بحیثیت ڈاکٹر مریضوں کی بیماریوں سے لڑتا ہوں سرجن پرویز
قومی ادارہ برائے امراض قلب کے معروف میکینکل ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر پرویز چوہدری نے کہا ہے کہ ہارٹ فیل کے مریضوں کومیکینکل دل لگائے جانے کے بعد بے حد اطمینان اور خوشگوار موڈ محسوس کرتا ہوں، بحیثیت ڈاکٹر میں مریضوں کی بیماریوں سے لڑتا ہوں اوردل کی تنصیب میں مجھے بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر پرویز چوہدری نے کہا ہے کہ وہ امریکا میں 70 اور جبکہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی میں ہارٹ فیلیور کے 3 مریضوں کو میکینکل ہارٹ (مصنوعی دل) لگا چکے ہیں ان میں 62 سالہ خاتون بھی شامل ہے۔ زندگی میں مجھے سب سے زیادہ پہلی خوشی اس وقت ہوئی جب خانہ کعبہ کے سامنے اور دوسری بڑی خوشی جب ایک مریض کو پہلا مصنوعی دل لگایا تھا، ہارٹ فیل کے مریضوں کومیکینکل دل لگائے جانے کے بعد بے حد اطمینان اور خوشگوار موڈ محسوس کرتا ہوں، بحیثیت ڈاکٹر میں مریضوں کی بیماریوں سے لڑتا ہوں اوردل کی تنصیب میں مجھے بہت اچھا احساس ہوتا ہے، مصنوعی دل لگانے کے بعد ایسے مریضوں کو کام کرتا دیکھ کرحقیقی خوشی ہوتی ہے، مریضوں کو میکینکل دل لگانے کے بعد انسان کے احساسات تبد یل ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی تبدیلی آتی ہے۔ جذبات اور منطق کا تعلق دل سے نہیں دماغ سے ہوتا ہے، اب تک لگائے جانے والے مصنوعی دل کی کامیابی کی شرح 92 فیصد ہے جو عالمی سطح پرسب سے زیادہ ہے۔
کراچی کے قومی ادارہ امراض قلب میں تیسرے مریض بنارس کو گزشتہ روز مصنوعی دل لگائے جانے کے بعد ڈاکٹر پرویز چوہدری ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انسان کے حقیقی دل میں کوئی احساس اور جذبات نہیں ہوتے، جذبات اور منطق کا تعلق صرف دماغ سے ہوتا ہے، دل صرف ایک پمپ ہوتا ہے جس کا کام خون کی فراہمی کو متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر پرویز چوہدری نے بتایاکہ دل کا تعلق محبت سے نہیں دماغ سے ہوتا ہے، جذبات اور منطق کا تعلق بھی دماغ سے ہوتا ہے، اسی طرح کسی مریض کواصلی دل لگانے کے بعد بھی اس کے احساسات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
انھوں نے بتایا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو منطق سے ہٹا کر جذبات کی جانب سے راغب کردیاگیاہے۔ پاکستانی قوم بہت ذہین ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو جذبات میں الجھا رکھا ہے، مسئلہ کشمیر جذبات کے بجائے منطق سے حل کرنا چاہیے ان جسے دیگر مسائل میں ہمیں الجھا دیا گیا ہے جبکہ ایسے حساس نوعیت کے معاملات کو جذبات کے بجائے منطق سے دیکھنا اور حل کرنا چاہیے، مصنوعی دل لگانے کے بعد مریض کو صرف خون پتلا کرنے کی دوا دی جاتی ہے، مصنوعی دل میں کوئی فنی خرابی کی صورت میں دوبارہ تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے اور امریکا میں ایک ایسے مریض کو دوبارہ میکینکل دل لگایا جونارمل زندگی گزار رہا ہے۔ جب مصنوعی دل لگانے والے مریض کو کام کرتا دیکھتا ہوں تو بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر پرویز چوہدری کا کہنا تھا کہ انھوں نے مصنوعی دل ایسے مریضوں کو بھی لگائے ہیں جو اٹھ کر باتھ روم نہیں جا سکتے تھے لیکن اب وہ نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ میںاپنی والدہ کے کہنے پر پاکستان آیا ہوں اوریہاں ناکارہ دل کے مریضوں کے علاج کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہا ہوں۔
اس حوالے قومی ادارہ برائے امراض قلب کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر، ڈاکٹر حمید اللہ ملک نے ادارے میں پہلی بار ناکارہ دل کے مریضوں کا دل کارآمد بنانے کیلیے پہلی بار ہارٹ فیلیور پروگرام شروع کیا اور امریکا میں مجھ سے رابطہ کیا جس پرمیں نے اپنے ملک واپس آ کر قومی ادارہ برائے امراض قلب میں ہارٹ فیلیورکے مریضوں کو مصنوعی دل لگانے کے پروگرام پر عملدرآمد شروع کر دیا اور اب تک 3 مریضوں کو مصنوعی دل لگائے جا چکے ہیں اور تینوں مریض صحت یاب بھی ہو گئے ہیں۔