محبت کے سفر میں
ملک میں ہونے والی دوسری بارودی کارروائیوں میں بھی یہی خفیہ ہاتھ ملوث رہے۔
مستونگ میں ہونے والے اندوہناک واقعے نے پورے ملک میں سوگواری کی فضا طاری کر دی ہے ۔ 2013ء کے بعد 2018ء میں بھی جس جمہوری عمل کی تکمیل کے لیے تیاریاں جاری ہیں لیکن اس دوران اس خونی واردات نے جوش و خروش میں آنسو، آہیں اور سسکیاں شامل کردی ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا اس بات سے اب کیا فائدہ کہ خون تو بہنا تھا اور جس شیطانی کارروائی کے لیے عہد و پیماں ہوئے تھے وہ تمام ہوگئے۔
2013ء کے جمہوری دور کے بعد چاہے اس میں رکاوٹیں، خدشات اور کرپشن نے کانٹے تو اگائے تھے لیکن ایک کے بعد اب دوسرا دور شروع ہونے کو ہے اس میں کس کا کتنا فائدہ ہے لیکن دنیا بھر سے اب پاکستان میں ہونے والے اس خونی واقعے پر تعزیتی پیغامات یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایک بار پھر ہماری سیکیورٹی نے ہمیں دھوکا دے دیا۔ ایک طویل عرصے تک بلوچستان میں خودکش دھماکوں سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ پاکستان میں خاص کر بلوچستان میں گویا سانس لینا بھی دشوار ہے لیکن فوج کی حکمت عملی نے بہت سے روٹھے ہوؤں کو منالیا اور فضا سازگار ہوئی۔ کاروبار زندگی نارمل انداز میں رواں دواں ہوا، ایک ایسے فیکٹرکو زیر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا جس کے شکنجے میں ہماری قوم کے سیدھے سادے لوگوں کو ورغلاکر اپنی ہی قوم کے خلاف استعمال کرنے پر ابھارا گیا تھا، اس ورغلانے کے عمل میں بھارتی ایجنسی ''را'' کا بڑا ہاتھ ہے اس انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنی تمام تر سازشوں کا زور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو ذہنی طور پر آمادگی کے لیے بڑا پیسہ صرف کیا۔
صرف یہی نہیں ملک میں ہونے والی دوسری بارودی کارروائیوں میں بھی یہی خفیہ ہاتھ ملوث رہے لیکن کلبھوشن کے کیس نے اس چہرے پر سے نقاب اتاردیا تھا یہ کارروائی بھی ہماری فوجی حکمت عملی کا ایک ثبوت تھی۔ گرد اب بیٹھنے لگی تھی اور یہ سوچا گیا تھا کہ اب اتنی آسانی سے پاکستانی حدود میں شیطانی چالیں نہیں چلنے والی اس سلسلے کے تخمینے کے ساتھ ہی ترقی کا سفر بھی چلتا رہا۔
سی پیک منصوبے میں چین کی اشتراکیت نے بہت سی طاقتوں کو پریشان کر رکھا ہے ،اسی منصوبے کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کے طریقے اپنائے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی رفتار تو جاری ہے۔ جولائی میں ہونے والے الیکشن کے بارے میں ابہام پائے جارہے تھے اس کو کس طرح موخرکیاجائے تبدیلیاں کی جائیں تاکہ جس جمہوری نظام کی آبیاری کی جارہی ہے، اسے کسی نہ کسی طرح روک کر دنیا میں یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں اب بھی پتھروں کے زمانے کے لوگ بستے ہیں جو صرف ڈنڈے کے حکم پر چلنا جانتے ہیں۔ انھیں اپنے ذہنی شعور کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہی نہیں۔
گو ہمارے کچھ دیہی علاقوں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے کہ جیسے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک عام آدمی تک پہنچایا گیا ہے مثلاً کچھ عرصہ قبل ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک گروہ ہنستا مسکراتا ہوا بس ہتھیاروں کو لہراتا جا رہاہے اور پھر اس چند آدمیوں پر مشتمل گروہ نے ایک قبیلے کے دبلے پتلے (شریف) انسان کو اور اس کے سات آٹھ سال کے بچے کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا خدا کا شکر ہے کہ ان لوگوں نے اپنی اس خون کارروائی کو شوٹ نہیں کیا البتہ اس مرنے والے کے پاس کھڑے ہوکر جس انداز میں وہ اپنی بربریت کے نشان کھول کھول کر دکھارہے تھے کہ باقی وڈیو کو دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرنے کی وڈیوز بھی دیکھتے رہتے ہیں، کیا فرق ہے اسرائیلی فوجیوں اور اپنے ہی ملک کے ان نام نہاد بہادر جوانوں میں جو انسانی جانوں کو زندگی کے پہیے سے الگ کرنے کے بعد بھی اپنی بہادری کے قصے خود شوٹ کرکے وائرل کرتے ہیں۔ چند مہینے پہلے ہی اس وڈیو کو دیکھا گیا تھا گویا یہ ایک طرح کا سگنل ہی تھا۔
الیکشن سر پر ہیں اس کی تیاریوں میں مختلف سیاسی جماعتوں میں الٹ پھیر چل رہی ہے، جلسے جلوس عروج پر ہیں، ایسے میں ڈیڑھ سو کے قریب زخمی اور اس سے ہی نزدیک شہادتوں نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ دشمن اب بھی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے یقینا پہلے بلور خاندان اور اب رئیسانی خاندان اس دکھ میں مبتلا ہیں۔ جذبات کے بجائے عقل و شعور سے کام لینے کا ہے،کیونکہ ہمارے سیاسی لیڈران کی معمولی معمولی باتوں کو بھی دیکھا جا رہاہے، محفوظ کیا جا رہا ہے، اس طرح کے اذیت ناک حادثات کس طرح خاندانوں میں خوف اور دکھ کے بادل لاتے ہیں یہ بلور اور رئیسانی خاندانوں کے ساتھ ان بے گناہ لوگوں کے پیاروں سے پوچھیے جو صرف اپنے عزیز لیڈروں کی حوصلہ افزائی ان کا ساتھ نبھانے اپنے مسائل ان سے شیئر کرنے کی غرض سے ان کے نزدیک آئے تھے، لیکن ان دہشت گردی کی واراتوں نے عوام کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان سیاسی لیڈروں پر بھروسا نہ کریں کیونکہ ان کے قریب آنے کا مطلب موت ہے۔
مائیں رات کو اپنے بچوں کو ڈرانے کے لیے مختلف بہانے بناتی ہیں تاکہ وہ ان کے حیلے بہانوں میں پھنس کر ڈرکر سوجائیں یہ ایک عام سی مثال ہے لیکن اسی پر عمل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آج کے ہمارے یہ سیاسی رہنما جو اپنے اپنے سیاسی منشور لے کر میدان میں اترنے کی تیاری کررہے ہیں۔ درحقیقت پانی کے بلبلوں کی مانند ہیں ان پر اعتماد کرکے ان کے نزدیک نہ آیئے کہ یہ بیکار ہے۔
ملک میں الیکشن کا جوش و خروش اور خاص کر بلوچستان میں الیکشن کی سرگرمیاں عروج پر تھیں ایک صحت افزا مقابلہ ہونے کو تھا۔ ذرا سوچیے حلقہ پی پی 35 مستونگ سے چیف آف ساراوان اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور ان کے بھائی نواب زادہ میر سراج رئیسانی جو بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار تھے دونوں اس حلقے سے ایک دوسرے کے مد مقابل تھے اور نواب زادہ میر سراج رئیسانی شہید، میر حاجی لشکری رئیسانی بھی صوبائی اسمبلی کی نشست پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کھڑے ہورہے تھے،ایک دلچسپ صورتحال تھی اس حلقے میں جو بہت اہمیت کی بھی حامل تھے، سب اپنے ہی تھے پر جوش تھے، خوش تھے پاکستان کے لیے بہت کچھ سوچ رہے تھے اپنی فوج کی حکمت عملی پر مطمئن تھے کہ ایک زوردار دھماکا ہوا اور فضا سوگوار ہوگئی لیکن ابھی سفر جاری ہے کہ ہم اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں کہ دشمن کی چالیں کتنی ہی منظم ہوں ہم ایک ہیں۔ خدا یہ الیکشن بخیر و خوبی کامیابی سے انجام پائے۔ (آمین)