وفاقیت اور مرکزیت
ہندوستان میں وفاقی اکائی کو ریاست کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وفاقی اکائی کو Province کہا جاتا ہے۔
MULTAN:
جب بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو نئے صوبوں کا بیانیہ زور پکڑتا ہے۔ الیکشن ادھرختم ہوتے ہیں تو ادھر بیانیہ بھی دم توڑنے لگتا ہے۔ اس ملک میں کچھ وفاق پرست ہیں توکچھ مرکزیت پرست۔ ان چار اکائیوں نے یا یوں کہیے کہ وحدتوں نے مرکزیت پرستوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ہر ایک وحدت کی تاریخ الگ، زبان و ثقافت الگ الگ اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مشترک بھی ہیں ۔
قائد اعظم نے جب دو قومی نظریہ دیا تھا،اس سے پہلے وہ وفاقیت کی وکالت کرتے تھے، جب کہ نہرو، ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ مرکزیت پرست تھے۔ جناح صاحب کی جیت ہوئی اورگورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ جو پہلی بار 1858ء میں متعارف کرایا گیا تھا جس میں ہندوستان بحیثیت وفاق کبھی بھی نہ تھا، بالآخر کرتے کرتے پہلی مرتبہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء نے یہ تسلیم کیا کہ متحدہ ہندوستان وفاق ہے اور اسی ایکٹ کے تحت سندھ کو بھی بمبئی سے الگ کیا گیا۔ یوں کہیے کہ 1843ء کو فتح کیا ہوا سندھ بالآخر بانوے سال بعد وحدت کی حیثیت میں دوبارہ نمودار ہوا، مگر وفاق کے اندر ایک وفاقی اکائی کی حیثیت میں۔ 1935ء کے ایکٹ کا فریم جناح صاحب کی فتح اور نہروکی شکست تھی۔
ہماری وفاقی حیثیت جو پہلی بار 1973ء کے آئین نے تسلیم کی وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا ایک تاریخی پہلو ہے اور تاریخی حقیقت جس کو 1973ء کے آئین نے سمویا ہے۔ اس کے سمونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے خود 23 مارچ 1940ء کی قرارداد سے انحراف کیا، جس میں وفاقیت کا ڈھانچہ اور بھی ڈھیلا تھا جوکہ اب ہے یا ہمارا 73ء کا آئین کہتا ہے ۔ 1940ء کی قرارداد توکنفیڈریشن کی بات کرتی ہے۔ پاکستان بننے کے فورا بعد ہم نے ون یونٹ نافذکر دیا۔اسٹالن سے بھی بدتر یکسانیت اپنانے کی کوشش کی۔1956ء کا آئین دیا وہ وفاقی آئین نہیں تھا اس میں سینیٹ کا تصور تک موجود نہ تھا۔1962ء کا آئین جوآئین بنانے کے مروج ingredients بھی نہیں رکھتا تھا وہ بھی وفاقیت سے انکاری تھا اور بالآخر 1971ء میں یہ انکاریت ہماری گلے میں پڑی تو جاکے 1973ء کے آئین نے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ والی وفاقیت یہاں متعارف کرائی۔
ہمارا آئین وفاقیت کے حوالے سے ہندوستان سے بھی مختلف ہے یا بہتر ہے وہ اس لیے کہ ہندوستان کا آئین اپنے آپ کو یونین آف انڈیا لکھتا ہے، یوں کہیے کہ اس کے پاس بھی وفاقی اکائی کا تصور تو ہے لیکن وفاق کی طرف جھکاؤ زیادہ رکھتا ہے اور اکائیوں کی طرف کم۔ اس کی وجہ ہندوستان کے آئین کے سب سے بڑے محقق باسو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی اکائیاں مسلسل آزاد نہیں رہی ہیں اور انھوں نے ہندوستان میں volunterialشمولیت اختیار نہیں کی۔ وہ تو ہزاروں سالوں سے ہندوستان میں تھیں۔ ایک طرف یہ بھی دیکھیں کہ مقبوضہ کشمیرکو وہ الگ آئین دیتے ہیں اورآئینی اعتبار سے وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیرکو حق خودارادیت بھی ہے۔کشمیر تاریخی اعتبار سے کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا، اسے زبردستی ساتھ کرنے سے جو نتائج ہندوستان کے لیے برآمد ہوئے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔
ہندوستان کے اندر سندھ کو 1590ء کی دہائی میں اکبر بادشاہ لائے تھے اور اسی کا دارالخلافہ ٹھٹہ سے تبدیل کرکے ملتان کیا تھا۔ بنگال کا الحاق بھی ان زمانوں میں ہوا تھا اور پھر یوں کرتے کرتے جب مغل بادشاہ کمزور ہوئے تو سندھ نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بنگال نے بھی۔ خود پنجاب میں رنجیت سنگھ کی بادشاہت تھی جب انگریزوں نے اسے دوبارہ ہندوستان میں شامل کیا اور سندھ میں ٹالپروںکی حکومت تھی اور انگریزوں نے اسے بھی واپس ہندوستان میں شامل کیا۔ غرض کہ پاکستان کے آج کی چاروں اکائیاں اپنی آزاد حیثیت صدیوں سے رکھتی آئی ہیں اور یہی بات 1940ء کی قرار داد کو مرتب کرنے والوں کو پتہ تھی۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں نئے صوبے یا اکائیاں بنیں اور جوکچھ بھی ہوا وہ آئین کے تناظر میں ہوا۔ ہندوستان کا آئین ریاست کی اسمبلی سے پوچھنے کی ضرورت تو محسوس کرتا مگر اسے Mandatory نہیں بناتا، جب کہ امریکا کا آئین نئی اکائی بنانے کے لیے اس اکائی کی دوتہائی اکثریت کی مرضی مانگتا ہے۔ نتیجتا جب سے امریکا کا آئین آیا ہے وہاں آج تک نئی ریاست نہیں بنی۔ ہمیں امریکا کی وفاقی حیثیت کو اس کے تاریخ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ امریکا کی وفاقی تاریخ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی تاریخ کے بہت قریب ہے۔ ہمارے آئین کے اندر وفاقی ڈھانچہ امریکا کے آئین سے لیا گیا ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو ایک ساتھ آزادی پانے والے دو ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان کے آئین کو مختلف کرتا ہے۔ یعنی ہندوستان کے آئین کے اندر وفاقیت کاتصور Diluted ہے اور پاکستان کے آئین کے اندر وفاقیت کا تصورd Non Dilute ہے۔
جو Tragedy پاکستان کے آئین کے ساتھ رہی کہ پاکستان بننے کے بعد اس کی تاریخ بہت سنگین رہی اس لیے کہ اس کی تاریخی تناظر میں جمہوریت کا تصور اتنا مضبوط نہ تھا جتنا ہندوستان میں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ملکوں کو آزادی جمہوریت کے طریقے کار سے حاصل ہوئی۔ پاکستان کی کمزور جمہوری تاریخ نے خود پاکستان کی وحدتی تصور یا وفاقیت کوکمزورکیا۔ اس میں پہلے تو اسی مسلم لیگ نے کام کیا اور نتیجے میں ریاستی انتخابات ایسٹ پاکستان فقط پانچ سال میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ویسٹ پاکستان میں ابھی الیکٹیبلز والی سیاست انگریزوں کے بنائے نواب، سردار، چوہدری، خان اور وڈیرے زندہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشی اقدار بھرپور نہ تھے۔ خود جمہوریت کے کمزور ہونے سے وفاقیت بھی کمزور رہی۔
ہماری جمہوریت بنگلہ دیش کی جمہوریت یا ہمارا آئین بنگلہ دیش کے آئین کی طرح نہیں ہے، کیونکہ وہاں ایک قوم ہے اور اس آئین میں سینیٹ کا تصور نہیں ہے اور وہ وفاق نہیں ہے۔
پاکستان دراصل اپنے آئین میں وفاقی جمہوریت ہے۔ یعنی جمہوریت نامکمل ہے، اگر اپنے جوہر میں وفاقی جمہوریت یعنی Fedral Democracy نہیں ہے۔ سینیٹ کے علاوہ ہمارے آئین میں CCI یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ بھی ہے اور اس کو اٹھارویں ترمیم نے اور اجاگرکیا یعنی پاکستان کے اندر وفاقی تصورکو اور Non Diluted کیا۔
ہمارے آئین کے آرٹیکل 239(4) کے اندر نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار موجود ہے، یوں کہیے کہ یہ عمل آئین میں ترمیم کرنے کے ایک طرف مترادف تو ہے لیکن یہ کام خود آئین میں ترمیم کرنے سے بھی اور مشکل ہے،کیونکہ اس ترمیم کو صدر پاکستان کے پا س پہنچنے سے پہلے اس مخصوص صوبے کی صوبائی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت چاہیے۔ اب آپ بتائیے کہ کون سا صوبہ یا اس کی صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت لکھے گی کہ میرے وجودکوکاٹو۔
دوسری طرف ایک فطری حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب کے اندر ایک ساؤتھ پنجاب اپنے تاریخی اعتبار سے، ثقافت و زبان کے اعتبار سے مختلف ہے۔ خود بلوچستان میں بھی یا کے پی کے میں بھی یہی ماجرہ ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ فاٹا جو adminstratively وفاق کے پاس تھا اس کو ہم نے کے پی کے کا حصہ بنایا۔ یہ بھی اچھا ہواکہ ہم نے گلگت بلتستان کو انتظامی صوبہ بنایا، مگرجو صوبوں کے اندر صوبوں کی بات ہو رہی ہے، اس کا کیا حل ہے جب کہ آئین بالکل ناممکن کر دیتا ہے اس عمل کو۔ آئین کے اندر آرٹیکل 239(4) کے اندر ترمیم کرنا پھر بھی آسان ہے مگرآرٹیکل 239(4) کے تحت صوبہ لینا تو بہت مشکل ہے۔
ایک اور بات بھی کرتا چلوں federating unit اور Province دو الگ الگ تصور ہیں۔ صوبہ بنیادی طور پر انتظامی یعنی Administrative اصطلاح ہے، جب کہ federating unit آئینی اصطلاح ہے۔ افغانستان میں ڈھیروں صوبے ہیں مگر وہاں صوبہ انتظامی عمل ہے۔ وہاں صوبہ عملی طور پر ہمارے یہاں Division کے انتظامی تصور سے ملتا ہے۔
ہندوستان میں وفاقی اکائی کو ریاست کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وفاقی اکائی کو Province کہا جاتا ہے۔ اس لیے صوبے کے اندر بہت انتظامی آزادی دینے والی entityکو صوبہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ آئین میں صوبہ، وفاقی اکائی کے لیے وابستہ ہے خود گلگت آزاد انتظامی یونٹ تو ہے اس کی اسمبلی بھی ہے مگر وہ صوبہ نہیں۔
جو بھی ہو آئین کے مطابق، پاکستان کی وفاقی تاریخ کے پس منظر میں ہو اور وفاقی جمہوریت کے روح میں۔ امریکا کی آبادی 30 کروڑ ہے کل یہ ساٹھ کروڑ بھی ہو جائے وہاں وفاقی اکائیاں نہیں ٹوٹنے جارہی جس طرح پاکستان کے سرحدیں بین الاقوامی قانون میں ٹوٹنے سے بڑھی ہیں۔ بالکل اسی طرح وفاقی اکائیوں کی سرحدیں پاکستان کے آئین کے تناظر میں پاکستان پر لازم ہیں اور یہی وفاقی جمہوریت کی روح ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جب بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو نئے صوبوں کا بیانیہ زور پکڑتا ہے۔ الیکشن ادھرختم ہوتے ہیں تو ادھر بیانیہ بھی دم توڑنے لگتا ہے۔ اس ملک میں کچھ وفاق پرست ہیں توکچھ مرکزیت پرست۔ ان چار اکائیوں نے یا یوں کہیے کہ وحدتوں نے مرکزیت پرستوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ہر ایک وحدت کی تاریخ الگ، زبان و ثقافت الگ الگ اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مشترک بھی ہیں ۔
قائد اعظم نے جب دو قومی نظریہ دیا تھا،اس سے پہلے وہ وفاقیت کی وکالت کرتے تھے، جب کہ نہرو، ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ مرکزیت پرست تھے۔ جناح صاحب کی جیت ہوئی اورگورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ جو پہلی بار 1858ء میں متعارف کرایا گیا تھا جس میں ہندوستان بحیثیت وفاق کبھی بھی نہ تھا، بالآخر کرتے کرتے پہلی مرتبہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء نے یہ تسلیم کیا کہ متحدہ ہندوستان وفاق ہے اور اسی ایکٹ کے تحت سندھ کو بھی بمبئی سے الگ کیا گیا۔ یوں کہیے کہ 1843ء کو فتح کیا ہوا سندھ بالآخر بانوے سال بعد وحدت کی حیثیت میں دوبارہ نمودار ہوا، مگر وفاق کے اندر ایک وفاقی اکائی کی حیثیت میں۔ 1935ء کے ایکٹ کا فریم جناح صاحب کی فتح اور نہروکی شکست تھی۔
ہماری وفاقی حیثیت جو پہلی بار 1973ء کے آئین نے تسلیم کی وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا ایک تاریخی پہلو ہے اور تاریخی حقیقت جس کو 1973ء کے آئین نے سمویا ہے۔ اس کے سمونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے خود 23 مارچ 1940ء کی قرارداد سے انحراف کیا، جس میں وفاقیت کا ڈھانچہ اور بھی ڈھیلا تھا جوکہ اب ہے یا ہمارا 73ء کا آئین کہتا ہے ۔ 1940ء کی قرارداد توکنفیڈریشن کی بات کرتی ہے۔ پاکستان بننے کے فورا بعد ہم نے ون یونٹ نافذکر دیا۔اسٹالن سے بھی بدتر یکسانیت اپنانے کی کوشش کی۔1956ء کا آئین دیا وہ وفاقی آئین نہیں تھا اس میں سینیٹ کا تصور تک موجود نہ تھا۔1962ء کا آئین جوآئین بنانے کے مروج ingredients بھی نہیں رکھتا تھا وہ بھی وفاقیت سے انکاری تھا اور بالآخر 1971ء میں یہ انکاریت ہماری گلے میں پڑی تو جاکے 1973ء کے آئین نے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ والی وفاقیت یہاں متعارف کرائی۔
ہمارا آئین وفاقیت کے حوالے سے ہندوستان سے بھی مختلف ہے یا بہتر ہے وہ اس لیے کہ ہندوستان کا آئین اپنے آپ کو یونین آف انڈیا لکھتا ہے، یوں کہیے کہ اس کے پاس بھی وفاقی اکائی کا تصور تو ہے لیکن وفاق کی طرف جھکاؤ زیادہ رکھتا ہے اور اکائیوں کی طرف کم۔ اس کی وجہ ہندوستان کے آئین کے سب سے بڑے محقق باسو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی اکائیاں مسلسل آزاد نہیں رہی ہیں اور انھوں نے ہندوستان میں volunterialشمولیت اختیار نہیں کی۔ وہ تو ہزاروں سالوں سے ہندوستان میں تھیں۔ ایک طرف یہ بھی دیکھیں کہ مقبوضہ کشمیرکو وہ الگ آئین دیتے ہیں اورآئینی اعتبار سے وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیرکو حق خودارادیت بھی ہے۔کشمیر تاریخی اعتبار سے کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا، اسے زبردستی ساتھ کرنے سے جو نتائج ہندوستان کے لیے برآمد ہوئے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔
ہندوستان کے اندر سندھ کو 1590ء کی دہائی میں اکبر بادشاہ لائے تھے اور اسی کا دارالخلافہ ٹھٹہ سے تبدیل کرکے ملتان کیا تھا۔ بنگال کا الحاق بھی ان زمانوں میں ہوا تھا اور پھر یوں کرتے کرتے جب مغل بادشاہ کمزور ہوئے تو سندھ نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بنگال نے بھی۔ خود پنجاب میں رنجیت سنگھ کی بادشاہت تھی جب انگریزوں نے اسے دوبارہ ہندوستان میں شامل کیا اور سندھ میں ٹالپروںکی حکومت تھی اور انگریزوں نے اسے بھی واپس ہندوستان میں شامل کیا۔ غرض کہ پاکستان کے آج کی چاروں اکائیاں اپنی آزاد حیثیت صدیوں سے رکھتی آئی ہیں اور یہی بات 1940ء کی قرار داد کو مرتب کرنے والوں کو پتہ تھی۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں نئے صوبے یا اکائیاں بنیں اور جوکچھ بھی ہوا وہ آئین کے تناظر میں ہوا۔ ہندوستان کا آئین ریاست کی اسمبلی سے پوچھنے کی ضرورت تو محسوس کرتا مگر اسے Mandatory نہیں بناتا، جب کہ امریکا کا آئین نئی اکائی بنانے کے لیے اس اکائی کی دوتہائی اکثریت کی مرضی مانگتا ہے۔ نتیجتا جب سے امریکا کا آئین آیا ہے وہاں آج تک نئی ریاست نہیں بنی۔ ہمیں امریکا کی وفاقی حیثیت کو اس کے تاریخ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ امریکا کی وفاقی تاریخ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی تاریخ کے بہت قریب ہے۔ ہمارے آئین کے اندر وفاقی ڈھانچہ امریکا کے آئین سے لیا گیا ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو ایک ساتھ آزادی پانے والے دو ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان کے آئین کو مختلف کرتا ہے۔ یعنی ہندوستان کے آئین کے اندر وفاقیت کاتصور Diluted ہے اور پاکستان کے آئین کے اندر وفاقیت کا تصورd Non Dilute ہے۔
جو Tragedy پاکستان کے آئین کے ساتھ رہی کہ پاکستان بننے کے بعد اس کی تاریخ بہت سنگین رہی اس لیے کہ اس کی تاریخی تناظر میں جمہوریت کا تصور اتنا مضبوط نہ تھا جتنا ہندوستان میں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ملکوں کو آزادی جمہوریت کے طریقے کار سے حاصل ہوئی۔ پاکستان کی کمزور جمہوری تاریخ نے خود پاکستان کی وحدتی تصور یا وفاقیت کوکمزورکیا۔ اس میں پہلے تو اسی مسلم لیگ نے کام کیا اور نتیجے میں ریاستی انتخابات ایسٹ پاکستان فقط پانچ سال میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ویسٹ پاکستان میں ابھی الیکٹیبلز والی سیاست انگریزوں کے بنائے نواب، سردار، چوہدری، خان اور وڈیرے زندہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشی اقدار بھرپور نہ تھے۔ خود جمہوریت کے کمزور ہونے سے وفاقیت بھی کمزور رہی۔
ہماری جمہوریت بنگلہ دیش کی جمہوریت یا ہمارا آئین بنگلہ دیش کے آئین کی طرح نہیں ہے، کیونکہ وہاں ایک قوم ہے اور اس آئین میں سینیٹ کا تصور نہیں ہے اور وہ وفاق نہیں ہے۔
پاکستان دراصل اپنے آئین میں وفاقی جمہوریت ہے۔ یعنی جمہوریت نامکمل ہے، اگر اپنے جوہر میں وفاقی جمہوریت یعنی Fedral Democracy نہیں ہے۔ سینیٹ کے علاوہ ہمارے آئین میں CCI یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ بھی ہے اور اس کو اٹھارویں ترمیم نے اور اجاگرکیا یعنی پاکستان کے اندر وفاقی تصورکو اور Non Diluted کیا۔
ہمارے آئین کے آرٹیکل 239(4) کے اندر نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار موجود ہے، یوں کہیے کہ یہ عمل آئین میں ترمیم کرنے کے ایک طرف مترادف تو ہے لیکن یہ کام خود آئین میں ترمیم کرنے سے بھی اور مشکل ہے،کیونکہ اس ترمیم کو صدر پاکستان کے پا س پہنچنے سے پہلے اس مخصوص صوبے کی صوبائی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت چاہیے۔ اب آپ بتائیے کہ کون سا صوبہ یا اس کی صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت لکھے گی کہ میرے وجودکوکاٹو۔
دوسری طرف ایک فطری حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب کے اندر ایک ساؤتھ پنجاب اپنے تاریخی اعتبار سے، ثقافت و زبان کے اعتبار سے مختلف ہے۔ خود بلوچستان میں بھی یا کے پی کے میں بھی یہی ماجرہ ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ فاٹا جو adminstratively وفاق کے پاس تھا اس کو ہم نے کے پی کے کا حصہ بنایا۔ یہ بھی اچھا ہواکہ ہم نے گلگت بلتستان کو انتظامی صوبہ بنایا، مگرجو صوبوں کے اندر صوبوں کی بات ہو رہی ہے، اس کا کیا حل ہے جب کہ آئین بالکل ناممکن کر دیتا ہے اس عمل کو۔ آئین کے اندر آرٹیکل 239(4) کے اندر ترمیم کرنا پھر بھی آسان ہے مگرآرٹیکل 239(4) کے تحت صوبہ لینا تو بہت مشکل ہے۔
ایک اور بات بھی کرتا چلوں federating unit اور Province دو الگ الگ تصور ہیں۔ صوبہ بنیادی طور پر انتظامی یعنی Administrative اصطلاح ہے، جب کہ federating unit آئینی اصطلاح ہے۔ افغانستان میں ڈھیروں صوبے ہیں مگر وہاں صوبہ انتظامی عمل ہے۔ وہاں صوبہ عملی طور پر ہمارے یہاں Division کے انتظامی تصور سے ملتا ہے۔
ہندوستان میں وفاقی اکائی کو ریاست کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وفاقی اکائی کو Province کہا جاتا ہے۔ اس لیے صوبے کے اندر بہت انتظامی آزادی دینے والی entityکو صوبہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ آئین میں صوبہ، وفاقی اکائی کے لیے وابستہ ہے خود گلگت آزاد انتظامی یونٹ تو ہے اس کی اسمبلی بھی ہے مگر وہ صوبہ نہیں۔
جو بھی ہو آئین کے مطابق، پاکستان کی وفاقی تاریخ کے پس منظر میں ہو اور وفاقی جمہوریت کے روح میں۔ امریکا کی آبادی 30 کروڑ ہے کل یہ ساٹھ کروڑ بھی ہو جائے وہاں وفاقی اکائیاں نہیں ٹوٹنے جارہی جس طرح پاکستان کے سرحدیں بین الاقوامی قانون میں ٹوٹنے سے بڑھی ہیں۔ بالکل اسی طرح وفاقی اکائیوں کی سرحدیں پاکستان کے آئین کے تناظر میں پاکستان پر لازم ہیں اور یہی وفاقی جمہوریت کی روح ہے جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔