غیبت کا فساد
’غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلاضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔‘‘
LA UNIóN:
قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی تصویر پیش کی جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی شخص کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ تم اسے تو مکروہ سمجھتے ہو۔ اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔'' (حجرات)
یہ آیت کریمہ معاشرے میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے شعور اور ضمیر کو کیسے پاک کرنا ہے ۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
غیبت کی تعریف:
علامہ راغب اصفہانی '' المفردات'' میں غیبت کا بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ''غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلاضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔''
اقسامِ غیبت : علمائے کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:
٭ غیبت کرنا کفر ہے : وہ قسم جہاں غیبت کرنا کفر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تُو غیبت نہ کر، تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ لہذا اس صورت میں غیبت کرنا کفر ہے۔
٭ غیبت کرنا منافقت ہے : دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔
٭ غیبت کرنا معصیت ہے : تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا معصیت ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے، وہ گناہ گار ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔
٭ غیبت کرنا جائز ہے : چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بل کہ ثواب کا باعث بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ فاسق معلن (اعلانیہ گناہ کرنے والا) کے افعال و کردار کا ذکر کرنا جائز ہے، اس میں ثواب ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاجر کے بُرے افعال کا تذکرہ کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں۔
غیبت کے اسباب:
غیبت کے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں سے پانچ قابل ذکر ہیں:
( 1) غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
(2) لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
(3) انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری بُرائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
(4) کسی جرم میں دوسرے کو شامل کرلینا حالاں کہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے ۔
(5) ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔
امام ترمذی نے عقبہ بن عامرؓ سے روایت کیا: عرض کیا: ''یا رسول اللہ ﷺ! کام یابی کیا ہے ؟'' آپؐ نے ارشاد فرمایا: '' اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو (یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں) اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔''
عبادت اور حسنات پر غیبت کا اثر:
بعض فقہا ئے کرامؒ نے یہ لکھا ہے کہ غیبت کرنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے، لیکن جمہور کے مطابق اگرچہ باطل نہیں ہوتا لیکن ثواب ضرور کم ہوجاتا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم ہے : ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص جھوٹی بات (اس میں ہر قسم کی غلط بات شامل ہے) کہنا اور اس پر عمل نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'' (صحیح بخاری)
اسی طرح ایک عورت کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کیا گیا کہ فلاں عورت بہت زیادہ نفلی نماز، روزے اور صدقے کا اہتمام کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف بھی دیتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' وہ آگ میں جائے گی'' پھر کسی نے کہا : فلاں عورت نفلی نماز، روزے اور صدقات کا اہتمام کم کرتی، ہاں وہ پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن وہ کسی اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: '' وہ جنت میں جائے گی۔''(صحیح ابن حبان)
حسن بصریؒ سے ایک آدمی نے کہا : تم میری غیبت کیوں کرتے ہو، تو حسن بصریؒ نے کہا: تم کوئی اتنے بڑے آدمی نہیں ہو کہ تم میری نیکیوں میں کمی زیادتی کرو۔ مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری غیبت نہیں کرتا ہوں کہ تم میری نیکیوں کو لے کر اپنے کھاتے میں ڈال سکو۔ (احیاء علوم الدین للغزالی)
اللہ تعالیٰ کے ہا ں غیبت
کرنے والے کی سزا:
غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی عزت کو پامال کرتا ہے۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ ہر مسلمان پر تمام مسلمانوں کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔ (مسلم)
ایک حدیث جو کہ سعید بن زیدؓ سے مروی ہے کہ یقینا سب سے بڑا سُود کسی مسلمان کی عزت کے متعلق بغیر کسی وجہ کے زبان درازی کرنا ہے۔ (سنن أبی داؤد)
عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجلس میں تھے، ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر چلا گیا، اس کے بعد کسی نے اس کے متعلق غیبت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اٹھو اور اپنے دانتوں کا خلال کرو'' صحابی نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں خلال کس لیے کروں ؟ میں نے تو گوشت نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا تم نے اپنے بھائی کا گوشت کھایا ہے۔'' ( المعجم الکبیر للطبرانی)
غیبت کی تلافی کس طرح ممکن ہے ؟
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ تُو دعائے مغفرت کرے اس شخص کے لیے جس کی تُونے غیبت کی ہے، تُو یوں کہے کہ ا ے اللہ! تُو میری اور اس کی مغفرت فرما۔''
مسلمانوں کا اجتماعی
فرض کیا ہونا چاہیے؟
نبی کریم ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں و ہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جارہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔'' (ابو داؤد)
غیبت کا علاج:
غیبت کا علاج یہ ہے کہ غیبت کے باعث دنیاوی اور اخروی سزاؤں اور نقصانات کو لوگوں میں عام کیا جائے، جیسے کہ پہلے بیان ہوچکے۔ لوگوں کو اپنے عیوب کے سدھارنے میں مشغول کیا جائے، چہ جائے کہ وہ کسی کے عیوب کو اچھالیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے کینہ، حسد، فخر اور دو سروں کو تکلیف دینے کی بُری عادات سے بچایا جائے۔ غیبت کرنے والوں کو غیبت سے روکا جائے۔ لوگوں کو اچھی گفت گُو کا عادی بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی تصویر پیش کی جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی شخص کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ تم اسے تو مکروہ سمجھتے ہو۔ اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔'' (حجرات)
یہ آیت کریمہ معاشرے میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے شعور اور ضمیر کو کیسے پاک کرنا ہے ۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
غیبت کی تعریف:
علامہ راغب اصفہانی '' المفردات'' میں غیبت کا بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ''غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلاضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔''
اقسامِ غیبت : علمائے کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:
٭ غیبت کرنا کفر ہے : وہ قسم جہاں غیبت کرنا کفر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تُو غیبت نہ کر، تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ لہذا اس صورت میں غیبت کرنا کفر ہے۔
٭ غیبت کرنا منافقت ہے : دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔
٭ غیبت کرنا معصیت ہے : تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا معصیت ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے، وہ گناہ گار ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔
٭ غیبت کرنا جائز ہے : چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بل کہ ثواب کا باعث بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ فاسق معلن (اعلانیہ گناہ کرنے والا) کے افعال و کردار کا ذکر کرنا جائز ہے، اس میں ثواب ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاجر کے بُرے افعال کا تذکرہ کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں۔
غیبت کے اسباب:
غیبت کے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں سے پانچ قابل ذکر ہیں:
( 1) غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
(2) لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
(3) انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری بُرائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لیے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
(4) کسی جرم میں دوسرے کو شامل کرلینا حالاں کہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے ۔
(5) ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔
امام ترمذی نے عقبہ بن عامرؓ سے روایت کیا: عرض کیا: ''یا رسول اللہ ﷺ! کام یابی کیا ہے ؟'' آپؐ نے ارشاد فرمایا: '' اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو (یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں) اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔''
عبادت اور حسنات پر غیبت کا اثر:
بعض فقہا ئے کرامؒ نے یہ لکھا ہے کہ غیبت کرنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے، لیکن جمہور کے مطابق اگرچہ باطل نہیں ہوتا لیکن ثواب ضرور کم ہوجاتا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم ہے : ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص جھوٹی بات (اس میں ہر قسم کی غلط بات شامل ہے) کہنا اور اس پر عمل نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'' (صحیح بخاری)
اسی طرح ایک عورت کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کیا گیا کہ فلاں عورت بہت زیادہ نفلی نماز، روزے اور صدقے کا اہتمام کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف بھی دیتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' وہ آگ میں جائے گی'' پھر کسی نے کہا : فلاں عورت نفلی نماز، روزے اور صدقات کا اہتمام کم کرتی، ہاں وہ پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن وہ کسی اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں دیتی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: '' وہ جنت میں جائے گی۔''(صحیح ابن حبان)
حسن بصریؒ سے ایک آدمی نے کہا : تم میری غیبت کیوں کرتے ہو، تو حسن بصریؒ نے کہا: تم کوئی اتنے بڑے آدمی نہیں ہو کہ تم میری نیکیوں میں کمی زیادتی کرو۔ مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری غیبت نہیں کرتا ہوں کہ تم میری نیکیوں کو لے کر اپنے کھاتے میں ڈال سکو۔ (احیاء علوم الدین للغزالی)
اللہ تعالیٰ کے ہا ں غیبت
کرنے والے کی سزا:
غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی عزت کو پامال کرتا ہے۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ ہر مسلمان پر تمام مسلمانوں کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔ (مسلم)
ایک حدیث جو کہ سعید بن زیدؓ سے مروی ہے کہ یقینا سب سے بڑا سُود کسی مسلمان کی عزت کے متعلق بغیر کسی وجہ کے زبان درازی کرنا ہے۔ (سنن أبی داؤد)
عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجلس میں تھے، ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر چلا گیا، اس کے بعد کسی نے اس کے متعلق غیبت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اٹھو اور اپنے دانتوں کا خلال کرو'' صحابی نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں خلال کس لیے کروں ؟ میں نے تو گوشت نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا تم نے اپنے بھائی کا گوشت کھایا ہے۔'' ( المعجم الکبیر للطبرانی)
غیبت کی تلافی کس طرح ممکن ہے ؟
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ تُو دعائے مغفرت کرے اس شخص کے لیے جس کی تُونے غیبت کی ہے، تُو یوں کہے کہ ا ے اللہ! تُو میری اور اس کی مغفرت فرما۔''
مسلمانوں کا اجتماعی
فرض کیا ہونا چاہیے؟
نبی کریم ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ''اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں و ہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو اور اس کی تذلیل و توہین کی جارہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔'' (ابو داؤد)
غیبت کا علاج:
غیبت کا علاج یہ ہے کہ غیبت کے باعث دنیاوی اور اخروی سزاؤں اور نقصانات کو لوگوں میں عام کیا جائے، جیسے کہ پہلے بیان ہوچکے۔ لوگوں کو اپنے عیوب کے سدھارنے میں مشغول کیا جائے، چہ جائے کہ وہ کسی کے عیوب کو اچھالیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے کینہ، حسد، فخر اور دو سروں کو تکلیف دینے کی بُری عادات سے بچایا جائے۔ غیبت کرنے والوں کو غیبت سے روکا جائے۔ لوگوں کو اچھی گفت گُو کا عادی بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین