منشوروں سے غیر حاضر معاملات
ان حساس موضوعات کا ذکر جن سے پارٹیوں کے منشور لاتعلق رہے یا انھیں شرح وبسط سے بیان نہیں کیا گیا
''خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے منشور بنانا لازمی حیثیت رکھتا ہے۔'' (بابائے سنگاپور، لی کیوان یو)
پاکستان میں اکثر سیاسی لیڈروں کا خیال ہے کہ پارٹی کے منشوروں کا کم ہی لوگ مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کے موقع پر منشور جاری کرنا رسمی سی کارروائی ہے۔ منشور پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی لیڈر پُرکشش انتخابی نعرے اور معاصرین پر تابڑ توڑ حملے کرنے والی جذباتی تقریریں تخلیق کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں سیاسی جماعتوں کے منشور کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ منشور ہی سے عوام و خواص کو پتا چلتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کس قسم کے نظریات و خیالات رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اقتدار سنبھال کر وہ کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کرے گی کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل ہوجائیں۔ گویا منشور ایک سیاسی جماعت کے لیے ''راہِ عمل'' جیسی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی لیے دنیا بھر میں الیکشن کے موقع پر ہر سیاسی جماعت کا منشور بڑی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جو سیاسی جماعت الیکشن سے قبل عوام سے کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعت الیکشن جیت کر حکومت بنا لے، تو عوام منشور دیکھ کر جان سکتے ہیں کہ پارٹی اپنے انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کررہی ہے یا نہیں۔ اس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے یا وہ منشور میں کیے گئے اپنے وعدوں اور دعوؤں سے انحراف کرچکی ہے۔
منشور گویا ایسی تحریری دستاویز ہے جو ایک سیاسی جماعت کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتی ہے۔ حکومت سنبھال کر اگر وہ منشور میں کیے گئے اعلانات اور منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہناسکے، تو یہ اس کی نااہلی و کوتاہی سمجھی جاتی ہے۔ اگلے الیکشن میں پھر عوام اسے مسترد کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں زیادہ طاقتور نہیں اور ان پر نظریات نہیں شخصیات کا غلبہ ہے۔ پارٹیوں میں (اندرونی) الیکشن بہت کم ہوتے ہیں اور بیشتر عہدے اہلیت و لیاقت نہیں طاقت و اثرورسوخ اور موروثی لحاظ سے تفویض کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کے وقت ہر پارٹی اپنے منشور کی چند ہزار کاپیاں طبع کرتی ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے بہت سے امیدوار بھی اپنے منشور سے ناواقف ہوتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ کہ ماضی میں مسلمانان برصغیر کے نزدیک ہر پارٹی کا منشور بہت اہمیت رکھتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور دانشوروں کی ایک کمیٹی کی مدد سے بنایا تھا۔ بعدازاں اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ 1946ء میں ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی خاطر صوبائی الیکشن اور آئین ساز اسمبلی کے الیکشن ہوئے تھے۔
ان دونوں الیکشنوں میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانان ہند کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔اس جیت کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ یہ پارٹی اپنے منشور کے نکات عام مسلمانوں تک پہنچانے میں کامیاب رہی۔ دہلی، علی گڑھ، لاہور، پشاور اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزارہا مسلمان طلبہ و طالبات کو آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کا تفصیلی مطالعہ کرایا گیا۔ انہوں نے اس منشور کو سمجھا اور پھر اسے آسان الفاظ میں عام مسلمانوں تک پہنچا دیا۔یوں پارٹی کا پیغام ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ جب دونوں اہم الیکشن ہوئے، تو اس میں روپیہ پیسہ، برادری،طاقت، اثروررسوخ کچھ کام نہ آیا اور مسلمانوں نے صرف آل انڈیا آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔ گویا پاکستان کے قیام میں پارٹی کے منشور کا بھی اہم عمل دخل رہا۔الیکشن 2018ء کے موقع پر چار بڑی سیاسی جماعتوں... مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل نے اپنے منشور پیش کیے۔ان منشوروں میں معیشت، تعلیم، صحت، امور خارجہ ،سیکورٹی وغیرہ سے متعلق ایشو یا موضوعات بیان کیے گئے۔ تاہم بہت سے اہم ایشو یا موضوعات ایسے ہیں کہ وہ درج ہونے سے رہ گئے یا ان کا ذکر سرسری انداز میں کیا گیا۔ ذیل میں انہی ایشوز کا احوال پیش خدمت ہے۔
گڈ گورنینس
وطن عزیز کی ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ قائداعظم ؒ کے بعد اسے اچھا انتظام یا گڈ گورنینس اختیار کرنے والے حکمران میّسر نہ آ سکے۔اس خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خصوصاً سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی اکثریت ذاتی مفادات پر نظر رکھنے والی، سطحی، کرپٹ یا نااہل تھی۔وہ پاکستان کے وسائل سے استفادہ کر کے ملک وقوم کو ترقی نہ دے سکے، البتہ مٹھی بھر کرپٹ طبقہ ضرور مالامال ہو گیا۔
گڈ گورنینس کا دراصل اصول وقوانین سے تعلق ثانوی ہے۔ بنیادی طور پہ اس عمل کی کامیابی کا انحصار حکمرانوں کی شخصی خوبیوں پر ہے۔ظاہر ہے،حکمران دیانت دار،باصلاحیت اور محب وطن ہوں تو وہ ملک چلانے کا بہترین انتظام کریں گے۔گویا گڈ گورنینس حاصل کرنے کی خاطر سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ الیکشن کے ذریعے باصلاحیت حکمران ایوان اقتدار میں لائے جائیں۔پارٹیوں کے حالیہ منشوروں میں گڈ گورنینس کا سرسری تذکرہ ہوا ہے۔حالانکہ ہر پارٹی کو تٖفصیل سے بیان کرنا چاہیے تھا کہ حکومت سنبھال کر وہ گڈ گورنینس کے عمل کو کس طرح کامیبابی سے اختیار کرے گی تاکہ سیکڑوں مسائل میں گرفتار ملک ان سے نجات پا سکے۔
قرضہ جات کا بوجھ
سٹیٹ بینک پاکستان کے اعدادو شمار کی رو سے حکومت پاکستان اس وقت 24 کھرب روپے کی مقروض ہے (یاد رہے، یہاں ایک کھرب روپے سے مراد ایک ہزار ارب ہے جسے انگریزی میں ''ٹریلین'' کہتے ہیں)۔ اس قرضے میں بیرونی اور اندرونی، دونوں قسم کے قرضہ جات شامل ہیں۔ملک و قوم پر بیرونی قرضے کی مالیت 90 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جب 2014ء میں مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو پاکستان تقریباً چودہ کھرب روپے کا مقروض تھا۔ گویا پانچ برس میں مسلم لیگ (ن) حکومت نے ملک پر مزید آٹھ کھرب روپے کے قرضے بڑھا دیئے۔ اسے یقینا متاثرکن کاکردگی اور گڈ گورنینس نہیں کہا جاسکتا۔ صاف عیاں ہے کہ حکومت عالمی و قومی ماحولیاتی اداروں اور بینکوں سے قرضے لے کر ترقی منصوبے مثلاً اورنج ٹرین وغیرہ انجام دیتی رہی۔ ترقیاتی منصوبوں سے عوام کو بہرحال فائدہ پہنچتا ہے مگر اس طرح پاکستانی قوم مقروض بھی ہو گئی۔
اس وقت پاکستان کے وفاقی بجٹ کا آدھے سے زائد حصہ دفاع اور قرضے اتارنے پر خرچ ہورہا ہے۔لہذا عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نئے ترقیاتی منصوبوں کی خاطر کم ہی رقم بچتی ہے۔ قرضوں میں حد سے زیادہ اضافہ قومی سلامتی بھی خطرے بھی ڈال سکتا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں ملک و قوم کو قرضوں سے نجات دلانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں وہ جامع حکمت عملی آشکارا نہیں کرسکیں۔ ملکی ترقی کے لیے قرض لینا ایک ناگزیر عمل ہے مگر قرضوں کو حل سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے۔ پاکستانی حکومتیں یہ حد پارکرچکیں۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ خالی خزانے کے ساتھ قرضوں کا سود کیونکر ادا کرے گی اور اس بوجھ سے کیسے نکلے گی؟یہ عیاں ہے کہ نئی حکومت کو قرضوں پر کم سے کم انحصار کرنا ہوگا۔
عدالتی نظام کی اصلاح
ایک انسانی معاشرہ اسی وقت مضبوط و مستحکم ہوتا ہے جب وہاں قانون کی حکمرانی ہو اور شہریوں کو فوری انصاف میسر آئے۔ یہی وجہ ہے، مدینہ منورہ میں شہری ریاست قائم کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں قاضیوں کا تقرر فرمایا تھا۔ تب مدینہ منورہ کی آبادی تقریباً دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ان شہریوں کے مابین تصفیے کرانے کی غرض سے پندرہ بیس قاضی مقرر تھے۔ حضور اکرمﷺؐ قانون پر سختی سے عملدرآمد کراتے تھے۔
نیز قاضی مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے۔ یہی وجہ ہے، مدینہ منورہ اعلیٰ درجے کی انسانی ریاست بن گئی۔صد افسوس کہ آنے والے ادوار میں اسلامی خطّوں کے حکمران قانون و انصاف کا مدینہ منورہ جیسا اعلیٰ معیار کم ہی پیش کرسکے۔ دور حاضر میں پاکستان کی مثال ہی لیجیے۔ ایک رپورٹ کی رو سے عدالتوں میں ''اٹھارہ لاکھ'' مقدمات زیر التوا ہیں۔ کئی مقدمے تیس برس سے چل رہے ہیں اور ان کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ گویا پاکستان میں شہریوں کو فوری انصاف نہیں مل پاتا جس سے معاشرے میں غم و غصّہ اور ناہمواری بڑھتی ہے۔ یہ سچائی یہ بھی آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام صحیح طریقے سے کام نہیں کررہا ۔ اسے اصلاحات کے عمل کی ضرورت ہے تاکہ وہ خامیوں سے پاک ہوسکے۔انصاف جلد مہیا کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ججوں کی کمی ہے۔ ایک ضلع میں سیشن کورٹ سب سے نچلی عدالت ہے۔
اس عدالت میں زیادہ سے زیادہ پندرہ جج کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے اکثر اضلاع کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے۔ لہٰذا جج کم ہونے سے مقدمات لٹک جاتے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔پاکستان کی عدالتی نظام کی ایک اور نمایاں خامی یہ ہے کہ اس کے سول اور کرمنل پروسیجر کوڈ ایک صدی سے زائد پرانے ہیں۔ یہ کوڈز سابق برطانوی حکمرانوں نے بنائے تھے۔ اسی طرح گواہی کا قانون بھی 1984ء میں بنایا گیا ۔
ان تمام قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انصاف کی بہترین اور فوری فراہمی ممکن ہوسکے۔عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل پارلیمنٹ میں انجام پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کے نمائندے، جج صاحبان اور ارکان اسمبلی اس ضمن میں گفت و شنید اور مشاورت کریں۔ باہمی مشاورت سے اصلاحات کا عمل خیروخوبی سے شروع ہوسکتا ہے۔ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ کو مقدمات چلانے کے سلسلے میں سب سے اہم ہونا چاہیے۔ ابھی یہ ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کو مقدمات کی خامیاں دور کرنا پڑتی ہیں۔ یوں زیادہ وقت اور توانائی لگتی ہے۔ اگر ٹرائل کورٹل میں ہی سبھی سچ سامنے آجائیں تو مقدمات جلد نمٹ سکتے ہیں۔ یوں مقدمہ اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ کر ختم نہیں ہوگا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکلا کو بھی اپنے اندر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ وہ قانون کے محافظ ہیں نہ کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے بن جائیں۔ مزید براں انہیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ وہ ظالم کو بچانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ اس طرح تو معاشرہ لاقانونیت اور تباہی کا نشانہ بن جائے گا۔پارٹیوں کے منشوروں میں بہرحال عدالتی نظام کی اصلاح کو نمایاں نہیں کیا گیا۔
ماحولیات کا بچاؤ
پاکستان کو ماحولیاتی لحاظ سے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آب و ہوائی تبدیلیوں نے ماحولیات سے وابستہ خطرات بڑھارہے ہیں۔ یہ انسانی صحت، زراعت اور قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بڑھنے، درختوں کی بے دریغ کٹائی، آبادی میں تیزی سے اضافے اور سرمائے کی کمی نے ان خطرات کو جنم دیا ہے۔پارٹیاں ان خطرات کو اپنے منشوروں میں جامع انداز سے نمایاں نہیں کر سکیں۔خاص طور پر پانی کی کمی ہر پاکستانی شہر کا مسئلہ بن چکی۔ گو بارشیں ہونے سے یہ کمی جاتی رہتی ہے مگر یہ عارضی حل ہے۔ جس سال بھی کم بارشیں ہوئیں، تو پانی کی کمی پاکستان میں سب سے بڑا انسانی مسئلہ بن جائے گا۔ ڈیم نہ ہونے، بھارت کی آبی جنگ، دقیانوسی آب پاشی نظام، پانی ضائع کرنا اور شعور کی عدم موجودگی سے پانی کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ آبادی بڑھانے سے بھی پانی کی طلب میں اضافہ ہوا۔
درختوں کی کٹائی ماحولیات کے بگاڑ کا بڑا سبب ہے۔ اقوام متحدہ کی رو سے ہر ملک کا کم از کم 25 فیصد رقبہ درختوں سے ڈھکا ہونا چاہیے۔ مگر پاکستان میں یہ رقبہ صرف 4 فیصد ہے۔ گو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سبز پاکستان پروگرام، بلین ٹری سونامی، ریڈ پلس نامی منصوبوں کے ذریعے لاکھوں درخت لگائے ہیں مگر اس ضمن میں مزید کام کرنا باقی ہے۔ہوائی آلودگی بھی پاکستان کا ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن چکا۔ خاص طور پر شہروں میں صاف ہوا ناپید ہوتی جارہی ہے۔ کارخانوں، گاڑیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے خارج ہونے والی گیسیں ہماری ہوا کو زہریلا بنارہی رہیں۔ ضروری ہے کہ ان گیسوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے۔ پاکستانی قوم کی تندرستی کے لیے صاف و پاک ہوا لازماً دستیاب ہونی چاہیے۔
حکومت پاکستان نے ماحولیات کی حفاظت کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں مگر عام لوگ ان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے، درخت سرعام کاٹے جاتے ہیں۔ کھلے عام کوڑا جلایا جاتا ہے اور ندی نالوں میں پلاسٹک شاپر جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی قوم ماحول دشمن اقدامات سے پرہیز کرنے لگے، تو ہماری ماحولیات کا معیار بہت بہتر ہوسکتا ہے۔کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا بدترین نظام بھی ماحولیات کا بڑا دشمن ہے۔ گھر ہو یا کارخانہ یا ہسپتال، بہت سے لوگ کوڑا کرکٹ نالوں، غیر آباد مقامات، نہروں یا دریاؤں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ کوڑا کرکٹ سڑ کر زہریلا مواد بن جاتا ہے۔ وہ پھر آبی مخلوق کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ڈیموں کی تعمیر
اس سال وطن عزیز میں خریف کی فصلوں کو ''42 فیصد'' کم پانی ملا ہے۔ وجہ یہ کہ ہمارے ڈیم دریاؤں میں پانی کم ہونے کی وجہ سے نہیں بھر سکے۔ چنانچہ آنے والے مہینوں میں خریف کی فصلوں (چاول، گنا، کپاس وغیرہ) کی قلت جنم لے گی۔پارٹیوں نے اپنے منشور میں نئے ڈیم بنانے کا ذکر کیا ہے مگر یہ موضوع بہت زیادہ اہمیت کا متقاضی ہے۔ وجہ یہ کہ ہوا کی طرح پانی بھی انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازمی حیثیت رکھتا ہے جبکہ آب و ہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی مقدار تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ اس قلت پر نئے ڈیم بناکر ہی خاصی حد تک قابو پانا ممکن ہے۔
صد افسوس کہ پچھلے پچاس برس سے پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بن سکا۔ یہی وجہ ہے، ملک میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ اقوام متحدہ کی رو سے ہر ملک میں کم از کم 120 دن کے لیے پانی کا ذخیرہ موجود ہونا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی، بھارت 220 دن کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ مصر بھی ہماری طرح قلت آب کا شکار ہے لیکن وہ 900 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست کرچکا۔یہ نہایت ضروری ہے کہ ملک میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں تاکہ مستقبل میں شدید قلت آب جنم نہ لے سکے۔ اگر ہمارے حکمران طبقے نے ڈیم تعمیر کرنے کے سلسلے میں بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والی پاکستانی نسلیں اسے کبھی معاف نہیں کریں گی۔یہ یاد رہے کہ ڈیم نہ بننے سے فصلوں کے لیے مطلوبہ پانی میسر نہیں آئے گا۔ یوں پاکستان میں اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار گھٹ جائے گی۔ غذا کی قلت سے خوراک مہنگی ہوگی۔ یوں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اس خرابی سے معاشرے میں بے چینی اور افراتفری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
آبادی میں بے ہنگم اضافہ
بچوں کی تعداد کم از کم کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنا علما کے مابین متنازع موضوع ہے۔ تاہم ہمارا دین اعتدال پر زور دیتا ہے کیونکہ وہ دین فطرت ہے۔ نیز اجتہاد کی بھی اجازت دی گئی ہے تاکہ بدلتے حالات سے ہم آہنگی اختیار کی جاسکے۔ماضی میں اسلامی ممالک کی آبادی کم تھی۔ اس لیے حکومتیں زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور دیتی رہیں مگر اب بہت سے ملکوں میں آبادی حد سے زیادہ تجاوز کرچکی، اسی لیے وہاں یہ مطالبہ جنم لے چکا کہ اب جوڑوں کو دو تین بچے ہی پیدا کرنا چاہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔
پاکستان کا معاملہ ہی دیکھئے۔ 1951ء میں موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی۔ آج وہ تقریباً اکیس کروڑ تک پہنچ چکی۔ فی الوقت شرح افزائش آبادی دو فیصد سے زیادہ ہے۔ اگر یہی شرح برقرار رہی، تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ ہوجائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں 'سوال یہ ہے کہ کروڑوں افراد کے لیے خوراک کہاں سے آئے گی؟ ہر سال پڑھ لکھ کر نئے آنے والے نوجوانوں کو ملازمتیں کہاں سے ملیں گی؟ آج بھی لاکھوں پاکستانی بیروزگار گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح لاکھوں بچے سکول نہیں جاپاتے کیونکہ ایک تو تعلیمی ادارے کم ہیں، دوسرے ان کے والدین اخراجات تعلیم برداشت نہیں کرسکتے۔
بتایا گیا کہ ہمارا دین فطرت کے قریب ہے۔ فطری تقاضا یہ ہے کہ ایک ملک میں آبادی اتنی ہونی چاہیے کہ دستیاب قدرتی وسائل اس کی ضروریات پوری کرسکیں۔ قدرتی وسائل سے آبادی کا بڑھ جانا دینی فطری اصولوں سے متصادم ہے۔ اس طرح صحت مند اور توانا آبادی جنم نہیں لے سکتی کیونکہ قدرتی وسائل کی کمی سے وہ مختلف مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔یہ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے منشوروں میں آبادی کنٹرول کرنے کی خاطر جامع و متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کریں۔ حد سے زیادہ آبادی ملکی ترقی کا بیشتر حصہ بھی ہڑپ کرجاتی ہے۔
کردار کی تعمیر
سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں فرد کے کردار کی تعمیر پر بھی روشنی نہیں ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ آج اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ مادہ پرستی سے لگاؤ نے شہریوں کی اکثریت کا اخلاقیات سے تعلق کمزور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے، اب نیکی اور بدی، جھوٹ اور سچ اور خیر و شر کے مابین تمیز مٹ رہی ہے۔مثال کے طور پر پچاس ساٹھ سال قبل رشوت لینے یا دینے والے کو قابل نفرت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج کہا جاتا ہے کہ رشوت تو زندگی کا چلن بن چکا۔ ایک زمانہ تھا جب ایک عام آدمی بھی اسلامی خلافت میں طاقتور خلیفہ وقت سے قمیص کی بابت سوال کرسکتا تھا۔ آج ہمارا یہ ذہنی رویہ بن چکا کہ ہم کرپٹ حکمران کی بابت آرام سے کہہ دیتے ہیں ''اگر وہ کھاتا ہے، تو لگاتا بھی تو ہے۔''
آج دکان دار کم تولنے یا خراب مال چھپا کر دینے میں ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ دولت مند ٹیکس نہ دینے پر اظہار فخر کرتا ہے۔ تیز رفتار گاڑی کا ڈرائیور کسی راہ گیر کو کچل دے، تو عموماً جاں بلب انسان کی مدد کرنے کے بجائے موقع سے فرار ہوجاتا ہے۔ غرض پاکستانی قوم بہ حیثیت مجموعی اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ وہ اس لیے بھی معاشی و معاشرتی زوال میں مبتلا ہوچکی۔
یہ سیاسی لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے قول و فعل سے دیانت دار، فرض شناس، قانع، منکسرالمزاج، رحم دل اور مخیر ہونے کا ثبوت دیں۔ اخلاقی خوبیوں سے متصف اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر چل کر ہی پاکستانی بھی اخلاقی برائیوں سے نجات پاسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے منشوروں میں قوم کی اخلاقیات درست کرنے والا جامع و مربوط پروگرام پیش کریں۔
سڑکوں پر بڑھتا ٹریفک
وطن عزیز میں سڑکوں پر بڑھتا ٹریفک بھی مسئلہ بن رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ روزانہ کئی ہزار نئی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں سڑکوں پر آرہی ہیں۔ چونکہ سڑکوں کا پھیلاؤ تو وہی ہے لہٰذا نئی گاڑیاں آنے سے ان پر زیادہ ہجوم رہنے لگا ہے۔ بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں تو سڑکوں پر گاڑیوں کی اتنی کثرت ہوچکی کہ معمولی سا حادثہ ہوجائے، تو سڑک پر چند منٹ میں کاروں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
سڑکوں پر ٹریفک جام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر ڈرائیور ڈرائیونگ کے اصول و قوانین سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ٹریفک رکنے اور چلنے کا نام ہے۔ پاکستانی ڈرائیوروں کی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ بلا روک ٹوک سڑکوں پر گاڑیاں بھگاتے رہیں۔ اکثر ڈرائیور جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
گاڑی چلانے کے اصول و قوانین پر عمل نہ کرنے سے روزانہ پاکستان کی سڑکوں پر کئی انسان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ٹریفک کو منظم کرنے اور قانون کے تحت چلانے کی خاطر اپنے منشوروں میں ٹریفک سدھار پلان پیش کریں۔ ٹریفک کا بگاڑ نفسیاتی امراض بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا ٹریفک کے بہاؤ میں روانی سے پاکستانی شہریوں پر جسمانی ہی نہیں نفسیاتی طور پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
کاغذات نامزدگی کا معاملہ
سیاسی جماعتوں نے اپنے حالیہ منشوروں میں کاغذات نامزدگی کے اہم معاملے کو بھی بھر پور طریقے سے پیش نہیں کیا حالانکہ اس کی وجہ سے الیکشن 2018ء ملتوی ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس معاملے نے اکتوبر 2017ء میں جنم لیا جب حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود حزب اقتدار نے الیکشن بل منظور کرلیا۔ اگلے سال جب الیکشن 18ء کا موقع آیا تو انکشاف ہوا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن بل 2017ء کے تحت جو نئے کاغذات نامزدگی تیار کیے، ان میں امیدواروں کی نجی، سیاسی اور عوامی زندگی سے متعلق اہم معلومات کا ذکر گول کردیا۔ یہ انکشاف ہونے پر نئے کاغذات نامزدگی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیئے گئے۔
جون 2018ء میں لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے فیصلہ دیا کہ نئے کاغذات نامزدگی آئین کی دفعہ 62 اور 63 سے متصادم ہیں۔ اس لیے انہیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ تاہم چند دن بعد سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ منسوخ کرڈالا۔ مگر عدالت عالیہ نے کاغذات نامزدگی میں وہ بیان حلفی یا تصدیق نامے بحال کردیئے جو ارکان پارلیمنٹ نے حذف کردیئے تھے۔درج بالا تصدیق نامے الیکشن میں امیدواروں کی یہ معلومات فراہم کرتے ہیں: اس نے بینک سے کوئی قرضہ لے رکھا ہے؟ بیوی بچوں کی تعداد، کاروبار اور ذرائع آمدن کی تفصیل، امیدوار پر کیا مقدمات چل رہے ہیں؟ پچھلے تین سال میں کتنا ٹیکس ادا کیا؟ فلاحی کاموں میں کتنا حصہ لیا، جائیداد کی تفصیل وغیرہ۔
الیکشن 2018ء کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ تب ارکان اسمبلی کا فرض ہوگا کہ وہ کاغذات نامزدگی کو زیادہ موثر اور جامع بنائیں۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بابت زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلیں۔ اس طرح امیدواروں کے مابین باہمی تقابل سہل ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن بل 2017ء کی خامیاں بھی دور کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ اس معاملے کو منشور کا حصہ بھی بنانا چاہیے تاکہ الیکشن کمیشن پاکستان ایک بااختیار اور طاقتور ادارہ بن سکے۔
لاپتا افراد کامسئلہ
پاکستان میں مختلف سیاسی، مذہبی، لسانی اور دہشت گردانہ تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ان تنظیموں کے کارکن بعض اوقات مخالف تنظیموں کے افراد کو اغوا کرلیتے ہیں۔ ان اغوا کنندگان کی پھر لاشیں ملتی ہیں یا وہ شدید زخمی حالت میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اغوا شدہ افراد لاپتا ہوجاتے ہیں اور ان کی کچھ خبر نہیں ملتی۔ مزید براں خفیہ ایجنسیوں پر بھی الزام لگتا ہے کہ وہ ملک دشمن افراد کو اغوا کرکے نامعلوم مقامات پر قید کردیتی ہیں۔
سال رواں کے آغاز میں چیف جسٹس پاکستان،میاں ثاقب نثار نے لاپتا افراد کے معاملے کا سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ تب سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس نے قراردیا تھا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہم وطنوں کی گمشدگی کے معاملے میں ملوث نہیں۔ انہوں نے پھر سکیورٹی ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ جلد معلوم کیا جائے، لاپتا افراد کہاں اور کس حال میں ہیں۔پاکستان بھر سے لوگوں کا لاپتا ہونا ایک اہم معاملہ ہے۔ تاہم سبھی پاکستانی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ امید ہے، نئی حکومت اس سلسلے میں اہم پیش رفت دکھائے گی تاکہ پاکستان لاپتا افراد کے مسئلے سے چھٹکارا پاسکے۔
خواتین اور بچوں پر ظلم
وطن عزیز میں معصوم بچوں کا اغوا و زیادتی بھی سنگین مسئلہ بن چکا۔ جبکہ خواتین کو ہراساں کرنا بھی معمول بن رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں یہ بیان نہیں کیا کہ ان دو اہم معاشرتی مسائل سے کیونکر نمٹا جائے۔ اس ضمن میں انہیں جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے کوشاں سماجی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کو سخت قوانین بنانا ہوں گے۔ نیز یہ ضروری ہے کہ بچوں اور خواتین پر ظلم ڈھانے والے مجرموں کو عدالتوں سے سخت سزائیں مل جائیں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ بچوں اور خواتین کو اپنے ناپاک ارادوں کا تختہ مشق بناسکیں۔درج بالا معاملات کے علاوہ جاگیرداری نظام، سیاسی جماعتوں میں اصلاحات، کمپنیوں کا من مانی کرنے کی خاطر کارٹیل بنالینا، شام و یمن کا مسئلہ، مدارس میں قانون سازی، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، مذہبی انتہا پسندی، قدرتی آفات کے بعد بچاؤ کا عمل، ادب و ثقافت کے ذریعے پاکستان کا سافٹ امیج پیدا کرنا وہ موضوع ہیںجن پر سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں زیادہ روشنی نہیں ڈالی تاہم یہ اپنی جگہ اہم اور دورس معاملات کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر سیاسی لیڈروں کا خیال ہے کہ پارٹی کے منشوروں کا کم ہی لوگ مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کے موقع پر منشور جاری کرنا رسمی سی کارروائی ہے۔ منشور پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی لیڈر پُرکشش انتخابی نعرے اور معاصرین پر تابڑ توڑ حملے کرنے والی جذباتی تقریریں تخلیق کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں سیاسی جماعتوں کے منشور کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ منشور ہی سے عوام و خواص کو پتا چلتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کس قسم کے نظریات و خیالات رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اقتدار سنبھال کر وہ کون سی ایسی حکمت عملی اختیار کرے گی کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل حل ہوجائیں۔ گویا منشور ایک سیاسی جماعت کے لیے ''راہِ عمل'' جیسی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی لیے دنیا بھر میں الیکشن کے موقع پر ہر سیاسی جماعت کا منشور بڑی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جو سیاسی جماعت الیکشن سے قبل عوام سے کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعت الیکشن جیت کر حکومت بنا لے، تو عوام منشور دیکھ کر جان سکتے ہیں کہ پارٹی اپنے انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کررہی ہے یا نہیں۔ اس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے یا وہ منشور میں کیے گئے اپنے وعدوں اور دعوؤں سے انحراف کرچکی ہے۔
منشور گویا ایسی تحریری دستاویز ہے جو ایک سیاسی جماعت کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتی ہے۔ حکومت سنبھال کر اگر وہ منشور میں کیے گئے اعلانات اور منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہناسکے، تو یہ اس کی نااہلی و کوتاہی سمجھی جاتی ہے۔ اگلے الیکشن میں پھر عوام اسے مسترد کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں زیادہ طاقتور نہیں اور ان پر نظریات نہیں شخصیات کا غلبہ ہے۔ پارٹیوں میں (اندرونی) الیکشن بہت کم ہوتے ہیں اور بیشتر عہدے اہلیت و لیاقت نہیں طاقت و اثرورسوخ اور موروثی لحاظ سے تفویض کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، الیکشن کے وقت ہر پارٹی اپنے منشور کی چند ہزار کاپیاں طبع کرتی ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے بہت سے امیدوار بھی اپنے منشور سے ناواقف ہوتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ کہ ماضی میں مسلمانان برصغیر کے نزدیک ہر پارٹی کا منشور بہت اہمیت رکھتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور دانشوروں کی ایک کمیٹی کی مدد سے بنایا تھا۔ بعدازاں اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ 1946ء میں ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی خاطر صوبائی الیکشن اور آئین ساز اسمبلی کے الیکشن ہوئے تھے۔
ان دونوں الیکشنوں میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانان ہند کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔اس جیت کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ یہ پارٹی اپنے منشور کے نکات عام مسلمانوں تک پہنچانے میں کامیاب رہی۔ دہلی، علی گڑھ، لاہور، پشاور اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزارہا مسلمان طلبہ و طالبات کو آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کا تفصیلی مطالعہ کرایا گیا۔ انہوں نے اس منشور کو سمجھا اور پھر اسے آسان الفاظ میں عام مسلمانوں تک پہنچا دیا۔یوں پارٹی کا پیغام ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ جب دونوں اہم الیکشن ہوئے، تو اس میں روپیہ پیسہ، برادری،طاقت، اثروررسوخ کچھ کام نہ آیا اور مسلمانوں نے صرف آل انڈیا آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔ گویا پاکستان کے قیام میں پارٹی کے منشور کا بھی اہم عمل دخل رہا۔الیکشن 2018ء کے موقع پر چار بڑی سیاسی جماعتوں... مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل نے اپنے منشور پیش کیے۔ان منشوروں میں معیشت، تعلیم، صحت، امور خارجہ ،سیکورٹی وغیرہ سے متعلق ایشو یا موضوعات بیان کیے گئے۔ تاہم بہت سے اہم ایشو یا موضوعات ایسے ہیں کہ وہ درج ہونے سے رہ گئے یا ان کا ذکر سرسری انداز میں کیا گیا۔ ذیل میں انہی ایشوز کا احوال پیش خدمت ہے۔
گڈ گورنینس
وطن عزیز کی ایک بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ قائداعظم ؒ کے بعد اسے اچھا انتظام یا گڈ گورنینس اختیار کرنے والے حکمران میّسر نہ آ سکے۔اس خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خصوصاً سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی اکثریت ذاتی مفادات پر نظر رکھنے والی، سطحی، کرپٹ یا نااہل تھی۔وہ پاکستان کے وسائل سے استفادہ کر کے ملک وقوم کو ترقی نہ دے سکے، البتہ مٹھی بھر کرپٹ طبقہ ضرور مالامال ہو گیا۔
گڈ گورنینس کا دراصل اصول وقوانین سے تعلق ثانوی ہے۔ بنیادی طور پہ اس عمل کی کامیابی کا انحصار حکمرانوں کی شخصی خوبیوں پر ہے۔ظاہر ہے،حکمران دیانت دار،باصلاحیت اور محب وطن ہوں تو وہ ملک چلانے کا بہترین انتظام کریں گے۔گویا گڈ گورنینس حاصل کرنے کی خاطر سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ الیکشن کے ذریعے باصلاحیت حکمران ایوان اقتدار میں لائے جائیں۔پارٹیوں کے حالیہ منشوروں میں گڈ گورنینس کا سرسری تذکرہ ہوا ہے۔حالانکہ ہر پارٹی کو تٖفصیل سے بیان کرنا چاہیے تھا کہ حکومت سنبھال کر وہ گڈ گورنینس کے عمل کو کس طرح کامیبابی سے اختیار کرے گی تاکہ سیکڑوں مسائل میں گرفتار ملک ان سے نجات پا سکے۔
قرضہ جات کا بوجھ
سٹیٹ بینک پاکستان کے اعدادو شمار کی رو سے حکومت پاکستان اس وقت 24 کھرب روپے کی مقروض ہے (یاد رہے، یہاں ایک کھرب روپے سے مراد ایک ہزار ارب ہے جسے انگریزی میں ''ٹریلین'' کہتے ہیں)۔ اس قرضے میں بیرونی اور اندرونی، دونوں قسم کے قرضہ جات شامل ہیں۔ملک و قوم پر بیرونی قرضے کی مالیت 90 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جب 2014ء میں مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو پاکستان تقریباً چودہ کھرب روپے کا مقروض تھا۔ گویا پانچ برس میں مسلم لیگ (ن) حکومت نے ملک پر مزید آٹھ کھرب روپے کے قرضے بڑھا دیئے۔ اسے یقینا متاثرکن کاکردگی اور گڈ گورنینس نہیں کہا جاسکتا۔ صاف عیاں ہے کہ حکومت عالمی و قومی ماحولیاتی اداروں اور بینکوں سے قرضے لے کر ترقی منصوبے مثلاً اورنج ٹرین وغیرہ انجام دیتی رہی۔ ترقیاتی منصوبوں سے عوام کو بہرحال فائدہ پہنچتا ہے مگر اس طرح پاکستانی قوم مقروض بھی ہو گئی۔
اس وقت پاکستان کے وفاقی بجٹ کا آدھے سے زائد حصہ دفاع اور قرضے اتارنے پر خرچ ہورہا ہے۔لہذا عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نئے ترقیاتی منصوبوں کی خاطر کم ہی رقم بچتی ہے۔ قرضوں میں حد سے زیادہ اضافہ قومی سلامتی بھی خطرے بھی ڈال سکتا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں ملک و قوم کو قرضوں سے نجات دلانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں وہ جامع حکمت عملی آشکارا نہیں کرسکیں۔ ملکی ترقی کے لیے قرض لینا ایک ناگزیر عمل ہے مگر قرضوں کو حل سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے۔ پاکستانی حکومتیں یہ حد پارکرچکیں۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ خالی خزانے کے ساتھ قرضوں کا سود کیونکر ادا کرے گی اور اس بوجھ سے کیسے نکلے گی؟یہ عیاں ہے کہ نئی حکومت کو قرضوں پر کم سے کم انحصار کرنا ہوگا۔
عدالتی نظام کی اصلاح
ایک انسانی معاشرہ اسی وقت مضبوط و مستحکم ہوتا ہے جب وہاں قانون کی حکمرانی ہو اور شہریوں کو فوری انصاف میسر آئے۔ یہی وجہ ہے، مدینہ منورہ میں شہری ریاست قائم کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں قاضیوں کا تقرر فرمایا تھا۔ تب مدینہ منورہ کی آبادی تقریباً دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ان شہریوں کے مابین تصفیے کرانے کی غرض سے پندرہ بیس قاضی مقرر تھے۔ حضور اکرمﷺؐ قانون پر سختی سے عملدرآمد کراتے تھے۔
نیز قاضی مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے۔ یہی وجہ ہے، مدینہ منورہ اعلیٰ درجے کی انسانی ریاست بن گئی۔صد افسوس کہ آنے والے ادوار میں اسلامی خطّوں کے حکمران قانون و انصاف کا مدینہ منورہ جیسا اعلیٰ معیار کم ہی پیش کرسکے۔ دور حاضر میں پاکستان کی مثال ہی لیجیے۔ ایک رپورٹ کی رو سے عدالتوں میں ''اٹھارہ لاکھ'' مقدمات زیر التوا ہیں۔ کئی مقدمے تیس برس سے چل رہے ہیں اور ان کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ گویا پاکستان میں شہریوں کو فوری انصاف نہیں مل پاتا جس سے معاشرے میں غم و غصّہ اور ناہمواری بڑھتی ہے۔ یہ سچائی یہ بھی آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام صحیح طریقے سے کام نہیں کررہا ۔ اسے اصلاحات کے عمل کی ضرورت ہے تاکہ وہ خامیوں سے پاک ہوسکے۔انصاف جلد مہیا کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ججوں کی کمی ہے۔ ایک ضلع میں سیشن کورٹ سب سے نچلی عدالت ہے۔
اس عدالت میں زیادہ سے زیادہ پندرہ جج کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے اکثر اضلاع کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے۔ لہٰذا جج کم ہونے سے مقدمات لٹک جاتے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔پاکستان کی عدالتی نظام کی ایک اور نمایاں خامی یہ ہے کہ اس کے سول اور کرمنل پروسیجر کوڈ ایک صدی سے زائد پرانے ہیں۔ یہ کوڈز سابق برطانوی حکمرانوں نے بنائے تھے۔ اسی طرح گواہی کا قانون بھی 1984ء میں بنایا گیا ۔
ان تمام قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انصاف کی بہترین اور فوری فراہمی ممکن ہوسکے۔عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل پارلیمنٹ میں انجام پائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کے نمائندے، جج صاحبان اور ارکان اسمبلی اس ضمن میں گفت و شنید اور مشاورت کریں۔ باہمی مشاورت سے اصلاحات کا عمل خیروخوبی سے شروع ہوسکتا ہے۔ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ کو مقدمات چلانے کے سلسلے میں سب سے اہم ہونا چاہیے۔ ابھی یہ ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کو مقدمات کی خامیاں دور کرنا پڑتی ہیں۔ یوں زیادہ وقت اور توانائی لگتی ہے۔ اگر ٹرائل کورٹل میں ہی سبھی سچ سامنے آجائیں تو مقدمات جلد نمٹ سکتے ہیں۔ یوں مقدمہ اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ کر ختم نہیں ہوگا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکلا کو بھی اپنے اندر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ وہ قانون کے محافظ ہیں نہ کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے بن جائیں۔ مزید براں انہیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ وہ ظالم کو بچانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ اس طرح تو معاشرہ لاقانونیت اور تباہی کا نشانہ بن جائے گا۔پارٹیوں کے منشوروں میں بہرحال عدالتی نظام کی اصلاح کو نمایاں نہیں کیا گیا۔
ماحولیات کا بچاؤ
پاکستان کو ماحولیاتی لحاظ سے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آب و ہوائی تبدیلیوں نے ماحولیات سے وابستہ خطرات بڑھارہے ہیں۔ یہ انسانی صحت، زراعت اور قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بڑھنے، درختوں کی بے دریغ کٹائی، آبادی میں تیزی سے اضافے اور سرمائے کی کمی نے ان خطرات کو جنم دیا ہے۔پارٹیاں ان خطرات کو اپنے منشوروں میں جامع انداز سے نمایاں نہیں کر سکیں۔خاص طور پر پانی کی کمی ہر پاکستانی شہر کا مسئلہ بن چکی۔ گو بارشیں ہونے سے یہ کمی جاتی رہتی ہے مگر یہ عارضی حل ہے۔ جس سال بھی کم بارشیں ہوئیں، تو پانی کی کمی پاکستان میں سب سے بڑا انسانی مسئلہ بن جائے گا۔ ڈیم نہ ہونے، بھارت کی آبی جنگ، دقیانوسی آب پاشی نظام، پانی ضائع کرنا اور شعور کی عدم موجودگی سے پانی کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ آبادی بڑھانے سے بھی پانی کی طلب میں اضافہ ہوا۔
درختوں کی کٹائی ماحولیات کے بگاڑ کا بڑا سبب ہے۔ اقوام متحدہ کی رو سے ہر ملک کا کم از کم 25 فیصد رقبہ درختوں سے ڈھکا ہونا چاہیے۔ مگر پاکستان میں یہ رقبہ صرف 4 فیصد ہے۔ گو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سبز پاکستان پروگرام، بلین ٹری سونامی، ریڈ پلس نامی منصوبوں کے ذریعے لاکھوں درخت لگائے ہیں مگر اس ضمن میں مزید کام کرنا باقی ہے۔ہوائی آلودگی بھی پاکستان کا ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ بن چکا۔ خاص طور پر شہروں میں صاف ہوا ناپید ہوتی جارہی ہے۔ کارخانوں، گاڑیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے خارج ہونے والی گیسیں ہماری ہوا کو زہریلا بنارہی رہیں۔ ضروری ہے کہ ان گیسوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے۔ پاکستانی قوم کی تندرستی کے لیے صاف و پاک ہوا لازماً دستیاب ہونی چاہیے۔
حکومت پاکستان نے ماحولیات کی حفاظت کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں مگر عام لوگ ان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے، درخت سرعام کاٹے جاتے ہیں۔ کھلے عام کوڑا جلایا جاتا ہے اور ندی نالوں میں پلاسٹک شاپر جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی قوم ماحول دشمن اقدامات سے پرہیز کرنے لگے، تو ہماری ماحولیات کا معیار بہت بہتر ہوسکتا ہے۔کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا بدترین نظام بھی ماحولیات کا بڑا دشمن ہے۔ گھر ہو یا کارخانہ یا ہسپتال، بہت سے لوگ کوڑا کرکٹ نالوں، غیر آباد مقامات، نہروں یا دریاؤں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ کوڑا کرکٹ سڑ کر زہریلا مواد بن جاتا ہے۔ وہ پھر آبی مخلوق کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ڈیموں کی تعمیر
اس سال وطن عزیز میں خریف کی فصلوں کو ''42 فیصد'' کم پانی ملا ہے۔ وجہ یہ کہ ہمارے ڈیم دریاؤں میں پانی کم ہونے کی وجہ سے نہیں بھر سکے۔ چنانچہ آنے والے مہینوں میں خریف کی فصلوں (چاول، گنا، کپاس وغیرہ) کی قلت جنم لے گی۔پارٹیوں نے اپنے منشور میں نئے ڈیم بنانے کا ذکر کیا ہے مگر یہ موضوع بہت زیادہ اہمیت کا متقاضی ہے۔ وجہ یہ کہ ہوا کی طرح پانی بھی انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازمی حیثیت رکھتا ہے جبکہ آب و ہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی مقدار تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ اس قلت پر نئے ڈیم بناکر ہی خاصی حد تک قابو پانا ممکن ہے۔
صد افسوس کہ پچھلے پچاس برس سے پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بن سکا۔ یہی وجہ ہے، ملک میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ اقوام متحدہ کی رو سے ہر ملک میں کم از کم 120 دن کے لیے پانی کا ذخیرہ موجود ہونا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی، بھارت 220 دن کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ مصر بھی ہماری طرح قلت آب کا شکار ہے لیکن وہ 900 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست کرچکا۔یہ نہایت ضروری ہے کہ ملک میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں تاکہ مستقبل میں شدید قلت آب جنم نہ لے سکے۔ اگر ہمارے حکمران طبقے نے ڈیم تعمیر کرنے کے سلسلے میں بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والی پاکستانی نسلیں اسے کبھی معاف نہیں کریں گی۔یہ یاد رہے کہ ڈیم نہ بننے سے فصلوں کے لیے مطلوبہ پانی میسر نہیں آئے گا۔ یوں پاکستان میں اجناس، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار گھٹ جائے گی۔ غذا کی قلت سے خوراک مہنگی ہوگی۔ یوں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اس خرابی سے معاشرے میں بے چینی اور افراتفری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
آبادی میں بے ہنگم اضافہ
بچوں کی تعداد کم از کم کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنا علما کے مابین متنازع موضوع ہے۔ تاہم ہمارا دین اعتدال پر زور دیتا ہے کیونکہ وہ دین فطرت ہے۔ نیز اجتہاد کی بھی اجازت دی گئی ہے تاکہ بدلتے حالات سے ہم آہنگی اختیار کی جاسکے۔ماضی میں اسلامی ممالک کی آبادی کم تھی۔ اس لیے حکومتیں زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور دیتی رہیں مگر اب بہت سے ملکوں میں آبادی حد سے زیادہ تجاوز کرچکی، اسی لیے وہاں یہ مطالبہ جنم لے چکا کہ اب جوڑوں کو دو تین بچے ہی پیدا کرنا چاہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔
پاکستان کا معاملہ ہی دیکھئے۔ 1951ء میں موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی۔ آج وہ تقریباً اکیس کروڑ تک پہنچ چکی۔ فی الوقت شرح افزائش آبادی دو فیصد سے زیادہ ہے۔ اگر یہی شرح برقرار رہی، تو 2050ء تک پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ ہوجائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں 'سوال یہ ہے کہ کروڑوں افراد کے لیے خوراک کہاں سے آئے گی؟ ہر سال پڑھ لکھ کر نئے آنے والے نوجوانوں کو ملازمتیں کہاں سے ملیں گی؟ آج بھی لاکھوں پاکستانی بیروزگار گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح لاکھوں بچے سکول نہیں جاپاتے کیونکہ ایک تو تعلیمی ادارے کم ہیں، دوسرے ان کے والدین اخراجات تعلیم برداشت نہیں کرسکتے۔
بتایا گیا کہ ہمارا دین فطرت کے قریب ہے۔ فطری تقاضا یہ ہے کہ ایک ملک میں آبادی اتنی ہونی چاہیے کہ دستیاب قدرتی وسائل اس کی ضروریات پوری کرسکیں۔ قدرتی وسائل سے آبادی کا بڑھ جانا دینی فطری اصولوں سے متصادم ہے۔ اس طرح صحت مند اور توانا آبادی جنم نہیں لے سکتی کیونکہ قدرتی وسائل کی کمی سے وہ مختلف مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔یہ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے منشوروں میں آبادی کنٹرول کرنے کی خاطر جامع و متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کریں۔ حد سے زیادہ آبادی ملکی ترقی کا بیشتر حصہ بھی ہڑپ کرجاتی ہے۔
کردار کی تعمیر
سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں فرد کے کردار کی تعمیر پر بھی روشنی نہیں ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ آج اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ مادہ پرستی سے لگاؤ نے شہریوں کی اکثریت کا اخلاقیات سے تعلق کمزور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے، اب نیکی اور بدی، جھوٹ اور سچ اور خیر و شر کے مابین تمیز مٹ رہی ہے۔مثال کے طور پر پچاس ساٹھ سال قبل رشوت لینے یا دینے والے کو قابل نفرت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج کہا جاتا ہے کہ رشوت تو زندگی کا چلن بن چکا۔ ایک زمانہ تھا جب ایک عام آدمی بھی اسلامی خلافت میں طاقتور خلیفہ وقت سے قمیص کی بابت سوال کرسکتا تھا۔ آج ہمارا یہ ذہنی رویہ بن چکا کہ ہم کرپٹ حکمران کی بابت آرام سے کہہ دیتے ہیں ''اگر وہ کھاتا ہے، تو لگاتا بھی تو ہے۔''
آج دکان دار کم تولنے یا خراب مال چھپا کر دینے میں ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ دولت مند ٹیکس نہ دینے پر اظہار فخر کرتا ہے۔ تیز رفتار گاڑی کا ڈرائیور کسی راہ گیر کو کچل دے، تو عموماً جاں بلب انسان کی مدد کرنے کے بجائے موقع سے فرار ہوجاتا ہے۔ غرض پاکستانی قوم بہ حیثیت مجموعی اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ وہ اس لیے بھی معاشی و معاشرتی زوال میں مبتلا ہوچکی۔
یہ سیاسی لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے قول و فعل سے دیانت دار، فرض شناس، قانع، منکسرالمزاج، رحم دل اور مخیر ہونے کا ثبوت دیں۔ اخلاقی خوبیوں سے متصف اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر چل کر ہی پاکستانی بھی اخلاقی برائیوں سے نجات پاسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے منشوروں میں قوم کی اخلاقیات درست کرنے والا جامع و مربوط پروگرام پیش کریں۔
سڑکوں پر بڑھتا ٹریفک
وطن عزیز میں سڑکوں پر بڑھتا ٹریفک بھی مسئلہ بن رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ روزانہ کئی ہزار نئی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں سڑکوں پر آرہی ہیں۔ چونکہ سڑکوں کا پھیلاؤ تو وہی ہے لہٰذا نئی گاڑیاں آنے سے ان پر زیادہ ہجوم رہنے لگا ہے۔ بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں تو سڑکوں پر گاڑیوں کی اتنی کثرت ہوچکی کہ معمولی سا حادثہ ہوجائے، تو سڑک پر چند منٹ میں کاروں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
سڑکوں پر ٹریفک جام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر ڈرائیور ڈرائیونگ کے اصول و قوانین سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ٹریفک رکنے اور چلنے کا نام ہے۔ پاکستانی ڈرائیوروں کی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ بلا روک ٹوک سڑکوں پر گاڑیاں بھگاتے رہیں۔ اکثر ڈرائیور جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
گاڑی چلانے کے اصول و قوانین پر عمل نہ کرنے سے روزانہ پاکستان کی سڑکوں پر کئی انسان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ٹریفک کو منظم کرنے اور قانون کے تحت چلانے کی خاطر اپنے منشوروں میں ٹریفک سدھار پلان پیش کریں۔ ٹریفک کا بگاڑ نفسیاتی امراض بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا ٹریفک کے بہاؤ میں روانی سے پاکستانی شہریوں پر جسمانی ہی نہیں نفسیاتی طور پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
کاغذات نامزدگی کا معاملہ
سیاسی جماعتوں نے اپنے حالیہ منشوروں میں کاغذات نامزدگی کے اہم معاملے کو بھی بھر پور طریقے سے پیش نہیں کیا حالانکہ اس کی وجہ سے الیکشن 2018ء ملتوی ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس معاملے نے اکتوبر 2017ء میں جنم لیا جب حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود حزب اقتدار نے الیکشن بل منظور کرلیا۔ اگلے سال جب الیکشن 18ء کا موقع آیا تو انکشاف ہوا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن بل 2017ء کے تحت جو نئے کاغذات نامزدگی تیار کیے، ان میں امیدواروں کی نجی، سیاسی اور عوامی زندگی سے متعلق اہم معلومات کا ذکر گول کردیا۔ یہ انکشاف ہونے پر نئے کاغذات نامزدگی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیئے گئے۔
جون 2018ء میں لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے فیصلہ دیا کہ نئے کاغذات نامزدگی آئین کی دفعہ 62 اور 63 سے متصادم ہیں۔ اس لیے انہیں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ تاہم چند دن بعد سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ منسوخ کرڈالا۔ مگر عدالت عالیہ نے کاغذات نامزدگی میں وہ بیان حلفی یا تصدیق نامے بحال کردیئے جو ارکان پارلیمنٹ نے حذف کردیئے تھے۔درج بالا تصدیق نامے الیکشن میں امیدواروں کی یہ معلومات فراہم کرتے ہیں: اس نے بینک سے کوئی قرضہ لے رکھا ہے؟ بیوی بچوں کی تعداد، کاروبار اور ذرائع آمدن کی تفصیل، امیدوار پر کیا مقدمات چل رہے ہیں؟ پچھلے تین سال میں کتنا ٹیکس ادا کیا؟ فلاحی کاموں میں کتنا حصہ لیا، جائیداد کی تفصیل وغیرہ۔
الیکشن 2018ء کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ تب ارکان اسمبلی کا فرض ہوگا کہ وہ کاغذات نامزدگی کو زیادہ موثر اور جامع بنائیں۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بابت زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلیں۔ اس طرح امیدواروں کے مابین باہمی تقابل سہل ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن بل 2017ء کی خامیاں بھی دور کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ اس معاملے کو منشور کا حصہ بھی بنانا چاہیے تاکہ الیکشن کمیشن پاکستان ایک بااختیار اور طاقتور ادارہ بن سکے۔
لاپتا افراد کامسئلہ
پاکستان میں مختلف سیاسی، مذہبی، لسانی اور دہشت گردانہ تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ان تنظیموں کے کارکن بعض اوقات مخالف تنظیموں کے افراد کو اغوا کرلیتے ہیں۔ ان اغوا کنندگان کی پھر لاشیں ملتی ہیں یا وہ شدید زخمی حالت میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اغوا شدہ افراد لاپتا ہوجاتے ہیں اور ان کی کچھ خبر نہیں ملتی۔ مزید براں خفیہ ایجنسیوں پر بھی الزام لگتا ہے کہ وہ ملک دشمن افراد کو اغوا کرکے نامعلوم مقامات پر قید کردیتی ہیں۔
سال رواں کے آغاز میں چیف جسٹس پاکستان،میاں ثاقب نثار نے لاپتا افراد کے معاملے کا سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ تب سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس نے قراردیا تھا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہم وطنوں کی گمشدگی کے معاملے میں ملوث نہیں۔ انہوں نے پھر سکیورٹی ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ جلد معلوم کیا جائے، لاپتا افراد کہاں اور کس حال میں ہیں۔پاکستان بھر سے لوگوں کا لاپتا ہونا ایک اہم معاملہ ہے۔ تاہم سبھی پاکستانی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ امید ہے، نئی حکومت اس سلسلے میں اہم پیش رفت دکھائے گی تاکہ پاکستان لاپتا افراد کے مسئلے سے چھٹکارا پاسکے۔
خواتین اور بچوں پر ظلم
وطن عزیز میں معصوم بچوں کا اغوا و زیادتی بھی سنگین مسئلہ بن چکا۔ جبکہ خواتین کو ہراساں کرنا بھی معمول بن رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں یہ بیان نہیں کیا کہ ان دو اہم معاشرتی مسائل سے کیونکر نمٹا جائے۔ اس ضمن میں انہیں جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے کوشاں سماجی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کو سخت قوانین بنانا ہوں گے۔ نیز یہ ضروری ہے کہ بچوں اور خواتین پر ظلم ڈھانے والے مجرموں کو عدالتوں سے سخت سزائیں مل جائیں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ بچوں اور خواتین کو اپنے ناپاک ارادوں کا تختہ مشق بناسکیں۔درج بالا معاملات کے علاوہ جاگیرداری نظام، سیاسی جماعتوں میں اصلاحات، کمپنیوں کا من مانی کرنے کی خاطر کارٹیل بنالینا، شام و یمن کا مسئلہ، مدارس میں قانون سازی، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، مذہبی انتہا پسندی، قدرتی آفات کے بعد بچاؤ کا عمل، ادب و ثقافت کے ذریعے پاکستان کا سافٹ امیج پیدا کرنا وہ موضوع ہیںجن پر سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں زیادہ روشنی نہیں ڈالی تاہم یہ اپنی جگہ اہم اور دورس معاملات کی حیثیت رکھتے ہیں۔