این اے 249 امیدوار کی جیت میں برادریوں کا اہم کردار ہوگا

حلقے میں کشمیری، ترک، ہزارہ، میمن،گجراتی،داتاری اور دیگر برادریوں کے ہزاروں افراد آباد ہیں،قلت آب سب سے اہم مسئلہ ہے

حلقے میں کشمیری، ترک، ہزارہ، میمن،گجراتی،داتاری اور دیگر برادریوں کے ہزاروں افراد آباد ہیں،قلت آب سب سے اہم مسئلہ ہے۔ فوٹو: فائل

این اے 249 میں ارباب محلہ، شجاعت کالونی،رشید آباد،انجم کالونی،شیر شاہ کوچی کالونی ،جونا گڑھ محلہ، حبیب آباد ، ترک کالونی، کتیانہ محلہ، آفریدی کالونی، غوث نگر، مدینہ کالونی، مسلم مجاہد کالونی، بلدیہ، سعید آباد، قائم خانی کالونی، اتحاد ٹاؤن، صدیق اکبر کالونی، ضیا کالونی، مومن آباد بلاک اے، بجلی نگر قائد عوام، کشمیر نگر، خیبر کالونی، مجاہد کالونی اور دیگر علاقوں میں ہزارہ، پختون، پنجابی اور اردو بولنے والوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔

حلقے میں کشمیری ،ہزارہ ،میمن،گجراتی، داتاری اوردیگر برادریوں کے سیکڑوں افراد آباد ہیں ، ماضی کے قومی اسمبلی کے اس حلقے پر گزشتہ 3 انتخابات میں ایم کیو ایم کامیاب ہوتی رہی ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں اور گزشتہ بلدیاتی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس حلقے پر پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہو گا، قلت آب سب سے اہم مسئلہ ہے، پسماندہ علاقوں پر مشتمل اس حلقے کی کم و بیش 11 یونین کونسلوں میں سے 6 پر ایم کیو ایم، 4 پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی تھی اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور وہ اے این پی کی بھی حمایت حاصل کرچکے ہیں، اس حلقے کی آبادی 7 لاکھ 82 ہزار 776 اور کل ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 31 ہزار 430 ہے، شہباز شریف کی وجہ سے یہ حلقہ سب کی توجہ کا مرکز ہے، مجموعی طور پر یہاں پر ایک خاتون سمیت 15 امیدوار میدان میں ہیں۔

اس حلقے سے پی ٹی آئی نے محمد فیصل واڈا،ایم کیو ایم نے اسلم شاہ آفریدی، پی ایس پی نے ڈاکٹر فوزیہ حمید، پیپلز پارٹی نے قادر خان مندوخیل اور ایم ایم اے نے عطا اللہ شاہ کو ٹکٹ دیا ہے،اس حلقے کا جائزہ لیا جائے تو سرحد آفریدی کالونی،غدافی کالونی،شاہ فیصل کالونی ، ارباب محلہ، داتار محلہ، حسینی محلہ، سیکٹر 3 بلدیہ ٹاؤن، گجرات کالونی اور کچھ دیگر علاقے عمومی طور پر ایم کیو ایم کے زیر اثر دکھائی نہیں دیتے البتہ اسلام نگر، الہ آباد، علی نگر،حسین آباد،الفلاح کالونی، بسم اللہ کالونی،سیکٹر 9 ایف، 9 بی، قائم خانی کالونی، مہاجر کیمپ اور کچھ دیگر علاقے ایم کیو ایم کے اکثریتی تصور کیے جاتے ہیں۔

متفرق نظریات کی حامل اس آبادی پر مشتمل حلقے میں سخت اور دلچسپ مقابلہ دیکھے جانے کی توقع ہے، سیاسی ماہرین کے مطابق ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان ووٹوںکی تقسیم سے بھی دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو فائدہ پہنچے گا، شہباز شریف کی کراچی سے جیت ایک بڑا اپ سیٹ کرسکتی ہے اسی لیے مسلم لیگ نون برادریوں کے ساتھ رابطوں کے علاوہ انتخابی حمایت کے لیے بھی کوششیں کررہی ہے مسلم لیگ کا دعوی ہے کہ یہاں آباد ہزارہ برادری کی انھیں حمایت حاصل ہے۔ البتہ ایم کیو ایم یا پی ایس پی یہاں نون لیگ،پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے ووٹوں کی تقسیم سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھاسکتی ہے مگر ایم کیو ایم کے لیے ماضی کی فتح برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔


اس قومی اسمبلی کے حلقے میں آنے والے صوبائی حلقوں پی ایس 115 اور پی ایس 116 پر بھی دلچسپ مقابلے کی توقع ہے، یہاں ماضی کے پی ایس 91 پر ایم ایم اے کے حافظ نعیم جبکہ پی ایس 92 پر ایم کیو ایم کے عبدالحسیب کامیاب ہوئے تھے اب بھی یہاں پر سخت مقابلے کی توقع ہے، پی ایس 115 کی مجموعی آبادی 3 لاکھ 58 ہزار 956 اور ووٹرز کی کل تعداد 1 لاکھ 98 ہزار 179 ہے، اس حلقے میں شامل سوات کالونی، کمہار واڑہ، انجمن کالونی، لاسی پاڑہ، ترک کالونی، مدینہ محلہ، آفریدی کالونی، شاہ فیصل محلہ، سیکٹر 5 بلدیہ ٹاؤن اور کچھ دیگر علاقے ایم کیو ایم کے علاوہ مختلف جماعتوں کے ووٹرز پر مشتمل ہے جبکہ قائم خانی کالونی، گلشن غازی، سیکٹر 4، سیکٹر 8، سیکٹر3 بلدیہ ٹاؤن، ارباب محلہ اور دیگر علاقے ایم کیو ایم کے ووٹرز تصور کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب پی ایس 116 میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے اسی لیے یہاں ایم کیو ایم یا پی ایس پی کو مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کے ساتھ سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس حلقے پر 19 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے کرن مسعود ایم کیو ایم، محمد شاہنواز قریشی پی ایس پی، ملک شہزاد اعوان پی ٹی آئی، صالحین نون لیگ، سید قریب شاہ پیپلز پارٹی اور عمر صادق کا تعلق ایم ایم اے سے ہے۔



Load Next Story