ووٹ دینے جائیں ۔۔۔ لیکن پہلے ہر تعصب سے جان چھڑائیں

اس اہم ترین ذمے داری کے اخلاقی تقاضے کیا ہیں؟ رائے دہندہ کے لیے کیا ضروری ہے؟

 امریکا کے سیاسی مفکر جیسن برینان کی کتاب ’’ The Ethics of Voting‘‘ سے کچھ اقتباسات فوٹو : فائل

انتخاب، ترجمہ وتبصرہ:
ڈاکٹر انور شاہین
(ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر ، کراچی یونیورسٹی)

''آپ ایک ووٹر ہیں بل کہ ایک ڈاکٹر ہیں، آپ کا ملک اس وقت ایک بیمار مریض ہے۔ الیکشن کا دن آپ کو اس کے مرضی کے علاج کا موقع دیتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ اس ڈاکٹر کی طرح بھی کرسکتے ہیں جو ٹوٹی گردن والے مریض کو اور زیادہ جھٹکے دینے لگے، یا زہر خورانی کے مریض کو مزید زہریلی دوا دے۔ یا زخموں پر تیزاب چھڑکنے لگے۔ ایسے ڈاکٹر کی نیت تو پُرخلوص ہوسکتی ہے لیکن وہ بہرحال نقصان ہی پہنچائے گا۔ بہت سے ووٹر بھی اسی طرح کے ڈاکٹر جیسے ہوتے ہیں جو مدد کرنے کے عمل میں مزید ضرررساں ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر آپ مناسب طریقے سے ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کے دل کا درست کیفیت میں ہونا کافی نہیں، آپ کے دماغ کو بھی درست حالت میں ہونا اشد ضروری ہے۔''

امریکا سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل سائنسٹسٹ جیسن برینان(Jason Brennan) کا یہ اقتباس ان کے ''ووٹنگ کی اخلاقیات'' کے نظریے کی فلسفیانہ تشکیل پر مبنی کتاب '' The Ethics of Voting''کے آخری صفحات سے لیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

تاہم برینان نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ کچھ بندوں کا وزن خرابی کے پلڑے کو جھکانے کا کام دیتا ہے، اس لیے محض گننا اور تولنا ہی کافی نہیں، ان کے ووٹوں کے معیار کو جانچنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ زیرِنظر مضمون برینان کی کتاب سے اخذ شدہ حصوں کے ترجمے اور تبصرے پر مبنی ہے۔ پاکستان میں جو مسائل آج معاشرے اور سیاست کے رگ و پے میں جڑیں جمائے ہوئے ہیں، اور جس طرح کا جذباتی، انتشاری اور طعن وتشنیع سے بھرپور ماحول سیاست کے اکھاڑے میں نظرآرہا ہے، اس کے پیش نظر اس سیاسی مفکر کے خیالات سے استفادہ کرنا آج وقت کی ضرورت ہے۔

٭ ووٹ کی اہمیت

برینان کے مطابق ووٹ دینا اس لیے اہم ہے کہ جب ہم ووٹ دیتے ہیں تو ہم حکومت کی تشکیل کرتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ چناںچہ ہمارا ووٹ عوام کی زندگی کو بہتر یا بدتر بنا سکتا ہے۔ اگر ہم نے پولنگ والے دن کسی 'خراب' کو منتخب کر لیا تو اس بات کا امکان ہے کہ ہم پر نسل پرست، جنس پرست اور انسان دشمن قوانین نافذ ہوجائیں ۔ ہم اربوں کی رقم ایسے ناقص یا غلط تصورات پر مبنی منصوبوں اور حقوق کے پروگرام پر خرچ کرتے ہیں جن سے نہ تو معیشت میں کوئی تیزی آتی ہے اور نہ ہی غربت میں کمی ہوتی ہے۔ ہم بعض صورتوں میں ضرورت سے زیادہ اور بعض دیگر صورتوں میں ضرورت سے کم قوانین وضوابط، اور بیشتر ایسے ضوابط کی زد میں آجاتے ہیں جن سے کچھ مخصوص مفادات کے حاملین کو ناجائز معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ہم ناانصافی کو نافذ بھی کرتے ہیں اور تسلسل بھی دیتے ہیں۔

٭ ووٹ دینے کی اخلاقیات

برینان کی رائے ہے کہ ووٹ دینا اخلاقی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ ووٹ سے حکومت کا معیار، وسعت اور نوعیت بدل جاتی ہے۔ ووٹ دینے کے نتائج نقصان دہ، نفع بخش، منصفانہ یا غیرمنصفانہ ہوسکتے ہیں۔ چناںچہ ووٹ دینے کے طریقۂ کار کے حوالے سے ہم پر اخلاقی فرائض عائد ہوتے ہیں۔ محض ووٹ دے دینا اخلاقی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

ووٹ دینے کی اخلاقیات کچھ اس طرح کے سوالات پوچھتی ہے: کیا شہریوں کو ووٹ دینا چاہیے یا اس سے احتراز کرنا چاہیے؟ اگر کوئی شخص ووٹ کے نتائج سے لاتعلق ہے تو کیا اس کو ووٹ نہیں دینا چاہیے؟ ووٹ دینے کا طریقہ کیا ہو؟ کیا ووٹروں کو اپنے مذہبی اعتقادات ووٹ دیتے وقت مدّنظر رکھنے دیے جائیں؟ کیا ووٹروں کو بہت خلوص سے کسی ایسے امیدوار یا نقطۂ نظر کو ووٹ دینا چاہیے جس کو وہ بہترین سمجھتے ہوں؟ خاص طور سے کیا ووٹروں کو صرف ذاتی مفادات کے تحت ووٹ دینا چاہیے، یا ان کو مفادِعامہ کی خاطر ووٹ دینا ہوگا؟ مفادعامہ کیا ہے؟ کیا ووٹوں کا خریدنا، بیچنا اور تجارت کرنا کسی طور بھی قابل قبول ہوسکتا ہے؟

اپنے انتخاب کے عیوب ومحاسن کو آپ خود ہی سمجھتے اور جانتے ہیں، لیکن ووٹ دینا اس نوعیت کا عمل نہیں ہے۔ یہاں ووٹ دینے کا عمل اپنے کھانے کو دوسروں پر تھوپنا ہے۔ آپ ووٹ کا انتخاب خود کرتے ہیں، ہر ووٹ کی اہمیت ہے لیکن کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارا اجتماعی عمل ہوتا ہے اور کسی بھی اجتماعی عمل میں حصہ لینے کے کچھ اخلاقی ضوابط ہوتے ہیں۔ اگرچہ انفرادی ووٹ کا کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں ہوتا لیکن اس وجہ سے ہم افراد کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے۔

یہ بات بھی صحیح ہے کہ حکومتیں جو کچھ اچھا یا برا کام کرتی ہیں، اس کی ذمہ داری مکمل طور پر ہمارے ووٹ دینے پر نہیں۔ ایک مستحکم اور یقینی جمہوری نقطۂ نظر رکھنے کے باوجود ایک خراب قسم کی پالیسی کو افسر شاہی کی بے نظمی یا سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے باعث نافذ کردیا جاتا ہے۔ پھر بھی ووٹ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم محض ووٹروں کو بہتر انداز میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرکے سیاسی مسائل حل نہیں کرسکتے، لیکن اچھے انداز کی ووٹنگ سے اچھی حکومت کا وجود میں آنا ضرور ممکن ہوسکتا ہے۔

٭ووٹنگ کی اخلاقیات سے متعلق عوامی تھیوری

ووٹ دینے کی اخلاقی اہمیت پر وسیع پیمانے پر عوامی خیال ونظریات پائے جاتے ہیں۔ غیرفلسفیانہ ذہن کے حامل لوگ جس پر یقین رکھتے ہیں میں اس کو ووٹنگ کی اخلاقیات سے متعلق عوامی تھیوری کہوں گا۔ اس کے مطابق: ووٹ دینا ہر شہری کا بطور شہری فرض ہے اور اس سے محض بہت مشکل حالات میں ہی معافی مل سکتی ہے۔ اگر چہ اچھے یا برے امیدوار میدان میں ہوتے ہیں، عموماً اچھے خیالات کا حامل ووٹ ہی اخلاقی طور پر قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ سب سے کم اقرار اس امر پر ہے کہ ووٹ دینا ووٹ نہ دینے سے بہتر ہے۔ اور ووٹوں کی خریدوفروخت اپنے جوہر ہی میں غلط ہے۔ یہ تینوں نکات بنیادی اخلاقی اصولوں کے بہت قریب ہیں، لیکن کچھ لوگ پہلے نکتے اور کچھ دوسرے نکتے کے زیادہ پر جوش حامی ہیں۔ میرے خیال میں شہریوں کا ووٹ دینا لازمی نہیں ہے، لیکن جو ووٹ دینے جائیں وہ اپنے عمل کے لیے اخلاقی بنیاد اور ذاتی مفاد کے بجائے مفاد ِعامہ کا خیال رکھیں۔ جو شہری ووٹ دینے کا جذبہ، علم ، عقلی بنیاد اور اہلیت سے محروم ہوں ان کو ووٹ دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اچھی طرح سے ووٹ دینا ایک فرض ہے اور ایک مشکل ذمہ داری ہے اگر کوئی یہ نہ کرسکے تو بہتر ہے کہ ووٹ نہ دے۔

میرے اس نقطۂ نظر کے زیرِاثر ہوسکتا ہے کچھ شہری ووٹ دینے کے عمل کو بالکل ہی نظرانداز کردیں۔ دوسری طرف بہت سے سیاسی طور پر سرگرم شہری، دانشور، فعال کارکن، کمیونٹی کے ناظم، مذہبی پیشوا، مشہور شخصیات وغیرہ اپنی بہترین خواہشات کے تحت ووٹ دینے نکلیں، اس کے باوجود ان لوگوں کی بڑی تعداد بھی ایسی ہوسکتی ہے کہ جو اگرچہ سیاسی طور پر فعال ہوں لیکن انہیں حقائق کی صحیح خبر نہ ہو، یا غلط خبر ہو، یا وہ محض عقل سے کورے فیصلے کریں۔ چناں چہ ان کا ووٹ دینا جمہوریت کو آلودہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ہمیں اس سے خراب حکمرانی کے مسائل بھگتنے پڑیں گے۔

٭ووٹ کا حق

کچھ لوگ وہ ووٹ کے حق، اور ووٹ کی حقانیت، دونوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اگر میں یہ دلیل دوں کہ کچھ لوگوں کو ووٹ نہیں دینا چاہیے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو ووٹ کا حق حاصل نہیں۔ میں لوگوں کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا قائل نہیں، اگرچہ یہ مانتا ہوں کہ کچھ لوگ ووٹ دینے کے اعتبار سے 'غلط' ہیں۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ لوگوں کو اخلاقی اعتبار سے کچھ چیزیں غلط کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔ اگر کوئی کام کرنے کا حق حاصل ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لازماً وہ کام کیا بھی جائے۔ 'حق' کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کیا چیز ہے جس کی اخلاقی طور پر کرنے کی اجازت ہے، بل کہ اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ سماج یعنی دوسرے لوگوں کو حق دار کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے۔ اس کو آزادیٔ اظہار کے حوالے سے سمجھیں۔ اس کا کم سے کم مطلب تو یہ ہے کہ لوگوں کو کچھ چیزیں کہنے اور لکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے جو بھی من میں آئے اس کا اظہار کردینا اخلاقی طور پر ٹھیک ہے۔ کسی جلسے جلوس میں شامل ہونے کا حق تو شہریوں کو حاصل ہوسکتا ہے۔ لیکن جلسے جلوسوں کی نوعیت پر منحصر ہے کہ وہ کس مقصد کے تحت کیے جارہے ہیں، اس لیے ووٹ کے حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا اگرچہ وہ غلط ووٹ ہی کیوں نہ دینے جارہا ہو۔

میں اس کتاب میں اچھی ووٹنگ کے معیارات کے بارے میں تحریر کر رہا ہوں جن کی بہت سے لوگ خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگر اخلاقی معیارات موجود ہوں تو کیا ہمیں ان کو روبہ عمل نہیں لانا چاہیے؟ اگر خراب ووٹنگ نقصان دہ ہوتو کیا ہمیں اس کو روکنا نہیں چاہیے؟ میری اس کتاب میں شہری فرائض کے غیرمعمولی طور پر جمہوری اور مقبول عام (Egalitarian and Populist)تصور کو زیربحث لایا گیا ہے۔ میں جمہوریت نواز ہوں، جمہوریت کا مخالف نہیں۔ میں اداروں کی قدروقیمت کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہوں۔ جو ادارے ہماری زندگی کو اچھی طرح گزارنے کی اہلیت میں رکاوٹ نہیں، ہمارے پاس ان کی حمایت کے لیے اسباب بھی کم ہوجاتے ہیں۔ سیاست میں جمہوریت دراصل یہ فیصلہ کرنے کا طریقہ ہے کہ جب لوگ کوئی کام نہ کرنا چاہیں تو ان کو کس طرح اس کام پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

سارے ووٹرز یکساں نہیں ہوتے، ان کی ووٹ دینے کی طاقت برابر لیکن اس ضمن میں ان کا حصّہ یا کردار یکساں معیار کا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ حکومت کو بہتر اور کچھ اس کو بدتر بناسکتے ہیں۔ کچھ ووٹرز کو امیدواروں کے بارے میں زیادہ آگہی ہوتی ہے کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں، کس نوعیت کی پالیسیاں آگے بڑھائیں گے اور وہ کتنے مخلص ہیں۔ وہ مختلف سیاسی جماعتوں کے گزشتہ ریکارڈ اور رجحانات کو جانتے ہیں۔ دوسرے ووٹرز ان امور سے بے خبر ہوتے ہیں۔ کچھ اور ووٹرز غلط معلومات بھی رکھتے ہیں اس طرح سے سارے ووٹرز بہت زیادہ باخبر اور بالکل ہی بے خبر کی دو انتہاؤں کے درمیانی خط پر کہیں نہ کہیں پائے جاتے ہیں۔ کچھ ووٹرز اپنے خیالات اور ترجیحات کے بارے میں خوداحتسابی کا رویہ اپناتے ہیں جب کہ کچھ دوسری جذباتی طور پر پُرکشش اشیا سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ کچھ اپنے نظریات پر یقین رکھنے کی وجہ سے فیصلے کرتے ہیں، حالاںکہ حقیقی شہادتیں ان کے برعکس بھی ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو شواہد کا انکار کردیتے ہیں اور اپنے مخالفین کی بری طرح مذمت کرتے ہیں۔ اس طرح غیرمنصفانہ انداز میں اپنے عقائد کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ غیرعقلی جھکاؤ اور تعصبات کو بروئے کار لاکر پالیسیوں کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ووٹرز عقلیت کے پیمانے پر کافی دور دور تک پھیلے ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ بہت ہی عقل مند کچھ بہت ہی غیرعقل مند۔



کچھ ووٹر بہت ٹھوس اخلاقی جواز کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں، جب کہ دوسروں کے پاس اس کے بالکل برعکس جواز ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سیاست داں جن پالیسیوں کا عہد کرکے ووٹ مانگتے ہیں، ان میں سے بیشتر پر وہ عمل درآمد بھی نہیں کرتے۔ لیڈر اکثر عوام سے ان کے مرغوب موضوعات پر وعدے کرلیتے ہیں۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ عوام کو پولنگ اسٹیشن تک تو لایا جاتا ہے لیکن اس سے جذباتی، غیرعقلی، بے خبر، اور احمق ووٹرز بھی ووٹ دینے آجاتے ہیں جس کے نتائج بعدازاں پوری قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

٭ووٹ سے متعلق علم حاصل کرنے کے مختلف طریقے

امیدوار جن پالیسیوں کا وعدہ علی الاعلان کرتے ہیں ان کا پتا چلانا تو آسان ہے لیکن ان پالیسیوں کے فوائد ونقصانات کا صحیح علم حاصل کرنا مشکل ہے۔ سیاست داں اگرچہ بہت مخلص بھی ہوں، تو بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ سیاست داں بھی غلطیاں کرتے ہیں اور ان کی کارکردگی یا اہلیت کو چیک کرنا مشکل ہوتا ہے۔

٭مناسب طریقے سے ووٹ کیسے دیا جائے؟

بہت سارے ووٹر لاعلم ہوتے ہیں، کیا یہ اصل مسئلہ ہے؟ نہیں۔ اصل مسئلہ سیاسی موضوع پر معلومات نہ ہونا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ان معلومات کو کُھلے دل دماغ اور قابلِ اعتبار طریقے سے جانچا پرکھا جائے، ورنہ ان سے کوئی ہمارا بھلا نہیں ہوگا۔ اچھی طرح ووٹ دینے کے لیے بھی سائنسی ذہنیت کی ضرورت ہے۔ ہم بطور ووٹر اپنے ملک کے مسائل کی تشخیص کرتے ہیں اور اس کا علاج ایک اچھے ڈاکٹر کی طرح پیش کرتے ہیں۔ اکثر ووٹر اس پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ ان کے اندر ادراکی (Cognitive)تعصب یعنی 'عقل پر مبنی خیالات سے انحراف' کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ہمارے تعصبات ہمارے ذہنوں میں سوفٹ ویئر کے جرثوموں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں معلوم شدہ اطلاعات کی روشنی میں جس طرح یقین کرنا، سوچنا اور عمل کرنا چاہیے، اس سے روک دیتے ہیں۔ ووٹروں میں بھی کئی قسم کے تعصبات پائے جاتے ہیں۔ جب تک وہ تعصب کے حامل رہیں گے، ان کا کسی قسم کی خبر پڑھنا یا امیدواروں کے پلیٹ فارم (سیاسی جماعت) کا مطالعہ کرنا کوئی اثر نہیں رکھے گا۔ اچھا ووٹر بننے کے لیے ضروری ہے کہ، اول تو اپنے اندر کے تعصبات کو پہچانیں، اور دوئم ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ تعصب کا تعلق اس امر سے ہوتا ہے کہ آپ جس امر پر یقین رکھتے ہیں اس پر کیوں یقین رکھتے ہیں۔ سائنسی ذہن والے لوگ اپنے عقائد کو شواہد سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں لیکن ایک متعصب شخص ایسا نہیں کرتا۔

٭سیاست میں کارفرما خطرناک نوعیت کے تعصبات

چند ایک خطرناک ترین قسم کے تعصبات درج ذیل ہیں:

1۔ خوش امیدی کا تعصب: ہم اس امید پر کچھ زیادہ ہی اعتبار کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے فیصلوں سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم نادیدہ خراب نتائج کو بھول جاتے ہیں۔ کسی اہم کام کی لاگت کا اندازہ اصل سے کم اور منافع جات کا اصل سے زیادہ لگالیتے ہیں۔

2 ۔ تصدیق کا تعصب: ہم اپنے موجود خیالات کی تصدیق کرنے والے اور ان کی بلاتنقید حمایت کرنے والے شواہد کی جستجو کرتے ہیں، لیکن اپنے ان خیالات کو کم زور کرنے والے شواہد نظرانداز یا مسترد کردیتے ہیں، ان سے اکتا جاتے ہیں یا ان کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم ان تمام دلائل اور لوگوں کو شک کا فائدہ پہنچاتے ہیں جو ہمارے خیالات کے حامی ہوں اور تنقید کرنے والے کو ہم دھتکار دیتے ہیں۔ چناںچہ ہم خبروں اور معلومات کے انتخاب میں اپنے لیے موزوں چینل یا اخبار کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ معلومات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ صرف یہ علم اور یقین ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس سے قبل بھی صحیح علم ویقین کے راستے پر ہی گام زن تھے۔

3۔ اندرون گروہی، بیرون گروہی تعصب: ہماری گذشتہ دو لاکھ پشتوں میں سے تقریباً 600 پشتوں تک ہمارے آباؤ اجداد کی بقا کا انحصار اندرونی طور پر پیوستہ خاندانی گروہ پر تھا۔ یہ سارے گروہ باہم مصروفِ پیکار رہتے تھے۔ چناںچہ ہم نے قبائلیت کو فروغ دیا۔ ہم اپنے گروہ کے عموماً اچھے اور برحق ہونے کا یقین رکھتے ہیں جو کہ تعصب کی ایک شکل ہے، اور یہ بھی کہ باقی سارے گروہ عمومی طور پر خراب اور غلط راہ پر ہیں۔ اگر آپ کسی گروہ کی شناخت سے خود کو وابستہ کرلیں تو آپ اپنے گروہ کی بڑی سے بڑی خطا کو بھی معاف کر دیتے ہیں اور پھر اپنی آنکھ کا شہتیر تک نظر نہیں آتا جبکہ دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی بہت بڑا لگتا ہے۔

4 ۔ عمل کا تعصب: اس کا مطلب ہے کہ ہم جب ایسی صورت حال سے دوچار ہوں جہاں یہ صحیح طور پر طے نہ ہو کہ کیا کرنا چاہیے، تو ہم کچھ نہ کرنے کے بجائے کچھ نہ کچھ کرنے کے تعصب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ہم اس پر بغیر مناسب معلومات کے کچھ نہ کچھ عمل کرنے لگتے ہیں۔ ہم سوچنے کا وقت لیے بغیر جلدبازی میں کوئی عمل کرنے لگے ہیں، چناںچہ اس کے نتائج ہمیں بھگتنے پڑتے ہیں۔

مندرجہ بالا تعصبات مل کر ہمیں سیاست کے بارے میں واضح طور پر غوروفکر کرنے اور سائنسی انداز اختیار سے روک دیتے ہیں۔ ان تعصبات سے نکلنے کا مناسب طریقہ کچھ یوں ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی خاص نقطۂ نظر سے وابستہ کرکے خود پر لیبل نہ لگائیں۔ ورنہ آپ اس کا دفاع کرنے لگ جائیں گے۔ گروہوں سے دور اور آزاد رہیں۔ آپ بے شک لوگوں سے اپنے خیالات پر بحث کریں لیکن یہ بتائیں کہ کیوں آپ خود پر کوئی لیبل نہیں لگنے دیتے۔ کسی سیاسی جماعت اور تحریک میں شامل نہ ہوں، جب تک کہ آپ ان تعصبات پر قابو نہ پالیں۔

یاد رکھیں آپ کی وفاداری سچ کے ساتھ ہے خواہ یہ کسی بھی شکل میں ظاہر ہو، اور کسی آئیڈیالوجی سے آپ کی وابستگی نہیں ہے۔ دوئم یہ کہ آپ مخالفین کے قریب جائیں اور اپنے نقطۂ نظر کو چیلینج کرنا سیکھیں۔ مخالفین اپنے لیے جو بہترین دفاعی ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں اس کا علم حاصل کریں۔ دوسرے گروہ کے مقبولِ عام مصنفین کی بجائے اس کے ماہرینِ سیاسیات ومعاشیات کی تحریریں پڑھیں اور اپنی دلیل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ آپ اپنے یقین کے خلاف بہترین دلیل تراشیں، خود کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں، اپنے خیالات میں نقائص اور مسائل تلاش کریں۔ خود تنقیدی سے خود کو بہتر بنائیں۔ سوئم اپنے مخالفین سے بات چیت کریں اور شائستہ انداز اپنائیں۔ دوسروں کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھیں کہ وہ شیطان کے چیلے نہیں بلکہ سنجیدہ لوگ ہیں جو دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ چہارم، ہم اپنے مسائل کو فوری اور اہم سمجھ کر ان کے لیے عمل کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہمیں جلدبازی کے فیصلوں اور غلط حل کی جانب جانے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں سے فوری نتائج کی توقع نہ رکھیں۔ دوراندیشی سے فیصلے کرنے والے سیاست دانوں کو ووٹ دیں۔ پنجم، ٹی وی تفریح کا اور سنسنی پھیلانے کا آلہ ہے۔ ٹی وی پر کیے گئے کئی تبصرے وتجزیے اور رپورٹیں زیادہ دانش مندی پر مبنی نہیں ہوتیں۔ اس لیے خبروں سے دور رہ کر حالات حاضرہ سے دامن بچا کر اپنے سماج وسیاست کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس تفہیم کو حاصل کرنے کے بعد انتخابات میں موجود امیدواروں کے بارے میں فیصلہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسن برینان کی کتاب کے جو اقتباسات اوپر پیش کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں ہر پاکستانی ووٹر اگر ووٹ کی اہمیت جان کر اور سیاسی امور کا معقول علم حاصل کرکے ووٹنگ کے موقع پردانش مندی کا مظاہرہ کرے تو وطنِ عزیز میں اعلیٰ معیار کی جمہوریت کے فروغ اور بتدریج استحکام کی امیدکی جا سکتی ہے۔

چل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔چل رہی ہیں۔۔۔۔۔چل رہی ہیں قینچیاں۔۔۔

''ادارے'' مقدس ہیں، ان کے اختیارات لا محدود ہیں۔ ان کا ہر عمل واجب احترام ہے۔ تنقید کا ایک بھی لفظ زبان پر مت لاؤ ورنہ مٹ دیے جاؤگے، پتھر کے مجسموں میں تبدیل ہو جاؤ گے، اسی میں عافیت ہے۔ شان میںگستاخی کروگے تو بھسم کردیا جائے گا، کسی نقص کی نشان دہی کروگے تو توہین کے مرتکب ہوگے، توہین کا ارتکاب کروگے تو عقوبت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ اپنے جامے سے باہر نہ نکلو، عبرت پکڑو، ناجائز بولنے والے کُشتگان کا انجام دیکھو۔ سیدھے سیدھے دہشت گرد قرار پاؤ گے۔

میڈیا کے کارکنوں میں ان کے افسران بالا یہی پیغام عام کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا کیا جائے؟ بہت آسان ہے۔ گفتگو کرنا چاہتے ہو، کرو۔ کون روکتا ہے، تجزیے میں استدلال اور سوال کا بگھار مت ڈالو۔ عدلیہ مقدس ادارہ ہے، اس پر انگلیاں نہ اٹھاؤ۔ کارروائی شفاف ہونی چاہیے۔اس سوال کاقضیہ کیوں کھڑا کرتے ہو۔ کیا یہ کہنا کافی نہیں کہ بُھگتنے والے جو بُھگت رہے ہیں انہیں بُھگتنا ہی تھا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ بس، یہی بھرپور تجزیہ ہے۔ مصیبت خریدنے کے چکر میں کیوں پڑتے ہو۔ مثال کے طور پر، نواز شریف کے لیے یہی کہو اور لکھو کہ جو بویا وہی کاٹ رہا ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ کیا چیز شفاف ہے کیا غیر شفاف، اس کنویں کو کیوں ناپننا چاہتے ہو۔

اچھا صاحب جی، درست فرمایا۔ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریںگے کہ یہ ''ادارے'' کا لفظ کیا مفہوم ادا کررہاہے، آپ نے اپنی تحریروں اور بول چال میں یہ لفظ مخصوص معنوں میں کیوں رائج کیا ہے۔ کیا زبان کی تنگ دستی ہے یا نظریۂ ضرورت کی ضرورت ہے۔

''ادارے''INSTITUTION تو اسم نکرہ COMMON NOUN ہے، اس میں مخصوص معنے کہاں سماسکتے ہیں۔

گدھے! روزنامہ ''بطوطہ'' میں کام کرتا ہے، معمولی بات نہیں، یہ ایک باوقار، مُعتبر، ٹکسالی ادارہ ہے۔ یہاں کام کرنے والے کو ان معمولی الفاظ کا مفہوم معلوم ہونا چاہیے۔ چل، سُن، یہ مخصوص ادارے ہی ہیں، جیسے عدلیہ، فوج، انٹیلی جینس ایجینسیاں وغیرہ۔

تو سیدھے سیدھے عدلیہ اور فوج کہنے میں کیا قباحت ہے، سر جی؟ دوسرے معاملات میں یہ دونوں الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔

بات وہی ہے۔ یہ عدلیہ اور فوج مقدس ہیں، ان کے لیے ادارے کا لفظ استعمال کرنے سے رعب داب اور کرّوفر کے عناصر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔


لیکن لُغت میں تو ادارے کا مطلب ...

بھاڑ میں ڈالو لُغت کو۔ لُغت مقدس نہیں ہے۔ روزنامہ ''بطوطہ'' میں کام کرتے ہو۔معلوم ہونا چاہیے،لُغت کے الفاظ و معنی میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اب ہم نے عدلیہ اور فوج کے لیے ادارے کا لفظ متعین کردیا ہے تو یہ لفظ مقدس ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور ہم نے اس میں جس معنی کا انجکشن لگادیا ہے اب وہی چلے گا۔

گویا یہ حرف آخر ہے۔ 'ادارے' کے ساتھ کوئی لاحقہ یا سابقہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے؟ جیسے آپ کہتے ہیں، مقدس لوگوں کا فرمان، تعلیمی اداروں کی کار کردگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

نالائق، میر انیس نے کہا ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

آہستہ بولو، دفتر کے سب لوگ سُن رہے ہیں۔ ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ اور دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ذوالفقار بخاری صاحب نوں یاد کرو، اُناں نے کی دَسیا سی؟ دھیان نال سنو، کَن کھول کے سنو، اُناں نے اشارہ کیتا سی؎

اڑوں کہاں کہ فضا میں بھی جال پھیلے ہیں

میں پر سُکیڑ کے بیٹھا ہوں آشیانے میں

مطلب یہ کہ جاسوسی کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ تم بخاری صاحب سے زیادہ علم رکھتے ہو؟ وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سربراہ رہے۔ دونوں محکمے براہ راست سرکار کے کنٹرول میں تھے۔ بخاری صاحب سیانے آدمی تھے۔ حُدود میں رہنے کا فن جانتے تھے۔ پر سُکیڑنے کے فن میں پختگی حاصل کرنے کے لیے ریاضت کرو، مشق کرو، سیاسی عافیت کا سامان کرو، کانٹوں سے بچو، پھولوں سے دوستی بڑھاؤ، گل رُخوں سے آشنائی کے اسباب ڈھونڈو۔ خواہ مخواہ دلدل میں کیوں اترنا چاہتے ہو؟ دلدل میں کودوگے تو میں کہوںگا، جیسے نواز شریف نے جو کیا اس کا پھل پایا اسی طرح تم نے جو بویا، اس کا پھل پایا، اپنے افسرن بالا کے ارشاداتِ عالیہ سے انحراف کیا، یہ اس کا پھل ہے۔

لیکن سرجی، لکھنے والے تو مُسلسل71 سال سے یہی بُھگت رہے ہیں۔ زباں بندیوں اور زنجیروں کا موسم ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہمیشہ سحر انصاری کا شعر اپنی کیفیت کے بیان میں استعمال کرتے ہیں۔

جانے کیوں رنگِ بغاوت نہیں چُھپنے پاتا! !

ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں

اور اپنے سیف الملوک والے حضرت میاں محمد بخش نے بھی فرمایا تھا:

خدمت گار، غلام بچارے، مُونھ سُکّے، تر دیدے

رونق رنگ ہویا مُتَغیّر، ہوئے درد رسیدے

ہم مارشل لاؤںکی سفّاک زباں بندیوں سے گزرے، جمہوریتوں کے قتلِ عام کی تصویریں دیکھیں، عدلیہ کے نظریۂ ضرورت کی تاب دار دھار دیکھی۔ ججوں کی آپس میں ہونے والی دھواں دھار جنگوں کا تماشا دیکھا۔ پی سی او کی جُگالی کا شرم ناک منظر دیکھا، حلف کو اُلٹتے پلٹتے دیکھا، لفظ ''مقدس'' کی بار بار دُرگت بنتے دیکھی۔ ہم تو بُھولنا چاہتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی نسیم حسن شاہ طویل نیند سے بیدار ہوکر اعلان کرتا ہے کہ ہم نے دباؤ میں آکر بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر مُہر لگائی۔ واہ واہ، قبر میں اُترنے سے پہلے مرحوم و مغفور کی پیشانی پر عرقِ انفعال کے قطرے نمودار ہوئے۔ لیکن بھٹو تو جان سے گزر گیا۔

اوئے، بھٹو کے کرتوت یاد نہیں، اس نے بھی جو بویا وہ کاٹا۔

سر جی، وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تو مقدمے میں سماعت کے طور طریقوں پر گفتگو کررہاہوں، جس میں بھٹو کو پھانسی کا حق دار قرار دیا گیا۔

اوئے، کیا بکتا ہے۔ نسیم حسن شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے، یہ ان کا اعتراف جرم نہیں، سچائی ہے، جو انھوں نے آخر کار تسلیم کرلی۔ ان کے بارے میں گستاخانہ لہجہ اختیار کرنا مقدس عدلیہ کی توہین کے مترادف ہے۔

جی۔۔۔۔۔۔ تو دباؤ میں آنے والے بھی ''مقدس'' ہوتے ہیں۔ یہ تو لفظ مقدس کی توہین ہے۔ سُنا ہے جج خود نہیں بولتا اس کا فیصلہ بولتا ہے۔یہاں تو جج مقدمے کی کارروائی کے دوران عجیب عجیب غیر متوقع الفاظ اور القابات دھڑادھڑ استعمال کرتے ہیں۔ بھٹو کیس میں جسٹس مولوی مشتاق حسین نے مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس منہ سے نکالے کہ ان کا ذاتی عِناد صاف جھلکنے لگا۔

اوئے کاکے، گڑے مُردے مت اُکھاڑو، آج پر نظر رکھو۔۔۔۔۔ اور خود پر قابو پاؤ، آواز کے ساتھ تمہارا لہجہ بھی بلند ہورہاہے، آنکھیں سرخ ہورہی ہیں۔ حیدر علی آتش نے کہا تھا:

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

جب آپ اوئے کہتے ہیں سر جی تو عمران خان یاد آتا ہے۔ اوئے، میں تیرے پیچھے آرہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اوئے تیرے گھر کا پھاٹک توڑ کر اندر گھس جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔ ساری دیواریں گرادوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارے شیشے توڑ ڈالوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتھ روم کے کموڈ اور تولیے آگ میں ڈال دوں گا۔۔۔۔۔

ہوش میں آؤ، اب عمران کو کہاں گھسیٹ لائے؟ گڑے مُردے اُکھاڑنے کا بہت شوق ہے، کیوں؟

سر جی، آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر۔ آپ آج پر نظر ڈالیں، شوکت صدیقی صاحب نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابے، شوکت صدیقی کہاں سے آگئے، وہ تو ایک افسانہ نگار اور ناول نویس تھے، خیالی باتیں لکھتے تھے۔ میں نے بھی پڑھی ہے ''خدا کی بستی'' اور ''جانگلوس'' بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر جی! میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے آنر یبل جج شوکت صدیقی کی بات کررہا ہوں۔ ان کے خلاف بھی ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر چیف جسٹس ماتحت عدالتوں کی عزت نہیں کریں گے تو وہ بھی اپنے ادارے کے دفاع کے لیے جواب دِہ نہیں۔ مذاق ہی بنا لیا ہے، اگر کسی کا چہرہ اچھا نہیں لگتا تو اس کی تضحیک شروع کر دیتے ہیں۔'' سر جی، بات تو ٹھیک ہے، یہ ناروا رواج عام ہورہاہے۔ جج کو تو صرف دونوں طرف کے دلائل سننے چاہییں۔ دوران سماعت دھمکی آمیز ریمارکس ادا کرنے سے یہ تاثر بر آمد ہوتاہے کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے۔

بَد بَختا، بدنصیبا، آگ میں ہاتھ ڈالتا ہے، جل جائے گا۔ توہین عدالت کا خطرہ مول لیتا ہے، پچھتائے گا۔

سر جی! آپ بھی زباں بندی کررہے ہیں۔ ہم لوگ تو اظہار رائے کی آزادی کا پرچار کرتے ہیں۔ اس پر بھی غور کریں۔ آپ کا بھی دہن بگڑ رہا ہے۔

مجھے آئینہ دکھانا چاہتے ہو؟ چلو بَکو، جو بھی بَکنا ہے، جی بھر کے بَکو، لیکن آواز اس کمرے سے باہر نہ جائے۔ بھڑاس نکال لو اور کر بھی کیا سکتے ہو؟

میرا مطلب ہے سر جی! آپ کھڑے ہوجائیں بیٹھے نہ رہیں۔

پاگل ہو گیا ہے؟ اب تم مجھے آرام سے بیٹھنے بھی نہیں دینا چاہتے۔ تمہاری عمر کا نہیں ہوں، بوڑھا ہورہاہوں۔ داڑھی سفید ہو رہی ہے۔ مجھے تمہارے مقابلے میں زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ میری عمر کو پہنچوگے تو معلوم ہوجائے گا۔

جی، جی! آپ بے شک بیٹھے رہیں لیکن آواز تو بلند کریں۔ کہتے ہیں اہل قلم، اہل صحافت کا جُھکاؤ تو ہمیشہ حزب اختلاف کی طرف ہوتا ہے۔ یہ تو بڑی بے ہودہ دلیل ہے کہ جو بویا وہ کاٹا۔ دلیل نہیں، حرفِ آخر ہے۔ اہل صحافت کو تو ہتھیلی دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والے نجومی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ صرف متعلقہ موضوع پراُصولی انداز میں بھرپور تجزیہ کرنا چاہیے۔ یہ تو بہت آسان عمل ہے کہ 'قسمت میں یہی لکھا تھا' کہہ کر جان چُھڑالو۔ ان مختصر الفاظ میں زباں بندی کے سارے اسباب موجود ہیں۔

تو میں تمہاری اس بیان بازی سے، نام نہاد مدلل گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کروں کہ اپنا آرام چھوڑ کر کرسی سے اٹھ جاؤں اور بازاروں میں نکل کر نعرے بازی کروں؟ اہل صحافت نعرہ باز نہیں ہوتے۔ پُتَر جی، بچّے جمُورے، دماغِچ پا لے۔ معروضی اسباب و حالات دیکھتے ہوئے ہر کام کرنا چاہیے۔

سر جی، آپ کا مطلب ہے، سر پر لٹکتی تلوار پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ ٹھیک ہے، تو سر جی! یہ صحافت وحافت چھوڑ کر کوئی اور کام کرنا چاہیے۔

کوئی اور کام، کیسا کام؟

سرجی! مثال کے طور پر حجام بن جاتے ہیں، کسی ہیئرکٹنگ سیلون میں کام کرتے ہیں۔ وہاں بھی قینچیاں چلتی ہیں۔ آمدنی بھی زیادہ ہے، لوگ ٹِپس بھی دیتے ہیں۔

شَٹ اَپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوپ پ پ! تو دریدہ دہن ہے نامُراد، پِھٹّے مُنہ، دفع ہوجا، فوراً۔ میں تجھے ملازمت سے ڈِس مِس کرتا ہوں۔ تو یہاں کام کرنے کی اہلیت سے قطعاً محروم ہے۔ اپنا بستہ، بوریا بستر سمیٹ، باہر نکل جا۔ اب یہاں شکل مت دکھانا۔

سرجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو معافی مانگے گا، نہیں ملے گی، فوراً رفو چکّر ہوجا!

معافی نہیں سرجی، میں عرض کرنا چاہتاہوں کہ بال ترشوانے کے لیے میرے ''بطوطہ ہیئر کٹنگ سیلون'' پر آیا کریںگے ناں؟

؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
Load Next Story