کیا ہوا کیسے ہوا
ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے غریب اگر کھالے تو پہن نہیں سکتا پہن لے تو تعلیم نہیں دلاسکتا
الم ہم پر جو بھی ہیں لیکن بڑا المیہ یہ بھی ہے درمیانہ طبقہ ہو یا غریب اپنے علاج کے علاوہ اپنے بزرگوں کا علاج بھی پرائیویٹ اسپتال میں کروانے سے قاصر ہیں۔ چونکہ ان کی محاصل میں گھر چلانا بچے پالنا ان کو تعلیم دلانا بڑی بات ہے اس کے علاوہ مزید اخراجات کے لیے ان کے پاس زر نہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے وہ سفید پوش لوگ سرکاری اسپتال میں قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر چیک کرنے کے بعد دوا لکھتا ہے وہ دوا اس سرکاری اسپتال میں نہیں ملتی ان کو بازار میں میڈیکل اسٹور سے خریدنی پڑتی ہے۔ اگر ان کا یا ان کے بزرگ کا بدقسمتی سے کوئی آپریشن آجائے تو اس کے لیے ان سرکاری اسپتالوں میں آمد کے لیے وقت، دن اور تاریخ حاصل کرنا پڑتی ہے یہ اسپتال کی مجبوری ہے کیونکہ روزانہ مختلف آپریشن ہوتے ہیں جب یہ اسپتال بنا تھا تو آبادی بہت کم تھی اسپتال وہی ہے لیکن آبادی بڑھتی رہی اور بڑھ رہی ہے۔ جب آبادی کم تھی تو جلد کام ہوجاتا تھا لیکن دوا پھر بھی باہر سے خریدنی پڑتی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ انھیں دوا، گولیاں، کیپسول سب ملتے ہیں جس کی سرکار بھاری رقم ادا کرتی ہے لیکن وہ سب کہاں جاتی ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ یہاں میں ضرور کہوں گا۔
اس عوام سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ خود تو بروقت فائدہ حاصل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن عوام کو صاف پانی، اچھی غذا، تعلیم، علاج اور رہائش بھی نہیں دے سکتے جب کہ یہ بااختیار ہیں۔ یہ بات ضرور ہوگی ان پر ان ضروریات کا اثر نہیں اس لیے کہ اعلیٰ رہائش، صاف شفاف آب، اعلیٰ قسم کی اقسام کی غذا، بہترین تعلیم، اگر سر میں درد ہو جائے تو بیرون ملک جاکر علاج کروا لیتے ہیں اور بچوں کو بھی بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ وہ کیا جانیں غربت کسے کہتے ہیں ملک کی اکثریت کن مسائل کا شکار ہے ویسے انھیں اس کی فکر ہے نہ پرواہ۔
بات پرانی ہے لیکن ابھی بھی وہی میرے دوست کے والد گھر میں پھسل گئے چونکہ کمزور تھے اس لیے کولھا متاثر ہوا اس کی بال والی ہڈی شدید متاثر ہوئی۔ میں اور میرا دوست ایک سرکاری اسپتال لے کر گئے وہاں ایک کمپاؤنڈر کی رسائی ہوئی وہ ذاتی طور پر قطار سے پہلے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے بغور اچھی طرح معائنہ کیا بولا ان کا آپریشن لازمی ہے اس کے بغیر صحیح ہونا ناممکن ہے۔
ساتھ میں موجود کمپاؤنڈر سے بولا آپ فوری وقت اور تاریخ ارجنٹ لیں میں ان کا آپریشن کردوں گا۔ باہر آئے جو شخص تاریخ اور وقت کا تعین کرنے والا تھا اس نے کہا ہفتے میں ایک دن ان کا آپریشن ہوتا ہے لہٰذا چار دن بعد کا وقت ارجنٹ ہے لیکن آپ کو پہلے پانچ ہزار اور دوا وغیرہ کی خریداری باہر سے کرنی ہوگی۔ میں نے پوچھا بھائی میرے! یہ تو غریب لوگ ہیں یہ پانچ ہزار کس بات کہ جب کہ یہ سرکاری اسپتال ہے بولا آپ سے بہت ہی کم لیے جا رہے ہیں کیونکہ بال کی قیمت تو زیادہ ہے لیکن آپ لوگوں کی غربت دیکھ کر اور جو شخص اس اسپتال کا آپ کے ساتھ ہے ان سب باتوں پر یہ بہت معمولی رقم ہے۔ اگر پرائیویٹ کرائیں تو کم ازکم ڈیڑھ لاکھ خرچ ہوگا۔ یہ بات میں اب سے تقریباً 35 سال قبل کی عرض کر رہا ہوں یقینا اب رقوم بڑھ چکی ہوں گی۔
ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے غریب اگر کھالے تو پہن نہیں سکتا پہن لے تو تعلیم نہیں دلاسکتا بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ پانی صاف دیکھنے کو نہیں پینے کی تو الگ بات ہے رہائش کے لیے اگر دادا نے جھگی ڈالی تھی باپ اسی جھگی میں رہتے ہیں اب اولادیں خواہ افراد 20 کیوں نہ ہوں اسی جھگی میں اس کو ڈبل بنالیا ہے۔ چارپائی تو کہیں دیکھ سکتے ہیں استعمال نہیں کرسکتے سب لوگ فرش پر سوتے ہیں۔
یہ حال ہے اس ملک کی اکثریت کا ایسا نہیں معلوم نہیں سب کو معلوم ہے بڑے دعوے، وعدے کرتے ہیں اور ان سے ووٹ حاصل کرکے واپس نہیں آتے واپس جب آئیں گے جب ان کو ان کے ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ کیا کیا جائے بچپن سے ایسا ہو رہا ہے کیا ہوا کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں ہوا؟ یہ وہ الفاظ ہیں جن کا صحیح جواب صرف ان لوگوں کے پاس ہے جو مسائل سے نبرد آزما ہیں ان کے جھمیلوں، پریشانیوں، بیماریوں، غربت میں زندگی گزر گئی، ان کی اولادیں بھی اسی ڈگر پر ہیں اور آنے والی ان کی اولادیں بھی شاید اسی طرح رہیں لوگ آکر فائدہ اٹھاتے رہیں اور یہ لوگ کس ماپرسی کی حالت میں پڑے رہیں۔
حیرت زدہ بات ہے کہ بچپن میں جو سرکاری اسکول دیکھا وہی سرکاری اسکول ہے ان میں اگر اضافہ ہو تو چند ایک فلاحی تنظیموں نے جو قائم کیے وہ بھی موجودہ آبادی کی مناسبت سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ تعلیم نہ علاج نہ پانی نہ صحیح خوراک اور نہ ہی موجودہ رہائش۔ اگر مثال کے طور پر آج سے چالیس یا 45 سال قبل اس وقت کی حکومت نے جو کوارٹر بنا کر جھگی نشینوں کو دیے اس کے بعد پھر کبھی ایسا نہ ہوا۔ ان 45 سالوں میں آبادی کہاں سے کہاں چلی گئی وہ ایک کوارٹر اس کے بعد جو لوگ باقی رہے یا اس کوارٹر میں اضافے کی وجہ سے جھگی نشین ہوئے آج بھی اسی جھگی میں ان کی اولادیں بھی رہائش پذیر ہیں۔
میں جب ان میں سے کسی سے ان کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے میاں رہنے دیں یہ سب باتیں پرانی ہوگئیں۔ ان باتوں سے کیا حاصل؟ ان لوگوں کی باتیں صحیح ہیں متعدد بار ان سے بڑے لوگوں نے سنا اور وعدہ کیا جب وہ اقتدار پر آئے تو بھول گئے کہاں، کس سے، کیونکر وعدے کیے پھر یہی کہوں گا، کیا ہوا، کیسے ہوا، کس نے کیا، کیوں ہوا؟ ان سب کے دل جل چکے ہیں بات یہی ہے جو جلی کٹی باتیں کرتے ہیں بے چارے کیا کریں ایسی باتیں بھی نہ کریں؟ افسوس اس امر کا ہے جس شخص کو ان کی باتوں کا قلبی وذہنی احساس ہے لیکن وہ بے اختیار ہے وہ مجبور ہے کچھ نہیں کرسکتا، جن لوگوں کے پاس کچھ کرنے کا اختیار ہے وہ کچھ کرتے نہیں۔
ڈاکٹر چیک کرنے کے بعد دوا لکھتا ہے وہ دوا اس سرکاری اسپتال میں نہیں ملتی ان کو بازار میں میڈیکل اسٹور سے خریدنی پڑتی ہے۔ اگر ان کا یا ان کے بزرگ کا بدقسمتی سے کوئی آپریشن آجائے تو اس کے لیے ان سرکاری اسپتالوں میں آمد کے لیے وقت، دن اور تاریخ حاصل کرنا پڑتی ہے یہ اسپتال کی مجبوری ہے کیونکہ روزانہ مختلف آپریشن ہوتے ہیں جب یہ اسپتال بنا تھا تو آبادی بہت کم تھی اسپتال وہی ہے لیکن آبادی بڑھتی رہی اور بڑھ رہی ہے۔ جب آبادی کم تھی تو جلد کام ہوجاتا تھا لیکن دوا پھر بھی باہر سے خریدنی پڑتی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ انھیں دوا، گولیاں، کیپسول سب ملتے ہیں جس کی سرکار بھاری رقم ادا کرتی ہے لیکن وہ سب کہاں جاتی ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ یہاں میں ضرور کہوں گا۔
اس عوام سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ خود تو بروقت فائدہ حاصل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن عوام کو صاف پانی، اچھی غذا، تعلیم، علاج اور رہائش بھی نہیں دے سکتے جب کہ یہ بااختیار ہیں۔ یہ بات ضرور ہوگی ان پر ان ضروریات کا اثر نہیں اس لیے کہ اعلیٰ رہائش، صاف شفاف آب، اعلیٰ قسم کی اقسام کی غذا، بہترین تعلیم، اگر سر میں درد ہو جائے تو بیرون ملک جاکر علاج کروا لیتے ہیں اور بچوں کو بھی بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ وہ کیا جانیں غربت کسے کہتے ہیں ملک کی اکثریت کن مسائل کا شکار ہے ویسے انھیں اس کی فکر ہے نہ پرواہ۔
بات پرانی ہے لیکن ابھی بھی وہی میرے دوست کے والد گھر میں پھسل گئے چونکہ کمزور تھے اس لیے کولھا متاثر ہوا اس کی بال والی ہڈی شدید متاثر ہوئی۔ میں اور میرا دوست ایک سرکاری اسپتال لے کر گئے وہاں ایک کمپاؤنڈر کی رسائی ہوئی وہ ذاتی طور پر قطار سے پہلے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے بغور اچھی طرح معائنہ کیا بولا ان کا آپریشن لازمی ہے اس کے بغیر صحیح ہونا ناممکن ہے۔
ساتھ میں موجود کمپاؤنڈر سے بولا آپ فوری وقت اور تاریخ ارجنٹ لیں میں ان کا آپریشن کردوں گا۔ باہر آئے جو شخص تاریخ اور وقت کا تعین کرنے والا تھا اس نے کہا ہفتے میں ایک دن ان کا آپریشن ہوتا ہے لہٰذا چار دن بعد کا وقت ارجنٹ ہے لیکن آپ کو پہلے پانچ ہزار اور دوا وغیرہ کی خریداری باہر سے کرنی ہوگی۔ میں نے پوچھا بھائی میرے! یہ تو غریب لوگ ہیں یہ پانچ ہزار کس بات کہ جب کہ یہ سرکاری اسپتال ہے بولا آپ سے بہت ہی کم لیے جا رہے ہیں کیونکہ بال کی قیمت تو زیادہ ہے لیکن آپ لوگوں کی غربت دیکھ کر اور جو شخص اس اسپتال کا آپ کے ساتھ ہے ان سب باتوں پر یہ بہت معمولی رقم ہے۔ اگر پرائیویٹ کرائیں تو کم ازکم ڈیڑھ لاکھ خرچ ہوگا۔ یہ بات میں اب سے تقریباً 35 سال قبل کی عرض کر رہا ہوں یقینا اب رقوم بڑھ چکی ہوں گی۔
ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے غریب اگر کھالے تو پہن نہیں سکتا پہن لے تو تعلیم نہیں دلاسکتا بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ پانی صاف دیکھنے کو نہیں پینے کی تو الگ بات ہے رہائش کے لیے اگر دادا نے جھگی ڈالی تھی باپ اسی جھگی میں رہتے ہیں اب اولادیں خواہ افراد 20 کیوں نہ ہوں اسی جھگی میں اس کو ڈبل بنالیا ہے۔ چارپائی تو کہیں دیکھ سکتے ہیں استعمال نہیں کرسکتے سب لوگ فرش پر سوتے ہیں۔
یہ حال ہے اس ملک کی اکثریت کا ایسا نہیں معلوم نہیں سب کو معلوم ہے بڑے دعوے، وعدے کرتے ہیں اور ان سے ووٹ حاصل کرکے واپس نہیں آتے واپس جب آئیں گے جب ان کو ان کے ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ کیا کیا جائے بچپن سے ایسا ہو رہا ہے کیا ہوا کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں ہوا؟ یہ وہ الفاظ ہیں جن کا صحیح جواب صرف ان لوگوں کے پاس ہے جو مسائل سے نبرد آزما ہیں ان کے جھمیلوں، پریشانیوں، بیماریوں، غربت میں زندگی گزر گئی، ان کی اولادیں بھی اسی ڈگر پر ہیں اور آنے والی ان کی اولادیں بھی شاید اسی طرح رہیں لوگ آکر فائدہ اٹھاتے رہیں اور یہ لوگ کس ماپرسی کی حالت میں پڑے رہیں۔
حیرت زدہ بات ہے کہ بچپن میں جو سرکاری اسکول دیکھا وہی سرکاری اسکول ہے ان میں اگر اضافہ ہو تو چند ایک فلاحی تنظیموں نے جو قائم کیے وہ بھی موجودہ آبادی کی مناسبت سے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ تعلیم نہ علاج نہ پانی نہ صحیح خوراک اور نہ ہی موجودہ رہائش۔ اگر مثال کے طور پر آج سے چالیس یا 45 سال قبل اس وقت کی حکومت نے جو کوارٹر بنا کر جھگی نشینوں کو دیے اس کے بعد پھر کبھی ایسا نہ ہوا۔ ان 45 سالوں میں آبادی کہاں سے کہاں چلی گئی وہ ایک کوارٹر اس کے بعد جو لوگ باقی رہے یا اس کوارٹر میں اضافے کی وجہ سے جھگی نشین ہوئے آج بھی اسی جھگی میں ان کی اولادیں بھی رہائش پذیر ہیں۔
میں جب ان میں سے کسی سے ان کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے میاں رہنے دیں یہ سب باتیں پرانی ہوگئیں۔ ان باتوں سے کیا حاصل؟ ان لوگوں کی باتیں صحیح ہیں متعدد بار ان سے بڑے لوگوں نے سنا اور وعدہ کیا جب وہ اقتدار پر آئے تو بھول گئے کہاں، کس سے، کیونکر وعدے کیے پھر یہی کہوں گا، کیا ہوا، کیسے ہوا، کس نے کیا، کیوں ہوا؟ ان سب کے دل جل چکے ہیں بات یہی ہے جو جلی کٹی باتیں کرتے ہیں بے چارے کیا کریں ایسی باتیں بھی نہ کریں؟ افسوس اس امر کا ہے جس شخص کو ان کی باتوں کا قلبی وذہنی احساس ہے لیکن وہ بے اختیار ہے وہ مجبور ہے کچھ نہیں کرسکتا، جن لوگوں کے پاس کچھ کرنے کا اختیار ہے وہ کچھ کرتے نہیں۔