عوام کا اجتماعی فیصلہ خیر کی خبر لائے گا
12 مئی کی صبح غالباََ ہم سب مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتوں کے قیام کے امکانات پر غور کرنا شروع کر دیں گے۔
سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے بہت زیادہ دن نہیں ملے۔ مگر انھوں نے ایک دوسرے کی خامیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے جارحانہ اشتہارات بنائے۔ پیپلز پارٹی اس ضمن میں بازی لے گئی۔ اس جماعت کے لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کا جذباتی انداز میں ذکر بھی کیا اور عمران خان نے ICU کے بستر سے قوم کے نام اپنا پیغام ریکارڈ کراتے ہوئے اپنی جماعت کے لیے ستائش اور ہمدردی کی ایک لہر بھی چلا دی۔
انتخابی مہم کے یہ نسبتاََ چند مختصر دن میسر نہ بھی ہوتے تو 24/7 چینلوں کے ٹاک شوز کی بدولت پاکستان کے عوام اب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ہماری مختلف جماعتیں اصل میں کیا چاہتی ہیں۔ ان کی قیادتوں کا اصل کردار اور بنیادی رویے کس نوعیت کے ہیں۔ ٹاک شوز کے ذریعے مسلسل گہری ہوتی یہ آگہی یقیناً ہمارے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے میں بڑی معاونت فراہم کرے گی کہ وہ کونسی جماعت کو اپنے ووٹ کے ذریعے یا تو مزید طاقتور بنائیں یا اقتدار کے مراکز سے دور رکھیں۔
مجھے اپنے عوام کی سیاسی بصیرت پر کامل بھروسہ ہے۔ میں پوری دیانت سے یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا اجتماعی فیصلہ پاکستان کے لیے خیر کی خبریں لائے گا۔ خدشہ صرف اس بات کا ہے کہ بہت ساری وجوہات کی بناء پر جن کا اس مختصر کالم میں تفصیلی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ 11 مئی کی رات کو جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوں تو ہم اس بات پر حیران اور پریشان ہو جائیں کہ پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں قطعی اکثریت تو کیا حکومت سازی کے لیے ضروری سمجھی جانے والی تعداد بھی حاصل نہ کر پائی۔
12 مئی کی صبح غالباََ ہم سب مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتوں کے قیام کے امکانات پر غور کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں کا اصل امتحان اس صبح سے شروع ہونے والے دنوں میں ہو گا۔ ان جماعتوں نے اپنے ٹی وی اشتہاروں کے ذریعے ایک دوسرے کی جس و حشیانہ انداز میں مٹی پلید کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے تناظر میں مختلف جماعتوں کے قائدین کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے جنونی مداحین کے لیے بھی ''صرف اقتدار'' حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے ''سمجھوتوں'' کو ہضم کرنا بڑا مشکل ہو گا۔ لیکن ٹھنڈے دل سے سوچیں تو جمہوریت کا اصل حسن یہی ہے۔ یہ آپ کو اپنی ذات اور فروعی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک مستحکم سیاسی نظام اور ملک و قوم کی دور رس اور اجتماعی بہتری کے لیے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے نئے راستے نکالنے پر مجبور کرتا ہے۔
افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے ضروری ٹھہری اس لچک کی اہمیت کا ادراک نہیں کر پائی۔ گزشتہ دو روز سے میں کراچی میں ہوں۔ ضرورت سے زیادہ لوگوں سے بہت دیر تک گپ شپ لگائی تو احساس ہوا کہ انھیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے ''جنونی'' انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے یا نہیں۔ دو ہفتے پہلے تک جب غیر ملکی صحافی اور سفارت کار مجھ سے اس بارے میں سوال کیا کرتے تو میں بڑی رعونت سے انھیں اپنے عوام کی سیاسی بصیرت سے بے بہرہ ہونے کے طعنے دیتا تھا۔ اب کراچی میں میرے اپنے لوگ ہی ان جیسے سوالات کرتے ہیں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔
بجائے اس بات پر غور کرنے کے کہ 12 مئی کے بعد کس طرح آگے بڑھا جائے، لوگوں کی اکثریت اس بحث میں اُلجھ جاتی ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان نواز شریف کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیں گے یا نہیں۔ منقسم نتائج آنے کے امکانات کی روشنی میں یہی بات نواز شریف اور ان کی جماعت کے بارے میں بھی کی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں میں فطری طور پر موجود لچک پر غور کرنے کے بجائے ذہن پر زیادہ زور وہ داؤ اور ہتھکنڈے تلاش کرنے پر دیا جا رہا ہے جو یہ واضح کر سکے کہ کن کن بنیادوں پر فلاں فلاں جماعت اور اس کے رہنما کون کون سی جماعت اور اس کے رہنماؤں کو مرکز یا صوبوں میں حکومت سازی کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اس میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ مختصراََ ہم اپنے تمام سیاسی رہنماؤں کو محض ضدی SPOILERS کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
پنجابی کا محاورہ ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' مجھے اپنے لوگوں کی باتیں سن کر اکثر یاد آنا شروع ہو گیا ہے۔ مگر دل ہی دل میں سوچتا رہتا ہوں کہ شاید برسوں تک پھیلائے گئے لاحاصل غیر جمہوری نظاموں کو بھگتنے کے بعد ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت یہ دریافت کر چکی ہے کہ ایک دوسرے کی احمقانہ ضد کے ساتھ گیم خراب کرتے ہوئے سیاست دان بالآخر پورے جمہوری کھیل کی بساط اُلٹا دیتے ہیں جو غیر سیاسی قوتوں کو ''میرے عزیز ہم وطنوں'' کہہ دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 11 مئی کی صبح میں اپنے لوگوں سے بڑی بالغ نظری کی توقع کر رہا ہوں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ہماری خلقِ خدا کا اجتماعی فیصلہ میرے ملک کے لیے خیر کی خبریں ہی لائے گا۔
انتخابی مہم کے یہ نسبتاََ چند مختصر دن میسر نہ بھی ہوتے تو 24/7 چینلوں کے ٹاک شوز کی بدولت پاکستان کے عوام اب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ہماری مختلف جماعتیں اصل میں کیا چاہتی ہیں۔ ان کی قیادتوں کا اصل کردار اور بنیادی رویے کس نوعیت کے ہیں۔ ٹاک شوز کے ذریعے مسلسل گہری ہوتی یہ آگہی یقیناً ہمارے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے میں بڑی معاونت فراہم کرے گی کہ وہ کونسی جماعت کو اپنے ووٹ کے ذریعے یا تو مزید طاقتور بنائیں یا اقتدار کے مراکز سے دور رکھیں۔
مجھے اپنے عوام کی سیاسی بصیرت پر کامل بھروسہ ہے۔ میں پوری دیانت سے یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا اجتماعی فیصلہ پاکستان کے لیے خیر کی خبریں لائے گا۔ خدشہ صرف اس بات کا ہے کہ بہت ساری وجوہات کی بناء پر جن کا اس مختصر کالم میں تفصیلی جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ 11 مئی کی رات کو جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوں تو ہم اس بات پر حیران اور پریشان ہو جائیں کہ پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں قطعی اکثریت تو کیا حکومت سازی کے لیے ضروری سمجھی جانے والی تعداد بھی حاصل نہ کر پائی۔
12 مئی کی صبح غالباََ ہم سب مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتوں کے قیام کے امکانات پر غور کرنا شروع کر دیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں کا اصل امتحان اس صبح سے شروع ہونے والے دنوں میں ہو گا۔ ان جماعتوں نے اپنے ٹی وی اشتہاروں کے ذریعے ایک دوسرے کی جس و حشیانہ انداز میں مٹی پلید کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے تناظر میں مختلف جماعتوں کے قائدین کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے جنونی مداحین کے لیے بھی ''صرف اقتدار'' حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے ''سمجھوتوں'' کو ہضم کرنا بڑا مشکل ہو گا۔ لیکن ٹھنڈے دل سے سوچیں تو جمہوریت کا اصل حسن یہی ہے۔ یہ آپ کو اپنی ذات اور فروعی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک مستحکم سیاسی نظام اور ملک و قوم کی دور رس اور اجتماعی بہتری کے لیے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے نئے راستے نکالنے پر مجبور کرتا ہے۔
افسوس مگر اس بات کا ہے کہ ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے ضروری ٹھہری اس لچک کی اہمیت کا ادراک نہیں کر پائی۔ گزشتہ دو روز سے میں کراچی میں ہوں۔ ضرورت سے زیادہ لوگوں سے بہت دیر تک گپ شپ لگائی تو احساس ہوا کہ انھیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے ''جنونی'' انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے یا نہیں۔ دو ہفتے پہلے تک جب غیر ملکی صحافی اور سفارت کار مجھ سے اس بارے میں سوال کیا کرتے تو میں بڑی رعونت سے انھیں اپنے عوام کی سیاسی بصیرت سے بے بہرہ ہونے کے طعنے دیتا تھا۔ اب کراچی میں میرے اپنے لوگ ہی ان جیسے سوالات کرتے ہیں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔
بجائے اس بات پر غور کرنے کے کہ 12 مئی کے بعد کس طرح آگے بڑھا جائے، لوگوں کی اکثریت اس بحث میں اُلجھ جاتی ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان نواز شریف کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیں گے یا نہیں۔ منقسم نتائج آنے کے امکانات کی روشنی میں یہی بات نواز شریف اور ان کی جماعت کے بارے میں بھی کی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں میں فطری طور پر موجود لچک پر غور کرنے کے بجائے ذہن پر زیادہ زور وہ داؤ اور ہتھکنڈے تلاش کرنے پر دیا جا رہا ہے جو یہ واضح کر سکے کہ کن کن بنیادوں پر فلاں فلاں جماعت اور اس کے رہنما کون کون سی جماعت اور اس کے رہنماؤں کو مرکز یا صوبوں میں حکومت سازی کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ اس میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ مختصراََ ہم اپنے تمام سیاسی رہنماؤں کو محض ضدی SPOILERS کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
پنجابی کا محاورہ ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' مجھے اپنے لوگوں کی باتیں سن کر اکثر یاد آنا شروع ہو گیا ہے۔ مگر دل ہی دل میں سوچتا رہتا ہوں کہ شاید برسوں تک پھیلائے گئے لاحاصل غیر جمہوری نظاموں کو بھگتنے کے بعد ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت یہ دریافت کر چکی ہے کہ ایک دوسرے کی احمقانہ ضد کے ساتھ گیم خراب کرتے ہوئے سیاست دان بالآخر پورے جمہوری کھیل کی بساط اُلٹا دیتے ہیں جو غیر سیاسی قوتوں کو ''میرے عزیز ہم وطنوں'' کہہ دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 11 مئی کی صبح میں اپنے لوگوں سے بڑی بالغ نظری کی توقع کر رہا ہوں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ہماری خلقِ خدا کا اجتماعی فیصلہ میرے ملک کے لیے خیر کی خبریں ہی لائے گا۔