کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پلاسٹک میں بدلنا ممکن ہو گیا

گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

پلاسٹک کی کئی اقسام در اصل کاربن ایٹموں کی طویل زنجیر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ فوٹو: فائل

سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ کار دریافت کرنے کااعلان کیا ہے جس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پلاسٹک میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں جو ماحولیاتی مسائل عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم دنیا کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ہے جسے گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔

عالمی حدت میں اضافے کے اثرات کلیشیئرز کے پگھلاؤ، سرد خطوں میں بڑھتی ہوئی گرمی، بیشتر ممالک میں بے موسم اور شدید طوفانی بارشوں اور حیاتیاتی انواع کے قدرتی ماحول میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

عالمی ماحولیاتی تنظیمیں اور سائنس داں بار بار خبردار کررہے ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ صدی تک دنیا اور اس کے باسی شدید خطرات سے دو چار ہوجائیں گے۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی اہم ترین وجہ کرۂ ارض پر سبز مکانی (گرین ہاؤس) گیسوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی مقدار ہے۔ سبز مکانی گیسوں میں بھی گلوبل وارمنگ کا سب سے اہم محرک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں صنعتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اگرچہ کارخانے اور فیکٹریاں کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن صنعتی طور پر آگے بڑھنے کی اس خواہش نے اس خطرے کو جنم دیا ہے جو مستقبل میں دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی ماحولیاتی ماہرین اور عالمی ماحولیاتی تنظیمیں عالمی برادری پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے زور ڈال رہی ہیں، لیکن ان کی ان کوششوں کے اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

سائنس داں یہ جانتے ہیں کہ صنعتی سرگرمیوں میں کسی بھی صورت کمی نہیں ہوسکتی، اسی لیے وہ ایسے طریقے ایجاد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے گلوبل وارمنگ پر قابو پایا جاسکے۔ اس ضمن میں جرمنی اور جاپان کے تحقیق کاروں نے اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ جرمن اور جاپانی سائنس دانوں نے چند روز قبل ایک ایسا طریقہ کار دریافت کرنے کااعلان کیا ہے جس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پلاسٹک میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اس پلاسٹک سے ڈی وی ڈی سے لے کر چشمے کے عد سے تک بنائے جاسکتے ہیں۔


اہم بات یہ ہے کہ یہ تکنیک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سمیت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے تمام اہم ذرائع پر قابل عمل ہے۔ Rwthaachen یونی ورسٹی، جرمنی کے سینٹر آف کیٹلاسس ریسرچ کے کیمیاداں تھامس ملر اس بارے میں کہتے ہیں ''ہمیں یہ علم تھا کہ صنعتی سرگرمیوں پر قابو پانا بے حد مشکل ہوگا اس لیے ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایسی شکل دینا چاہتے تھے جو ماحول اور معاشرے دونوں کے لیے مفید ہو۔ ہماری یہ کام یابی یقینی طور پر فضا میں اس گیس کے اخراج میں کمی کا سبب بنے گی۔''

پلاسٹک کی کئی اقسام در اصل کاربن ایٹموں کی طویل زنجیر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ ایٹم مختلف عناصر مثلاً آکسیجن سے جڑے ہوتے ہیں۔ سخت قسم کے پلاسٹک کاربن کی طویل زنجیروں یا خامروں (پولی مرز) سے بنائے جاتے ہیں، لیکن ملر کا کہناہے کہ کیمیاداں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے خارج ہونے والی دس ارب میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کیمیائی عمل کے آغاز کے لیے در کار توانائی اور دباؤ کا اطلاق کرکے ایک عمل انگیز (Catalyst) کی مدد سے مقید کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کام یابی سے ان خامروں جیسے اپوکسائیڈ اور ڈائی میتھائل کاربونیٹ کی شکل دی جو پولی کاربونیٹ (پلاسٹک) بنانے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

تاہم ملر نے یہ نہیں بتایاکہ اس عمل میں انھوں نے کون سا عمل انگیز استعمال کیا تھا۔ جاپان کے شہر Tsukuba میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ انڈسٹریل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کیمیاداں Toshiyasu Sakakura اور ان کی ٹیم نے بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھانول کے درمیان کیمیائی تعامل کے ذریعے یہی نتائج حاصل کیے۔ اپنے تجربے کے دوران انھوں نے ریت کو عمل انگیز کے معاون کے طورپر استعمال کیا تھا۔ تحقیقی ٹیم کی توقع کے برخلاف ریت کی موجودگی نے مرکزی عمل انگیز کی افادیت میں حیران کن حد تک اضافہ کردیا تھا۔

اس بارے میں Sakakura کا کہناہے ''حیرت انگیز طور پر اس عمل کے دوران ایک اور ایک دو کے نہیں بلکہ سو کے مساوی ہوتے ہیں۔'' جاپانی کیمیاداں ابھی تک یہ بات جاننے سے قاصر ہیں کہ ریت جو عمل انگیز بھی نہیں ہے وہ خامروں کی پیداوار کو توقع سے زیادہ کیوں بڑھادیتی ہے؟ Sakakura نے بتایاکہ اس عمل کے دوران صرف پانی فاضل پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔

گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں یہ طریقہ بے حد موثر ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولوں کو طویل ایٹمی زنجیروں کی صورت دینے کے لیے بلند درجۂ حرارت اور دباؤ یعنی بڑی مقدار میں توانائی کی ضرورت ہوگی اور چوںکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ توانائی تیل کو جلاکر حاصل کی جائے گی اس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پولی مرز میں تبدیل کرنے کا مجموعی طریقہ کار اس گیس کے اخراج میں کمی کرنے کے بجائے اضافے کا سبب بنے گا۔ تاہم اگر اس پروسیس کیلیے متبادل ذرائع مثلاً سولر پینلز یا ہوا چکیوں سے پیدا کردہ توانائی استعمال کی جائے تو یہ مشکل بہ آسانی حل ہوجائیگی۔

سائنس دانوں کی دریافت کردہ تیک نیکوں کے اطلاق سے دوہرا فائدہ ہوگا ان پر عمل در آمد ممکن بنانے سے نہ صرف گلوبل وارمنگ پر قابو پایا جاسکے گا بلکہ پلاسٹک کی صورت میں ایک اضافی پروڈکٹ بھی حاصل ہوگی جس کی فروخت سے اس پروسیس پر آنے والے توانائی کے اخراجات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

محمد زہیر
Load Next Story