دولت کی دوڑ میں ہمت ننگے پاؤں

زندگی سے روز لڑتے غریب امیدوار بھی الیکشن لڑرہے ہیں

زندگی سے روز لڑتے غریب امیدوار بھی الیکشن لڑرہے ہیں

سیاسی جماعتوں کے منشوروں اور امیدواروں کی تقریروں ایک لفظ کی تکرار ہوتی ہے۔۔۔غریب۔۔۔یہ افلاس کا شکار افراد ہی ہیں جو جلسوں کی رونق اور پولنگ بوتھ پر موسموں کی شدت کے سامنے سینہ سپر ہوکر قطاریں بڑھاتے ہیں۔ لیکن اس طبقے کے افراد میں اتنی سکت نہیں کہ اپنے مسائل کے حل اور افلاس کے خاتمے کے لیے خود انتخابی میدان میں اُتر سکیں۔ وہ اپنے سپنے دوسروں کے حوالے کرنے اور تعبیر کے لیے صبر کا تارتار ہوتا دامن تھامے رہنے پر مجبور ہیں۔

یوں ملک کی اکثریت کے لیے پارلیمان میں داخلہ عملاً ممنوع ہے۔ اس صورت حال میں بھی اگر غربت کا شکار کچھ لوگ ہمت کرکے الیکشن لڑ رہے ہیں تو یہ کوشش قابل داد ہے۔ آئیے آپ کو ان امیدواروں اور ان کی مشکلات سے متعارف کرائیں۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 114 پر سید شاہد میاں کو امیدوار نام زد کیا گیا ہے، جو اب انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ وہ اس سے قبل دو بار انتخابات میں کام یاب ہوکر رکنِ سندھ اسمبلی رہ چکے ہیں۔ سید شاہد میاں اپنے لیے روزی روٹی کا انتظام سخت محنت کے بعد کرپاتے ہیں۔ وہ اسمبلی جس میں وڈیرے، جاگیردار اور دیگر مال دار لوگ سیاسی اور انتخابی عمل کا حصّہ بن کر اور اپنی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر کے پہنچتے ہیں، اسی اسمبلی میں یہ غریب محنت کش بھی دو بار پہنچا، مگر کل بھی اس کے پاس اپنی انتخابی مہم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا اور آج بھی وہ اس قابل نہیں کہ اپنے بینرز اور تصاویر حلقۂ انتخاب میں لگوا سکے۔

58 سالہ سید شاہد میاں پاک کالونی کے علاقے میں واقع ایک دکان پر ماربل کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ 1988اور1990میں پی ایس 72 (موجودہ پی ایس 114) سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت بھی وہ ماربل کی کٹائی اور مختلف اشیاء بنانے کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد اپنے حلقے میں دس اسکول قائم کیے، ریکسر لائن سے میوہ شاہ قبرستان تک کے علاقے اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کی ساڑھے سات سو دکانوں کی لیز انہی کا کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ اپنے حلقے میں متعدد ترقیاتی کام کروائے لیکن مست حال شاہد میاں کے اپنے حالات وہی رہے۔

ان کے مقابل امیدوار معاشی طور پر سید شاہد میاں سے بہت زیادہ مستحکم ہیں اور علاقے میں بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف شاہد میاں کے پاس ایک ستر سی سی کی موٹر سائیکل ہے جس پر بیٹھ کر وہ ووٹروں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے حامی اور میرے محلے والے مل کر جتنا ہو سکتا ہے کر رہے ہیں اور انتخابی مہم کا خرچ اٹھا رہے ہیں۔ انتخابی مہم چلانے کے لیے فی الوقت ماربل کاٹنے کا کام چھوڑ دیا ہے۔ فتح یا شکست جو بھی میرا مقدر ہو گا، میں تیار ہوں، اس کے بعد زندگی اسی ڈگر پر واپس آجائے گی۔ میں پہلے بھی اسمبلی میں گیا، مگر اپنا کام نہیں چھوڑا تھا، اب بھی ایسا ہی ہوگا، دوبارہ دکان پر جا کر ماربل کاٹنا شروع کردوں گا۔

اورنگی ٹاؤن کے حلقے پی ایس 119 کے رہائشی عطائے ربی مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے تحت متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے دو بار کونسلر رہ چکے ہیں۔ سلائی کا کام کرنے والے عطائے ربی کی جیب انہیں انتخابی اخراجات کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کے باوجود وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے پانی اور بجلی جیسے مسائل حل کرنے کے لیے اسمبلی میں جانا چاہتے ہیں۔

انتخابی اخراجات کی بابت انہوں نے کہا کہ میری آمدن سے تو میرے گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے، دیگر امیدواروں کی طرح کیسے انتخابی مہم پر کچھ خرچ کر سکتا ہوں؟ جماعت کی طرف سے ملنے والے پینافلیکس، پمفلٹ اور دیگر اشتہاری مواد ہی میری انتخابی مہم میں کام آرہا ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود میں صرف اس لیے الیکشن میں کھڑا ہوا ہوں تاکہ اپنے حلقے کے عوام کی آواز ایوان تک پہنچا سکوں۔ ان کا مقابلہ جن امیدواروں سے ہے وہ معاشی طور پر ان سے زیادہ مستحکم ہیں۔

جماعت اسلامی کی جانب سے حلقہ پی ایس 126 پر نام زد امیدوار فاروق نعمت اللہ ایک نجی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ سابق ناظمِ کراچی نعمت اللہ خان کے دور میں گلبرگ ٹاؤن کے ناظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ انتخابی منشور اور انتخاب کے بعد ترجیحی مسائل کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ کراچی کے سرفہرست مسائل میں صحت و صفائی، پانی و بجلی کا بحران شامل ہیں اور اسی حوالے سے اسمبلی میں جاکر آواز بلند کرنا ان کا مقصد ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میری آمدنی اتنی نہیں کہ میں تشہیری مواد اور اجتماعات وغیرہ جیسی انتخابی سرگرمیوں پر چند ہزار بھی خرچ کرسکوں، لیکن ہماری جماعت کا اصول ہے کہ تمام تر انتخابی اخراجات وہ خود برداشت کرتی ہے۔ انہیں بھی مالی طور پر نسبتاً مستحکم امیدواروں کا سامنا ہے۔

رانا نسیم، پنجاب
پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے محمد مدثر چودھری کا کل اثاثہ ایک موٹرسائیکل ہے، جس کی مالیت 40 ہزار روپے بتائی گئی ہے۔ ان کی طرف سے کاغذات نام زدگی میں اثاثہ جات کے تمام خانوں میں سوائے موٹرسائیکل کے ''نہیں'' کا آپشن دیا گیا ہے۔ تیشۂ عدل کے انتخابی نشان کے ساتھ محمد مدثر چودھری لاہور کے حلقہ این اے 131 سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی راہ نما و سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق ہیں۔ ان کے علاوہ پیپلزپارٹی کے عاصم محمود بھٹی بھی مالی اعتبار سے ایک مستحکم امیدوار ہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے محمد مدثر چودھری جیت کے لیے پُرامید ہیں۔

فیصل آباد کے حلقہ این اے 109سے سردار ظفر حسین خان متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سردار ظفر آزاد کشمیر سے ایم ایس سی ایگریکلچر کرنے کے لیے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد آئے اور فیصل آباد ہی کے ہو کر رہ گئے۔ ایل ایل بی کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر بن گئے۔ چھوٹی سطح کے نجی اسکول میں حصہ دار ہیں۔ چار بار جماعت اسلامی کے ضلعی امیر رہ چکے ہیں اور کسان بورڈ پاکستان کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ظفر حسین خان کا مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے مضبوط امیدواروں بالترتیب فیض اللہ اور میاں عبدالمنان سے ہے۔

پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر پی پی 110 سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے محمد ندیم غفاری ہوزری کے پیشہ سے وابستہ ہیں اور بڑی دکانوں سے پروڈکٹس حاصل کرکے بنیان اور جرابوں کی گھر میں ہی کٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے 2016ء میں جنرل کونسلر کا الیکشن لڑا اور ناکام ہوئے۔ وہ صبح سے لے کر دوپہر دو بجے تک کام کرتے ہیں، پھر دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد رات ایک بجے تک انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ 36سالہ ندیم غفاری مڈل پاس ہیں۔ ان کے مقابلے میں ن لیگ کے ملک نواز اور پی ٹی آئی کے خیال احمد کاسترو ہیں۔

لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے میاں فرخ حبیب این اے108 سے تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کام یاب رہے، جس کی وجہ ان کا پارٹی سے دیرینہ تعلق ہے۔ ان کا مقابلہ سابق وزیرمملکت برائے توانائی عابدشیرعلی سے ہے۔ میاں فرخ حبیب نے پنجاب یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

سرگودھا شہر کے علاقے محمدی کالونی میں چائے کا ہوٹل چلانے والے شبیراحمد عرف چھبا پی پی 77 سے تحریک اللہ اکبر کے پلیٹ فارم سے میدان میں ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا اور ایم سی 12 سے وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ علاقہ میں 1122 کے نام سے مشہور شبیراحمد شہر میں کوئی بھی مسئلہ ہو وہاں فوری طور پر پہنچتے ہیں۔ شبیر احمد کے مقابلے میں نوازلیگ کے ڈاکٹر لیاقت علی خان، پیپلزپارٹی کے متین احمد قریشی جیسے مالی طور پر مضبوط امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن کے حلقہ پی پی 74 سے شوکت علی صفدر آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار کے مقابلے میں عنصر اقبال ہرل جیسے صنعت کار جب کہ میاں مناظر رانجھا اور میاں مظہر علی رانجھا جیسے جاگیردار میدان میں ہیں۔ شوکت علی کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انتخابی سیاست میں آئے ہیں۔

ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے صوبائی حلقہ پی پی 260 سے 44 سالہ امیدوار اشرف مغل آزاد حیثیت میں ٹوکری کے نشان پر میدان میں اترے ہیں۔ خانپور شہر کے گنجان آباد علاقے غریب آباد میں صرف تین مر لے (تقریباً نوے گز) مکان کے مالک اشرف مغل اپنی علاقہ میں سماجی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے تنظیم اجالا ویلفیئر عرصہ دس سال سے صحت اور ہنرمندی کی تعلیم خصوصاً بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اشرف مغل کے منشور میں اپنے شہر خان پور کو ماڈل سٹی کا درجہ دلوانے کا نکتہ سرفہرست ہے۔ ان کے مقابل نواز لیگ کے محمد ارشد جاوید، تحریک انصاف کے عبدالماجد اور پیپلزپارٹی کے محمد سہیل واحد مضبوط ترین امیدوار ہیں۔

گوجرانوالہ کے حلقہ پی پی 54 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار مرزا اویس بیگ ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، جو انتخابی مہم کے دوران بند پڑا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ڈویژنل سیکریٹری اطلاعات کی سوشل میڈیا کے میدان میں پارٹی کے لیے بڑی خدمات ہیں، جن کے اعتراف میں مالی اعتبار سے کم زوریوں کے باوجود پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا۔ مرزا اویس بیگ گاڑیاں نہ ہونے کے باعث کبھی پیدل تو کبھی ڈورٹو ڈور انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے کروڑ پتی امیدوار رضوان اسلم بٹ اور مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے عمران خالد بٹ سے ہے۔ انتخابی مہم میں مشکلات کے حوالے سے اویس بیگ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا ہر سطح اور جگہ پر دفاع کیا جارہا ہے، ان کے بینرز اور پوسٹر لگائے جب کہ ہمارے اتار دیے جاتے ہیں۔

رانا ثاقب نثار ایک غیرمعروف جماعت رائے حق پارٹی کی طرف سے پی پی 52 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انڈر میٹرک رانا ثاقب موٹر سائیکل پر دن رات اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی سی ڈیز فروخت کرنے کی دکان ہے۔ انتخابی مہم چلانے کے لیے انہوں نے کچھ بچت کر رکھی تھی اور چند دوست ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ا

ن کا مقابلہ تحریک انصاف کے احمد چٹھہ اور مسلم لیگ ن کے عادل بخش چٹھہ سے ہے۔ رانا ثاقب نے انتخابی مہم میں مشکلات کی بابت بتایا کہ موٹر سائیکل پر انتخابی مہم کے دوران ہر جگہ گڑھے، کیچڑ اور کوڑے کے انبار استقبال کرتے ہیں، ہر شخص ان سے انتخابی دفتر کھولنے کے لیے کہتا ہے لیکن وہ ووٹروں کو بریانی کھلانے کے حق میں نہیں ہیں۔ لوگ امیدواروں کو گن مینوں کے جھرمٹ میں بڑی بڑی گاڑیوں میں دیکھنے کے عادی ہیں، ایسے میں جب میں ان سے ووٹ مانگتا ہوں تو وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر پی پی 57 سے الیکشن لڑنے والے میٹرک پاس سلیم انصاری پاورلومز کے کام سے وابستہ ہیں۔ انتہائی کم وسائل کے باوجود وہ جوش و خروش سے انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سلیم انصاری اپنے کام سے فارغ ہو کر ایک دوست کی موٹر سائیکل پر شام کو انتخابی مہم پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کے اخراجات بھی دوستوں نے ہی اٹھا رکھے ہیں۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے اشرف انصاری اور تحریک انصاف کے لالہ اسد اللہ پاپا سے ہے۔ سلیم انصاری نے کہا کہ میرے پاس گاڑی، کار نہ پیسہ ہے، بس عوام کی منت سماجت ہی کر رہا ہوں کہ کب تک امراء کو ہی ووٹ دیتے رہو گے؟ ایک بار ہمیں بھی موقع دو۔

رحیم یار خان کے شہری حلقہ پی پی 262 سے پروفیسر جاوید اختر واہلہ آزاد حیثیت میں بالٹی کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ خواجہ فرید کالج میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، اب ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں اور ایک اکیڈمی چلا رہے ہیں۔ ان کے اثاثوں میں پانچ مرلے کا مکان اور چند ایکڑ زرعی زمین ہے۔ ان کے منشور میں معاشرے کے محروم طبقے کو اُس کے پاؤں پر کھڑا کرنا، غریب آدمی کے لیے گھر، کسانوں زرعی ادویات اور کھاد پر سبسڈی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ڈیم بنانے کے اقدامات کرنا شامل ہے۔ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے آصف مجید، پیپلزپارٹی کے محمد صفدر کانجو اور ن لیگ کے محمد عمر جعفر سے ہو گا۔

عبیداﷲ عابد،اسلام آباد

منصورآکاش این اے 53سے مسیحی امیدوار ہیں، کچی آبادی میں رہتے ہیں، روزگار کے اعتبار سے کباڑیے ہیں، روز کے چار سو سے پانچ سو روپے کماتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اسلام آباد کی ایک یونین کونسل میں وائس چئیرمین کا انتخاب بھی لڑچکے ہیں، لیکن انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ منتخب ہوکر کچی آبادی کے مسائل ترجیحاً حل کریں گے، اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابی مہم''صرف اپنی جیب سے'' چلارہے ہیں۔ انہوں نے کہا انتخابی مہم میں انہیں مختلف مشکلات درپیش ہیں، میری راہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالاںکہ میں نے اپنے کاغذات نام زدگی میں ظاہر کیا کہ میرے اثاثے صفر ہیں، اس کے باوجود مجھے ہائی کورٹ میں گھسیٹا گیا، چناںچہ اس معاملے میں میرے 70سے80ہزار روپے خرچ ہوگئے۔ اب انتخابی مہم چلانے میں مجھے کافی مسائل کا سامنا ہے، جب کہ میرے مقابل امیدوار خوب دولت کا استعمال کررہے ہیں۔''


خواجہ سرا ندیم کشش اسلام آباد کے حلقہ این اے 54سے بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں، تحریک انصاف عائشہ گلالئی گروپ نے انھیں ٹکٹ کی پیشکش کی جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ مسترد کردیا۔ ندیم کشش 'ایکسپریس نیوز' میں بطور میک اپ آرٹسٹ کام کرتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم اپنی ہی جیب سے کرتے ہیں اور ڈور ٹو ڈور جاکر اپنی مہم چلارہے ہیں یا پھر سوشل میڈیا کو ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ میک اپ آرٹسٹ ایسوسی ایشن نے بھی ان کی تشہیری مہم کے لیے کچھ فنڈز دینے کا وعدہ کررکھا ہے۔ ندیم کشش ملتان میں پیدا ہوئے لیکن پھر انھیں اپنے گھر سے نکلنا پڑا۔ بعدازاں طویل عرصہ لاہور میں ڈانسر کے طور پر گزارا۔ وہ کہتے ہیں کہ منتخب ہوگئے تو وہ خواجہ سراؤں کے لیے شیلٹرہومز کا انتظام کریں گے، تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں۔

روخان یوسف زئی، نوید جان،خیبرپختون خوا

جاوید موبال چنگ چی رکشا ڈرائیور ہیں۔ وہ تحصیل کاٹلنگ پی کے 49 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ وہ صرف تین مرلے کے ایک مکان کے مالک ہیں۔ جاویدموبال یکم جنوری 1983ء کو داؤد خان کے ہاں پیدا ہوئے، میٹرک پاس ہیں، 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں کسانوں کے لیے مخصوص نشست پر الیکشن لڑا اور کام یاب رہے۔

منتخب ہونے کے بعد انہوں نے علاقے کی خدمت شروع کردی۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہو یا اووربلنگ کا رونا یا دوسرے سماجی مسائل، جاوید موبال ان پر آواز اٹھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو وہ ملائیشیا میں محنت مزدوری کرکے اپنا گھر چلارہے تھے۔ تاہم انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وہ وطن پہنچ گئے اور راولپنڈی میں ذاتی چنگ چی رکشا چلانا شروع کردیا۔

ساتھ ہی انتخابی مہم بھی چلاتے رہے، اس دوران انتخابات سے دستبرداری کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ آل پاکستان مسلم لیگ، مزدورکسان پارٹی، جماعت الدعوۃ اور تحریک لبیک نے بھی انہیں ٹکٹ کی پیشکش کی مگر انہوں نے معذرت کرلی اور آزاد حیثیت سے میدان میں موجود اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق لوگوں کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر ہونے والے جاوید موبال علاقے میں ریسکیو 1122 اور جمشید دستی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

حلقہ این اے 8سے غریب امیدوار شہزادہ عالم گیر مسلسل چار مرتبہ عام انتخابات میں قسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور رہے ہیں، اب پیرانہ سالی کے سبب ڈرائیونگ نہیں کرسکتے۔ رواں الیکشن میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور متحد ہ مجلس عمل کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

افلاس، رویے، دباؤ۔۔۔۔۔ خواجہ سرا امیدواروں کی مشکلات

ملکی تاریخ میں پہلی بار سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں خواجہ سراؤں کے حقوق اور شناخت کے لیے کچھ کام ہوا تو امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ شاید اب ان کے حالات سنور جائیں گے، لیکن تاحال مایوسی کے سائے چھٹتے نظر نہیں آ رہے۔ آئے دن چھپنے والی خبروں اور انٹرویوز میں خواجہ سرا خود سے جڑے منفی تاثر کو بدلنے کے لیے کچھ کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں، لیکن کبھی معاشرتی رویے تو کبھی غربت ان کے آڑے آ جاتی ہے۔ اسی غربت نے ایک بار پھر خواجہ سراؤں کے کچھ کرنے کے عزم کو متزلزل کر دیا ہے۔

عام انتخابات میں 13خواجہ سراؤں نے حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن غربت ان میں سے اکثریت کے آڑے آ گئی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اسمبلی کا امیدوار بننے کے لیے 30 ہزار جب کہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار بننے کے لیے 20 ہزار روپے فیس مقرر کی گئی ہے، جو 13 میں سے 8 خواجہ سرا جمع کروانے سے قاصر رہے۔ فیس جمع کروانے کی استطاعت نہ رکھنے والے امیدواروں میں سرگودھا کی خواجہ سرا نینا لعل بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی 34 سے حصہ لیا۔ اُس الیکشن میں نینا لال کام یابی حاصل نہ کر سکیں اور اب 2018ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئیں۔

انہوں نے شہر کے دو حلقوں این اے 90 اور پی پی 78 کے لیے کاغذات نام زدگی حاصل کیے، تاہم انہوں نے صرف ایک حلقہ این اے 90 سے کاغذات نام زدگی جمع کروائے، کیوں کہ ایک شخص نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کے لیے فیس جمع کروائے گا، لیکن عین موقع پر اس شخص نے راہ فرار اختیار کرلی اور نینا لعل روپے فیس جمع نہ کروا سکیں۔ کاغذات نام زدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ آفیسر نے ان سے فیس کی رسیدیں طلب کیں تو انہوں نے فیس جمع کروانے کے لیے وقت مانگا، لیکن ریٹرننگ افسر نے یہ کہتے ہوئے کاغذات نام زدگی مسترد کردیے کہ فیس جمع کروانے کا وقت گزر چکا ہے۔ نینا لعل کا کہنا ہے کہ کاغذات نام زدگی رمضان المبارک میں جمع کروانے تھے جب کہ رمضان میں شادی بیاہ کی تقریبات نہ ہونے کے باعث آمدن نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، چناںچہ وہ فیس جمع کروانے سے قاصر رہیں۔

دوسری طرف جن 5 خواجہ سراؤں نے فیس جمع کروائی، وہ بھی غربت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ نایاب علی، ندیم کشش اور زاہد الیاس ریشم قومی اسمبلی جب کہ ماریہ خان اور لبنیٰ لالہ صوبائی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ اوکاڑہ کے حلقہ این اے 142 سے نایاب علی اور جہلم کے حلقہ پی پی 26 سے لبنی لالہ تحریک انصاف گلالئی کے پلیٹ فارم سے جب کہ باقی خواجہ سرا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

جنرل الیکشن میں حصہ لینے والے خواجہ سراؤں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے تاہم انہیں متعدد چیلینجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ این جی اوز اور دیگر افراد نے مالی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب انہیں کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔ نایاب علی کا کہنا ہے کہ حلقے کے عوام کی طرف سے ملنے والی محبت ان کے لیے حیران کُن ہے، لیکن انہیں مخالف بڑی پارٹیوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، جو انہیں الیکشن سے دست بردار کروانے کے لیے زور لگا رہی ہیں۔ نایاب علی کے مطابق میں آٹو رکشا میں انتخابی مہم چلا رہی ہوں، مخالفین بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے ہیں، میں کارنر میٹنگز تک محدود ہوں۔ مخالف امیدوار بڑے بڑے بل بورڈز اور بینرز لگا رہے ہیں جب کہ میں صرف پمفلٹس اور ہینڈ بلز تقسیم کرنے کی استعداد رکھتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کسی خواجہ سرا کے لیے ایسے حلقے سے الیکشن لڑنا بہت بڑا چیلینج ہے، جہاں خواتین بھی انتخابات لڑنے کی جرأت نہ رکھتی ہوں۔ گجرات کے این اے 69 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والی خواجہ سرا زاہد الیاس ریشم کا کہنا ہے کہ وہ مروجہ روایات کے مطابق اپنی انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں، جس کے باعث وہ خود ڈور ٹو ڈور ووٹرز سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔

پی کے 31 (مانسہرہ) سے ماریہ خان آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ماریہ خان کا کہنا ہے کہ مخالف فریقین کی طرف سے انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے مجھے انتخابی مہم کے لیے نکلنے میں خوف محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ میرے مخالفین کے حامی ہر جگہ پر مجھے ہراساں کرنے کے لیے موجود رہتے ہیں۔ وہ مجھے ''خُسرا'' کہہ کر چھیڑتے ہیں اور لوگوں کو مجھ سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ندیم کشش نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ بڑی سیاسی پارٹیوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں خواجہ سراؤں کو بُری طرح نظرانداز کیا۔ وہ کہتی ہیں میں نے الیکشن کمیشن کی فیس ادا کرنے کے لیے قرضہ لیا اور اب مہم چلانے کے لیے مزید پیسے کی ضرورت ہے۔

''اب لگتا ہے میں ہار گئی ہوں''
2010 میں ضمنی الیکشن لڑنے والی ملک کی پہلیکسان خاتون مائی جوری اپنا درد بیان کرتی ہیں

مارچ 2010 میں بلوچستان میں ہونے والے ایک ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والی ایک خاتون نے سب کو حیران کردیا تھا۔ یہ تھیں کسان خاتون مائی جوری جمالی، جو بلوچستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں صرف عزم اور ہمت کے بل بوتے پر قبائل سردار کے مقابل تھیں حسب توقع انھیں ناکامی ہوئی لیکن انھوں نے تاریخ رقم کردی۔ مائی جوری جمالی گوٹھ غلام محمد جمالی کی باسی ہیں۔ اس پس ماندہ گاؤں کے رہنے والوں نے پہلی بار اپنے قبائلی سرداروں کے خلاف صف آراء ہوکر مائی جوری کو ووٹ دیے۔ انتخابی نتیجے کے اعتبار سے ناکام رہنے والی اس مہم نے گوٹھ غلام محمد کے کسانوں اور خواتین میں وہ شعور بیدار کیا، جس کی آج پورے ملک کو اشد ضرورت ہے۔

میں مائی جوری سے ان کی اُس انتخابی مہم کا حال جاننے اور اس کے بعد کی صورت حال سے واقف ہونے کے لیے ان سے ملاقات اور گفتگو کی، جو قارئین کی نذر ہے۔

میں جب مائی جوری جمالی کے گھر پہنچا تو وہ پانی بھرنے دو کلو میٹر دور سیف اللہ مگسی کینال گئی ہوئی تھیں۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد وہ آتی نظر آئیں۔ ان کے سر پر 30 لیٹر کا پانی سے بھرا کنستر تھا۔ میں نے اُن کے سر سے کنستر اتارا۔ ہم ایک ٹوٹی چارپائی پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ مائی جوری نے کہا کہ میں نے ایسے افلاس زدہ گاؤں سے الیکشن میں حصہ لیا جہاں پر ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ایک بھی مڈل اسکول نہ بن سکا اور نہ ہی لوگوں کو علاج معالجے کے لیے مناسب سہولتیں میسر ہیں۔



میں ہر روز گوٹھ کی خواتین کے ساتھ صبح سویرے سر پر مٹکے اْٹھاکر پانی بھرنے نکلتی ہوں۔ دو میل کا فاصلہ طے کرکے ہینڈ پمپ سے پانی بھرتی اور گھر لوٹ کر پورا دن کام کاج اور کھیتی باڑی میں مصروف رہتی ہوں۔ مائی جوری کہتی ہیں کہ میں نے سوچ کر الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ میں اگر ہار بھی جاؤں گے تو میرے گاؤں کے مسائل منظرعام پر آجائیں گے، اور ان کے حل کے لیے کام شروع ہوں گے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ میں پاکستان کی پہلی محنت کش اور ناخواندہ خاتون ہوں، جس نے بااثر سردار کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا۔ میں نے جب ضمنی الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروائے تو پورے پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کے اِس چھوٹے سے گاؤں کا رُخ کیا۔ اُس وقت اُسی علاقے کے قریب 5 لڑکیوں کو زندہ دفن کیا گیا تھا، اور اِس خبر کی وجہ سے میڈیا کی نظریں پہلے ہی یہاں تھیں۔ ایسے علاقے سے کسی عورت کا الیکشن لڑنا ہر ایک کے لیے حیران کُن تھا۔

مائی جوری جمالی بہت مایوس نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی ادارے یا اعلیٰ حکام کو میرے گوٹھ کی کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں پختہ کرنے اور یہاں اسکول بنانے کا خیال نہ آیا، اور نہ اسپتال کی ضرورت کا احساس ہوا۔ انہوں نے کہا میری ایک بیٹی بول نہیں سکتی، کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں اِس کا علاج ممکن ہے لیکن میں دو وقت کے کھانے کا انتظام کروں یا علاج کراؤں؟ میرے گاؤں میں سرداروں کا راج کل بھی تھا، آج بھی ہے، یہاں پر اُن کی عدالتیں ہیں اور اُن ہی کی پولیس ہے۔ انہوں نے کہا جب میں نے کاغذات جمع کروائے تو میں سمجھی تھی کہ اپنے گاؤں کی ترقی کے دن شروع کررہی ہوں، مگر آج تک کچھ بھی نہ ہوا جس کا مجھے بہت دُکھ ہے۔ اُس وقت مجھے بہت لالچ دیا گیا تھا اور دباؤ بھی ڈالا گیا تھا مگر میں نے ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر اب مجھے لگتا ہے میں ہار گئی ہوں۔

وہ کہتی ہیں کہ آج بھی بلوچستان سے نکلنے والی گیس اُن کے گھر تک نہیں آسکی اور آج بھی بلوچستان سے نکلنے والے پتھروں سے اس گاؤں میں سڑکیں نہ تعمیر ہوسکیں۔ مائی جوری نے ضمنی الیکشن کے بعد کی صورت حال کے بارے میں بتایا کہ ضمنی انتخاب میں، میں نے صرف 491 ووٹ حاصل کیے تھے۔ ہر مرتبہ علاقے کے لوگ سرداروں کو ووٹ دے کر کام یاب کرواتے رہے تھے، لیکن ایک مرتبہ اپنا ووٹ اپنے آپ کو دیا ہے تو انتقامی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ مجھے اور مجھے ووٹ دینے والوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے حصے کا زرعی پانی بند کیا گیا اور پانی چوری ہونے لگا۔ معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے گوٹھ کے کچھ لوگوں نے نقل مکانی کرلی تو کچھ اپنی زمینیں ہونے کے باوجود دوسروں کی زمینوں پر کھیت مزدوری کرنے لگے۔
Load Next Story