بلاول کا نیا چارٹر آف ڈیموکریسی حقیقت کیا ہے
آصف زرداری بلاول اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک لمبی شراکت داری کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
آج کل بلاول بھٹو زرداری سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی بات کر رہے ہیں۔ وہ نظریاتی سیاست اورجمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک انداز میں وہی باتیں کر رہے ہیں جو میاں نواز شریف کر رہے ہیں۔ ایسے میں میرے کچھ دوست اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور بالخصوص بلاول بھٹو زرداری کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آگئی ہے۔
پیپلزپارٹی اسٹبلشمنٹ کو چھوڑ کر شائد ن لیگ کے ساتھ آنے کا سوچ رہی ہے۔ اوپر سے بلاول اور پیپلزپارٹی نے نواز شریف کی آمد پر مسلم لیگی کارکنوں کی گرفتاری اور پرچہ درج کرنے پر بھی مسلم لیگ کی حمائت میں بیان داغ دیا۔ ایسے میں مسلم لیگ کی خوش فہمی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ تاہم شہباز شریف بہت محتاط ہیں۔ انھوں نے اس حوالہ سے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پیپلزپارٹی اور بلاول کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آگئی ہے۔
اسی صورتحال کی وجہ سے تحریک انصاف میں بے چینی نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف کو علم ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا اتحاد تحریک انصاف کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے شاہ محمود قریشی فوراً میدان میں آئے اور انھوں نے بیان داغ دیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے ہو گئے ہیں۔ انھیں علم تھا کہ اگر خدانخواستہ معاملات طے ہو گئے تو ان کی چھٹی ہو جائے گی۔ شائد پیپلزپارٹی کی حیثیت ایسی ہے جس سے تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں معاملات طے کرنے کے چکر میں ہیں۔لیکن جو لوگ زرداری کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ بے شک وہ معاملہ ایک سے کرلیں گے لیکن دوسری طرف بھی اشارے بازی جاری رکھیں گے۔ وہ یہی کر رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی نے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کر لیا ہوا ہے۔ اسی لیے نواز شریف اپنی نااہلی کے بعد جب غیر مشروط طور پر پیپلزپارٹی کو بلا رہے تھے تو پیپلزپارٹی نے انکار کر دیا تھا۔ جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ن لیگ زرداری صاحب کو چیئرمین کا عہدہ دینے کے لیے تیار تھی تب بھی زرداری صاحب نے ن لیگ سے چیئرمین کا عہدہ لینے کے بجائے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ لینا مناسب سمجھا۔ آج سینیٹ میں سنجرانی پیپلز پارٹی کی حمائت اور ووٹوں سے بیٹھے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو کوئی شک ہو کہ پیپلزپارٹی کوئی نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کسی اور سیاسی جماعت سے طے کرنے جا رہی ہے تو دیکھ لیں جب تک سنجرانی اپنی کرسی پر بیٹھے ہیں یہ چارٹر آف ڈیموکریسی قائم و دائم ہے۔ باقی سب عوام کو بیوقوف بنانے کی باتیں ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ آصف زرداری اسی کے ساتھ حکومت بنائیں گے جس کے ساتھ انھیں حکومت بنانے کا کہا جائے گا۔ اس ضمن میں ان کی اپنی مرضی کرنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ قوی امکان ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ حکومت بنائیں گے جیسے کہ انھوں نے سینیٹ میں تحریک انصاف کے ساتھ شراکت داری کی تھی۔ یہی گیم پلان ہے اور آصف زرداری تادم تحریر اس پر قائم ہیں۔
کل کیا ہوکسے پتہ ہے ۔ لیکن اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو سب سے پہلے سنجرانی گھر جائیں گے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ عمران خان تو زرداری کے خلاف اتنا بولتے ہیں وہ کیسے زرداری کے ساتھ اقتدار کی شراکت کریں گے۔ سادہ جواب ہے جیسے سینیٹ میں کی تھی۔ کیا پیپلزپارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کو عمران خان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ اب بھی کریں گے۔ تب بھی یہی بہانہ بنا رہے تھے ن لیگ کو روکنے کے لیے پیپلزپارٹی کوووٹ دئے اب بھی یہی بہانہ بنائیں گے کہ سیٹیں کم تھیں اگر ہم پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتے تو وہ ن لیگ کے ساتھ چلی جاتی، کیا ہم دوبارہ ن لیگ کی حکومت بننے دیتے۔
اس لیے زرداری کے ساتھ شراکت اقتدار کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ منظر نامہ صرف اسی صورت میں ہے جب پارلیمنٹ میں کسی کی کوئی اکثریت نہ ہو۔ اگر تحریک انصاف یا ن لیگ میں سے کسی ایک جماعت نے بھی اکثریت حاصل کر لی تو پھر زرداری کی کسی کو ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ آصف زرداری کیا سوچ رہے ہیں۔ آصف زرداری بلاول اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک لمبی شراکت داری کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ کو یہ یقین دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بلاول ان کا گھوڑا ہے، وہ اس پر لمبی ریس کھیل سکتے ہیں۔ وہ بلاول کو بھٹو یا نواز شریف نہیں بنانا چاہتے۔ وہ بلاول کو بے نظیر بھی نہیں بنانا چاہتے۔ ان کے سامنے سب کا انجام موجود ہے۔ اس لیے وہ بلاول کو عمران خان بنانا چاہتے ہیں۔ وہ بلاول کو عوام کی طاقت سے نہیں بلکہ مقتدر قوتوں کی طاقت سے وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ انھیں پیپلزپارٹی کی گرتی مقبولیت کا کوئی احساس نہیں۔ اس گرتی مقبولیت کو سنبھالنے کے لیے وہ کوئی بھی ایسا اقدام کرنے کو تیار نہیں جس سے ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں۔ یہی زرداری اور بلاول کا نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ہے۔
لیکن زرداری اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا فقدان نظرآ رہاہے۔ دونوں فریقین کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اسٹبلشمنٹ نواز شریف سے لڑائی میں ایسی صورتحال میں پھنس چکی ہے کہ زرداری کی ناراضگی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ ورنہ یہ کوئی قدرتی اتحاد نہیں بلکہ مجبوری کا اتحاد ہے۔ شائد زرداری کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ ان کی یہ دوستی پکی نہیں ہے۔ اس لیے وہ بھی ہلکی پھلکی موسیقی چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف سے بھی ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے جس کا ایک رنگ گزشتہ دنوں حسین لوائی والے کیس میں دیکھا گیا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ پھر تو اسٹبلشمنٹ اور زرداری کے درمیان ہونے والا نیا چارٹر آف ڈیموکریسی جس میں عمران خان ایک ثانوی فریق کی حیثیت سے موجود ہیں بہت کمزور ہے۔ یہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ نہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمزوری ہی اس کی طاقت ہے۔ یہ جتنا کمزور ہے اتنا ہی طاقت ورہے۔ دونوں فریقین کو اس کی کمزوری کا بخوبی احساس ہے۔ اس لیے وہ اس کو قائم رکھنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ زرداری صاحب کو لالی پاپ دیا گیا ہے کہ جیسے 2018کے انتخابات کے لیے عمران خان کو تیار کیا گیا ہے، ایسے ہی 2023ء کے انتخابات میں بلاول کی مدد کی جائے گی۔ زرداری صاحب کو سمجھایا گیا ہے کہ یہ عمران خان کا آخری الیکشن ہے۔ اس کے بعد ان کی باری ہے۔ اس لیے وہ اپنی باری کا انتظار کریں گے اور اس کے لیے قربانی بھی دیں گے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کے ٹوٹنے کا کوئی امکان ہے۔ اگر زرداری صاحب کو ایک لمحہ کے لیے بھی احساس ہو گیا کہ اسٹبلشمنٹ ہار رہی ہے تو وہ اسٹبلشنٹ کی کشتی سے چھلانگ لگا دیں گے۔ اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ نہ ملی تو ان کی اور اسٹبلشمنٹ کی بھی لڑائی ہو جائے گی۔ اس لڑائی میں تحریک انصاف بھی ختم ہو جائے گی۔ اس لیے اس کھیل میں اسٹبلشمنٹ کے پاس ہار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی پریشانی نے دوستوں کی دن رات کی نیندیں خراب کی ہوئی ہیں۔
لگتا ہے کہ عمران خان اتنی مدد کے باوجود وہ جیتنے کا ماحول نہیں بنا سکے۔ اسی لیے زرداری بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ نواز شریف بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ شائد اسٹبلشمنٹ بھی سوچ رہی ہے کہ گیم بدل ہی کیوں نہ دی جائے۔ اس لیے گیم بدلنے پر سوچ شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے عمران خان کے جلسے خالی ہو رہے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آیا ہے۔ اس پر اگلے کالم میں لکھوںگا۔