ترس آتا ہے
ہر جانے والی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے دور میں بہت زیادہ ترقی ہوئی اور کئی ایک منصوبے مکمل کیے گئے۔
اس مملکت خداداد میں طرح طرح کی حکومتیں دیکھی ہیں ۔میرا حکومتیں دیکھنے کا آغاز ایوب خان کی حکومت سے ہوا جو لاتعداد سویلین اور مارشل لاء حکومتوں کو دیکھنے کے بعد اب ایک اورنئی جمہوری حکومت دیکھنے تک آپہنچا ہے۔
زندگی رہی توکئی مزید حکومتیں دیکھیں گے۔ ان حکومتوں میں سے کسی حکومت سے ہمدردی رہی اور کسی سے سرد مہری ، کسی حکومت کی مخالفت کرتے رہے اور کسی کی مدافعت لیکن ان میں سے کسی حکومت پر کبھی ترس نہ آیا۔ یہ تمام حکومتیں اپنی اپنی حد تک موثر اور کارکن حکومتیں تھیں عوام میں ان کی مخالفت تھی تو حمایت میں بھی آواز سنائی دیتی تھی کیونکہ ان سب حکومتوں کا اپنے اپنے انداز میں عوام سے تعلق قائم تھا ۔ فوجی حکومتیں بھی ایسی تھیں جو عوام سے رابطہ میں تھیں ۔
سیاسی اور فوجی حکومتیں عوام کے لیے اپنے اپنے انداز میں کام کرتی رہیں ۔پرویز مشرف کی آخری فوجی حکومت کے بعد پچھلے دس برسوں میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بر سر اقتدار رہیں لیکن وہ عوام کے لیے آسانیاں فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہیں ۔ حکمران عوام کو چھوڑ کر اپنے لیے منصوبے بناتے رہے ۔ آہستہ آہستہ عوام سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا گیا اور پھر یہ وقت بھی آیا عوام جنھوں نے اپنے ووٹوں سے ان کو منتخب کر کے بھیجا تھا وہ عوام ان سے نجات کی دعائیں مانگنے لگے۔
عوام سے رابطہ کی کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو عوام کی کچھ خبر نہیں رہی جو کہ ایک عوامی نمائندہ حکومت کے لیے ضروری ہے مگر ہمارے حکمران وہ پڑھنا اور سننا پسند کرتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہو اور اس کے لیے ان کے ارد گرد موجود ان کے مداح سرا وہی کچھ ان تک پہنچاتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے یعنی ان کو عوام کی اصل خبروں سے بے خبر رکھا جاتا ہے اور صرف وہ خبریں ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ان کے مزاج پر گراں نہ گزریں ۔ حکمران ان خبروں یا اخباروں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے جن میں عوام کا حال بیان ہوتا ہے یہ اپنے جیسے بے خبر اخبارات پڑھتے یا دیکھتے ہیں جو ان عوام کا حال بیان کرتے ہیں جن کے مسائل روٹی کپڑا مکان نہیں کچھ اور ہیں ۔ ایسی حکومتوں پر ترس نہ کھایا جائے تو اور کیا کیا جائے۔
کئی جمہوری حکومتیں بھگتا کر ہم اگلے چند ہفتوں میں ایک اور جمہوری حکومت دیکھنے جا رہے ہیں جس سے عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شائد نئی حکومت آتے ہی عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گی ۔یہ ہماری سب سے بڑی غلط فہمی ہے دراصل عوام ہر آنے والی حکومت سے بہت زیادہ توقعات لگا لیتے ہیں لیکن حکومتوں کے اپنے معاملات اور مجبوریاں ہوتی ہیں، اگر کوئی عوام دوست حکمران ہو تو وہ عوام کو آسانی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب ریاست کی صورتحال یہ ہو کہ اس کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی قرض لینا پڑے تو ان حالات میںکسی بھی حکمران سے عوام کے لیے بھلائی کی توقع رکنا عبث ہے بلکہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے عوام سے ہی ٹیکس کی شکل میں وصولیاں کرے ۔
ہر جانے والی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے دور میں بہت زیادہ ترقی ہوئی اور کئی ایک منصوبے مکمل کیے گئے۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ ہماری سابقہ حکومت کا بھی ہے لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں تابڑ توڑ مہنگائی کے سوا کچھ ہوا ہو اس کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ اسٹیل کے کاروبار کے ماہر ہونے کے باوجود پاکستان اسٹیل مل اپنی بدترین دور سے گزر رہی ہے حالانکہ اگر نواز شریف چاہتے تو اس جیسی کئی اسٹیل ملیں بحال کی جاسکتی تھیں یہی حال ہماری فضائی کمپنی پی آئی اے کا ہے اس کی بد حالی کی داستانیں ہرروز اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔میاں نواز شریف جو کہ صنعتکاروں کے نمائندہ حکمران تھے ان کے دور میں نہ کسی کارخانے کا پہیہ گھوما ہے اور نہ ہی سرمائے نے حرکت کی ہے اور اگر کی ہے تو ملک سے باہر جانے کی طرف کی ہے ۔ جسے دیکھیں وہیں رخت سفر باندھ کر بیٹھا ہوا ہے ۔
حکومت جب کسی ضرورت زندگی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو کہتی ہے کہ اس سے عوام متاثر نہیں ہوں گے ۔ایسی بات کہنے والوں کے دل گردے کی داد دینی پڑتی ہے ۔ہماری حکومت اپنی بقاء کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتی بلکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہے اور یہ نہیں سوچتی کہ یہ بڑی طاقتیں آپ کو اس وقت تک رکھیں گی جب تک ان کا اپنا دل اور مفاد چاہے گا کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کے قدم اپنی زمین اور اپنے عوام میں نہیں ہیں ۔ گملے میں اگا ہوا پودا ہے۔
ہر نئی آنے والی حکومت کی جانب سے دنوں میں عوام اور ملک کی حالت بدلنے کے دعوے سن سن کر عمر گزر گئی جو بھی نیا حکمران آیا اپنے ساتھ خوش کن وعدے لایا۔ حکومت بدلنے جارہی ہے ممکنہ طور پر عوام نئے حکمران دیکھنے جارہے ہیں لیکن ایک بات عرض کر دوں کہ اگر عمراں خان کی شکل میں نئی حکومت بن گئی تو اس کے پاس ہنی مون کا وقت نہیں ہو گا ان کو حکومت کے قیام کے فوری بعد اپنا کام شروع کرنا پڑے گا۔
سابقہ سیاستدان حکمرانوں کی مذمت اور سیاہ کارناموں کے ذکر سے نکل کر اصل کام شروع کرنا ہوں گے۔ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے افسروں کا کردار بھی اہم ہے ان کی جانب سے نئی حکومت کے ساتھ تعاون حکومت کی کامیابی کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ۔ہماری بیورو کریسی بہت ذہین اور تربیت یافتہ ہے صرف ایوب خان اور نواب کالا باغ اسے اپنی مرضی کا کام لے سکے ہیں، ان کے بعد ہمارے افسروں نے حکمرانوں سے اپنی مرضی کا کام لیا ہے۔ ہماری نئی حکومت بھی یقینا افسروں کے تعاون کی طلبگار ہو گی ۔آنے والی حکومت پر ترس آتا ہے ۔
زندگی رہی توکئی مزید حکومتیں دیکھیں گے۔ ان حکومتوں میں سے کسی حکومت سے ہمدردی رہی اور کسی سے سرد مہری ، کسی حکومت کی مخالفت کرتے رہے اور کسی کی مدافعت لیکن ان میں سے کسی حکومت پر کبھی ترس نہ آیا۔ یہ تمام حکومتیں اپنی اپنی حد تک موثر اور کارکن حکومتیں تھیں عوام میں ان کی مخالفت تھی تو حمایت میں بھی آواز سنائی دیتی تھی کیونکہ ان سب حکومتوں کا اپنے اپنے انداز میں عوام سے تعلق قائم تھا ۔ فوجی حکومتیں بھی ایسی تھیں جو عوام سے رابطہ میں تھیں ۔
سیاسی اور فوجی حکومتیں عوام کے لیے اپنے اپنے انداز میں کام کرتی رہیں ۔پرویز مشرف کی آخری فوجی حکومت کے بعد پچھلے دس برسوں میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بر سر اقتدار رہیں لیکن وہ عوام کے لیے آسانیاں فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہیں ۔ حکمران عوام کو چھوڑ کر اپنے لیے منصوبے بناتے رہے ۔ آہستہ آہستہ عوام سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا گیا اور پھر یہ وقت بھی آیا عوام جنھوں نے اپنے ووٹوں سے ان کو منتخب کر کے بھیجا تھا وہ عوام ان سے نجات کی دعائیں مانگنے لگے۔
عوام سے رابطہ کی کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو عوام کی کچھ خبر نہیں رہی جو کہ ایک عوامی نمائندہ حکومت کے لیے ضروری ہے مگر ہمارے حکمران وہ پڑھنا اور سننا پسند کرتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہو اور اس کے لیے ان کے ارد گرد موجود ان کے مداح سرا وہی کچھ ان تک پہنچاتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے یعنی ان کو عوام کی اصل خبروں سے بے خبر رکھا جاتا ہے اور صرف وہ خبریں ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ان کے مزاج پر گراں نہ گزریں ۔ حکمران ان خبروں یا اخباروں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے جن میں عوام کا حال بیان ہوتا ہے یہ اپنے جیسے بے خبر اخبارات پڑھتے یا دیکھتے ہیں جو ان عوام کا حال بیان کرتے ہیں جن کے مسائل روٹی کپڑا مکان نہیں کچھ اور ہیں ۔ ایسی حکومتوں پر ترس نہ کھایا جائے تو اور کیا کیا جائے۔
کئی جمہوری حکومتیں بھگتا کر ہم اگلے چند ہفتوں میں ایک اور جمہوری حکومت دیکھنے جا رہے ہیں جس سے عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شائد نئی حکومت آتے ہی عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گی ۔یہ ہماری سب سے بڑی غلط فہمی ہے دراصل عوام ہر آنے والی حکومت سے بہت زیادہ توقعات لگا لیتے ہیں لیکن حکومتوں کے اپنے معاملات اور مجبوریاں ہوتی ہیں، اگر کوئی عوام دوست حکمران ہو تو وہ عوام کو آسانی فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب ریاست کی صورتحال یہ ہو کہ اس کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی قرض لینا پڑے تو ان حالات میںکسی بھی حکمران سے عوام کے لیے بھلائی کی توقع رکنا عبث ہے بلکہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے عوام سے ہی ٹیکس کی شکل میں وصولیاں کرے ۔
ہر جانے والی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے دور میں بہت زیادہ ترقی ہوئی اور کئی ایک منصوبے مکمل کیے گئے۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ ہماری سابقہ حکومت کا بھی ہے لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں تابڑ توڑ مہنگائی کے سوا کچھ ہوا ہو اس کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ اسٹیل کے کاروبار کے ماہر ہونے کے باوجود پاکستان اسٹیل مل اپنی بدترین دور سے گزر رہی ہے حالانکہ اگر نواز شریف چاہتے تو اس جیسی کئی اسٹیل ملیں بحال کی جاسکتی تھیں یہی حال ہماری فضائی کمپنی پی آئی اے کا ہے اس کی بد حالی کی داستانیں ہرروز اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔میاں نواز شریف جو کہ صنعتکاروں کے نمائندہ حکمران تھے ان کے دور میں نہ کسی کارخانے کا پہیہ گھوما ہے اور نہ ہی سرمائے نے حرکت کی ہے اور اگر کی ہے تو ملک سے باہر جانے کی طرف کی ہے ۔ جسے دیکھیں وہیں رخت سفر باندھ کر بیٹھا ہوا ہے ۔
حکومت جب کسی ضرورت زندگی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو کہتی ہے کہ اس سے عوام متاثر نہیں ہوں گے ۔ایسی بات کہنے والوں کے دل گردے کی داد دینی پڑتی ہے ۔ہماری حکومت اپنی بقاء کے لیے عوام کی طرف نہیں دیکھتی بلکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتی ہے اور یہ نہیں سوچتی کہ یہ بڑی طاقتیں آپ کو اس وقت تک رکھیں گی جب تک ان کا اپنا دل اور مفاد چاہے گا کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کے قدم اپنی زمین اور اپنے عوام میں نہیں ہیں ۔ گملے میں اگا ہوا پودا ہے۔
ہر نئی آنے والی حکومت کی جانب سے دنوں میں عوام اور ملک کی حالت بدلنے کے دعوے سن سن کر عمر گزر گئی جو بھی نیا حکمران آیا اپنے ساتھ خوش کن وعدے لایا۔ حکومت بدلنے جارہی ہے ممکنہ طور پر عوام نئے حکمران دیکھنے جارہے ہیں لیکن ایک بات عرض کر دوں کہ اگر عمراں خان کی شکل میں نئی حکومت بن گئی تو اس کے پاس ہنی مون کا وقت نہیں ہو گا ان کو حکومت کے قیام کے فوری بعد اپنا کام شروع کرنا پڑے گا۔
سابقہ سیاستدان حکمرانوں کی مذمت اور سیاہ کارناموں کے ذکر سے نکل کر اصل کام شروع کرنا ہوں گے۔ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے افسروں کا کردار بھی اہم ہے ان کی جانب سے نئی حکومت کے ساتھ تعاون حکومت کی کامیابی کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ۔ہماری بیورو کریسی بہت ذہین اور تربیت یافتہ ہے صرف ایوب خان اور نواب کالا باغ اسے اپنی مرضی کا کام لے سکے ہیں، ان کے بعد ہمارے افسروں نے حکمرانوں سے اپنی مرضی کا کام لیا ہے۔ ہماری نئی حکومت بھی یقینا افسروں کے تعاون کی طلبگار ہو گی ۔آنے والی حکومت پر ترس آتا ہے ۔