انتخابی نتائج میں ’’ناراض‘‘ اور ’’نئے‘‘ ووٹر اہم ترین
ن لیگ مشکل میں ہے لیکن یہ دو ’’ن ‘‘ انتخابی منظرنامے پر کلیدی حیثیت اختیار کرگئے۔
ملک بھر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں، پیر اور منگل کی درمیانی شب تو انتخابی مہم ختم بھی ہوجائے گی۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی فتح کے بلند و بانگ دعووں اور نعروں کے باوجود ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وفاقی سطح پر کون سی پارٹی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی؟۔ ایسی ہی صورتحال چاروں صوبوں میں بھی نظر آرہی ہے کہ جہاں پہلی بار کسی بھی پارٹی کی لازمی جیت کی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں۔ 25جولائی کو ووٹنگ کے بعد قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کا سادہ اکثریت حاصل کرنا اُس جماعت کی بہت بڑی کامیابی تو ہوگی لیکن موجوسہ سیاسی منظرنامے میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اس صورتحال میں یہ طے ہے کہ انتخابی نتائج میں ''ناراض ''اور ''نئے''ووٹراہم ترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور وفاق اور صوبوں میں لاکھوں کی تعداد میں نئے اور ناراض ووٹر ہی آئندہ کے حکمرانوں کا تعین کرینگے۔ اس وقت دیکھا جائے تو سیاسی سطح پر ن لیگ کافی مشکل میں ہے لیکن یہ دو ''ن '' (یعنی نئے اور ناراض) انتخابی منظرنامے پر کلیدی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق 2013 کے عام انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی مجموعی تعداد 8کروڑ 60لاکھ (86ملین) تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 10کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ نئے ووٹروں میں نوجوان شامل ہیں جوپہلی بار الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلیے پُرجوش ہیں ، وہ اپنی مرضی کی پارٹی اور پسندیدہ شخصیات کوووٹ دینا چاہتے ہیں ۔
دوسری جانب مختلف پارٹیوں کی کارکردگی سے ناراض ووٹر بھی ہر حلقے کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ گذشتہ الیکشن میں جیتنے والوں کو اس بات انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقوں میں عوام کے کڑے سوالات اور تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ جن پارٹیوں اور امیدواروں نے گذشتہ 5سال میں اپنے حلقے کیلیے کام نہیں کیے، اس بار اُن کو آنکھیں بند کرکے ووٹ ملنا خارج از امکان ہے۔
سیاسی پارٹیوں کو اپنی جیت کے لیے نئے ووٹروں کو بھی اپنی جانب لانا ہوگا جبکہ ناراض ووٹروں کو منانا ہوگا ، تب ہی کوئی جماعت حکومت سازی کی پوزیشن میں پہنچے گی۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی فتح کے بلند و بانگ دعووں اور نعروں کے باوجود ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وفاقی سطح پر کون سی پارٹی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی؟۔ ایسی ہی صورتحال چاروں صوبوں میں بھی نظر آرہی ہے کہ جہاں پہلی بار کسی بھی پارٹی کی لازمی جیت کی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں۔ 25جولائی کو ووٹنگ کے بعد قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کا سادہ اکثریت حاصل کرنا اُس جماعت کی بہت بڑی کامیابی تو ہوگی لیکن موجوسہ سیاسی منظرنامے میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
اس صورتحال میں یہ طے ہے کہ انتخابی نتائج میں ''ناراض ''اور ''نئے''ووٹراہم ترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور وفاق اور صوبوں میں لاکھوں کی تعداد میں نئے اور ناراض ووٹر ہی آئندہ کے حکمرانوں کا تعین کرینگے۔ اس وقت دیکھا جائے تو سیاسی سطح پر ن لیگ کافی مشکل میں ہے لیکن یہ دو ''ن '' (یعنی نئے اور ناراض) انتخابی منظرنامے پر کلیدی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق 2013 کے عام انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹروں کی مجموعی تعداد 8کروڑ 60لاکھ (86ملین) تھی جو اب بڑھ کر تقریباً 10کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ نئے ووٹروں میں نوجوان شامل ہیں جوپہلی بار الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلیے پُرجوش ہیں ، وہ اپنی مرضی کی پارٹی اور پسندیدہ شخصیات کوووٹ دینا چاہتے ہیں ۔
دوسری جانب مختلف پارٹیوں کی کارکردگی سے ناراض ووٹر بھی ہر حلقے کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ گذشتہ الیکشن میں جیتنے والوں کو اس بات انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقوں میں عوام کے کڑے سوالات اور تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ جن پارٹیوں اور امیدواروں نے گذشتہ 5سال میں اپنے حلقے کیلیے کام نہیں کیے، اس بار اُن کو آنکھیں بند کرکے ووٹ ملنا خارج از امکان ہے۔
سیاسی پارٹیوں کو اپنی جیت کے لیے نئے ووٹروں کو بھی اپنی جانب لانا ہوگا جبکہ ناراض ووٹروں کو منانا ہوگا ، تب ہی کوئی جماعت حکومت سازی کی پوزیشن میں پہنچے گی۔