
اسمبلیوں میں پہنچنے والے 98 فیصد پسے ہوئے عوام کی نمائندگی کرنے والے دیکھتے ہی دیکھتے خود 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بن گئے اور یہ عوام پہلے کی طرح پانی، بجلی اور صفائی جیسی بنیادوں سہولیات کےلیے ہی ترستے رہ گئے۔ اس وقت ایم کیوایم میں کوئی بھی ایسا منتخب نمائندہ نہیں جس کے اثاثے کروڑوں میں نہ ہوں۔ تین بار منتخب ہونے والے ایک ایم پی اے سے جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس طرح ان 15 سال میں 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے کا حصہ بن گئے تو موصوف کا کہنا تھا کہ ترقی سب کا حق ہے اور میں نے اپنے تمام اثاثے ظاہر کردیئے ہیں، کہیں سے چوری کرکے نہیں لایا۔
متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت کا کوئی نمائندہ بھی اس وقت متوسط طبقے میں نہیں، ڈاکٹر فاروق ستار سمیت سب اشرافیہ میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان سب کے اثاثے کروڑوں میں ہیں، بیوی بچے باہر ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں اور خود یہاں یہ لوگ پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن کا حصہ اس لیے بنے رہے کہ عوام کو جواب دے سکیں کہ ہمارے پاس تو اختیارات ہی نہیں تھے جبکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے دوسرے طریقوں سے پیسہ بناتے رہے اور اپنے حلقوں میں جا کر جھانکا تک بھی نہیں۔ اب الیکشن مہم کے دوران علاقوں میں جارہے ہیں تو عوام کے سوالوں کا جواب دینا مشکل ہورہا ہے۔ حال ہی میں لانڈھی میں عامر خان پر اسٹیج پر انڈے پھینکے گئے۔ اس کے بعد سے حکمت عملی مرتب کی گئی کہ پہلے ان کے لڑکے اس علاقے کا جائزہ لیں گے اور اس علاقے کے ذمہ دار کو پابند کریں گے کہ ایسا کو ئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے، پھر علاقے کے ذمہ دار کی طرف سے گرین سگنل ملنے پر یہ عوامی نمائندے کارنر میٹنگ کرنے پہنچیں گے۔
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ گا کہ بلدیاتی نمائندے ہونے کے باوجود ایم کیوایم عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے اور مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ بلدیاتی نمائندے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف رہے۔ اگر بجٹ نہیں مل رہا تھا تو کیا ہوا؟ ہر علاقے کی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔ اگر اپنی ساکھ بچانا اتنا ہی عزیز ہوتا تو وہ پیسہ جیبوں میں ڈالنے کے بجائے علاقے کے مسائل حل کرنے میں لگاتے تو آج عوام کا سامنا کر رہے ہوتے، نہ کہ وسائل نہ ہونے کا رونا رو کر ہمدردی حاصل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہوتے۔
ایم کیو ایم نے اپنی اندرونی کی لڑائی سے خود کو تماشا بنا دیا اور اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی نے اٹھایا۔ صوبے میں حکومت ہونے کی وجہ سے گزشتہ نو سال کی حکومت میں اس نے اپنے ہزاروں کارکن مختلف اداروں میں سیاست یا رشوت کی بنیاد پر بھرتی کیے اور پھر کراچی میں رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔
پولیس، انصاف کے ادارے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ڈپٹی کمشنر آفس، ٹیکس کے محکمے، بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے ادارے یعنی پانی، بجلی اور گیس کے محکمے اور بلدیاتی خدمات فراہم کرنے والے ادارے، غرض جہاں جائیں رشوت ستانی اور لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں۔ کراچی کے شہریوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے گئے اور ایم کیوایم کے منتخب نمائندے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں مصروف رہے۔ دوسری طرف غلط مردم شماری اور حلقہ بندیاں کردی گئیں جن سے عوام میں شدید غصہ پایا جاتاہے کیونکہ کراچی کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعوی کرنے والے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی خواہشات، توقعات، امنگوں اور حکمران طبقات کے مفادات کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوچکی ہے۔ خود کو عوامی نمائندے کہلانے والے یہ لوگ کس حد تک اس خلیج کو ختم کرپاتے ہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر کراچی کے سینئر صحافیوں کے مطابق ایم کیو ایم کے اندر جو کچھ بھی ہوا، وہ قیادت کے ناکام ہونے کا غماز ہے جس نے شہری سندھ کے سیاسی بحران کو مزید گہرا کردیا ہے۔ شہری سندھ میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کےلیے ہمیشہ گنجائش رہی ہے خصوصاً پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو مواقع ملے لیکن ان میں سے کسی نے بھی خلا بھرنے اور اپنی جگہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔
ایم کیو ایم نے 2008 میں 19 اور 2013 میں قومی اسمبلی کی 17 نشستیں حاصل کی تھیں اور ایک اندازے کے مطابق 2018 میں 21 نشستوں میں ایم کیو ایم کراچی سے آدھی نشستیں بھی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مبصرین کے مطابق کراچی والے ایم کیو ایم کو ووٹ دیں گے مگر اب ایم کیو ایم اتنے بڑے مارجن سے کامیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی پہلے کی طرح بڑی تعداد میں سیٹیں لے سکے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔