ایک موقع جوکھو دیا گیا
سی بی آئی نے آزاد ہونے کا موقع کھو دیا ہے لہذا اب حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسے آزاد و خودمختار ادارہ قرار دیدے۔
یقین کریں یا نہ کریں' سپریم کورٹ نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے استفسار کرتے ہوئے کہ آخر وہ آزاد کیوں نہیں ہے' اس کو پیش نظر ایک معاملے میں آزادانہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ لیکن سی بی آئی' جسے کہ چاہیے تھا اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیتی' اس میں ناکام رہی۔ اس کے پاس وزیر قانون اشوانی کمار کے خلاف مقدمے میں نہایت ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ وزیر موصوف نے کوئلے کے بلاکوں کی الاٹمنٹ کی اسکینڈل کی رپورٹ میں رد و بدل کیا ہے۔ اصل میں حکومت نے ناگہانی طور پر مداخلت کر دی تھی جس کی بنا پر اس ڈرافٹ کی عین اس طرح ''تصحیح'' کرنا پڑی جس طرح کہ وزیر قانون چاہتے تھے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ سی بی آئی نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جب کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایجنسی تحقیقات کی آزادانہ رپورٹ دیا کرے، لیکن ایجنسی نے ایسا نہ کیا کیونکہ اس کو احساس تھا کہ ایسا کرنا حکومت کی مخالفت کے مترادف ہو گا۔ بظاہر یہ سی بی آئی اور حکومت دونوں کی ناکامی ہے۔ انھیں باور کرنا چاہیے تھا کہ ایجنسی اپنے طور پر آزادانہ کام کرے۔ اب جب کہ سی بی آئی نے آزاد ہونے کا موقع کھو دیا ہے لہذا اب حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسے آزاد و خودمختار ادارہ قرار دیدے۔ اس مقصد کے لیے ایک مسودہ قانون (بل) پہلے ہی پارلیمنٹ کے سامنے ہے لیکن وہاں سے اس کے حق میں پوری حمایت حاصل نہیں ہو رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں، کانگریس اور بی جے پی چاہتی ہی نہیں ہیں کہ سی بی آئی کو کاٹ کھانے والے دانت (یعنی اختیارات) دیے جائیں۔ مجھے یہ پتہ نہیں کہ دیگر پارٹیاں سی بی آئی کو کس حد تک آزاد دیکھنا چاہتی ہیں یہ بات البتہ طے ہے کہ سی بی آئی نے با اختیار ہونے کا ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔
بھارتی سیاست میں اب بھی کرپشن پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت نے تو اسکینڈلوں کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں۔ نہ ہی کبھی اس سے پہلے سی بی آئی پر اس قدر لوگوں کی نظریں لگی ہوں گی جو دیکھنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں نے اپنے اختیارات کا کیسے کیسے ناجائز استعمال کیا ہے۔ وجہ سادہ ہے کہ سی بی آئی کو موجودہ سیٹ اپ میں اپنی محدودات کا بخوبی علم ہے۔ وزیر قانون کی یہ دلیل کہ انھوں نے رپورٹ میں تبدیلی کر کے کوئی غلط کام نہیں کیا کیونکہ وہ ایجنسی کے قانونی مشیر ہیں۔ لیکن یہ دلیل کھوکھلی ہے۔
بہر حال جب بھی حکومت کی الماری سے کوئی ڈھانچہ لڑ کھڑاتے ہوئے باہر گرتا ہے تو حکومت کی طرف سے اسی قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سی بی آئی سے کہا جاتا ہے کہ ''تحقیقات کرو''۔ لیکن جب تک یہ ایجنسی حکومت کا ہی ایک ماتحت ادارہ ہو گی اور اسی نظام کا حصہ ہوگی تو اس کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات خارج از امکان نہیں۔ سی بی آئی کے بہت سے سابق ڈائریکٹروں نے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ ان پر کسی مقدمے کے سلسلے میں کس قسم کا دباؤ تھا اور انھیں کیسی ہدایات دی گئی تھیں۔ اس سارے منظر نامے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بھی اس بارے میں کوئی بریفنگ دی گئی تھی یا نہیں۔ اور چونکہ ان کا ماضی کا ریکارڈ بالکل صاف ستھرا ہے جس سے ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ ان کو ان چیزوں کا پتہ ہی نہیں ہو گا۔ یہ قرین قیاس ہے۔ یقینی طور پر بیشک ممکن نہ بھی ہو کہ یہ سب کچھ عین وزیراعظم کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ہے۔ لیکن پھر آپ توقع کر سکتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ طشت از بام ہو جائے تو اس کے ذمے دار افسروں کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ اور آخر کیوں آج تک کسی تحقیقات کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا؟
لیکن اس سے مجھے قطعاً کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ پارٹی اس سے پہلے بھی ایسی بہت ساری صورت حالات کا سامنا کرچکی ہے اور ان پر خاصی کامیابی سے قابو بھی پاتی رہی ہے۔ پارٹی پر کوئی مضر اثرات ثبت نہیں ہوئے البتہ جو اشوانی کمار اور انجہانی وزیر ریلوے پون کمار بنسل کا اسکینڈل منظر عام پر آ گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک تنازعہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایک تیسرا نمودار ہونے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک کسی اور حکومت کی اس بری طرح درگت نہیں بنی جس طرح کہ منموہن سنگھ حکومت کی بنتی چلی آ رہی ہے۔
جہاں تک سی بی آئی اور وزیر قانون کے ایشو کا تعلق ہے تو اس معاملے کا ایک مخصوص پہلو ہے۔ جیسا کہ توقع تھی کانگریس نے پہلے تو تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا اور اپنے حساب سے کوئی وضاحتیں بھی پیش کیں لیکن پھر اعتراف کرلیا کہ وزیر قانون نے رپورٹ پڑھی ضرور تھی اور شاید کچھ تبدیلیاں کرنے کی تجویز بھی دی ہو۔ لیکن تین ججوں پر مشتمل بنچ جس نے کہ سی بی آئی اے ڈائریکٹر رنجیت سنہا کو بیان حلفی داخل کروانے کی ہدایت کی ہے اس سے پس پردہ ہونے والی سرگرمیوں پر کوئی روشنی نہیں پڑ سکے گی۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس ایجنسی نے ہمیشہ ہی برسر اقتدار حکومت کے دبائو میں رہ کر ہی کام کیا ہے۔ جس کا کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر نے سپریم کورٹ کے سامنے اعتراف بھی کیا کہ ''یہ تحقیقاتی ایجنسی کسی الگ تھلگ مقام پر قائم نہیں ہے۔ گو کہ ان کا یہ بیان ہمارے لیے کوئی انکشاف نہیں۔
بہر حال سنہا کے اعتراف سے بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سی بی آئی جیسے اداروں کی وقت کے ساتھ ساتھ قدر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اصل ذمے داری حکومت ہی کی ہے کہ وہ الزامات کا فیصلہ سیاسی اقتدار کے نکتہ نظر سے نہ کرے۔ ماضی میں سی بی آئی کے ذریعے کرائی جانے والی بہت ساری تحقیقات پر ابھی تک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے جو یہ چاہتی ہی نہیں کہ سی بی آئی اے اختیارات میں بہت زیادہ اضافہ کیا جائے۔
مثال کے طور پر بی جے پی کا معاملہ دیکھیے جو کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اس نے پارلیمنٹ میں اس ایشو پر بہت تقریریں کی ہیں اور اشوانی کمار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح دوسری پارٹیاں بھی بیچارے اشوانی کمار کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ لیکن کوئی بھی پارٹی سی بی آئی کو حکومت کے اثرات سے نکلنے کی کوئی تجویز پیش نہیں کر رہی۔ یہ اچھی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اب اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سی بی آئی حکومت کی بیساکھیوں کے بغیر خود اپنے قدموں پر کھڑی ہونی چاہیے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ سی بی آئی کے لیے کون سا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں کہ یہ ادارہ آزادانہ طور پر تحقیقات کر سکے۔
بدقسمتی سے حکومت کو اس بات کا افسوس بھی نہیں لگتا کہ اس کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ جہاں تک منموہن سنگھ حکومت کا تعلق ہے تو اس کا کوئی بھی دعویٰ اب قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس کی کسی وضاحت کو کوئی حیثیت دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی اقدام کو سنجیدہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ گویا اعتماد کی کمی نے انتظامیہ کے تمام شعبوں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)