انتخابات اور مذہبی جماعتیں

عوامی اثرورسوخ کے باوجود مذہبی جماعتیں کبھی مرکز میں حکومت کیوں نہ بناسکیں؟

عوامی اثرورسوخ کے باوجود مذہبی جماعتیں کبھی مرکز میں حکومت کیوں نہ بناسکیں؟ فوٹو : فائل

ان دنوں اگر سیاسی حالات پر نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں صرف وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ کاروں کی بنائی ہوئی سیاسی جماعتیں ہی نہیں، بلکہ ان کے ساتھ کئی ایک مذہبی جماعتیں بھی انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہیں۔

گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی یہ مذہبی جماعتیں آپس میں اتحاد کرکے انتخابات میں شامل ہوئی ہیں، ان کے اتحاد کا اس بار بھی نام وہی ہے جو پچھلی بار تھا، یعنی متحدہ مجلسِ عمل۔ ان میں سارے نمایاں مسالک کی جماعتوں کے سیاسی راہ نما شامل ہیں۔

پاکستان میں جتنی مذہبی جماعتیں سیاسی اور انتخابی میدان میں ہمیں نظر آتی ہیں، وہ اپنی جگہ خود ایک اہم اور دل چسپ واقعہ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تو خیر چھوڑ دیجیے کہ وہاں نظامِ مملکت ہی اور ہے، لیکن مسلم ممالک، مثلاً عراق، افغانستان، ایران، شام، مصر، فلسطین، ترکی وغیرہ میں آپ کہیں بھی دیکھ لیجیے، سیاست میں آپ کو کسی ملک میں اتنی مذہبی جماعتیں مصروفِ کار نظر نہیں آئیں گی، جتنی ہمارے یہاں ہیں۔ بنگلا دیش، ہندوستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر میں بھی دیکھیے تو انتخابی دوڑ میں اتنی مذہبی جماعتیں شامل نظر نہیں آتیں۔

اس کی کئی وجوہ ہیں، مثلاً ایک تو یہی کہ ہمارے یہاں متعدد مذہبی مسالک ہیں اور سب اپنا اپنا حقِ اظہارِرائے پوری آزادی سے استعمال کرتے ہیں اور آئین کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی ہمارے یہاں مذہبی جماعتوں نے اپنا سماجی اثر و رسوخ حاصل کرنا اور اپنے حلقے بنانا شروع کر دیا تھا، اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سماجی بنیاد خاصی مضبوط ہوگئی۔ تیسری بات یہ کہ پاکستان کے تناظر میں یہ حقیقت کچھ ہی برسوں میں واضح ہوگئی تھی کہ لسانی ہو یا ثقافتی، علاقائی ہو یا مذہبی کسی بھی گروہ کی بقا اور ترقی کے بہتر امکانات صرف اور صرف سیاسی دائرۂ کار میں ہیں، اس لیے مذہبی جماعتوں نے اس مسئلے کو نہ صرف سمجھا، بلکہ عملی سطح پر اسی انداز سے اختیار بھی کیا۔

چوتھی بات یہ کہ مذہبی جماعتوں کا ایک سطح پر سماجی اثر و رسوخ اس سے پہلے بھی تھا، لیکن 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے جب بھٹو کا تختہ الٹ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر فوراً ہی امریکا کا اتحادی بن کر روس کے خلاف افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تو اس دور میں مذہبی جماعتوں کے سیاسی کردار اور سماجی قوت میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا، اس کی کوئی مثال اس سے پہلے کے ادوار میں نظر نہیں آتی۔

چوتھی بات یہ ہے کہ بیرونی قوتوں نے ہماری اجتماعی قومی طاقت کو غیرمستحکم کرنے کے لیے ہمارے ہاں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔ نتیجہ یہ کہ ہر مسلک کو ایک سماجی اور حربی قوت کے ساتھ باقاعدہ ابھارا گیا اور یہ کام سیاست کی آڑ میں کیا گیا۔ پانچویں بات یہ کہ خود اہلِ اقدار یا اہلِ سیاست نے بھی کہیں اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے اور کہیں انتخابی حربے کے طور پر انھیں استعمال کیا۔ چناںچہ مذہبی جماعتوں کے لیے ایک راستہ کھل گیا۔ یہ اور ایسے ہی بعض دوسرے عوامل ہیں جنھوں نے ان جماعتوں کو سیاست اور طاقت کے اس کھیل کے مرکز میں پہنچا دیا۔

اب یہ الیکشن تھا یا الیکشن کے نام پر دھوکا دہی کی واردات جو بھی تھا، لیکن جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے مدِمقابل جب انتخابی مہم چلائی تو یہ پہلا موقع تھا جب ہمارے ہاں انتخابی رساکشی کے لیے سیاست میں اپنے انداز سے مذہب کو استعمال کیا گیا۔ اسلام کے اصولوں اور احکامات کا حوالہ دے کر عوام کو بتایا گیا کہ اسلام میں عورت کی حکم رانی جائز نہیں ہے۔ رائے عامہ کو جنرل ایوب خان کے حق میں ہموار کرنے کے لیے اس نکتے پر تقاریر کرائی گئیں۔ ریڈیو کی نشریات اور اخبارات کے صفحات کو استعمال کرنے کا سارا انتظام اسی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں دیکھنے میں آتا ہے، لیکن اس سے پہلے1970 اور 1977 کے انتخابات میں ہم مذہبی جماعتوں کو بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

مولانا مفتی محمود، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا کوثر نیازی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا حامد علی خان، مولانا عبداﷲ درخواستی، مولانا عارف حسین الحسینی، مولانا سمیع الحق، میاں طفیل محمد وغیرہم جیسی شخصیات اس زمانے کے وہ مذہبی نمائندے تھے جو سیاسی دنیا میں بہت سرگرم تھے اور عوامی حلقوں میں خوب پہچانے جاتے تھے۔ اپنے دور میں ہونے والے انتخابات میں یہ لوگ حصہ بھی لیتے رہے- لیکن پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب مذہبی جماعتوں کے سیاسی نمائندے اتنی تعداد میں الیکشن میں کام یابی حاصل کرکے قومی اسمبلی میں پہنچے ہوں کہ وہ سادہ اکثریت ہی کی بنیاد پر سہی مگر مرکز میں اپنی حکومت بنا سکیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکا۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں؟


جہاں تک مذہبی جماعتوں اور ان کے نمائندہ افراد کا تعلق ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوامی اثرورسوخ کا معاملے میںیہ لوگ بااثر نظر آتے ہیں۔ عوام میں ان کی پذیرائی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ عوامی مزاج اور جذبات کے رخ کو متعین کرنے میں یہ لوگ ہمیشہ ایک کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے اثرات کا دائرہ کس قدر وسیع ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے لیے راہ ہموار کرنے میں ان مظاہروں کا بھی بہت اہم کردار تھا جو قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک پر ملک کے طول و عرض میں وبا کی طرح پھوٹ پڑے تھے۔ قومی اتحاد اس دور میں ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اجتماعی نام تھا جنھوں نے بھٹو مخالف گٹھ جوڑ کیا تھا اور حکومت کو گرانے کے لیے پرزور تحریک چلائی تھی۔

عوامی قوت کو اپنے حق میں اور حکومت کے خلاف ان مذہبی سیاسی راہ نماؤں نے عوام کے مذہبی جذبات کو متحرک کرکے خوب استعمال کیا تھا۔ چالیس بیالیس سال پہلے کے قومی اتحاد کے مظاہروں اور جلوسوں سے لے کر تحریکِ لبیک کے حالیہ جلوس اور دھرنے تک آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہ و قائدین عوام کی طاقت کو ہر بار سہولت اور کام یابی سے اپنے حق میں استعمال کرتے آئے ہیں۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے یہاں جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو ان مذہبی جماعتوں کے محض چند ایک ممتاز اور معروف لوگ تو ضرور جیت کر قومی اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن وہاں پر انھیں وہ قوت حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا جو اقتدار کے منہ زور گھوڑے کو ان کے زیر نگیں لاسکے اور وہ مرکز میں حکومت و اختیار حاصل کرسکیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی عوامی اکثریت مذہبی مزاج رکھتی ہے۔ ایک عام آدمی عملاً مذہبی احکامات کی بجاآوری میں چاہے کتنی ہی کوتاہی برتتا ہو، لیکن یہ طے ہے کہ اسے جب بھی کسی مذہبی مسئلے کے لیے یا پھر اﷲ اور رسولؐ کے نام پر پکارا جاتا ہے تو وہ کسی حیل و حجت کے بغیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کیا یہ واقعی غور طلب بات نہیں ہے کہ یہی جذبہ و احساس سے مغلوب ہوجانے والا عام آدمی مذہبی جماعت کے پیش کردہ سیاسی راہ نماؤں کو انتخابات کے موقع پر کچھ زیادہ درخورِاعتنا نہیں جانتا۔ اگر عوامی طاقت الیکشن کے وقت مذہبی جماعتوں کے سیاسی راہ نماؤں کے ساتھ ہو اور وہ اکثریت حاصل کرکے اسمبلی میں پہنچ جائیں ملک کا نظامِ حکومت ان کے ہاتھ میں آنے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔ ان اکہتر برسوں میں لیکن ایسا ایک بار نہیں ہو پایا۔ چلیے اب تک نہیں ہو پایا، لیکن کیا اس بار2018 کے انتخابات میں ایسا ہو سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے بہت زیادہ سیاسی بصیرت اور سماجی تجزیے کی صلاحیت درکار نہیں ہے۔ گذشتہ تجربات اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ مذہبی جماعتیں اس الیکشن میں بھی بہت ہوا تو اپنی اسی اوسط کو برقرار رکھ پائیں گی، جو پچھلی دہائیوں میں وہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ اس سے زیادہ کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ہر پھر کر ہم واپس اسی سوال کی طرف لوٹ آتے ہیں کہ ملک کی اکثریت مذہبی رجحان رکھتی ہے، مذہبی راہ نماؤں کی آواز پر ہمیشہ لبیک کہتی ہے، آخر پھر کیا وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی راہ نما اس تعداد میں اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتے کہ اپنی حکومت قائم کرسکیں۔

یہاں کچھ نکات پر غور کیا جائے تو یہ مسئلہ ذرا واضح ہو کر سامنے آسکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے، مذہبی جماعتوں کے جو راہ نما انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے اب تک قومی اسمبلی میں پہنچتے رہے ہیں، وہ اپنی حیثیت میں کوئی بڑا یا نمائندہ سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے نہیں ابھرے۔ ٹھیک ہے، وہ نمک کی کان میں جاکر نمک تو نہیں ہوئے ہوں گے، لیکن وہ اپنا جوہر دکھانے اور لوہا منوانے میں بھی کام یاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ دوسری بات یہ کہ بے شک انتخابات کے موسم میں تمام مسالک یا فرقوں کے راہ نما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور مل کر انتخابی مہم سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عوامی سائیکی اس اتحاد کا کوئی زیادہ اثر نہیں لیتی۔

اس لیے کہ الیکشن کے ڈیڑھ دو ماہ کو چھوڑ کر باقی پانچ سال کے عرصے میں عام آدمی ان سب کو اپنے اپنے مسلک کے پرچارک کی حیثیت سے خود کو درست اور باقی سب کو غلط بتاتے ہوئے کہتا اور دیکھتا ہے۔ چناںچہ ووٹنگ کے دن اس کا پانچ سال کا حافظہ اور تجربہ معطل یا مسترد نہیں ہوجاتا۔ اس کے برعکس وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی یہ سب اپنے اختلافات کے ساتھ واپس اپنی اپنی جگہ پر ہوں گے۔ تیسری بات اپنے مسالک کی ترویج و اشاعت کے اس کام میں مذہبی جماعتوں اور ان کے راہ نماؤں نے کچھ علاقوں میں اپنے حلقے یا ووٹ پاکٹس بنانے میں تو بے شک کام یابی حاصل کی ہے، لیکن پوری قوم کو ایک لڑی میں پرونے میں وہ کام یاب نہیں ہوسکے۔ اور کیسے ہوسکتے ہیں، جب کہ وہ خود ہی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اسی صورت اپنی بقا کا سامان کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کا ووٹ بینک ان کے مخصوص علاقوں یا حلقوں تک محدود رہتا ہے ۔

چوتھی بات یہ کہ ان جماعتوں کے سیاسی مزاج راہ نما صاف طور سے اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے حلقے سے باہر اپنی جڑیں نہیں رکھتے، اس لیے ان کے سیاسی امیدوار محدود تعداد میں اور مخصوص نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، اور قومی اسمبلی کی ہر نشست پر یہ جماعتیں باہمی اتحاد کے باوجود امیدوار کھڑا نہیں کر پاتیں۔ اس لیے اگر ان کے سارے امیدوار اگر جیت جائیں تو بھی یہ حکومت بنانے کے اہل نہیں ہوں گے۔ پانچویں بات مسالک کے لیے مختلف بیرونی قوتوں کی طرف امداد اور کمک کا انتظام ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ان کے اپنے مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں جن کا ہمارے اجتماعی قومی مفادات سے ضروری نہیں کہ تعلق ہو، بلکہ عام طور پر وہ اس کے منافی ہوتے ہیں۔

ان کے لیے کام کرنے والے افراد ایسی صورت میں کیوں کر اپنی ہیئتِ اجتماعیہ کے لیے مثبت و مفید ہوسکتے ہیں۔ چھٹی بات گذشتہ چار دہائیوں کا عرصہ اگر سامنے رکھا جائے تو بہ آسانی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے سیاسی نمائندوں نے ملک کو اسلامی مملکت اور ایک فلاحی ریاست بنانے کی تو بہت باتیں کی ہیں، لیکن ملک و قوم کی معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کے لیے انھوں نے کوئی وژن پیش نہیں کیا ہے۔ اس دور کی ہنگامہ پرور دنیا کی تبدیلیوں کے طوفان میں ملک و قوم کے لیے قدم جما کر کھڑے ہونے یا زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی صورت کو ممکن بنا کر دکھاتا ہو۔
Load Next Story