صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت پر ٹرمپ کا یوٹرن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق اپنے موقف سے پھر گئے ہیں۔
ISLAMABAD:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر محتاط بیانات اور رجحانات کے باعث جلد ہی امریکی تاریخ کے متنازعہ ترین صدر کا خطاب حاصل کرلیں گے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکی تاریخ میں صدارت جیسے سنجیدہ عہدے پر ٹرمپ کے براجمان ہونے کے بعد امریکا کو جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ آخر اس رویہ کو کیا نام دیا جائے کہ غیر ملکی دوروں اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقات میں کوئی صدر اپنے ہی ملکی موقف کے خلاف بیانات دیتا پایا جائے۔ لیکن ایسا امریکی صدر کے ساتھ ایک بار نہیں بلکہ بار بار پیش آرہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق اپنے موقف سے پھر گئے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی اور اس حوالے سے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کو تسلیم کرتا ہوں۔ قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلنسکی میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں پوتن نے کہا تھا کہ امریکی انتخابات میں روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پوتن کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ روس کی حمایت کرنے پر امریکی اراکین کانگریس نے ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے موقف کو شرمناک قرار دیا۔ امریکی سینیٹرز نے الزام لگایا کہ صدر ٹرمپ پوتن سے ملاقات میں امریکی موقف پیش کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پچھلے بیان سے پھرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خفیہ اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کرتا ہوں کہ 2016 میں ہمارے انتخابات میں روس نے دخل اندازی کی تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ روس نے مداخلت کی ہے، لیکن غلطی سے یہ نکل گیا کہ روس نے مداخلت نہیں کی ہے، زبان کی اس لغزش کی وجہ سے مفہوم تبدیل ہوگیا۔ امریکی صدر کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جس عہدہ پر وہ فائز ہیں وہاں زبان و بیان کی لغزش ناقابل معافی جرم تصور کی جاتی ہے، عالمی طاقت کا درجہ رکھنے والی ریاست کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص اگر ایسی غلطیاں کرتا رہا تو اس کی لغزشیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اور صرف زبانی لغزش ہی نہیں صدر ٹرمپ تو اپنے فیصلوں اور بیانات کے ذریعے بھی متنازعہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں، خاص کر ٹرمپ کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آرہی ہے، اپنا عہدہ صدارت سنبھالتے ساتھ ہی ٹرمپ نے نہ صرف ملک کی ویزہ پالیسیوں میں سختی برتی بلکہ خاص کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات اور اندرون ملک بسنے والے مسلمانوں کی زندگی مزید مشکل کردی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے انتخاب کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں روس کی مداخلت کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ شفاف طور پر عوام کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ لیکن انتخابات کے وقت سے ہی ان کی حریف ہلیری کلنٹن نہ صرف روسی مداخلت بلکہ ٹرمپ کے منتخب ہونے پر بھی اپنا موقف پیش کرتی رہیں۔ آج دو سال بعد ٹرمپ اس موقف کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو باقی الزامات کی حقانیت بھی سامنے آتی محسوس ہورہی ہے۔
صدارتی انتخابات کے بعد تجزیہ کار بھی حیران تھے کہ آخر امریکی قوم کسی ''فاترالعقل'' شخص کو صدر کیسے چن سکتی ہے۔ ریاستوں کے اندرونی معاملات، خاص کر انتخابات میں دوسری ریاست کی مداخلت قانوناً جرم ہے، امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی دخل اندازی قابل مذمت ہے۔ لیکن امریکی صدر کو بھی اپنے بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر محتاط بیانات اور رجحانات کے باعث جلد ہی امریکی تاریخ کے متنازعہ ترین صدر کا خطاب حاصل کرلیں گے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکی تاریخ میں صدارت جیسے سنجیدہ عہدے پر ٹرمپ کے براجمان ہونے کے بعد امریکا کو جگ ہنسائی کا سامنا ہے۔ آخر اس رویہ کو کیا نام دیا جائے کہ غیر ملکی دوروں اور بین الاقوامی شخصیات سے ملاقات میں کوئی صدر اپنے ہی ملکی موقف کے خلاف بیانات دیتا پایا جائے۔ لیکن ایسا امریکی صدر کے ساتھ ایک بار نہیں بلکہ بار بار پیش آرہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق اپنے موقف سے پھر گئے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی اور اس حوالے سے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کو تسلیم کرتا ہوں۔ قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلنسکی میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں پوتن نے کہا تھا کہ امریکی انتخابات میں روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پوتن کے اس موقف کی تائید کی تھی۔ روس کی حمایت کرنے پر امریکی اراکین کانگریس نے ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے موقف کو شرمناک قرار دیا۔ امریکی سینیٹرز نے الزام لگایا کہ صدر ٹرمپ پوتن سے ملاقات میں امریکی موقف پیش کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پچھلے بیان سے پھرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خفیہ اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کرتا ہوں کہ 2016 میں ہمارے انتخابات میں روس نے دخل اندازی کی تھی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ روس نے مداخلت کی ہے، لیکن غلطی سے یہ نکل گیا کہ روس نے مداخلت نہیں کی ہے، زبان کی اس لغزش کی وجہ سے مفہوم تبدیل ہوگیا۔ امریکی صدر کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جس عہدہ پر وہ فائز ہیں وہاں زبان و بیان کی لغزش ناقابل معافی جرم تصور کی جاتی ہے، عالمی طاقت کا درجہ رکھنے والی ریاست کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص اگر ایسی غلطیاں کرتا رہا تو اس کی لغزشیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اور صرف زبانی لغزش ہی نہیں صدر ٹرمپ تو اپنے فیصلوں اور بیانات کے ذریعے بھی متنازعہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں، خاص کر ٹرمپ کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آرہی ہے، اپنا عہدہ صدارت سنبھالتے ساتھ ہی ٹرمپ نے نہ صرف ملک کی ویزہ پالیسیوں میں سختی برتی بلکہ خاص کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات اور اندرون ملک بسنے والے مسلمانوں کی زندگی مزید مشکل کردی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے انتخاب کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں روس کی مداخلت کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ شفاف طور پر عوام کے ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ لیکن انتخابات کے وقت سے ہی ان کی حریف ہلیری کلنٹن نہ صرف روسی مداخلت بلکہ ٹرمپ کے منتخب ہونے پر بھی اپنا موقف پیش کرتی رہیں۔ آج دو سال بعد ٹرمپ اس موقف کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو باقی الزامات کی حقانیت بھی سامنے آتی محسوس ہورہی ہے۔
صدارتی انتخابات کے بعد تجزیہ کار بھی حیران تھے کہ آخر امریکی قوم کسی ''فاترالعقل'' شخص کو صدر کیسے چن سکتی ہے۔ ریاستوں کے اندرونی معاملات، خاص کر انتخابات میں دوسری ریاست کی مداخلت قانوناً جرم ہے، امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی دخل اندازی قابل مذمت ہے۔ لیکن امریکی صدر کو بھی اپنے بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔