ایک مفتوحہ ملک اور ظالم فاتح
اگر پورے باغ کے ہر پیڑ اور شاخ بلکہ گھاس تلے بھی دیکھو گے تو آنکھیں پہلے تو کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
کوئی نامعلوم سا احمق ہے ہمارا قاری تو نہیں ہو سکتا ورنہ ابھی تک ہمارے کالموں سے اتنی سی جان کاری تو حاصل کر چکا ہوتا ۔ کہ اگر ایک ہی ''گھر '' میں مختلف چور الگ الگ چوریاں کر رہے ہوں تو وہ ہرگز ایک دوسرے کو نہ تو پکڑتے ہیں نہ پکڑاتے ہیں اور نہ شور مچا کر اپنا اور دوسروں کا دھندہ خراب کرتے ہیں بلکہ سارے ہی '' لگے رہو منا بھائی '' کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ کہ تو بھی ہڑپ اور مجھے بھی ہڑپنے دے ۔
اس نامعقول ناخبر، ناشناس اور نا سمجھ شخص نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خصوصی جہاز کے عملے کو لے کر ایک تخمینہ پیش کیا ہے کہ مہینے میں یہ جہاز صرف دو مرتبہ اڑتا ہے اور اس پر کروڑوں کا خرچہ آتا ہے کیونکہ اس جہاز کے لیے ایک لمبا چوڑا عملہ ناقابل برداشت (صوبوں کے لیے ) قسم کی تنخواہیں فائیو اسٹار قسم کی مراعات اور لگژری خصوصیات اس عملے پر مستقل خرچ ہو رہی ہیں ۔
ارے احمق بے وقوف ، تازہ وارد بساط ہوائے دل اور حکومتوں ، وزیروں شہیروں اور رسہ گیروں کی وارداتوں سے قطعی ناآشنا بھولے پاکستانی ۔ تجھے ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اس ملک میں ستر سال سے مونہوں کے لیے '' نوالے '' نہیں بلکہ '' نوالوں '' کے لیے '' منہ '' پیدا کیے جاتے ہیں، تمہیں تو صرف ایک ہوائی جہاز جس کی بالکل بھی ضرورت نہیں پتہ چل گیا ہے ۔ یہاں ہمہ خانہ آفتاب است، اس '' باغ '' کے ہر '' پیڑ '' کے نیچے رہزنوں کے ٹولے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ایک جہاز پر اتنا خرچہ اور بیس تیس لوگوں کا یہ طریقہ واردات تو کچھ بھی نہیں ہے ۔
اگر پورے باغ کے ہر پیڑ اور شاخ بلکہ گھاس تلے بھی دیکھو گے تو آنکھیں پہلے تو کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور پھر ہمیشہ کے لیے اندھی ہو جائیں گی کہ ایک ادنی ترین عہدے دار سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیدار تک اس '' اندھے کی بیوی '' ملک کو کتنی بے دردی سے لوٹ رہا ہے اتنی کہ اتنی بے دردی سے کوئی اپنے مفتوح دشمن ملک کو بھی نہیں لوٹے گا ۔ ندیدہ کہیں کا ۔ یہاں تو سارا کچھ پرانے نوابوں کے باورچیوں اور باورچی خانوں جیسا چل رہا ہے جہاں ایک کٹوری دال پر بیس ہزار روپے ، پانچ سیر خالص گھی اور ساٹھ ستر ہزار کے سونے اور جواہرات کے '' کشتے '' خرچ ہوتے تھے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ و ہ ''نواب '' ہوتے تھے اور یہ '' عوامی '' ہوتے ہیں یعنی ان کو جلدی بھی کرنا پڑتی ہے کہ کیا پتہ '' کل ہو نہ ہو'' یعنی وقت کم اور لوٹ مار بہت۔
ورنہ وزیر اعلیٰ تو کیا اس ملک کی جو مالی حالت ہے اس کے ہوتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم کو بھی جہاز رکھنے کی نہ ضرورت ہے نہ استطاعت اور جہاز کے ذریعے یہ کرتے کیا ہیں کہ کسی جگہ میت پر بھی لکھی ہوئی تقریر اور چھپا ہوا پیغام پڑھتے ہیں ۔کیا یہ لوگ جہاز کے ذریعے فوراً پہنچ کر سیلاب کو روکتے ہیں زلزلے کو زمین ہی میں دباتے ہیں۔ چاہے ملک سارا تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے ان کی نیندوں، ڈائریوں اور معمولات میں فرق نہیں پڑتا ۔ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا بتایا جائے کہ ان میں سے کسی نے فوراً اپنے جہاز میں جاکر کچھ بھی کیا ہو ۔
ہر شہر اور خاص مقام پر ان کے لیے جو ریسٹ ہاؤس گیسٹ ہاؤس ، فلاں ہاؤس ،فلاں ہاؤس بنے ہوئے ہیں اور ان میں جہازوں ہی جیسا گراں بہا عملہ تعینات ہوتا ہے وہاں یہ جاتے کب ہیں، رہتے کب ہیں اور سب سے بڑا سوال کہ کس لیے اور کیوں ؟ کتنے شیر وہاں مارتے ہیں ، کتنی دشمن کی بیویاں بیوہ کرتے ہیں کس آفت کو روکتے ہیں اور اگر ہر شہر میں اس طرح کے لگژری ہاؤسز موجود ہیں تو پھر ہوائی جہاز کیوں یہ جو ایک گیسٹ ہاؤس یا ریسٹ ہاؤس نام کی چیز انگریزوں سے ملی ہوئی ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمانہ گھوڑے کا تھا اس وقت کے افسر اور چھوٹے چھوٹے خدا جب گھوڑے پر دورے کرتے تھے تووہ دنوں اور ہفتوں پر محیط ہوتے تھے۔ اس لیے ریسٹ ہاؤس یا گیسٹ ہاؤس جنھیں اس زمانے میں ڈاک بنگلہ یا بنگلہ کہا کرتے تھے ضروری ہوتا تھا، ہر پھیلے ہوئے محکمے یعنی محکمہ انہار محکمہ زراعت محکمہ جنگلات وغیرہ کے لیے ایسے ریسٹ ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس ضروری ہوتے تھے ۔ چنانچہ ''گھوڑے '' کے ساتھ ان چیزوں کو بھی رخصت ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوئے کیونکہ گھوڑے کے رشتہ دار مالی موالی اور چمچے کفگیر نہیں ہوا کرتے مگر کیا خالی میں کیونکہ '' گل سرسبد '' تو ایک ہی ہوتا ہے سب کے سب '' پُر '' ملیں گے اور گل سر سبد '' کے کانٹے وہاں اس ملک کا خون پی رہے ہوں گے کہ '' پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل '' (ملک کے ) کی کشید ، وقت کم ہے ۔
تنخواہوں اور دوسری مراعات کی تو بات ہی نہ کی جائے، اسی میں عافیت ہے ورنہ کمزور دل والوں کے دل دہل کر رہ جائیں گے۔ جب آنا جانا ، کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا حتیٰ کہ سانس لینا بھی سرکاری خرچے سے ہے تو پھر یہ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں جو ایسے لگتی ہیں جیسے چیونٹی نے کندھے پر ہاتھی کو بٹھا رکھا ہو۔ آخر کس لیے ؟ اور پھر یہ خادم بھی تو ہیں خدمت کے لیے آئے ہیں خدمت میں مرتے ہیں ملک و قوم کی ۔ کیا اچھی خدمت ہے کہ خدمت خدمت میں '' مخدوم '' کی کھال تک کھینچی جائے ۔
زیادہ پرانی بات نہیں یہی صالحین کے دور حکومت کا دور تھا۔ تب بنوں سے ہمارا ایک شاعر دوست ملنے آیا، آؤ بھگت کے بعد ہم دل ہی دل میں اسے اپنے گاؤں لے جانے اور مہمان نوازی کرنے کا پروگرام سوچ رہے تھے کہ اس نے خود ہی کہاآج تم اپنے گاؤں نہیں جاؤ گے میرے ساتھ شہر میں رہو گے اور خوب گپ شپ کریں گے۔ ہمارے ذھن میں دھماکا ہوا کہ سوائے ، ہوٹل کے اور کہاں جا سکتے ہیں لیکن اس نے کہا کہ میں یہاں کے ایم اے ہاسٹل میں ٹھیرا ہوں ۔ یہ مقام اس وقت پرانے گیسٹ ہاؤس میں ہو ا کرتا تھا ۔
وہاں گئے تو سارے کمروں میں نہایت ہی ناموزوں قسم کے لوگ ٹھرے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا اجلاس تو ہو نہیں رہا تھا لیکن حیرت اس وقت رفع ہوئی جب وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گیا ۔ جو اس کے کسی رشتہ دار ایم پی اے کا تھا، ایم پی اے تو نہ جانے کہاں تھا ، ہوتا بھی تو شہر میں اس کی اپنی جائیداد اور رہائش بھی تھی ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت تھی، نہایت لگژری سہولیات سے آراستہ اس کمرے میں وہ مہمان ہمیں لے گیا ۔ اور رات ہم نے وہاں گزاری سخت گرمی تھی پرانے ماڈل کا ہیوی ائرکنڈیشن ہر کمرے کی کھڑ کی میں لگا تھا لیکن پھر بھی گرمی تھی کیونکہ کمروں میں آدمیوں کی اتنی بھر مار تھی کہ دروازے بند نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس کمرے میں کھانے پینے اور ہر قسم کی ضرورت مہیا تھی صرف حکم کرنے کی دیر ہوتی تھی حالانکہ جس '' دلہن '' کا کمرہ تھا وہ کہیں تھی ہی نہیں۔ ایسی ہی حالت تمام سرکاری اقامت گاہوں ریسٹ ہاؤسوں گیسٹ ہاؤسوں اور ہاسٹلوں وغیرہ کی ہے بلکہ اب تو بہت زیادہ ہے ۔ ان خادموں کے رشتہ دار اور دوست دور دور کے دوستوں کو بھی لاکر سرکاری '' خوان'' پر آسودہ کرتے ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف ایک پہلو ہے اس ہشت پا ، یا سرکاری آکٹوپن کے اور بھی بہت سارے '' پیر '' ہیں جو بہت دور دور تک پہنچے ہیں اور اس ملک کے جسم سے خون چوستے ہیں ۔
اب یہ جس '' بھولے بادشاہ '' نے صرف ایک '' جہاز '' اور اس کے ارد گرد کا '' میلہ '' دیکھا ہے اسے کیا پتہ کہ یہاں قدم قدم پر کتنے '' میلے '' ہیں اور سارے میلے اس بدنصیب کی '' چادر چرانے '' کے لیے ہیں جس کے جسم پر اب چادر تو کیا '' کھال '' بھی باقی نہیں رہی ہے ۔
تھوڑا سا اس '' دل '' کا تصور کیجیے جو مرے ہوئے کو مزید مارنے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر ذرا بھی نہیں پسیجتا، ناجانے کس '' پتھر '' کا بنا ہوا ہے ایسا تو کوئی کافر زندیق یزید پلید اور شمر بھی نہیں کرے گا جب ان کو اچھی طرح یہ معلوم بھی ہے کہ اس ملک کو قرضے کی عیاشیوں نے پہلے ہی گورکنارے پہنچایا ہوا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو ایک پندرہ فیصد ٹولے نے فتح کیا ہے اور ستر سال سے اسے لوٹ رہے ہیں، ہر ہر مقام پر ہر ہر سطح پر محکمے ہر ہر دفتر میں ۔
اس نامعقول ناخبر، ناشناس اور نا سمجھ شخص نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خصوصی جہاز کے عملے کو لے کر ایک تخمینہ پیش کیا ہے کہ مہینے میں یہ جہاز صرف دو مرتبہ اڑتا ہے اور اس پر کروڑوں کا خرچہ آتا ہے کیونکہ اس جہاز کے لیے ایک لمبا چوڑا عملہ ناقابل برداشت (صوبوں کے لیے ) قسم کی تنخواہیں فائیو اسٹار قسم کی مراعات اور لگژری خصوصیات اس عملے پر مستقل خرچ ہو رہی ہیں ۔
ارے احمق بے وقوف ، تازہ وارد بساط ہوائے دل اور حکومتوں ، وزیروں شہیروں اور رسہ گیروں کی وارداتوں سے قطعی ناآشنا بھولے پاکستانی ۔ تجھے ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اس ملک میں ستر سال سے مونہوں کے لیے '' نوالے '' نہیں بلکہ '' نوالوں '' کے لیے '' منہ '' پیدا کیے جاتے ہیں، تمہیں تو صرف ایک ہوائی جہاز جس کی بالکل بھی ضرورت نہیں پتہ چل گیا ہے ۔ یہاں ہمہ خانہ آفتاب است، اس '' باغ '' کے ہر '' پیڑ '' کے نیچے رہزنوں کے ٹولے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ایک جہاز پر اتنا خرچہ اور بیس تیس لوگوں کا یہ طریقہ واردات تو کچھ بھی نہیں ہے ۔
اگر پورے باغ کے ہر پیڑ اور شاخ بلکہ گھاس تلے بھی دیکھو گے تو آنکھیں پہلے تو کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور پھر ہمیشہ کے لیے اندھی ہو جائیں گی کہ ایک ادنی ترین عہدے دار سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیدار تک اس '' اندھے کی بیوی '' ملک کو کتنی بے دردی سے لوٹ رہا ہے اتنی کہ اتنی بے دردی سے کوئی اپنے مفتوح دشمن ملک کو بھی نہیں لوٹے گا ۔ ندیدہ کہیں کا ۔ یہاں تو سارا کچھ پرانے نوابوں کے باورچیوں اور باورچی خانوں جیسا چل رہا ہے جہاں ایک کٹوری دال پر بیس ہزار روپے ، پانچ سیر خالص گھی اور ساٹھ ستر ہزار کے سونے اور جواہرات کے '' کشتے '' خرچ ہوتے تھے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ و ہ ''نواب '' ہوتے تھے اور یہ '' عوامی '' ہوتے ہیں یعنی ان کو جلدی بھی کرنا پڑتی ہے کہ کیا پتہ '' کل ہو نہ ہو'' یعنی وقت کم اور لوٹ مار بہت۔
ورنہ وزیر اعلیٰ تو کیا اس ملک کی جو مالی حالت ہے اس کے ہوتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم کو بھی جہاز رکھنے کی نہ ضرورت ہے نہ استطاعت اور جہاز کے ذریعے یہ کرتے کیا ہیں کہ کسی جگہ میت پر بھی لکھی ہوئی تقریر اور چھپا ہوا پیغام پڑھتے ہیں ۔کیا یہ لوگ جہاز کے ذریعے فوراً پہنچ کر سیلاب کو روکتے ہیں زلزلے کو زمین ہی میں دباتے ہیں۔ چاہے ملک سارا تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے ان کی نیندوں، ڈائریوں اور معمولات میں فرق نہیں پڑتا ۔ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا بتایا جائے کہ ان میں سے کسی نے فوراً اپنے جہاز میں جاکر کچھ بھی کیا ہو ۔
ہر شہر اور خاص مقام پر ان کے لیے جو ریسٹ ہاؤس گیسٹ ہاؤس ، فلاں ہاؤس ،فلاں ہاؤس بنے ہوئے ہیں اور ان میں جہازوں ہی جیسا گراں بہا عملہ تعینات ہوتا ہے وہاں یہ جاتے کب ہیں، رہتے کب ہیں اور سب سے بڑا سوال کہ کس لیے اور کیوں ؟ کتنے شیر وہاں مارتے ہیں ، کتنی دشمن کی بیویاں بیوہ کرتے ہیں کس آفت کو روکتے ہیں اور اگر ہر شہر میں اس طرح کے لگژری ہاؤسز موجود ہیں تو پھر ہوائی جہاز کیوں یہ جو ایک گیسٹ ہاؤس یا ریسٹ ہاؤس نام کی چیز انگریزوں سے ملی ہوئی ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمانہ گھوڑے کا تھا اس وقت کے افسر اور چھوٹے چھوٹے خدا جب گھوڑے پر دورے کرتے تھے تووہ دنوں اور ہفتوں پر محیط ہوتے تھے۔ اس لیے ریسٹ ہاؤس یا گیسٹ ہاؤس جنھیں اس زمانے میں ڈاک بنگلہ یا بنگلہ کہا کرتے تھے ضروری ہوتا تھا، ہر پھیلے ہوئے محکمے یعنی محکمہ انہار محکمہ زراعت محکمہ جنگلات وغیرہ کے لیے ایسے ریسٹ ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس ضروری ہوتے تھے ۔ چنانچہ ''گھوڑے '' کے ساتھ ان چیزوں کو بھی رخصت ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوئے کیونکہ گھوڑے کے رشتہ دار مالی موالی اور چمچے کفگیر نہیں ہوا کرتے مگر کیا خالی میں کیونکہ '' گل سرسبد '' تو ایک ہی ہوتا ہے سب کے سب '' پُر '' ملیں گے اور گل سر سبد '' کے کانٹے وہاں اس ملک کا خون پی رہے ہوں گے کہ '' پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل '' (ملک کے ) کی کشید ، وقت کم ہے ۔
تنخواہوں اور دوسری مراعات کی تو بات ہی نہ کی جائے، اسی میں عافیت ہے ورنہ کمزور دل والوں کے دل دہل کر رہ جائیں گے۔ جب آنا جانا ، کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا حتیٰ کہ سانس لینا بھی سرکاری خرچے سے ہے تو پھر یہ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں جو ایسے لگتی ہیں جیسے چیونٹی نے کندھے پر ہاتھی کو بٹھا رکھا ہو۔ آخر کس لیے ؟ اور پھر یہ خادم بھی تو ہیں خدمت کے لیے آئے ہیں خدمت میں مرتے ہیں ملک و قوم کی ۔ کیا اچھی خدمت ہے کہ خدمت خدمت میں '' مخدوم '' کی کھال تک کھینچی جائے ۔
زیادہ پرانی بات نہیں یہی صالحین کے دور حکومت کا دور تھا۔ تب بنوں سے ہمارا ایک شاعر دوست ملنے آیا، آؤ بھگت کے بعد ہم دل ہی دل میں اسے اپنے گاؤں لے جانے اور مہمان نوازی کرنے کا پروگرام سوچ رہے تھے کہ اس نے خود ہی کہاآج تم اپنے گاؤں نہیں جاؤ گے میرے ساتھ شہر میں رہو گے اور خوب گپ شپ کریں گے۔ ہمارے ذھن میں دھماکا ہوا کہ سوائے ، ہوٹل کے اور کہاں جا سکتے ہیں لیکن اس نے کہا کہ میں یہاں کے ایم اے ہاسٹل میں ٹھیرا ہوں ۔ یہ مقام اس وقت پرانے گیسٹ ہاؤس میں ہو ا کرتا تھا ۔
وہاں گئے تو سارے کمروں میں نہایت ہی ناموزوں قسم کے لوگ ٹھرے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا اجلاس تو ہو نہیں رہا تھا لیکن حیرت اس وقت رفع ہوئی جب وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گیا ۔ جو اس کے کسی رشتہ دار ایم پی اے کا تھا، ایم پی اے تو نہ جانے کہاں تھا ، ہوتا بھی تو شہر میں اس کی اپنی جائیداد اور رہائش بھی تھی ہاسٹل میں رہنے کی کیا ضرورت تھی، نہایت لگژری سہولیات سے آراستہ اس کمرے میں وہ مہمان ہمیں لے گیا ۔ اور رات ہم نے وہاں گزاری سخت گرمی تھی پرانے ماڈل کا ہیوی ائرکنڈیشن ہر کمرے کی کھڑ کی میں لگا تھا لیکن پھر بھی گرمی تھی کیونکہ کمروں میں آدمیوں کی اتنی بھر مار تھی کہ دروازے بند نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس کمرے میں کھانے پینے اور ہر قسم کی ضرورت مہیا تھی صرف حکم کرنے کی دیر ہوتی تھی حالانکہ جس '' دلہن '' کا کمرہ تھا وہ کہیں تھی ہی نہیں۔ ایسی ہی حالت تمام سرکاری اقامت گاہوں ریسٹ ہاؤسوں گیسٹ ہاؤسوں اور ہاسٹلوں وغیرہ کی ہے بلکہ اب تو بہت زیادہ ہے ۔ ان خادموں کے رشتہ دار اور دوست دور دور کے دوستوں کو بھی لاکر سرکاری '' خوان'' پر آسودہ کرتے ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف ایک پہلو ہے اس ہشت پا ، یا سرکاری آکٹوپن کے اور بھی بہت سارے '' پیر '' ہیں جو بہت دور دور تک پہنچے ہیں اور اس ملک کے جسم سے خون چوستے ہیں ۔
اب یہ جس '' بھولے بادشاہ '' نے صرف ایک '' جہاز '' اور اس کے ارد گرد کا '' میلہ '' دیکھا ہے اسے کیا پتہ کہ یہاں قدم قدم پر کتنے '' میلے '' ہیں اور سارے میلے اس بدنصیب کی '' چادر چرانے '' کے لیے ہیں جس کے جسم پر اب چادر تو کیا '' کھال '' بھی باقی نہیں رہی ہے ۔
تھوڑا سا اس '' دل '' کا تصور کیجیے جو مرے ہوئے کو مزید مارنے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر ذرا بھی نہیں پسیجتا، ناجانے کس '' پتھر '' کا بنا ہوا ہے ایسا تو کوئی کافر زندیق یزید پلید اور شمر بھی نہیں کرے گا جب ان کو اچھی طرح یہ معلوم بھی ہے کہ اس ملک کو قرضے کی عیاشیوں نے پہلے ہی گورکنارے پہنچایا ہوا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو ایک پندرہ فیصد ٹولے نے فتح کیا ہے اور ستر سال سے اسے لوٹ رہے ہیں، ہر ہر مقام پر ہر ہر سطح پر محکمے ہر ہر دفتر میں ۔