کیا نئی صبح طلوع ہوگی
شریف اور زرداری مل کر تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
اگرچہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے، بالخصوص دیہی علاقوں میں، دھونس دھمکی جاگیرداروں کا طریقہ واردات رہا ہے، لیکن اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کون کرتا ہے، اس سے بھی زیاہ اہم ہے کہ کون انھیں جمع کرتا ہے۔ بیلٹ پیپر اور بکس کے راستے دھاندلی یا جعل سازی کا مظاہرہ ہم 2008اور 2013کے انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔
مبینہ طور پر2013ء میں انتخابی عمل کے دوران ''انتخابی جادو'' چلا، جس کے نتیجے میں ن لیگ کو 30سے 35 زائد نشستیں ملیں۔ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستیں بھی حاصل ہوئیں اور اس مجموعی تعداد کی بنیاد پر مسلم لیگ ن زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے میں کام یاب رہی۔
2018کے انتخابات میں یہ ''جادو'' نہیں چلے گا اس کے یہ چند اسباب ہیں: 1) ماضی میں نگراں صوبائی حکومت کی انتظامی مشینری ن لیگ پر مہربان رہی(اور بعد میں کئی مہربان نوازے بھی گئے) اور انھیں کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ مزید برآں پی سی ایس حکام، جو انتخابی مشینری کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں، خلاف ہوچکے ہیں۔ 2) نواز شریف کے غیر منتخب مشیر اور شہباز شریف کے قریبی افسران انھیں تنہا چھوڑ گئے ہیں، صرف نواز شریف ہی انھیں ایک کھونٹے سے باندھ سکتے تھے۔
3)ن لیگ کے 30سے 35الیکٹ ایبلز آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑ رہے ہیں اور 35سے چالیس ایسے امیدوار پہلے ہی اپنے راستے جدا کرچکے ہیں، ان میں سے اکثر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ 4)جنوبی پنجاب کے 22 ارکان قومی اسمبلی کی منزل تحریک انصاف ہوگی، یہاں سے ن لیگ کے ہاتھ میں صرف پانچ نشستیں رہ جائیں گی۔ 5) عدلیہ پر نواز شریف کے تند و تیز حملوں (اور کرپشن میں سزا یافتہ) ہونے کے باعث ان کے مضبوط قلعے لاہور میں بھی شش و پنج کا شکار ووٹر اب ن لیگ کے خلاف ہوچکا ہے۔ 6) عمران خان نے اشرافیہ کا ووٹ اپنے حق میں کرنے کے لیے سخت محنت کی، کم ہی امکان نظر آتا ہے کہ اب یہ ووٹ نواز شریف کو مل جائے، اس طبقے کی انتخابات سے لاتعلقی بدترین صورت حال ہوگی۔
7) ''ختم نبوت'' سے متعلق پیدا ہونے والے تنازعے کی وجہ سے ٹی ایل پی کو بڑی تعداد میں وہ مذہبی ووٹ ملے گا جو اس سے قبل ن لیگ کو جاتا تھا۔8) فوج کے خلاف ن لیگ کی ہرزہ سرائی انتہائی غیر دانشمندانہ طرز عمل تھا، بالخصوص شمالی پنجاب میں تقریباً ہر خاندان میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی ہیں۔ ہمارے انتخابی نظام میں دس فی صد ووٹر کی رائے بھی اگر تبدیل ہوتی ہے تو مسلم لیگ ن کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی پانی کی فراہمی، نکاسی، بجلی، تعلیم، ذرائع نقل و حمل، صحت جیسے بنیادی شعبوں میں رتی بھر بہتری نہیں لائی۔ لیکن یہاں پی پی(زرداری ہی سمجھیے) کو آڑے ہاتھوں لینے والے اب بھی بے نظیر کے بیٹے ہی کو ووٹ دیں گے۔ بلاول کے میدان میں اترنے کے باوجود پنجاب سے زیادہ نشستیں پی پی کے ہاتھ سے جائیں گی۔ جب تک زرداری کی دولت کا جادو نہیں چلتا، حال ہی میں تشکیل پانے والا گریڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) پی پی پی کے دیہی مضبوط حلقوں میں نقب لگا سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کو درپیش بحران اپنی جگہ، 1980کی دہائی سے الطاف حسین کے سپاہی رہنے والے اپنی وفاداری نہیں بدلیں گے، ایم کیو ایم پاکستان بمشکل نصف درجن نشستیں ہی حاصل کرپائے گی۔ ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا سب سے زیادہ فائدہ پاک سرزمین پارٹی(پی ایس پی) کو ہوگا، انیس قائم خانی نے جسے غیر معمولی انداز میں منظم کردیا ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سچ کی آواز بننے والے مصطفی کمال قومی اسمبلی کی 14نشستوں کے لیے پُرامید ہیں لیکن حیدرآباد اور میر پور خاص سے ملنے والی نشستوں سمیت وہ 9 یا 10نشستیں حاصل کرلیں گے۔
لسانی سیاست سے لاتعلقی کراچی کے پنجابی اور پختون ووٹروں میں بھی انھیں حمایت دلوا سکتی ہے اور ان کی نشستوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ مہاجر ووٹ کی تقسیم کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دو دو نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بغیر پی پی پی سندھ کی صوبائی حکومت نہیں بنا سکے گی۔
ایک حالیہ سروے میں پنجاب کے انتخابی ''میدانِ جنگ'' میں قومی اسمبلی کی اضلاع کے اعتبار سے نشستوں کے بارے میں بیان کیے گئے سرسری اندازے کچھ یوں ہیں: راولپنڈی(اٹک، چکوال، جہلم) کی 13مجموعی نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 4، پی پی پی 1، آزاد امیدوار 2۔سرگودھا(میانوالی، خوشاب، بکھر) کی 11نشستوں میں سے پی ٹی آئی کی 5، ن لیگ کی 2، پیپلز پارٹی کی 1اور آزاد امیدواروں کی3نشستیں۔ فیصل آباد(ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، چنیوٹ) کی 18نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 11، پیپلز پارٹی1۔ گوجرانوالہ(گجرات، منڈی بہاؤالدین، نارووال، سیالکوٹ، حافظ آباد) کی 20 نشستوں میں سے پی ٹی آئی 6، ن لیگ 8، پیپلز پارٹی 1، آزاد امیدوار 5۔ لاہور(قصور، شیخوپورہ) کی 24نشستوں میں پی ٹی آئی 12، ن لیگ 12۔ساہیوال(اوکاڑہ، پاکپتن) کی 10نشستوں میں سے پی ٹی آئی 3، ن لیگ 5، آزاد امیدوار2۔ ملتان (لودھراں، وہاڑی ، خانیوال) 16 نشستوں میں سے پی ٹی آئی 11، ن لیگ 2، پیپلز پارٹی1، آزاد امیدوار 2۔ بہاولپور (بہاولنگر، رحیم یار خان) کی 15نشستوں میں سے پی ٹی آئی 8، ن لیگ 5، پیپلز پارٹی 1، آزاد امیدوار 1۔ ڈیرہ غازی خان(لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور) کی 15نشستوں میں سے پی ٹی آئی 10، ن لیگ 2، آزاد امیدوار 3۔ اس طرح مجموعی طور پر تحریک انصاف 67، ن لیگ 51، پیپلز پارٹی 6اور آزاد امیدوار18نشستیں حاصل کرسکتے ہیں۔ تین نشستوں پر متحدہ مجلس عمل بھی کام یاب ہوسکتی ہے۔
خیبر پختون خوا کی قومی اسمبلی کی کل 39 نشستوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی 23، ن لیگ 4، ایم ایم اے 4، پیپلز پارٹی 3، اے این پی 2اور آزاد امیدوار 3نشستوں پر کامیاب ہوں گے۔ دیر جیسے علاقوں میں ایم ایم اے سخت مقابلہ کرے گی۔ سندھ کی قومی اسمبلی کی 61نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو 4، ن لیگ 2، پیپلز پارٹی 26، جی ڈی اے 7، پی ایس پی 10، ایم کیو ایم 8، ایم ایم اے 4 نشستوں پر کام یاب ہوگی۔ قومی اسمبلی کی بلوچستان میں 14نشستوں پر پی ٹی آئی اور متحدہ مجلس عمل تین تین، پختون خوا میپ 4، بلوچستان عوامی پارٹی 2، ن لیگ 1، نیشنل پارٹی 1، بی این پی 1اور ایک آزاد امیدوار کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔
تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں پولیس، شعبہ صحت و تعلیم کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے باوجود مجلس عمل کے پرچم تلے جمع ہونے والی جماعتیں صوبے سے نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گی۔ عمران خان کی مقبولیت صوبے میں تحریک انصاف کی زیر قیادت اتحادی حکومت تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ بلوچستان میں حسب روایت مرکز میں تشکیل پانے والا اتحاد ہی حکومت بنائے گا۔ 25جولائی کے نتائج کے حوالے سے، قبل از انتخابات زرداری اور شریف، دھاندلی کا واویلا کررہے ہیں۔ نتائج کا رُخ تو ووٹر ہی متعین کریں گے لیکن ن لیگ کو بڑے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف ممکنہ طورپر 90سے 95نشستیں حاصل کرلے گی، یہ تعداد 100سے زائد بھی ہوسکتی ہے، اس کے مقابلے میں ن لیگ 50سے 60اور پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ 35، 36 نشستیں حاصل کرسکیں گی۔ انتخابات کے بعد اگر 25سے 30آزاد امیدوار تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ جی ڈی اے ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے تو مرکز میں تحریک انصاف حکومت بنالے گی۔
شریف اور زرداری مل کر تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ سو نشستیں ان کے پاس ہوں تو بھلا کون ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو اگلے پانچ برس کے لیے جمہوریت خریدنے سے روک سکتا ہے؟ اگر عمران خان 110نشستوں پر کام یاب نہیں ہوتے تو معرکہ مارنے کے باوجود وہ جنگ ہار جائیں گے۔ 25جولائی کے بعد نوے روز کے اندر مکمل احتساب ہی سے وہ فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں پاکستان کے لیے 25جولائی کا دن نئی صبح کی نوید ثابت ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
مبینہ طور پر2013ء میں انتخابی عمل کے دوران ''انتخابی جادو'' چلا، جس کے نتیجے میں ن لیگ کو 30سے 35 زائد نشستیں ملیں۔ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستیں بھی حاصل ہوئیں اور اس مجموعی تعداد کی بنیاد پر مسلم لیگ ن زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے میں کام یاب رہی۔
2018کے انتخابات میں یہ ''جادو'' نہیں چلے گا اس کے یہ چند اسباب ہیں: 1) ماضی میں نگراں صوبائی حکومت کی انتظامی مشینری ن لیگ پر مہربان رہی(اور بعد میں کئی مہربان نوازے بھی گئے) اور انھیں کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ مزید برآں پی سی ایس حکام، جو انتخابی مشینری کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں، خلاف ہوچکے ہیں۔ 2) نواز شریف کے غیر منتخب مشیر اور شہباز شریف کے قریبی افسران انھیں تنہا چھوڑ گئے ہیں، صرف نواز شریف ہی انھیں ایک کھونٹے سے باندھ سکتے تھے۔
3)ن لیگ کے 30سے 35الیکٹ ایبلز آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑ رہے ہیں اور 35سے چالیس ایسے امیدوار پہلے ہی اپنے راستے جدا کرچکے ہیں، ان میں سے اکثر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ 4)جنوبی پنجاب کے 22 ارکان قومی اسمبلی کی منزل تحریک انصاف ہوگی، یہاں سے ن لیگ کے ہاتھ میں صرف پانچ نشستیں رہ جائیں گی۔ 5) عدلیہ پر نواز شریف کے تند و تیز حملوں (اور کرپشن میں سزا یافتہ) ہونے کے باعث ان کے مضبوط قلعے لاہور میں بھی شش و پنج کا شکار ووٹر اب ن لیگ کے خلاف ہوچکا ہے۔ 6) عمران خان نے اشرافیہ کا ووٹ اپنے حق میں کرنے کے لیے سخت محنت کی، کم ہی امکان نظر آتا ہے کہ اب یہ ووٹ نواز شریف کو مل جائے، اس طبقے کی انتخابات سے لاتعلقی بدترین صورت حال ہوگی۔
7) ''ختم نبوت'' سے متعلق پیدا ہونے والے تنازعے کی وجہ سے ٹی ایل پی کو بڑی تعداد میں وہ مذہبی ووٹ ملے گا جو اس سے قبل ن لیگ کو جاتا تھا۔8) فوج کے خلاف ن لیگ کی ہرزہ سرائی انتہائی غیر دانشمندانہ طرز عمل تھا، بالخصوص شمالی پنجاب میں تقریباً ہر خاندان میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی ہیں۔ ہمارے انتخابی نظام میں دس فی صد ووٹر کی رائے بھی اگر تبدیل ہوتی ہے تو مسلم لیگ ن کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی پانی کی فراہمی، نکاسی، بجلی، تعلیم، ذرائع نقل و حمل، صحت جیسے بنیادی شعبوں میں رتی بھر بہتری نہیں لائی۔ لیکن یہاں پی پی(زرداری ہی سمجھیے) کو آڑے ہاتھوں لینے والے اب بھی بے نظیر کے بیٹے ہی کو ووٹ دیں گے۔ بلاول کے میدان میں اترنے کے باوجود پنجاب سے زیادہ نشستیں پی پی کے ہاتھ سے جائیں گی۔ جب تک زرداری کی دولت کا جادو نہیں چلتا، حال ہی میں تشکیل پانے والا گریڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) پی پی پی کے دیہی مضبوط حلقوں میں نقب لگا سکتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کو درپیش بحران اپنی جگہ، 1980کی دہائی سے الطاف حسین کے سپاہی رہنے والے اپنی وفاداری نہیں بدلیں گے، ایم کیو ایم پاکستان بمشکل نصف درجن نشستیں ہی حاصل کرپائے گی۔ ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا سب سے زیادہ فائدہ پاک سرزمین پارٹی(پی ایس پی) کو ہوگا، انیس قائم خانی نے جسے غیر معمولی انداز میں منظم کردیا ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سچ کی آواز بننے والے مصطفی کمال قومی اسمبلی کی 14نشستوں کے لیے پُرامید ہیں لیکن حیدرآباد اور میر پور خاص سے ملنے والی نشستوں سمیت وہ 9 یا 10نشستیں حاصل کرلیں گے۔
لسانی سیاست سے لاتعلقی کراچی کے پنجابی اور پختون ووٹروں میں بھی انھیں حمایت دلوا سکتی ہے اور ان کی نشستوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ مہاجر ووٹ کی تقسیم کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دو دو نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بغیر پی پی پی سندھ کی صوبائی حکومت نہیں بنا سکے گی۔
ایک حالیہ سروے میں پنجاب کے انتخابی ''میدانِ جنگ'' میں قومی اسمبلی کی اضلاع کے اعتبار سے نشستوں کے بارے میں بیان کیے گئے سرسری اندازے کچھ یوں ہیں: راولپنڈی(اٹک، چکوال، جہلم) کی 13مجموعی نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 4، پی پی پی 1، آزاد امیدوار 2۔سرگودھا(میانوالی، خوشاب، بکھر) کی 11نشستوں میں سے پی ٹی آئی کی 5، ن لیگ کی 2، پیپلز پارٹی کی 1اور آزاد امیدواروں کی3نشستیں۔ فیصل آباد(ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، چنیوٹ) کی 18نشستوں میں پی ٹی آئی 6، ن لیگ 11، پیپلز پارٹی1۔ گوجرانوالہ(گجرات، منڈی بہاؤالدین، نارووال، سیالکوٹ، حافظ آباد) کی 20 نشستوں میں سے پی ٹی آئی 6، ن لیگ 8، پیپلز پارٹی 1، آزاد امیدوار 5۔ لاہور(قصور، شیخوپورہ) کی 24نشستوں میں پی ٹی آئی 12، ن لیگ 12۔ساہیوال(اوکاڑہ، پاکپتن) کی 10نشستوں میں سے پی ٹی آئی 3، ن لیگ 5، آزاد امیدوار2۔ ملتان (لودھراں، وہاڑی ، خانیوال) 16 نشستوں میں سے پی ٹی آئی 11، ن لیگ 2، پیپلز پارٹی1، آزاد امیدوار 2۔ بہاولپور (بہاولنگر، رحیم یار خان) کی 15نشستوں میں سے پی ٹی آئی 8، ن لیگ 5، پیپلز پارٹی 1، آزاد امیدوار 1۔ ڈیرہ غازی خان(لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور) کی 15نشستوں میں سے پی ٹی آئی 10، ن لیگ 2، آزاد امیدوار 3۔ اس طرح مجموعی طور پر تحریک انصاف 67، ن لیگ 51، پیپلز پارٹی 6اور آزاد امیدوار18نشستیں حاصل کرسکتے ہیں۔ تین نشستوں پر متحدہ مجلس عمل بھی کام یاب ہوسکتی ہے۔
خیبر پختون خوا کی قومی اسمبلی کی کل 39 نشستوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی 23، ن لیگ 4، ایم ایم اے 4، پیپلز پارٹی 3، اے این پی 2اور آزاد امیدوار 3نشستوں پر کامیاب ہوں گے۔ دیر جیسے علاقوں میں ایم ایم اے سخت مقابلہ کرے گی۔ سندھ کی قومی اسمبلی کی 61نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو 4، ن لیگ 2، پیپلز پارٹی 26، جی ڈی اے 7، پی ایس پی 10، ایم کیو ایم 8، ایم ایم اے 4 نشستوں پر کام یاب ہوگی۔ قومی اسمبلی کی بلوچستان میں 14نشستوں پر پی ٹی آئی اور متحدہ مجلس عمل تین تین، پختون خوا میپ 4، بلوچستان عوامی پارٹی 2، ن لیگ 1، نیشنل پارٹی 1، بی این پی 1اور ایک آزاد امیدوار کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔
تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں پولیس، شعبہ صحت و تعلیم کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے باوجود مجلس عمل کے پرچم تلے جمع ہونے والی جماعتیں صوبے سے نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گی۔ عمران خان کی مقبولیت صوبے میں تحریک انصاف کی زیر قیادت اتحادی حکومت تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ بلوچستان میں حسب روایت مرکز میں تشکیل پانے والا اتحاد ہی حکومت بنائے گا۔ 25جولائی کے نتائج کے حوالے سے، قبل از انتخابات زرداری اور شریف، دھاندلی کا واویلا کررہے ہیں۔ نتائج کا رُخ تو ووٹر ہی متعین کریں گے لیکن ن لیگ کو بڑے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف ممکنہ طورپر 90سے 95نشستیں حاصل کرلے گی، یہ تعداد 100سے زائد بھی ہوسکتی ہے، اس کے مقابلے میں ن لیگ 50سے 60اور پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ 35، 36 نشستیں حاصل کرسکیں گی۔ انتخابات کے بعد اگر 25سے 30آزاد امیدوار تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ جی ڈی اے ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے تو مرکز میں تحریک انصاف حکومت بنالے گی۔
شریف اور زرداری مل کر تحریک انصاف کو حکومت میں آنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ سو نشستیں ان کے پاس ہوں تو بھلا کون ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو اگلے پانچ برس کے لیے جمہوریت خریدنے سے روک سکتا ہے؟ اگر عمران خان 110نشستوں پر کام یاب نہیں ہوتے تو معرکہ مارنے کے باوجود وہ جنگ ہار جائیں گے۔ 25جولائی کے بعد نوے روز کے اندر مکمل احتساب ہی سے وہ فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں پاکستان کے لیے 25جولائی کا دن نئی صبح کی نوید ثابت ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)