عُشر ایک شرعی فریضہ
جس طرح سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے اسی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ لازم ہے، اسی کا نام عُشر ہے
COLOMBO:
اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو جسم عطا کیا اور اس سے متعلق کچھ احکام ذکر کیے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال دیا اس کے متعلق بھی احکام ذکر فرمائے ہیں۔ جسم اور مال کو اس کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے تو اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیا میں برکتیں نازل فرماتے ہیں اور آخرت میں جنت عطا فرماتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے، مفہوم: '' اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو، جو اس نے تم کو عطا کیا ہے۔'' (سورۃ النور) دوسرے مقام پر ہے، مفہوم : '' جو کچھ اللہ نے آپ کو دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کو حاصل کرو۔'' (سورۃ القصص)
یہ سونا، چاندی، مال و دولت، مویشی، زمین، باغات، فصلیں، کھیت کھلیان وغیرہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا عبادت ہے اور اس مالی عبادت کا نام زکوٰۃ، صدقۃالفطر، قربانی اور عُشر ہے۔
نظام زکوٰۃ و عُشر کی حکمت:
اسلام کے اقتصادی نظام کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام دولت کو ایک جگہ منجمد نہیں رہنے دیتا بل کہ اسے گردش میں رکھتا ہے تاکہ مال دار طبقہ مال کی کثرت و فراوانی کی وجہ سے غرور، تکبر اور ظلم پر نہ اتر آئے، اسی طرح غریب بھی احساس کمتری کا شکار ہو کر مایوسی اور جرائم کا مرتکب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں لوگوں کی معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہاں اس کا روحانی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے، کیوں کہ مال کی بے جا محبت جب دل میں اترتی ہے تو انسان اپنے مقصد تخلیق سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اسلام نے مال کے متعلق چند عبادات مقرر کی ہیں تاکہ معاشرہ ظلم و ستم اور جرائم سے پاک رہے۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک جزو عُشر بھی ہے۔ جس طرح سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے اسی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ لازم ہے، اسی کا نام عُشر ہے۔
عُشر کے متعلق کچھ احکام ذکر کیے جاتے ہیں۔
عُشر کا وجوب:
قرآن مجید میں ہے، مفہوم : '' اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس (پیداوار) میں سے (بھی) جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہے۔'' (سورۃ البقرۃ) دوسرے مقام پر ہے، مفہوم: '' اللہ کا حق ادا کرو، جب ان کی فصل کاٹو اور ( اللہ کی مقرر کردہ) حد سے آگے نہ بڑھو اس لیے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔''
(سورۃ الانعام) مذکورہ بالا مکمل آیت کریمہ میں فصل، باغات اور پھلوں کے جس حق کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عُشر ہے۔
دسویں اور بیسویں حصے کی تقسیم:
عُشر کی ادائی میں پیداوار کے دسویں اور بیسویں حصہ کی تقسیم کا مدار پانی پر ہے، جس کی تفصیل حدیث پاک میں اس طرح سے ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: '' جو کھیتی بارش کے پانی یا قدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بہ خود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے میں محنت نہ کرنی پڑتی ہو اور نہ ہی پانی کا خرچ ادا کیا جاتا ہو ) تو اس میں سے عُشر (دسواں حصہ) لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں (ٹیوب ویل، رہٹ، یا وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے) سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عُشر (بیسواں حصہ) لیا جائے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں بہ حیثیت عامل اس پیداوار سے جو آسمان (بارش) سے سیراب ہوئی اور جو زمین نہر کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے سیراب ہوئی (یعنی اسے خود سے پانی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی) تو اس میں دسواں حصہ بہ طور عُشر کے حاصل کروں اور جو زمین (کنووں کے) ڈولوں سے سیراب ہو اس میں بہ طور عُشر بیسواں حصہ وصول کروں۔ (سنن ابن ماجہ )
وجوب عُشر کی شرائط:
پہلی شرط: مسلمان ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عُشر اہل ایمان کے لیے مقرر کردہ ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
دوسری شرط: زمین کا عُشری ہونا۔ خراجی زمین پر عُشر نہیں۔
خراجی زمین اسے کہتے ہیں کہ جس کو مسلمانوں نے صلح کے ذریعے حاصل کیا ہو، ایسی صورت میں زمین کی شرائط اس معاہدے کے مطابق ہوتی ہیں جن پر صلح کی گئی ہے، اگر صلح نامے پر یہ شرط موجود ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب پر رہیں گے اور ان کی زمینیں بہ دستور ان کی ملکیت میں ہی رہیں گی تو ایسی زمینوں کو خراجی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں نے کسی علاقے کو جنگ کے ذریعے فتح کیا اس کے بعد مسلمانوں کے امیر نے اس علاقے کی زمینوں کو مجاہدین اسلام میں تقسیم نہیں کیا، بل کہ اپنے صواب دیدی اختیار کے مطابق ان زمینوں کو سابقہ مالکوں کی ملکیت میں بہ دستور قائم رکھا تو ایسی زمین کو بھی خراجی کہا جاتا ہے۔
تیسری شرط: زمین سے پیداوار کا ہونا۔ لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اْگی ہی نہیں تو ہر صورت میں عُشر ساقط ہو جائے گا۔
چوتھی شرط: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگوں کی عادت یہ ہو کہ وہ اسے کاشت کرکے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں۔ لہذا وہ گھاس جو خود بہ خود اُگ آئے یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عُشر نہیں ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عُشر ہوگا، اگر خود بہ خود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہوگا۔
عُشر کی ادائی کا تعلق عقل، اندازے اور تخمینہ سے نہیں بل کہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق ہے۔
عُشر کے مصارف:
عُشر کے مصارف اور مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، ایسا مسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی غیر ضروری سامان کو ملا کر زکوٰۃ کے نصاب کی مالیت بنتی ہو تو ایسا شخص زکوٰۃ و عُشر کا مستحق ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی کی طرح عُشر کی ادائی کے لیے بھی مستحق شخص کو مالک بنانا ضروری ہے۔ ورنہ عُشر ادا نہیں ہوگا۔ مستحق افراد کو مالک بنائے بغیر عُشر کا مال یا رقم کسی بھی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں اس سے عُشر ادا نہیں ہوگا۔ جس پر عُشر واجب ہوا ہے اگر وہ خود بھی عُشر لینے والے مستحق افراد میں شامل ہو تو وہ اپنے عُشر کا اپنی ذات کا مالک نہیں بنا سکتا، کسی دوسرے مستحق شخص کو دینا ضروری ہے۔ عُشر کی جگہ بہ طور صدقہ رقم یا غلہ اجناس وغیرہ دینے سے عُشر کی ادائی نہیں ہوتی خواہ عُشر کی مقدار سے زیادہ بھی صدقہ کردیا جائے۔
عُشر اور زکوٰۃ میں چند بنیادی فرق:
زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے مخصوص نصاب متعین ہے اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، جب کہ عُشر کے واجب ہونے کے لیے نصاب مقرر نہیں پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عُشر واجب ہوتا ہے۔ اگر کسی کی پیداوار پونے دو سیر سے بھی کم ہو تو اس قدر معمولی مقدار پر شریعت عُشر واجب نہیں کرتی۔ زکوٰۃ کی ادائی کے لیے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جب کہ عُشر میں سال گزرنا ضروری نہیں۔ بل کہ اگر کسی زمین میں سال میں دو مرتبہ فصل ہوتی ہے یا کسی باغ وغیرہ میں سال میں دو مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پھل لگتا ہے تو ہر مرتبہ عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جب کہ عُشر کے واجب ہونے میں یہ شرط نہیں، اس لیے اگر کوئی پاگل ہو یا ابھی تک نابالغ ہو تو اس کی زمین کی پیداوار پر عُشر واجب ہوگا ان لوگوں کے سرپرست افراد ان کی طرف سے عُشر ادا کریں گے۔ زکوٰۃ کے مال اور سامان وغیرہ کے ساتھ قرض کا تعلق ہوتا ہے یعنی اگر کسی پر قرض ہو تو اس قرض کو زکوٰۃ کے مال سے نکال کر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ جب کہ عُشر میں ایسا نہیں یعنی اگر کسی نے عُشر ادا کرنا تو اس کا قرض وغیرہ عُشر سے نہیں نکالا جاتا۔ ایسے چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ، مثلاً کسی کے پاس سونا یا چاندی وغیرہ موجود ہو تو جب تک یہ سونا یا چاندی وغیرہ موجود رہے گی ہر سال ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی اور ان کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہوگا، جب کہ عُشر میں ایسا نہیں، مثلا اگر پیدا وار میں سے ایک مرتبہ عُشر ادا کر دیا اس کے بعد وہ جنس غلہ وغیرہ اگرچہ کئی سال تک بھی اس کے پاس باقی رہے، ہر سال اس کا عُشر نہیں نکالا جائے گا۔
چند متفرق مسائل :
عُشر پیداوار کی جنس سے دینا ضروری نہیں بل کہ اس کی قیمت سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ عُشر کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عُشر ادا کیا جائے۔ عُشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور سبزیوں میں بھی واجب ہے۔ اگر کسی درخت سے سال میں ایک مرتبہ سے زاید مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہوگا تو ہر مرتبہ اس پر عُشر واجب ہوگا۔ اگر کوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کے بعد دوبارہ اُگ آتی ہو تو جتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کا عُشر واجب ہوگا۔ اگر فصل، پھل یا سبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی یا توڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کا عُشر ادا کرتے جائیں۔ جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عُشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بل کہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم، مکئی یا چاول کا بھوسا یا خود بہ خود اُگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عُشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کے لیے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارے وغیرہ کے لیے تو ان میں بھی عُشر واجب ہوگا۔ اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جَو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کے لیے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چوں کہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عُشر واجب ہوگا۔ کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عُشر واجب ہے کیوں کہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے۔ زمین میں خود رو درخت پیدا ہوجائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عُشر واجب نہ ہوگا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عُشر واجب ہوگا۔ درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عُشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کے بیج جو صرف کھیتی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کے طور پر نہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عُشر واجب ہے۔ عُشری زمین سے اگر شہد نکالا جائے تو اس پر بھی عُشر واجب ہے، شہد کے عُشر میں ہر حال میں دسواں حصہ واجب ہے خواہ اس پر کتنے ہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالے نہیں جائیں گے۔ گھر کے صحن وغیرہ میں سبزی یا درخت لگائے جائیں تو ان سے حاصل ہونے والی پیداوار پر عُشر نہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اور مکان پر عُشر نہیں لہٰذا ان چیزوں پر بھی عُشر نہیں۔ اگر کسی نے اپنے رہائشی مکان کو مسمار کرکے اسے مستقل باغ سے تبدیل کر دیا تو چوں کہ اب اس کی حیثیت باغ کی ہے اس لیے اس باغ میں آنے والے پھلوں پر عُشر واجب ہوگا۔
اگر عُشری زمین مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمین دار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشت کار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے) اس صورت میں زمین دار اور کاشت کار دونوں پر اپنے حصے کی پیداوار کا عُشر واجب ہے۔ اگر عُشری زمین ٹھیکے پر دی گئی تو پیداوار کا عُشر کرائے دار پر ہوگا، زمین کے مالک پر نہیں۔ زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر فصل پکنے تک جتنے اخراجات ہوتے ہیں مثلاً ہل چلانا، زمین سے اضافی جڑی بوٹیوں کو ختم کرنا، بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا، اسپرے کرنا ان اخراجات کو عُشر کی ادائی سے نہیں نکالا جائے گا بل کہ اخراجات نکالے بغیر زمین کی کل پیداوار پر عُشر واجب ہوگا۔ فصل پکنے کے بعد ہونے والے اخراجات کو بھی نہیں نکالا جائے گا۔ اس لیے کٹائی کی اجرت، تھریشر وغیرہ کا خرچہ بھی نکالے بغیر عُشر ادا کیا جائے گا۔ اگر پیداوار کا مالک مقروض ہے تو بھی اس پر عُشر واجب ہوگا، قرض کو پیداوار سے نہیں نکالا جائے گا۔ کھیتی بونے اور باغ میں پھول آنے سے پہلے عُشر ادا کرنا جائز نہیں، البتہ کھیتی اگنے اور باغ میں پھول آنے کے بعد یعنی پھل ظاہر ہونے سے پہلے پہلے عُشر کو نقدی کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے۔ فصل، پھل یا سبزی پکنے سے پہلے پہلے اس قابل ہو جائے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو عُشر واجب ہو جاتا ہے۔ اگر کسی نے فصل یا پھل کو پکنے سے پہلے کاٹ لیا یا توڑ لیا تو جس مقدار کے برابر فصل کاٹی یا پھل توڑے تو اسی کے برابر عُشر ادا کرنا واجب ہے۔ اگر کسی نے پوری فصل یا پھل کو یا پھر اس کے کسی حصے کو قابل استعمال ہونے کے بعد خود ختم کردیا مثلاً مکمل یا بعض پیداوار کو خود استعمال کرلیا خواہ جانور کے چارے کے طور پر کھلا کر ہی کیوں نہ ہو تو اس کے ذمے سے عُشر ختم نہیں ہوتا، بل کہ اس کو استعمال شدہ مقدار کا حساب لگا کر عُشر ادا کرنا واجب ہوگا۔ اگر کسی نے خود ضایع یا استعمال نہیں کیا بل کہ آسمانی آفت سیلاب، تیز آندھی، طوفانی بارش ، بجلی کے گرنے یا آگ وغیرہ لگنے سے ساری فصل تباہ ہوگئی یا چوری ہوگئی تو اس کے ذمے عُشر واجب نہیں، ہاں البتہ اگر مکمل تباہ یا چوری نہیں ہوئی، بل کہ کچھ پیداوار باقی ہے تو اس کا عُشر ادا کرنا واجب ہوگا۔ اگر کسی شخص نے دوسرے کی پیداوار کو ضایع کردیا تو زمین کا مالک اس ضایع کرنے والے سے تاوان وصول کرے اور اس میں سے عُشر ادا کرے۔ ہاں جب تک ضایع کرنے والا تاوان ادا نہیں کرتا تب تک مالک کے ذمے عُشر ادا کرنا ضروری نہیں۔ بعض درخت، فصل، پودے ایسے ہیں کہ جن سے پھل مقصود نہیں ہوتا بل کہ ان کے پتے کام آتے ہیں مثلاً تمباکو، پان وغیرہ ان کے پتوں میں عُشر واجب ہوگا۔ اگر کسی نے زمین پر کھڑی فصل، درخت یا باغ پر لگے پھل کو پکنے کے بعد فروخت کیا تو اس کا عُشر ادا کرنا فروخت کرنے والے پر واجب ہوگا، خریدار پر نہیں۔ اگر فصل یا پھل پکنے سے پہلے فروخت کیا تو اب عُشر خریدار کے ذمے ہے، فروخت کرنے والے کے ذمے نہیں۔ وہ زمین جو وقف کی ہے مثلاً کسی رفاہی ادارے ، مسجد ، مدرسے وغیرہ کی ہے اگر وہ عُشری زمین ہے تو اس سے حاصل شدہ پیداوار کا عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ وہ پہاڑ اور جنگل جو کسی کی ملکیت میں نہیں اور عُشری زمین میں ہیں ان سے جو شخص بھی پھل حاصل کرے اس پر عُشر ادا کرنا واجب ہے۔
یہ وہ دین کی باتیں ہیں جن کا علم اور اس پر عمل مسلمان کے لیے ضروری ہے بالخصوص وہ زمین دار لوگ جن کو اللہ کریم نے زمین جیسی نعمت سے نوازا ہے، زمین سے حاصل ہونے والے غلہ اناج وغیرہ میں اللہ کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان مسائل کو سیکھیں اور اپنے کسان بھائیوں کو بھی شریعت کے مسائل سمجھائیں۔ اللہ ہمیں دین پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ نے جیسے انسان کو جسم عطا کیا اور اس سے متعلق کچھ احکام ذکر کیے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال دیا اس کے متعلق بھی احکام ذکر فرمائے ہیں۔ جسم اور مال کو اس کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے تو اللہ راضی ہوتے ہیں، دنیا میں برکتیں نازل فرماتے ہیں اور آخرت میں جنت عطا فرماتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے، مفہوم: '' اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو، جو اس نے تم کو عطا کیا ہے۔'' (سورۃ النور) دوسرے مقام پر ہے، مفہوم : '' جو کچھ اللہ نے آپ کو دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کو حاصل کرو۔'' (سورۃ القصص)
یہ سونا، چاندی، مال و دولت، مویشی، زمین، باغات، فصلیں، کھیت کھلیان وغیرہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں، ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا عبادت ہے اور اس مالی عبادت کا نام زکوٰۃ، صدقۃالفطر، قربانی اور عُشر ہے۔
نظام زکوٰۃ و عُشر کی حکمت:
اسلام کے اقتصادی نظام کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام دولت کو ایک جگہ منجمد نہیں رہنے دیتا بل کہ اسے گردش میں رکھتا ہے تاکہ مال دار طبقہ مال کی کثرت و فراوانی کی وجہ سے غرور، تکبر اور ظلم پر نہ اتر آئے، اسی طرح غریب بھی احساس کمتری کا شکار ہو کر مایوسی اور جرائم کا مرتکب نہ ہو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں لوگوں کی معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے وہاں اس کا روحانی فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے، کیوں کہ مال کی بے جا محبت جب دل میں اترتی ہے تو انسان اپنے مقصد تخلیق سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اسلام نے مال کے متعلق چند عبادات مقرر کی ہیں تاکہ معاشرہ ظلم و ستم اور جرائم سے پاک رہے۔ اسلام کے اس اقتصادی نظام کا ایک جزو عُشر بھی ہے۔ جس طرح سونے چاندی پر زکوٰۃ واجب ہے اسی طرح زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ لازم ہے، اسی کا نام عُشر ہے۔
عُشر کے متعلق کچھ احکام ذکر کیے جاتے ہیں۔
عُشر کا وجوب:
قرآن مجید میں ہے، مفہوم : '' اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس (پیداوار) میں سے (بھی) جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہے۔'' (سورۃ البقرۃ) دوسرے مقام پر ہے، مفہوم: '' اللہ کا حق ادا کرو، جب ان کی فصل کاٹو اور ( اللہ کی مقرر کردہ) حد سے آگے نہ بڑھو اس لیے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔''
(سورۃ الانعام) مذکورہ بالا مکمل آیت کریمہ میں فصل، باغات اور پھلوں کے جس حق کی ادائی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد عُشر ہے۔
دسویں اور بیسویں حصے کی تقسیم:
عُشر کی ادائی میں پیداوار کے دسویں اور بیسویں حصہ کی تقسیم کا مدار پانی پر ہے، جس کی تفصیل حدیث پاک میں اس طرح سے ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: '' جو کھیتی بارش کے پانی یا قدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بہ خود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے میں محنت نہ کرنی پڑتی ہو اور نہ ہی پانی کا خرچ ادا کیا جاتا ہو ) تو اس میں سے عُشر (دسواں حصہ) لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں (ٹیوب ویل، رہٹ، یا وہ نہری پانی جس کا آبیانہ ادا کیا جائے) سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عُشر (بیسواں حصہ) لیا جائے۔'' (صحیح بخاری)
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں بہ حیثیت عامل اس پیداوار سے جو آسمان (بارش) سے سیراب ہوئی اور جو زمین نہر کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے سیراب ہوئی (یعنی اسے خود سے پانی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی) تو اس میں دسواں حصہ بہ طور عُشر کے حاصل کروں اور جو زمین (کنووں کے) ڈولوں سے سیراب ہو اس میں بہ طور عُشر بیسواں حصہ وصول کروں۔ (سنن ابن ماجہ )
وجوب عُشر کی شرائط:
پہلی شرط: مسلمان ہونا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عُشر اہل ایمان کے لیے مقرر کردہ ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
دوسری شرط: زمین کا عُشری ہونا۔ خراجی زمین پر عُشر نہیں۔
خراجی زمین اسے کہتے ہیں کہ جس کو مسلمانوں نے صلح کے ذریعے حاصل کیا ہو، ایسی صورت میں زمین کی شرائط اس معاہدے کے مطابق ہوتی ہیں جن پر صلح کی گئی ہے، اگر صلح نامے پر یہ شرط موجود ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب پر رہیں گے اور ان کی زمینیں بہ دستور ان کی ملکیت میں ہی رہیں گی تو ایسی زمینوں کو خراجی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں نے کسی علاقے کو جنگ کے ذریعے فتح کیا اس کے بعد مسلمانوں کے امیر نے اس علاقے کی زمینوں کو مجاہدین اسلام میں تقسیم نہیں کیا، بل کہ اپنے صواب دیدی اختیار کے مطابق ان زمینوں کو سابقہ مالکوں کی ملکیت میں بہ دستور قائم رکھا تو ایسی زمین کو بھی خراجی کہا جاتا ہے۔
تیسری شرط: زمین سے پیداوار کا ہونا۔ لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اْگی ہی نہیں تو ہر صورت میں عُشر ساقط ہو جائے گا۔
چوتھی شرط: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگوں کی عادت یہ ہو کہ وہ اسے کاشت کرکے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں۔ لہذا وہ گھاس جو خود بہ خود اُگ آئے یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عُشر نہیں ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عُشر ہوگا، اگر خود بہ خود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہوگا۔
عُشر کی ادائی کا تعلق عقل، اندازے اور تخمینہ سے نہیں بل کہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق ہے۔
عُشر کے مصارف:
عُشر کے مصارف اور مستحق وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، ایسا مسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی غیر ضروری سامان کو ملا کر زکوٰۃ کے نصاب کی مالیت بنتی ہو تو ایسا شخص زکوٰۃ و عُشر کا مستحق ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی کی طرح عُشر کی ادائی کے لیے بھی مستحق شخص کو مالک بنانا ضروری ہے۔ ورنہ عُشر ادا نہیں ہوگا۔ مستحق افراد کو مالک بنائے بغیر عُشر کا مال یا رقم کسی بھی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں اس سے عُشر ادا نہیں ہوگا۔ جس پر عُشر واجب ہوا ہے اگر وہ خود بھی عُشر لینے والے مستحق افراد میں شامل ہو تو وہ اپنے عُشر کا اپنی ذات کا مالک نہیں بنا سکتا، کسی دوسرے مستحق شخص کو دینا ضروری ہے۔ عُشر کی جگہ بہ طور صدقہ رقم یا غلہ اجناس وغیرہ دینے سے عُشر کی ادائی نہیں ہوتی خواہ عُشر کی مقدار سے زیادہ بھی صدقہ کردیا جائے۔
عُشر اور زکوٰۃ میں چند بنیادی فرق:
زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے مخصوص نصاب متعین ہے اس سے کم ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، جب کہ عُشر کے واجب ہونے کے لیے نصاب مقرر نہیں پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عُشر واجب ہوتا ہے۔ اگر کسی کی پیداوار پونے دو سیر سے بھی کم ہو تو اس قدر معمولی مقدار پر شریعت عُشر واجب نہیں کرتی۔ زکوٰۃ کی ادائی کے لیے مال یا سامان وغیرہ پر سال کا گزرنا ضروری ہے جب کہ عُشر میں سال گزرنا ضروری نہیں۔ بل کہ اگر کسی زمین میں سال میں دو مرتبہ فصل ہوتی ہے یا کسی باغ وغیرہ میں سال میں دو مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پھل لگتا ہے تو ہر مرتبہ عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہے جب کہ عُشر کے واجب ہونے میں یہ شرط نہیں، اس لیے اگر کوئی پاگل ہو یا ابھی تک نابالغ ہو تو اس کی زمین کی پیداوار پر عُشر واجب ہوگا ان لوگوں کے سرپرست افراد ان کی طرف سے عُشر ادا کریں گے۔ زکوٰۃ کے مال اور سامان وغیرہ کے ساتھ قرض کا تعلق ہوتا ہے یعنی اگر کسی پر قرض ہو تو اس قرض کو زکوٰۃ کے مال سے نکال کر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ جب کہ عُشر میں ایسا نہیں یعنی اگر کسی نے عُشر ادا کرنا تو اس کا قرض وغیرہ عُشر سے نہیں نکالا جاتا۔ ایسے چیزیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب تک وہ نصاب کے برابر باقی رہتی ہیں ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ، مثلاً کسی کے پاس سونا یا چاندی وغیرہ موجود ہو تو جب تک یہ سونا یا چاندی وغیرہ موجود رہے گی ہر سال ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی رہے گی اور ان کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہوگا، جب کہ عُشر میں ایسا نہیں، مثلا اگر پیدا وار میں سے ایک مرتبہ عُشر ادا کر دیا اس کے بعد وہ جنس غلہ وغیرہ اگرچہ کئی سال تک بھی اس کے پاس باقی رہے، ہر سال اس کا عُشر نہیں نکالا جائے گا۔
چند متفرق مسائل :
عُشر پیداوار کی جنس سے دینا ضروری نہیں بل کہ اس کی قیمت سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ عُشر کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عُشر ادا کیا جائے۔ عُشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور سبزیوں میں بھی واجب ہے۔ اگر کسی درخت سے سال میں ایک مرتبہ سے زاید مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہوگا تو ہر مرتبہ اس پر عُشر واجب ہوگا۔ اگر کوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کے بعد دوبارہ اُگ آتی ہو تو جتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کا عُشر واجب ہوگا۔ اگر فصل، پھل یا سبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی یا توڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کا عُشر ادا کرتے جائیں۔ جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عُشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بل کہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم، مکئی یا چاول کا بھوسا یا خود بہ خود اُگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عُشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کے لیے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارے وغیرہ کے لیے تو ان میں بھی عُشر واجب ہوگا۔ اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جَو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کے لیے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چوں کہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عُشر واجب ہوگا۔ کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عُشر واجب ہے کیوں کہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے۔ زمین میں خود رو درخت پیدا ہوجائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عُشر واجب نہ ہوگا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عُشر واجب ہوگا۔ درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عُشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کے بیج جو صرف کھیتی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کے طور پر نہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عُشر واجب ہے۔ عُشری زمین سے اگر شہد نکالا جائے تو اس پر بھی عُشر واجب ہے، شہد کے عُشر میں ہر حال میں دسواں حصہ واجب ہے خواہ اس پر کتنے ہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالے نہیں جائیں گے۔ گھر کے صحن وغیرہ میں سبزی یا درخت لگائے جائیں تو ان سے حاصل ہونے والی پیداوار پر عُشر نہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اور مکان پر عُشر نہیں لہٰذا ان چیزوں پر بھی عُشر نہیں۔ اگر کسی نے اپنے رہائشی مکان کو مسمار کرکے اسے مستقل باغ سے تبدیل کر دیا تو چوں کہ اب اس کی حیثیت باغ کی ہے اس لیے اس باغ میں آنے والے پھلوں پر عُشر واجب ہوگا۔
اگر عُشری زمین مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمین دار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشت کار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے) اس صورت میں زمین دار اور کاشت کار دونوں پر اپنے حصے کی پیداوار کا عُشر واجب ہے۔ اگر عُشری زمین ٹھیکے پر دی گئی تو پیداوار کا عُشر کرائے دار پر ہوگا، زمین کے مالک پر نہیں۔ زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لے کر فصل پکنے تک جتنے اخراجات ہوتے ہیں مثلاً ہل چلانا، زمین سے اضافی جڑی بوٹیوں کو ختم کرنا، بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا، اسپرے کرنا ان اخراجات کو عُشر کی ادائی سے نہیں نکالا جائے گا بل کہ اخراجات نکالے بغیر زمین کی کل پیداوار پر عُشر واجب ہوگا۔ فصل پکنے کے بعد ہونے والے اخراجات کو بھی نہیں نکالا جائے گا۔ اس لیے کٹائی کی اجرت، تھریشر وغیرہ کا خرچہ بھی نکالے بغیر عُشر ادا کیا جائے گا۔ اگر پیداوار کا مالک مقروض ہے تو بھی اس پر عُشر واجب ہوگا، قرض کو پیداوار سے نہیں نکالا جائے گا۔ کھیتی بونے اور باغ میں پھول آنے سے پہلے عُشر ادا کرنا جائز نہیں، البتہ کھیتی اگنے اور باغ میں پھول آنے کے بعد یعنی پھل ظاہر ہونے سے پہلے پہلے عُشر کو نقدی کی صورت میں ادا کرنا جائز ہے۔ فصل، پھل یا سبزی پکنے سے پہلے پہلے اس قابل ہو جائے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو عُشر واجب ہو جاتا ہے۔ اگر کسی نے فصل یا پھل کو پکنے سے پہلے کاٹ لیا یا توڑ لیا تو جس مقدار کے برابر فصل کاٹی یا پھل توڑے تو اسی کے برابر عُشر ادا کرنا واجب ہے۔ اگر کسی نے پوری فصل یا پھل کو یا پھر اس کے کسی حصے کو قابل استعمال ہونے کے بعد خود ختم کردیا مثلاً مکمل یا بعض پیداوار کو خود استعمال کرلیا خواہ جانور کے چارے کے طور پر کھلا کر ہی کیوں نہ ہو تو اس کے ذمے سے عُشر ختم نہیں ہوتا، بل کہ اس کو استعمال شدہ مقدار کا حساب لگا کر عُشر ادا کرنا واجب ہوگا۔ اگر کسی نے خود ضایع یا استعمال نہیں کیا بل کہ آسمانی آفت سیلاب، تیز آندھی، طوفانی بارش ، بجلی کے گرنے یا آگ وغیرہ لگنے سے ساری فصل تباہ ہوگئی یا چوری ہوگئی تو اس کے ذمے عُشر واجب نہیں، ہاں البتہ اگر مکمل تباہ یا چوری نہیں ہوئی، بل کہ کچھ پیداوار باقی ہے تو اس کا عُشر ادا کرنا واجب ہوگا۔ اگر کسی شخص نے دوسرے کی پیداوار کو ضایع کردیا تو زمین کا مالک اس ضایع کرنے والے سے تاوان وصول کرے اور اس میں سے عُشر ادا کرے۔ ہاں جب تک ضایع کرنے والا تاوان ادا نہیں کرتا تب تک مالک کے ذمے عُشر ادا کرنا ضروری نہیں۔ بعض درخت، فصل، پودے ایسے ہیں کہ جن سے پھل مقصود نہیں ہوتا بل کہ ان کے پتے کام آتے ہیں مثلاً تمباکو، پان وغیرہ ان کے پتوں میں عُشر واجب ہوگا۔ اگر کسی نے زمین پر کھڑی فصل، درخت یا باغ پر لگے پھل کو پکنے کے بعد فروخت کیا تو اس کا عُشر ادا کرنا فروخت کرنے والے پر واجب ہوگا، خریدار پر نہیں۔ اگر فصل یا پھل پکنے سے پہلے فروخت کیا تو اب عُشر خریدار کے ذمے ہے، فروخت کرنے والے کے ذمے نہیں۔ وہ زمین جو وقف کی ہے مثلاً کسی رفاہی ادارے ، مسجد ، مدرسے وغیرہ کی ہے اگر وہ عُشری زمین ہے تو اس سے حاصل شدہ پیداوار کا عُشر ادا کرنا ضروری ہے۔ وہ پہاڑ اور جنگل جو کسی کی ملکیت میں نہیں اور عُشری زمین میں ہیں ان سے جو شخص بھی پھل حاصل کرے اس پر عُشر ادا کرنا واجب ہے۔
یہ وہ دین کی باتیں ہیں جن کا علم اور اس پر عمل مسلمان کے لیے ضروری ہے بالخصوص وہ زمین دار لوگ جن کو اللہ کریم نے زمین جیسی نعمت سے نوازا ہے، زمین سے حاصل ہونے والے غلہ اناج وغیرہ میں اللہ کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان مسائل کو سیکھیں اور اپنے کسان بھائیوں کو بھی شریعت کے مسائل سمجھائیں۔ اللہ ہمیں دین پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین