سپریم کورٹ مشرف کے بینچ پر تحفظات حکومت کا غداری کیس چلانے سے انکار
ابہام موجودہے،جسٹس جواد،الیکشن کے انعقادبارے اٹارنی جنرل کے مبہم الفاظ کاسخت نوٹس
وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے سے معذوری ظاہرکر دی ۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تحریری جواب میںکہا گیا ہے کہ نگراں حکومت انتخابات کے وقت کسی ایسے مباحثے میں نہیں پڑے گی جس سے اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے تحریری جواب میں تینوں وکلا کے موقف کو اپناتے ہوئے کہا ہے کہ بینچ پر ان کے تحفظات بدستور موجود ہیں اور ان کے وکلا نے جو موقف اپنایا ہے وہ ان سے ہدایات لیکر اپنایا گیا ہے ۔جمعرات کو پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے تحریری بیان پیش کیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ جسٹس جواد نے کہا جس ابہام کو دورکرنے کے لیے کہا تھا وہ بدستور موجود ہے۔ عدالت نے احمد رضا قصوری کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
فاضل وکیل نے تحریری دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ3 نومبرکو ایمرجنسی کا نفاذ وزیر اعظم اورکابینہ کے مشورے پر ہوا کیونکہ صدر آئین کے تحت ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ اس ضمن میں مسلح افواج کے تمام سربراہان سے مشورہ کیا گیا تھا۔ تین نومبرکے اقدام کا باب بند ہو چکا ہے ، جوہوگیا وہ ہوگیا ماضی پر اطلاق نہیں ہوتا۔اگر اطلاق ماضی پرکیا جائے گا تو پھر ان سب لوگوں پر اس کا اطلاق ہوگا جنھوں نے ایڈوائس دی، معاونت کی اور اقدامات کو تحفظ دیا ، صرف پرویز مشرف کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا مطلب یہ کہ ''خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی ساتھ لے ڈوبیںگے۔''احمد رضا قصوری نے کہاکہ جہاں اپنا مفاد ہو تو جج مقدمہ نہیں سن سکتا،جن ججوں نے کسی مرحلے پر پی سی اوکا حلف لیا یا جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے حلف لیا انھیں یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے۔ فاضل وکیل نے کہا پرویز مشرف نے ایمرجنسی مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے لگائی اور مسلح افواج کے کسی اہلکار پر آرٹیکل6کا اطلاق نہیں ہوتا۔انھوں نے درخواستیں بھاری جرمانے لگا کر خارج کرنے کی استدعا کی ۔
اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے کہ الیکشن ہو اس مرحلے پر اس معاملیکو اٹھانا درست نہیں۔عدالت نے الیکشن کے بارے میں مبہم الفاظ کا سخت نوٹس لیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انتخابات ضرور ہوںگے، فیڈریشن نے ایسا کیوںکہا؟الیکشن کے بارے میں فیڈریشن کا موقف دوٹوک ہونا چاہیے،کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا عدالتوںکو بھی غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ اگر عدالتیں غیر جانبدار نہیں ہوںگی تو عدلیہ کی تذلیل ہوگی۔ جسٹس جواد نے کہا ہمیںکسی چیزکا خوف نہیں، ہم سننا چاہتے ہیںکہ کس کس چیز سے عدالت کو ڈرانا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پٹیشنرز حکومت کو درخواست دیں، حکومت دیکھے گی کہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 اور 3 نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔ اگر بری فوج کا سربراہ اس طرح کا قدم اٹھائے گا توکل بحری اور فضائی فوج کے سربراہ اور پولیس کا سربراہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کل ویلا بدمعاش بھی ایسا کر سکتا ہے اگر ان کے پاس طاقت آجائے، اس پر اٹارنی جنرل مشتعل ہو ئے اورکہا کہ کل سپریم کورٹ بھی ایسا اقدام کر سکتی ہے جس کی اجازت آئین نہ دیتا ہو۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا جب آپ کا یہ موقف ہے توآپ حکومت کوکارروائی کے لیے کیوں نہیںکہتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا اگر میری رائے مانگی گئی تو بتا دوںگا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا تین نومبرکے اقدام کا ہدف جج تھے اس لیے جج تحمل کا مظاہرہ کریں اور غیر جانبدار رہیں، اب لڑائی جھگڑا ختم ہونا چاہیے اور مفاہمت ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا سب سے زیادہ آئین کی خلاف ورزی تو ججوں نے خودکی ہے۔
اس پر جسٹس جواد نے کہا پھر ججوںکو پھانسی چڑھایا جائے،کس نے روکا ہے، اگرکسی نے آئین کو پامال کیا ہے تو اس کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔اٹارنی جنرل کے دلائل ختم ہونے کے بعد عدالت نے درخواست گزاروںکے وکلا کو جواب الجواب پیش کرنے کی ہدایت کی تاہم اے کے ڈوگرنے سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے سماعت20 مئی تک ملتوی کر دی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تحریری جواب میںکہا گیا ہے کہ نگراں حکومت انتخابات کے وقت کسی ایسے مباحثے میں نہیں پڑے گی جس سے اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے تحریری جواب میں تینوں وکلا کے موقف کو اپناتے ہوئے کہا ہے کہ بینچ پر ان کے تحفظات بدستور موجود ہیں اور ان کے وکلا نے جو موقف اپنایا ہے وہ ان سے ہدایات لیکر اپنایا گیا ہے ۔جمعرات کو پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے تحریری بیان پیش کیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ جسٹس جواد نے کہا جس ابہام کو دورکرنے کے لیے کہا تھا وہ بدستور موجود ہے۔ عدالت نے احمد رضا قصوری کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
فاضل وکیل نے تحریری دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ3 نومبرکو ایمرجنسی کا نفاذ وزیر اعظم اورکابینہ کے مشورے پر ہوا کیونکہ صدر آئین کے تحت ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ اس ضمن میں مسلح افواج کے تمام سربراہان سے مشورہ کیا گیا تھا۔ تین نومبرکے اقدام کا باب بند ہو چکا ہے ، جوہوگیا وہ ہوگیا ماضی پر اطلاق نہیں ہوتا۔اگر اطلاق ماضی پرکیا جائے گا تو پھر ان سب لوگوں پر اس کا اطلاق ہوگا جنھوں نے ایڈوائس دی، معاونت کی اور اقدامات کو تحفظ دیا ، صرف پرویز مشرف کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا مطلب یہ کہ ''خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی ساتھ لے ڈوبیںگے۔''احمد رضا قصوری نے کہاکہ جہاں اپنا مفاد ہو تو جج مقدمہ نہیں سن سکتا،جن ججوں نے کسی مرحلے پر پی سی اوکا حلف لیا یا جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے حلف لیا انھیں یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے۔ فاضل وکیل نے کہا پرویز مشرف نے ایمرجنسی مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے لگائی اور مسلح افواج کے کسی اہلکار پر آرٹیکل6کا اطلاق نہیں ہوتا۔انھوں نے درخواستیں بھاری جرمانے لگا کر خارج کرنے کی استدعا کی ۔
اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے موقف پیش کرتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے کہ الیکشن ہو اس مرحلے پر اس معاملیکو اٹھانا درست نہیں۔عدالت نے الیکشن کے بارے میں مبہم الفاظ کا سخت نوٹس لیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انتخابات ضرور ہوںگے، فیڈریشن نے ایسا کیوںکہا؟الیکشن کے بارے میں فیڈریشن کا موقف دوٹوک ہونا چاہیے،کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا عدالتوںکو بھی غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ اگر عدالتیں غیر جانبدار نہیں ہوںگی تو عدلیہ کی تذلیل ہوگی۔ جسٹس جواد نے کہا ہمیںکسی چیزکا خوف نہیں، ہم سننا چاہتے ہیںکہ کس کس چیز سے عدالت کو ڈرانا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پٹیشنرز حکومت کو درخواست دیں، حکومت دیکھے گی کہ مقدمہ بنتا ہے یا نہیں ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 اور 3 نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔ اگر بری فوج کا سربراہ اس طرح کا قدم اٹھائے گا توکل بحری اور فضائی فوج کے سربراہ اور پولیس کا سربراہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کل ویلا بدمعاش بھی ایسا کر سکتا ہے اگر ان کے پاس طاقت آجائے، اس پر اٹارنی جنرل مشتعل ہو ئے اورکہا کہ کل سپریم کورٹ بھی ایسا اقدام کر سکتی ہے جس کی اجازت آئین نہ دیتا ہو۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا جب آپ کا یہ موقف ہے توآپ حکومت کوکارروائی کے لیے کیوں نہیںکہتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا اگر میری رائے مانگی گئی تو بتا دوںگا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا تین نومبرکے اقدام کا ہدف جج تھے اس لیے جج تحمل کا مظاہرہ کریں اور غیر جانبدار رہیں، اب لڑائی جھگڑا ختم ہونا چاہیے اور مفاہمت ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا سب سے زیادہ آئین کی خلاف ورزی تو ججوں نے خودکی ہے۔
اس پر جسٹس جواد نے کہا پھر ججوںکو پھانسی چڑھایا جائے،کس نے روکا ہے، اگرکسی نے آئین کو پامال کیا ہے تو اس کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔اٹارنی جنرل کے دلائل ختم ہونے کے بعد عدالت نے درخواست گزاروںکے وکلا کو جواب الجواب پیش کرنے کی ہدایت کی تاہم اے کے ڈوگرنے سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے سماعت20 مئی تک ملتوی کر دی۔