جالب اب بھی غالب
ملکی حالات پر جالب کی نظر کس قدر دور جارہی ہے جیسے جالب ہمارے ملک میں موجود ہیں۔
حبیب جالب کو رخصت ہوئے 20برس گزرگئے مگر ان کی یادیں پر عزم سیاسی کارکنوں کے دل میں آج بھی زندہ ہیں۔ کراچی میں ان کے نام سے منسوب امن ایوارڈ بھی دیے گئے۔گزشتہ دنوں معراج محمد خان کو بھی جالب امن ایوارڈ دیاگیا، معراج محمد خان جو این ایس ایف کے رہنما اور ذوالفقارعلی بھٹو کے جانشین کے نام سے بھی مشہور تھے، وزارت کے تھوڑے عرصے بعد ہی ان کو فارغ کردیاگیا اور وہ اپنی جوانی کی عزت کو دامن میں سمیٹے بیٹھے ہیں۔ ایک انتخاب1970میں ہواتھاایک کل ہونے کو ہے وہ بھی عجیب وغریب انتخاب ہے۔ اس انتخاب میں جو لوگ بھی حصہ لے رہے ہیں اور اقتدار کی مسند پر کئی مرتبہ براجمان ہوئے عوام کو مایوسی اور ظلمت کے سوا کچھ نہ دے سکے، حبیب جالب نے اپنی شاعری میں عوام کو جو شعور بخشا شاید ہی کوئی پاکستانی شاعر انقلاب کا یہ آہنگ پیش کرسکا ہو۔ سہیل ممتنع اور جذبات کی عکاسی کے ساتھ انھوں نے اہل پاکستان کو جس طرح گرمایا اور حاکموں کو بے نقاب کیا ہے کوئی آسان کام نہ تھا مگر انداز بیاں نظیر اکبر آبادی کے طرز نگارش جس میں موت کے بعد کا منظر یہ تھا کہ موت کے بعد زر وجواہر کا کیا ہوگا:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
یہاں ٹھاٹھ باٹھ والوں، اہل ثروت اور چور حاکموں، ظالموں کو للکارا گیا ہے، پاکستان میں جالب نے اس وقت 1973 کے آئین کا دامن چاک کیاتھا جب روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ پیپلزپارٹی نے لگایاتھا۔1973کا آئین محض ذوالفقارعلی بھٹو کا بنایا ہوا نہ تھا اس میں تقریباً50فیصد کاوشیں میر غوث بخش بزنجو کی ہیں جو نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما تھے اور پھر بھی ان کو اس دستور سے پورے طورسے اتفاق نہ تھا اور نیشنل عوامی پارٹی کو بھی اس سے پوری طرح اتفاق نہ تھا کیونکہ روٹی کپڑا اور مکان کو اس دستور کا حقیقی حصہ نہ بنایاگیا تھا۔ اسی وجہ سے حبیب جالب صاحب جو نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ممتاز رہنما تھے اس دستور پرکڑی تنقید کی تھی ان کی مشہور نظم جو 1973کے آئین پر ہے وہ انھی حقیقتوں کو آشکارا کرتی ہے جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں اور آج بھی اول روز کی طرح تر وتازہ ہیں۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر درمندوں کے بنتے ہو کیوں
اور اس کے بعد یہ نظم یونہی جاگیرداری سماج کے پروردہ لیڈروں کی عکاسی کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے' حبیب جالب صاحب لاہور میں اپنے دوست شمیم اشرف ملک کے گھر جا کر میں انقلابی تحریک کو فعال کرکے اور گرد ونواح کے شہروں میں نوجوانوں کو سیاست کے رموز سے آشنا کرانے اور عمر رسیدہ لوگوں کا سیاست پر زوایہ نگاہ درست کرنے میں لگے رہے، قید وبند کی صعوبتیں ان کو ڈرانہ سکیں وہ اکثر کہا کرتے تھے۔
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
جالب حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے زندگی بھر کوئی مراعات نہ لیں سبط حسن صاحب نے عوام سے چندہ کرکے گھر دلوایا اور خان عبدالغفار خان سے ان کا ہلکا سا کمبل لیا جو عمر بھر ان کے ساتھ رہا۔بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ حبیب جالب صاحب نیشنل عوامی پارٹی میں کیا کرتے تھے، خصوصاً آج کے نوجوانوں کو تو اس معمہ کا حل کیا ہے کچھ نہ سمجھ نہیں پاتے ہوں گے، بھٹو نے جب نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت 2صوبوں میں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں توڑدی اور نیشنل عوامی پارٹی(NAP)پر ملک دشمنی کا مقدمہ چلایا تو باہر نکلنے کے بعد ان کے لیڈروں میں اختلاف پیدا ہوگیا، ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کو اے این پی کا نام دے دیا (ANP) اور غوث بخش بزنجو نے نیشنل پارٹی اس طرح پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، عطاء اﷲ مینگل نے الگ پارٹی بنالی، نیشنل عوامی پارٹی جو دراصل قوم پرست پارٹی تھی 1953 میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین پر چوہدری محمد علی کی ہدایت پر کریک ڈاؤن یعنی کالعدم قرار دے دیاگیا اور دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں اور انقلابی خیالات رکھنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیاگیا تو جو لوگ پناہ لے سکتے تھے انھوں نے پناہ لے لی یا سیاست چھوڑدی یا جان دے دی، باقی لوگوں نے خان عبدالغفار خان کی نیشنل پارٹی میں پناہ لے لی، سرخپوشوں کے نظریات کچھ روس نواز تھے، انھیں وہاں پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور اپنا پروگرام انھی لوگوں کے درمیان پیش کرتے رہے، حبیب جالب تو بھارت سے12چودہ سال کے آئے تھے، لہٰذا حصول تعلیم کے بعد انھوں نے یہ پارٹی اپنے لیے منتخب کی اور اپنی شاعری کا لوہا منوایا جب ایوب خان کا مارشل لاء آیا تو پھر ترقی پسند جن کو بائیں بازو کا سیاست داں کہاجاتاتھا کھٹن وقت ان پر آیا اسی دور میں بائیں کے ایوب خان کے دور میں شہید کردیے گئے۔ یہ انقلابی رہنما رکن کی ایک متمول خاندان کے واحد چشم وچراغ تھے جو حسن ناصر کے نام سے مشہور تھے، بہر صورت اس دور میں بھی زر کثیر کمانے والے کماتے رہے مگر جالب زبوں حالی کا شکار رہے چونکہ جالب پارٹی کے اندر کی پارٹی کے رکن تھے اس لیے ان کی زندگی قید وبند میں زیادہ گزری مگر ان کی سر فروشی کا سراغ حکومت کو نہ مل سکا اس لیے قتل ہونے سے محفوظ رہے، ایوب خان کے زمانے میں بڑے بڑے سورما انڈر گراؤنڈ (Under ground)چلے گئے مگر جالب عوام کے سر کا تاج بنے رہے۔
ایک روز انھی دنوں معروف شاعر حفیظ جالندھری لاہور انارکلی کے قریب ہوٹل میں ملے تو کہنے لگے کہ تو یہ کیا الٹی پلٹی شاعری کرتا پھرتا ہے کہ میں نہیں مانتا وغیرہ ایوب خان کو حفیظ جالندھری سے بہت عقیدت تھی اور پاکستان کا قومی ترانہ بھی ان کی ہی کاوش ہے۔
انھوں نے ایوب خان سے اپنی رفاقت کا بھی ذکر کیا کہ آدھی رات کو ایوب خان کا فون آجاتاہے اور مشورے مانگتے ہیں اس پر جالب کے چند اشعار جو حفیظ جالندھری کو طنزاً مشورہ دیاگیا اس کی تصویر ملا حظہ ہو کہ آپ بے فکر رہیں اور اپنی پالیسی جاری رکھیں:
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہں جہل کا نچوڑ ہیں
بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے عقل ہے شعور ہے
بولتے جو چند ہیں سب یہ شر پسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
وغیرہ۔۔۔ (اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی دس کروڑ تھی) لہٰذا ایسے سر فروش شاعر کو جو ملک کی سیاست کا ترجمان ہو اس کو زندہ رہنما ہی ہے۔
ملکی حالات پر جالب کی نظر کس قدر دور جارہی ہے جیسے جالب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ یہ کشت وخون نظریات کی جنگ نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ میں انسان پس رہا ہے، روٹی، کپڑے مکان اور دوسرے وعدوں پر جالب تمام لیڈروں پر غالب نظر آتے ہیں، جب تک یہ جنگ زر گری جاری ہے عوام کو سکھ کیونکر ملے گا، ان کا کہنا ہے نظام بدل کر عوامی جمہوری انقلاب کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوگا،1970سے آج تک مسلسل نشیب کا سفر ہم طے کررہے ہیں، جالب کا کہناہے ادھر ادھر مت دیکھو خود حیات اور کائنات کو لے کر چلو ، ان کا کہناہے:
روٹی کپڑا مکان ہم دیں گے
اہل محنت کو شان ہم دیں گے
جالب کی شاعری پر کیا کہوں کیا لکھوں انھوں نے ایک سائنس داں کے طریقے سے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا ہے اور جالب کا کلام ہمارے سیاسی معاملات پر آج بھی غالب ہے۔جالب کی شاعری کے نکتہ نظر کی روشنی میں ملک کی نام نہاد اشرافیہ کا ڈھانچہ عوام کی زندگی کو کبھی بدل نہ سکے گا اور موجودہ طرز کے انتخابات عوام کی زندگی کو بہتر نہ بناسکیں گے۔