آج کا قومی ترانہ

اس وقت اگر اقتدار کا کھیل ترک نہ کیا گیا تو پاکستان کے وجود کو سخت خطرات لاحق ہو جائیں گے۔


Aftab Ahmed Khanzada May 09, 2013

میرا دل چاہتا ہے کہ میں یو م شہداء کے موقعے پر کی گئی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر بار بار سنوں کیونکہ یہ صرف ایک تقریر نہیں بلکہ آج کا قومی ترانہ ہے یہ قومی ترانہ ملک کے بازاروں، گلیوں اور محلوں میں گونجتا رہنا چاہیے۔ انھوں نے اپنی تقریر کے ذریعے قوم کو ایک نئی سمت دی ہے قوم کو حوصلہ دیا ہے اور قوم کو ایک نئی امید دی ہے۔

آج پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پاکستان کے عوام اور پاکستان کی جمہوری و لبرل قوتوں کے لیے ایک چیلنج ہیں اور سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہیں ان واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سے قائداعظم کا انتقال جلد ہو گیا ان کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں قومی ریاست کو کامیاب بنانے کا ایک طریقہ جمہوری عمل تھا جس میں وفاق کی مختلف اکائیوں کو معاشی اور سیاسی حقوق دے دیے جاتے اس کے لیے عوام کو حاکمیت کا سر چشمہ قرار دینا پڑتا تھا۔

ایک دوسر ا طریقہ یہ تھا کہ مذہب کے نام پر سیاست کا نمونہ قائم کیا جائے یہ ناقابل عمل اور تباہ کن راستہ تھا اس وقت کے پاکستان کے حکمران طبقے نے 12 مارچ 1949ء قرار داد مقاصد منظور کر کے اسی راستے کا انتخاب کیا اور اللہ کو اقتدار اعلیٰ کا سر چشمہ قرار دے کر عوام سے حاکمیت کا حق چھین لیا گیا ملکی امور میں مذہبی رہنماؤں کی مداخلت کا دروازہ یہ کہہ کر کھو لا گیا کہ ریاست کا فرض شہریوں کو اسلامی طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے اس سے پاکستانی ریاست کی نوعیت ہی بدل کر رہ گئی اور اس کی بنیادوں میں بھو نچال رکھ دیے گئے اس کا نتیجہ 16 دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان کی علیحد گی کی صورت میں سامنے آیا۔

اس کے باوجود باقی ماند ہ پاکستان میں دستوری، قانونی، سیاسی اور معاشرتی تشخص کو درست کر نے کی کوشش نہیں کی گئی اور پاکستان مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا مذہب کو قوانین کا ماخذ قرار دینے کا مطلب عملی طور پر پارلیمنٹ کو مفلو ج کرنا تھا جب کہ داخلی سطح پر پاکستان میں اسلامی دنیا کے ساتھ تعلق پر زور دینے سے ریاست کے مذہبی شناخت مضبو ط ہوئی۔ مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسو خ میں اضافہ ہوتے ہی اسلامی نظام کے تصور نے زور پکڑا اور جاگیرداروں، افسر شاہی اور غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے ملاؤں کوسیاسی، معاشی اور معاشرتی مراعات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

نظریہ پاکستان کی اصطلاح پہلی بار 1960ء کی دہائی میں سننے میں آئی جب کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے کبھی نظریہ پاکستان کی اصطلاح استعمال نہیں کی تھی اس کا حتمی مقصد پاکستان میں جمہوریت کا راستہ روکنا تھا۔ اتفا ق کی بات یہ تھی کہ سو ویت یونین اور امریکا کے درمیان کشمکش کا آغاز ہو گیا امریکا کو خدشہ تھا کہ کیمو نسٹ انقلاب کہیں افغانستان اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اس وقت امریکن حکمت عملی یہ تھی کہ دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں کو کمیونسٹ انقلا ب روکنے کے کے لیے استعمال کیا جائے اس امریکن حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی چاندی ہو گئی ایک اور مسئلہ پاکستان میں بھارتی خطرے کا بھی تھا۔

بھارتی خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط کرنا پڑا جب افغانستان میں روسی افواج افغان حکومت کی دعوت پر داخل ہو گئیں تو امریکہ کو یہ فیصلہ کر نا پڑا کہ پاکستان کی اسلامی تنظیموں اور دنیا بھر کے جہاد ی گروپوں کو روسی افواج سے متصادم کروا دیا جائے اس کے نتیجے میں افغا نستان میں ایک طو یل جنگ ہوئی اور روس کے جانے کے بعد بھی افغا نستان پر غلبے کے لیے ان جہادی تنظیموں کے درمیان آپس میں زبردست جنگ ہوتی رہی جس میں تقریباً10 لاکھ افراد اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے اس جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے تھے۔

بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان سے ہی ایک گروہ کو تیار کر کے افغا نستان میں امن بحال کیا جائے پاکستان میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کا دستہ ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں داخل ہوا اور وہ دستہ افغانستان میں غلبہ حاصل کر تا چلا گیا طالبان نے افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد پاکستان میں بھی اپنا عمل دخل شروع کر دیا۔ 1993ء میں جب امریکہ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تو امریکی حکومت نے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں تعاون کیا جائے بعد ازاں 1998ء میں ایک امریکی سب میرین پر حملہ ہوا اس میں امریکی فوجی مارے گئے اسی سال نیروبی میں امریکہ کے سفار ت خانے کو بم سے اڑا دیا گیا امریکی حکومت بار بار یہ کہتی رہی کہ ان واقعات میں شامل افراد افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں پینٹا گون اور ٹریڈ ٹاور پر حملے سے قبل امریکی حفیہ ایجنسیاں مسلسل یہ رپورٹ دیتی رہیں کہ امریکہ میں ایک بہت بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہونے والا ہے لیکن اعلیٰ سطح پر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے امریکی خفیہ ایجنسیاں اس نیٹ ورک کو پکڑنے میں ناکام رہیں۔

پینٹا گون اور ٹریڈ ٹاور پر حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا امریکا نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور طالبان کی حکومت کو افغانستان میں ختم کر نے کا فیصلہ کیا امریکی حملے کے نتیجے میں طالبا ن تتر بتر ہوئے تو انھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہیں ڈھو نڈ نا شروع کر دیں ۔ بعد ازاں انھوں نے پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا، ماضی کی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے پاکستان کو ایک سازش کے تحت انتہا پسندی اور دھشت گردی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بعض عناصر اپنے مخصو ص مقاصد کے لیے ان واقعات کو امریکا سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات سے دنیا کے اہم ترین مسلم ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس کے نتیجے میں ملک کو معاشی طور پر بھی نقصان پہنچ رہا ہے پاکستان کو غیر مستحکم کر نے کی کو شش کرنا ناپاک عزائم کو بے نقاب کر رہا ہے ان عناصر نے جمہوریت کو کفر کہہ دیا ہے اور پارلیمنٹ کو کافروں کا نظام کہہ دیا ہے آئین کو ماننے سے انکا ر کر دیا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ملک کے آئین موجودہ سیاسی نظام اور پاکستان کی سا لمیت پر اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف اپنا بھر پور کردار ادا کریں شاید کچھ سیاسی قوتیں اس خطرے کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

جو انتہا پسندی اور جنو نیت کی صورت میں ملک میں پھیل رہی ہے اس وقت اگر اقتدار کا کھیل ترک نہ کیا گیا تو پاکستان کے وجود کو سخت خطرات لاحق ہو جائیں گے افغانستان میں بھارت کا اثر و رسو خ اور افغانستان کے راستے شدت پسندوں کو مالی وسائل سمیت اسلحہ کی فراہمی اور بلوچستان کے حالات میں بیرونی مداخلت پاکستان کے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہے کچھ سیاسی قوتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کھل کر انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جنونیوں کی مخالفت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اس لیے کہ وہ ان کے حامیوں سے خو فزدہ ہونے کے علاوہ انھیں اپنا ساتھی تصور کرتے ہیں۔

شاید انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور جنو نیت کو نہ روکا گیا تو اس کا اگلا ہدف پنجاب ہو گا ہمارے میڈیا میں بیٹھے بعض عناصر اندرون خانہ نہ صرف ان کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ ان کے لیے راہ ہموار کرتے رہتے ہیں خود انھیں بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ وہ ملک کو کس خو فنا ک آگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ مسئلہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے قوم کو متحد اور محترک کر کے ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کے عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ صرف اتفا ق رائے، اتحاد اور یقین محکم ہمیں خو شحالی، ترقی کی جانب لے جا سکتے ہیں آئیے ہم دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں