فیضانِ بابِ مدینۃُ العلم کرم اللہ وجہہ

نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے، اولاد میں سب سے بُرے وہ ہیں جو والدین کو اذیت دیں

نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے، اولاد میں سب سے بُرے وہ ہیں جو والدین کو اذیت دیں۔ فوٹو : فائل

اللہ کے کاموں اور بندوں کے کاموں میں واضح فرق یہ ہے کہ بندوں کا کام اَبتر ہوتا ہے اور اللہ کا کام کوثر ہوتا ہے۔ جو کام باقی رہنے والا ہو، وہ اللہ کا کام ہے ۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید، سورۂ بقرہ، آیت207 میں ارشادِ ربُّ العزت کا مفہوم ہے :

'' اور لوگوں میں سے کچھ جو اللہ کی رضایت کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں، اللہ اپنے ایسے بندوں پہ بہت مہربان ہے۔''

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی فکری بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں، جن کے بے مثِل اقوالِ حمیدہ کی خوش بُو سے یقینا ہمارا پورا وجود معطّر ہوجائے گا۔

'' نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے۔''

'' اولاد میں سب سے بُرے وہ ہیں جو والدین کو اذیت دیں۔''

'' نافرمان اور اذیت رساں بیٹا رنج و نحوست کا سبب ہوتا ہے۔''

'' خیانت اور جھوٹ میں برادری ہے ۔''

'' خیانت نفاق میں سرِفہرست ہے۔''

'' خیانت اور اخوت کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتیں۔''

'' جس کی سخت گیری بڑھ جاتی ہے وہ ذلیل ہوتا ہے۔''

'' حریص کے پاس شرم و حیا نہیں ہوتی۔''

'' دُشمنی دِین کو برباد کر دیتی ہے۔''

'' امانت داری انسان کو صداقت کی طرف لے جاتی ہے۔''

'' رشتے داروں سے الگ ہوکے رہنا بلاؤں میں گرفتار ہونے کا سبب ہے۔''

'' ہٹ دھرمی اپنے سوار کو پھینک کر اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔''


'' صبح کے وقت مومن کے آنسوؤں سے ڈرو، کیوں کہ یہ اپنے رُلانے والوں کو برباد کردیتے ہیں اور یہ ( ان آنسوؤں کے ذریعے) جس کے لیے دُعا کرتے ہیں اس (پر اللہ کے) غضب کے آتشیں دریا کو خاموش کر دیتے ہیں۔''

''کٹ حجتی اور لڑائی سے دُور رہو، کیوں کہ یہ دونوں دل کو مریض کردیتے ہیں اور اسی کے سبب نفاق پیدا ہوتا ہے۔''

''اللہ کے نزدیک مقرب ترین بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ حق کے لیے بولے، بھلے وہ اُس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور سب سے زیادہ اس پر عمل پیرا ہو، بھلے وہ اُسے ناپسند ہو۔''

آپ ؓسے سوال کیا گیا: '' توبۃ النصوح کیا ہے؟ '' آپ ؓنے فرمایا: '' دل سے ندامت، زبان سے استغفار اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم۔''

'' تین چیزوں میں شرمایا نہیں جاتا، انسان کا اپنے مہمان کی خدمت کرنا اور انسان کا اپنے باپ اور اُستاد کے لیے اپنی جگہ سے اُٹھنا اور اپنا حق مانگنا بھلے وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔'' نوٹ: مندرجہ بالا اقوال تجلّیاتِ حکمت سے لیے گئے ہیں)

پروردگارِ عالم کی عظمت و جلالت کے حوالے سے علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا ارشادِ گرامی ہے:

'' پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔ وہ لطافت کی بنا پر خبر رکھتا ہے اور علم کے اعتبار سے احاطہ رکھتا ہے۔ تمہارے اعضاء ہی اُس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پاؤں ہی اُس کے لشکر ہیں۔ تمہارے ضمیر اُس کے جاسوس ہیں اور تمہاری تنہائیاں بھی اُس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔'' (نہج البلاغہ)

نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:

'' یقیناً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے اور دنیا کی ذلّت اور اس کے عیوب کے لیے بہترین راہ نما ہے کہ اس میں ذلّت اور رُسوائی کے مقامات بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ دیکھو اِس دُنیا کے اطراف حضورؐ سے سمیٹ لیے گئے اور غیروں کے لیے ہم وار کردیے گئے۔ آپؐ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔'' ( نہج البلاغہ)

مشاورت کے ضمن میں آپ ؓنے یوں دائمی راہ نمائی فرمائی:

'' دیکھو اپنے مشورے میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستے سے ہٹا دے گا اور تم کو فقر و فاقے کا خوف دِلاتا رہے گا اور اسی طرح بُزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملے میں کم زور بنادے گا۔ اور حریص سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقے سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔ یہ بخل، بُزدلی اور طمع اگرچہ الگ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدرِ مشترک پروردگار سے سُوئے ظن ہے، جس کے بعد اِن خصلتوں کا ظہور ہوتا ہے۔''

(نہج البلاغہ۔ حضرت مالکِ اشترؓ کے نام خط)

ذکر و فکرِ جناب علی کرم اللہ وجہہ باعث ِرحمت و برکت ہے۔ عبادت ہے، درسِ زندگی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آپ ؓکے خطبات، مکتوبات، فرامین ، پیغامات اور پند و نصائح بالعموم ہر معاشرے کی اصلاح اور فوز و فلاح کے لیے ناگزیر ہیں، بالخصوص ہمارے معاشرے کے لیے اِن کی اشد ضرورت ہے۔

آپؓ کے فرمودات پڑھیں، سُنیں اور سمجھیں تو اِن میں بہت کچھ سامانِ نصیحت و ہدایت ہے ۔ بلاشبہ تمام تر اذکار و افکارِ جناب علی کرم اللہ وجہہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے، مومنوں کے لیے، بل کہ بنی نوع انسان کے لیے آفاقی اور ابدی راہ نمائی کا سرچشمہ ہیں۔

ایک جنگ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایک دشمن کی تلوار ٹُوٹ گئی، اُس نے آپ ؓسے کہا: '' یاعلی ؓ! اپنی تلوار مجھے دے دیجیے۔'' جناب علی ؓنے فوراً ہی اپنی تلوار ذوالفقار اُس کی طرف اُچھال دی۔ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر لہراتا ہوا جناب علی کرم اللہ وجہہ کی طرف بڑھنے لگا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُسی اطمینان اور سکون کے ساتھ مسکراتے رہے۔ وہ قریب آکر بولا: '' یاعلی ؓ! کوئی اپنے دشمن کو تلوار دیتا ہے؟ '' جناب علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: '' پہلے دشمن تھا، پھر سائل ہوگیا، علی سے مانگنے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا۔''

وہ امام المتقین علی کرم اللہ وجہہ جو دوست دشمن، ہر ایک کی مدد کرتے رہے، اپنے قاتل ابنِ ملجم تک کو جام شربت پلایا، وہ کریم، سخی، شجاع ہم مسلمانوں سے ایک مدد چاہتے ہیں۔ مفسّرِ قرآن حضرت علی کرم اللہ وجہہ چاہتے ہیں کہ ہم سب متّقی ہوجائیں۔ اُن کا ہم سے یہی مطالبہ ہے، یقیناً یہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن تو نہیں ہے۔ تو پھر آئیے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی اِس آواز پہ دل کی گہرائیوں سے عملاً لبّیک کہنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
Load Next Story