ڈیموں کی تعمیر ناگزیردوسرا اور آخری حصہ
ڈیم کی تعمیر نے ہر پاکستانی کے دلوں میں خدشات جنم دے دیے ہیں جو ایک چیلنج بن چکا ہے
کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی ۔ 2011ء کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی ثالثی عدالت میں چلتا رہا، بالآخر فاضل عدالت نے نہ صرف پاکستان کے اعتراضات یکسر مسترد کردیے بلکہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی کا رخ موڑنے کی اجازت بھی دے دی ۔ بھارت کے بیشتر دریاؤں کے بہاؤکا رخ چونکہ پاکستان کی طرف ہے اس لیے بھارت کسی بھی وقت آبی دہشتگردی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
اس ڈیم کی تعمیر نے ہر پاکستانی کے دلوں میں خدشات جنم دے دیے ہیں جو ایک چیلنج بن چکا ہے۔ مستقبل میں پانی کی پیدا ہونے والی خراب صورتحال سے ہماری عدلیہ کے ذمے داران تک خاموش نہ بیٹھ سکے۔ اس ضمن میں حال ہی میں ملک کی اعلیٰ عدالت نے اس صورتحال کا نوٹس لے لیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں ججوں کے چار رکنی بینچ نے متعلقہ حکام کو دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی فوری تعمیر کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کالا باغ ڈیم کی بھی تعمیر کا جتنی جلد ممکن ہو سکے اس کو حتمی شکل دی جائے۔ اندیشہ ہے کہ کشن ڈیم کی عدم تعمیر سے پاکستان سالانہ 140 ملین ڈالر کے نقصان سے دو چار ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017ء سے خالی پڑا ہے جب کہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہارڈیم سمیت چھوٹے بڑے گیارہ ڈیمز مکمل کرچکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52 ڈیموں کی تعمیر مسلسل جاری ہے۔ اسی طرح مزید 190 ڈیموں کی تعمیر کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے Feasibility Report لوک سبھا اورکابینہ کمیٹی میں زیر غور ہے۔ کشن گنگا ڈیم جس دریا پر بنایا جا رہا ہے وہ پاکستان کے وادی نیلم سے ہوتا ہوا آزاد کشمیر کی راجدھانی مظفر آباد کے قریب دو میل کے مقام پر دریائے جہلم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اب بھارت نے بائیس کلومیٹر سرنگ بنا کر بلا مشروط دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا ہے۔ اب یہ وادی نیلم میں نہیں بہے گا۔
کشن گنگا پروجیکٹ کے لیے اسے وو لر جھیل کے ذریعے بارا مولا کے مقام پر مقبوضہ کشمیر ہی میں دریائے جہلم میں ڈال دیا گیا ہے، یعنی اس کے قدرتی بہاؤ میں فرق ڈال دیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک دھائی میں زراعت اور آبی وسائل کی اس زبوں حالی پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ ذرا غور کیجیے وادی نیلم سے دریائے نیلم ہی روٹھ جائے، اس کا رخ بدل دیا جائے تو یہ وادی کیا منظر پیش کرے گی۔ ویسے ہی وادی نیلم میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دریائے نیلم کے ساتھ ان کی زندگی چلتی ہے۔ دریا کے پانی سے ان کی چکیاں چلتی ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ وہ چاول کی فصل بھی اگاتے ہیں۔
یہ دریا ان کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ یاد رہے کہ اس قدرتی شا ہکار سے مزین سیاحتی حسین وادی میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں۔ اس وادی کا اکتالیس ہزار ایکڑ رقبہ دریائے نیلم ہی سے سیراب ہوتا ہے۔ پاکستان کے نیلم جہلم پروجیکٹ کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہماراستائیس فیصد پانی کم ہوجانے کے سبب نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں بیس فیصد کمی آنے کا قوی امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق دریا کے پانی کا رخ بدلا گیا ہے اس مقام سے دو میل تک 230 کلو میٹر کا علاقہ ہے ۔ اڑھائی سوگاؤں پر مشتمل یہ سارا علاقہ چند دنوں بعد ایک بہتے دریا سے محرومی کے اچانک گھن گرج کے ساتھ خطرناک بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے کئی دریا سوکھنے کے سبب ان دریاوں سے ملحق زمینیں تیزی سے بنجر ہو رہی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت UN Convention on Biological Diversity, Convention on Climate Change, Convention on Water Lands پر دستخط کر چکا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی دیکھیے کہ انھوں نے ان کنونشنز کوکسی بھی فورم میں ابھی تک چیلنج نہیں کیا۔ اس سے قبل بھی بھارت کئی مرتبہ اپنے دریاؤں کے سیلابی ریلوں کا رخ پاکستان کی طرف کر چکا ہے جس نے پاکستان کے دیہاتی علاقوں کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ تیار شدہ فصلیں تک اس سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئیںاور قابل شرم ہے یہ امر کہ ہمارے پاس اس سیلابی پانی کو باعث زحمت کی بجائے اس کو باعث رحمت بنانے کے لیے اس زائد ہنگامی پانی کو اسٹور کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں۔ اس سیلابی پانی کا سمندر میں گرنے کی بجائے اس پانی سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک سہانہ خواب ہی معلوم ہوتا ہے جو یقنا ملک و قوم کی شاندار مستقبل کے لیے سونے کی چڑیا ہی ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور رائیلٹی کا تعین کے سلسلے میں صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات کی جنم بھومی اس عظیم الشان منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی۔ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے سنگم پر واقع میانوالی سے بیس کلومیٹر کی مسافت پر تین بلند پہاڑوں کے وسط میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ''کالا باغ '' ہے جو اپنے دامن میں نوشہرہ اور مردان شہروں کو اپنی آغوش میں رکھا ہوا ہے۔ کالا باغ کا یہ علاقہ پنجاب کے شمال مغرب میں ایسے مقام پر واقع ہے جہاں پنجاب کی سرحد صوبہ پختونخوا سے ملتی ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے یہ مقام کم خرچ اور پیداواری استعداد کے حساب سے پانی کا ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے ملک کے دوسرے مقامات کی نسبت اہم اور نہایت موزوں جگہ ہے کیونکہ دریائے سندھ کے پانی کا شدید پریشر اسی مقام پر پایا جاتا ہے۔
اس ممکنہ ڈیم کی قومی دھارے میں اہمیت کا اس وقت پتہ چلا جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں کالا باغ ہی کے مقام پر متعلقہ حکام کو عالمی معیارکا ڈیم کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ کالا باغ ڈیم کی شہرت تین وجہ سے ہے۔ ایک دریائے سندھ کا تمام پانی کا پریشر اس مقام پر پایا جاتا، دوسرا اس کے تینوں اطراف پہاڑ ہیں اور تیسرے نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان کی اہم شخصیت ہے جو ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوہے کے ذخائر کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ 1953ء میں برطانو ی ماہرین کے ایک وفد نے کالا باغ کا تفصیلی سروے کرنے کے بعد ڈیم کے لیے محفوظ اور موزوں جگہ قرار دیا تھا۔ تینوں صوبوں کی بد گمانی کہ مگر سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا پانی کی تقسیم اور نہر وں کے معاملا ت میں پنجاب سے شاکی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن اور تعمیرات پنجاب میں واقع ہوں گے، اس لیے صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہوگا۔ اس ضمن میں صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم سے حکومت کو 55 سے 70ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ ہمارا بجلی کا شارٹ فال جو چھ ہزار میگاواٹ ہو چکا ہے ڈیم ہمیں ایک اندازہ کے مطابق پانچ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی بھی فراہم کرے گا۔ اس ڈیم کی تکمیل کے بعد ہمیں 85 لاکھ ایکڑ مکعب فٹ پانی بھی جمع کرسکتے ہیںجس سے ہماری زراعت کو بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ اس وقت پاکستا ن کا چار لاکھ ایکڑ مکعب فٹ پانی سمندرکی نظر ہو جاتا ہے۔ڈیم کے بننے سے اس پانی کے ضیاع کا احتمال کم ہو جاتا ہے۔ اس کی تکمیل کی لگ بھگ لاگت گیارہ بلین کے قریب بتائی جاتی ہے جو ورلڈ بینک اور کچھ دوست ممالک دینے کو رضامند ہیں۔ ڈیم نہ ہونے کی صورت میں ہم تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور تیل سے بجلی بنانے کے لیے تیل بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے درآمد کرتے ہیں۔جو ہمارے خزانہ پر بھاری مالی بوجھ کا سبب بھی بنتا ہے۔ آج ہم بجلی ڈیزل سے بنا رہے ہیں جو ماحولیا ت پر بھی بری طرح اثر اندا ز ہورہا ہے۔