقات، سودا، صفرا، بلغم اور خون کی مربع چادر میں لپٹے ہوئے خاک کے پتلوں کا مزاج بگاڑنے پر تیار تھے۔ خواہشات کا بازار لگا ہوا تھا۔ جدھر نظر جاتی تھی خود غرضی کا میلہ دکھائی دیتا تھا۔ صورت پرست، سیرت فروشوں کے مال کا سودا کررہے تھے۔ سیرت فروش صورت پرستوں پر دام لگارہے تھے۔ حال سے قال اور قال سے حال تک کل شکلیں اپنی اپنی دھن میں مستغرق تھیں۔''
''مٹھو بھٹیارا'' اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ وہ اس کا کردار کا تعارف یوں کراتے ہیں۔ ''میاں مٹھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا۔ کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں۔ ڈھائی ڈھوئی کے منیہ سے پہلے کی بات ہے۔ ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوںگے مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹھو کہہ کر پکارتا اور انھیں بھی اسی نام سے بولتے دیکھا۔ میاں مٹھو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں۔ دلی میں محلے محلے میں جن کی دکانیں ہوتی ہیں۔ تنور میں روٹیاں لگتی ہیں اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے، نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹی پکانی شروع کردی۔ پراٹھے تو ان کا حصہ ہے بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ دیکھنے سے منہ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھایئے۔ سبحان اﷲ، بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ''
اشرف صبوحی کی ایک تحریر ہے ''مرزا طاؤس'' لکھتے ہیں ''مرزا طاؤس کی گورنمنٹ سے پنشن نہ سہی۔ انھوں نے تیموری تورے کو کوڑیوں کے مول نہ بیچا لیکن کون ہے جو انھیں شہزادہ نہ کہے۔ ان کا نام خود گواہ ہے کہ قلعہ میں مور ہوںگے۔ اب بھی کہ نوے سے دو چار سال اوپر ہی سن ہے۔ سارے لچھن جھڑگئے ہیں، نہ رنگ نہ روپ، نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، آن بان نہیں چھوڑی، ہاتھی لٹے بھی تو ہاتھی ہی کہلائے گا۔ چال ڈھال کہاں جاتی ہے۔ رہنے کو تو محل میسر نہیں، محلوں کے خواب دیکھنے سے کون روک سکتا ہے۔ غدر نے لوٹ لیا بلا سے۔ شاہی مٹ گئی، مٹ جائے۔ حوصلے تو وہی ہیں۔ تونگری بہ دل است نہ بہ مال۔ زندگی کا ڈھرا، رہنے سہنے کا طریق، بات چیت، جہل، مذاق کیا مجال کہ بدلا ہو۔ مرنے جینے، شادی غمی سب میں شہزادگی کی شان موجود۔ ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ جو چہل پہل لال حویلی میں ہوتی تھی، جھونپڑیوں میں ہوتی ہے۔ پھول تو آخر اسی چمن کے ہیں کہیں کھلیں۔ بلبل اپنے آشیاں میں رہے یا قفس میں نغمے تو نہیں بھول جاتی۔''
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں ''دلی کے بارے میں لکھنے والے ادیبوں کی کوئی کمی نہیں مگر صبوحی صاحب کی انفرادیت اپنی جگہ ہے ان کی دلی کا مرکز لال قلعہ نہیں، شاہجہاں آباد کے عوام ہیں۔ دیوانی عورتیں، پگلے آدمی، کبابی، بھٹیارے، رکاب دار، مفلوک الحال شہزادے، عمر رسیدہ پہلوان، بوڑھے تکیہ دار، رنگے سیپر، ہنستے بستے عوام جو ایک مخصوص زندگی، طرز احساس اور طرز فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔ جن کے ہاں اقدار کی کشمکش نہیں۔ نفسیاتی الجھنیں اور منافقت نہیں۔ اس گہرے عوامی رابطے کی وجہ سے صبوحی صاحب کی نثر بڑی چوکھی، زندہ اور توانا ہے۔''
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں۔ ''صبوحی صاحب کی نثر بڑی چوکھی اور گھٹی ہوئی ہے۔ انھوں نے اس پر محنت بھی بہت کی ہے۔ مولویانہ انداز سے روزمرہ اور محاورے پر آنے میں انھیں بڑی جانکاری سے کام کرنا پڑا ہے۔ صبوحی نے جن موضوعات کو اپنے لیے مخصوص کیا اپنی نثر کو بھی انھیں کے مطابق ڈھالا۔ ان سب سے کامیاب پرائیہ اظہار خاکہ نگاری اور ماضی کی یافت ہے۔ ان کی نثر بھی ان موضوعات میں منہ سے بولتی محسوس ہوتی ہے۔ ستھری، نکھری، فنکارانہ مشاہدے اور ظاہر سے باطن تک کا احاطہ کرنے والی، فقروں میں پھلجھڑیاں چھوڑتی محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان پھلجھڑیوں سے ہاتھ ہی نہیں دل بھی جلنے لگتے ہیں۔ صبوحی صاحب کی تحریروں میں خیر و شر کی کشمکش بہت نمایاں ہے۔ مقصدی انداز کی بحثیں ہیں۔''
اشرف صبوحی نے مزاحیہ افسانے اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ایسے دو مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ وہ شگفتہ مزاج انسان تھے۔ ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔ اسلم فرخی کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کا چوتھا اور پانچواں عشرہ صبوحی صاحب کے اسلوب کی پختگی اور ان کے فنی عروج کا دور تھا۔ اس عہد میں انھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں، خاکے بھی لکھے، مضامین و افسانے بھی لکھے۔ ترجمے بھی کیے۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں 1943ء میں شایع ہوئی خاکوں اور افسانوں کا مجموعہ ''جھروکے'' 1944ء میں شایع ہوا۔
اسلم فرخی لکھتے ہیں ''صبوحی صاحب نے اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا جو شاہی عہد کے دیکھنے والوں کی یادگار تھے۔ انھیں ان لوگوں سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ ان لوگوں کی باتوں میں انھیں لطف آتا تھا۔ اد بداکر ایسے ہی لوگوں میں بیٹھتے یا ان کی باتیں سنتے۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں جنم جنم کا بوڑھا ہوں۔ مجھے انھیں لوگوں کی باتوں میں مزا آتا ہے۔
''صبوحی صاحب کی سکونت جامع مسجد کے سامنے چوڑی والوں میں تخت والی گلی میں تھی۔ جامع مسجد کا یہ علاقہ دلی کا دل تھا۔ ہر فن کے صاحبان کمال یہاں موجود تھے۔ ادیب، شاعر، عالم، فاضل، حکیم، درویش، پہلوان، موسیقار، خوش نویس، اہل حرفہ، ساری خدائی یہاں نظر آتی تھی۔ صبوحی صاحب نے ان سب کی اور زمانے کی خوب سیر کی جس بوڑھے سے ملے، حالات کرید کرید کر پوچھے۔ ان کے طرز احساس کو دل و دماغ میں اتارلیا۔ بچپن میں ماں اور نانی سے شاہجہان آباد کی سرگزشت سنی تھی جوانی میں بوڑھوں کی زبانی حالات سنے۔ وضع داری کے نمونے دیکھے، دلی کے میلوں ٹھیلوں اور تماشوں میں شریک ہوئے۔ نئے زمانے کے ہوتے ہوئے پرانے عہد کے طلسم میں ڈوبے رہے۔''
اسلم فرخی نے اشرف صبوحی کی شخصی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بڑے وضع دار بزرگ تھے۔ اعزا پر جان چھڑکتے تھے، دوستوں اور غیروں سب کے لیے خلیق تھے۔ حد درجہ مفکر المزاج، صوم و صلوٰۃ کے پابند، حج کی سعادت بھی حاصل کرچکے تھے۔ دنیاوی اعتبار سے صبوحی صاحب کی زندگی میں یکسانیت، ہمواری اور سادگی تھی۔ ایک خط مستقیم نہ کوئی پیچ نہ موڑ۔ دلی میں پیدا ہوئے، دلی ہی میں رہے۔ پاکستان وجود میں آیا تو لاہور آگئے۔ زندگی کے آخری چند سال کراچی میں گزارے اور یہی پیوند خاک ہوئے۔
آصف فرخی نے ''بزم صبوحی'' کے لیے ان کی جو تحریریں منتخب کی ہیں ان میں ان کا پہلا اور آخری مضمون بھی ہے۔ دوسری تحریروں میں جو ان کی نثر کی نمایندہ ہیں ۔ میر باقر علی، مٹھو بھٹیارا، سیدانی بی ، بانکے مرزا ، دیوانی آپا ، مرزا طاؤس ، حاجی بغلول لاہور میں ، موقع خیال ،مرزا محمد سعید ، برادرم شاہد دہلوی ، بازارشوق ، صاحب عالم شامل ہیں۔
میر باقر علی داستان گو تھے۔ ان کی مجلس کا حال اشرف صبوحی بیان کرتے ہیں۔ ''اس مختصر سی مجلس میں یہ صاحب کے کئی ہم مشرب یعنی چنیا بیگم کے عاشق بھی تھے۔ میر صاحب کو گھولوے کی لت کب سے تھی اور کس طرح لگی اس کا تو علم نہیں مگر تھی اور اس حد تک تھی کہ بغیر نشہ گھٹے داستان نہیں کہہ سکتے تھے۔ البتہ اور باتیں افیمیوں کی سی نہ تھیں، مزاج صفائی پسند تھا۔ طبیعت میں بھی کثافت نہیں تھی۔ جب پیالی چڑھاکر داستان کہنے بیٹھتے تو انجانوں کو افیمی ہونے کا شبہ بھی نہ ہوتا۔ میر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ سطحی نظر والے جانتے ہی نہیں کہ افیم کیا ہے؟ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ دیکھنے میں کالی اور مزے میں کڑوی ایک شے ہے جسے اہل ظاہر نے مکروہ کہہ دیا ہے۔ انھیں کیا خبر کہ اس چوگے میں ایک زبردست فلسفہ ایک اعلیٰ مذہب بند ہے۔ مردانِ خدا سے پوچھو اس کا باطن کیا لالوں لال ہے، جہاں اسے گھولنا شروع کیا دوستی، اخلاق اورتزکیہ نفس کی بنیاد پڑی سرکش سے سرکش اور ظالم سے ظالم انسان رحم کا پتلا اور خدا ترس بن جاتا ہے۔''
''مرقع خیال'' میں دنیا کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں۔ '' یہ قید خانہ یا دنیا ایک طلسم تھا۔ محبت ، نفرت ، دوستی ، دشمنی ، پاکی، ناپاکی، رحم، ظلم، امن، خون، خوشی، رنج، راحت، مصیبت، وفا، جفا، رنگ برنگ کے جذبات اس کی فضا میں تیرتے پھرتے تھے۔ قضا و قدرکی پوشیدہ ہاتھ کارگزاریاں کررہے تھے۔ آگ ، پانی ، خاک اور ہوا کے متضاد تعلقات، سودا، صفرا، بلغم اور خون کی مربع چادر میں لپٹے ہوئے خاک کے پتلوں کا مزاج بگاڑنے پر تیار تھے۔ خواہشات کا بازار لگا ہوا تھا۔ جدھر نظر جاتی تھی خود غرضی کا میلہ دکھائی دیتا تھا۔ صورت پرست، سیرت فروشوں کے مال کا سودا کررہے تھے۔ سیرت فروش صورت پرستوں پر دام لگارہے تھے۔ حال سے قال اور قال سے حال تک کل شکلیں اپنی اپنی دھن میں مستغرق تھیں۔''
''مٹھو بھٹیارا'' اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ وہ اس کا کردار کا تعارف یوں کراتے ہیں۔ ''میاں مٹھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا۔ کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں۔ ڈھائی ڈھوئی کے منیہ سے پہلے کی بات ہے۔ ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوںگے مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹھو کہہ کر پکارتا اور انھیں بھی اسی نام سے بولتے دیکھا۔ میاں مٹھو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں۔ دلی میں محلے محلے میں جن کی دکانیں ہوتی ہیں۔ تنور میں روٹیاں لگتی ہیں اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے، نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹی پکانی شروع کردی۔ پراٹھے تو ان کا حصہ ہے بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ دیکھنے سے منہ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھایئے۔ سبحان اﷲ، بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ''
اشرف صبوحی کی ایک تحریر ہے ''مرزا طاؤس'' لکھتے ہیں ''مرزا طاؤس کی گورنمنٹ سے پنشن نہ سہی۔ انھوں نے تیموری تورے کو کوڑیوں کے مول نہ بیچا لیکن کون ہے جو انھیں شہزادہ نہ کہے۔ ان کا نام خود گواہ ہے کہ قلعہ میں مور ہوںگے۔ اب بھی کہ نوے سے دو چار سال اوپر ہی سن ہے۔ سارے لچھن جھڑگئے ہیں، نہ رنگ نہ روپ، نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، آن بان نہیں چھوڑی، ہاتھی لٹے بھی تو ہاتھی ہی کہلائے گا۔ چال ڈھال کہاں جاتی ہے۔ رہنے کو تو محل میسر نہیں، محلوں کے خواب دیکھنے سے کون روک سکتا ہے۔ غدر نے لوٹ لیا بلا سے۔ شاہی مٹ گئی، مٹ جائے۔ حوصلے تو وہی ہیں۔ تونگری بہ دل است نہ بہ مال۔ زندگی کا ڈھرا، رہنے سہنے کا طریق، بات چیت، جہل، مذاق کیا مجال کہ بدلا ہو۔ مرنے جینے، شادی غمی سب میں شہزادگی کی شان موجود۔ ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ جو چہل پہل لال حویلی میں ہوتی تھی، جھونپڑیوں میں ہوتی ہے۔ پھول تو آخر اسی چمن کے ہیں کہیں کھلیں۔ بلبل اپنے آشیاں میں رہے یا قفس میں نغمے تو نہیں بھول جاتی۔''
ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں ''دلی کے بارے میں لکھنے والے ادیبوں کی کوئی کمی نہیں مگر صبوحی صاحب کی انفرادیت اپنی جگہ ہے ان کی دلی کا مرکز لال قلعہ نہیں، شاہجہاں آباد کے عوام ہیں۔ دیوانی عورتیں، پگلے آدمی، کبابی، بھٹیارے، رکاب دار، مفلوک الحال شہزادے، عمر رسیدہ پہلوان، بوڑھے تکیہ دار، رنگے سیپر، ہنستے بستے عوام جو ایک مخصوص زندگی، طرز احساس اور طرز فکر کی نمایندگی کرتے ہیں۔ جن کے ہاں اقدار کی کشمکش نہیں۔ نفسیاتی الجھنیں اور منافقت نہیں۔ اس گہرے عوامی رابطے کی وجہ سے صبوحی صاحب کی نثر بڑی چوکھی، زندہ اور توانا ہے۔''