ہیٹ ٹرک
طاہر القادری نے دو ہزار بارہ کے سرد موسم میں سیاست کو اور لاہور کو گرما دیا۔
نوازشریف دو مرتبہ زبردست اکثریت والی حکومتیں گنواچکے ہیں۔ ان کی دو تہائی والی مضبوط حکومتوں کو دو ڈھائی برسوں میں چلتا کردیا گیا۔ ایک مرتبہ صدر غلام اسحق خان نے تو دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف نے۔ حکومتوں کے چھن جانے کے بعد وطن کی مٹی سے دوری نے نوازشریف کو بہت زیادہ سمجھدار بنادیا۔
دس سالہ جلاوطنی کے دوران انھوں نے پہلے بے نظیر سے بعد میں آصف زرداری سے معاہدے کیے۔ مقصد یہی تھا کہ ہر حکومت اپنی پانچ سالہ معیاد مکمل کرے۔ اسی رجحان نے انھیں مائل کیا کہ جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تو اسے احتجاج کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے پچھلے پانچ برسوں میں ایک دوسرے سے کیا حاصل کیا اور اب مستقبل میں کیا حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ آج ہم دو بڑے لیڈروں کی نفسیاتی کیفیت سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس راستے میں ہم یہ بھی جانیں گے کہ نون لیگ کے لوگ رسی کو سانپ سمجھ کر کیوں خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
آصف زرداری اور نوازشریف 2008میں سیاست کے بڑے کھلاڑی بن کر سامنے آئے۔ ایک طرف دس سالہ قید تھی تو دوسری طرف ایک عشرے کی جلاوطنی۔ اس رسہ کشی میں تین سوالات میاں صاحب سے پوچھے گئے۔ وفاق میں حکومت یا مشرف کی رخصتی، تیس سالہ سیاست اور ساٹھ سالہ زندگی میں اگر کوئی ناپسندیدہ شخصیت ہے تو وہ پرویز مشرف ہیں۔ دوسرا سوال دلچسپ تھا۔ کچھ لو کچھ دو والے آصف زرداری نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی پابندی ختم کی۔ اب یہ پابندی صرف نواز شریف کے لیے تھی کہ بے نظیر تودنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔
مصالحت یا مزاحمت؟ کے تیسرے سوال کا جواب میاں صاحب نے نرمی سے دیا کہ وہ اپنی دو مضبوط حکومتیں سیاسی پارٹیوں سے ٹکراؤ کے سبب گنوا چکے تھے۔ میاں برادران اور ان کے ساتھی ایک ایک دن گزار رہے تھے۔ یہ نظر آرہا تھا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ اب اس اگلی باری میں کوئی بادل رکاوٹیں بننے لگتے ہیں تو رائے ونڈ میں ناگواری و ناراضی کی بارش برسنے لگتی۔ دو ہزار گیارہ، بارہ اور تیرہ میں نواز شریف کو تین جھٹکے سہنے پڑے۔ سرد موسموں میں گرما گرما جھٹکے اور پے درپے تین جھٹکے گویا کوئی قسمت روٹھ جانے کی ہیٹ ٹرک کرنے لگی ہو۔ ڈوب کر ابھرنے والے شریفوں کو ابتداء میں گھبراہٹ نہیں دکھانی چاہیے۔
عمران خان پہلا خطرہ بن کر شریفوں کے ساتھیوں کے ذہنوں پر سوار ہوئے۔ جب فروری 97کے رومانوی موسم میں وہ چھ ماہ کی پارٹی لیے میدان میں آئے تھے تب بھی مضبوط مسلم لیگ کے اعصاب جواب دینے لگے تھے۔ دو ہزار گیارہ کے سرد موسم میں لاکھوں کا جلسہ بدلتی رتوں کا پیغام سمجھا جانے لگا۔ اب نواز لیگ کا میڈیا سیل میدان میں آیا۔ جب چھ ماہ کی دودھ پیتی پارٹی کو خطرہ سمجھا جانے لگا تو سولہ سترہ سال کی جوانوں کو اپیل کرتی پارٹی کو کس طرح نظرانداز کیا جاسکتا تھا؟ سیتا وائٹ کے الزامات اور جمائما پر ٹائلوں کی اسمگلنگ والے الزامات پرانے ہوچکے تھے۔
اب آئی ایس آئی اور جنرل پاشا کے الزامات لگائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) جیسی مضبوط پارٹی کے تجربے کار سیاستدان توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ وہ چودہ سال سے اسلام آباد کے اقتدار سے محرومی کے دکھ جھیل رہے ہیں۔ وہ پانچ سال تک زرداری کو گوارا اس شرط پر کر رہے تھے کہ اب اگلا نصف عشرہ ان کا ہوگا۔ انھوں نے تحریک انصاف کی مقبولیت کو اپنے لیے خطرے کا سگنل سمجھنا شروع کردیا۔ مشکل سے درخت کی آبیاری کے بعد پھل نکلنے کے موسم کی ابتداء محسوس کی جارہی تھی۔ جب عمران خان اپنے ساتھ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کو لے کر آگے بڑھے تو چوہدری نثار، راؤ رشید جیسے سلجھے ہوئے لوگ اسے پتھروں کی بارش سمجھتے ہیں۔انھیں اپنے پیروں سے زمین سرکتی محسوس ہونے لگی۔ جب عمران نے نوجوانوں کی بات کہی تو اس کے توڑ کے لیے لیپ ٹاپ کی تقسیم کا پروگرام بنا۔
اربوں روپوں سے یوتھ فیسٹیول کے پروگرام بنائے گئے۔ مقابل کی طاقت کا مظاہرہ اپنے میدان میں۔ ایسا مظاہرہ ایم کیوایم نے کراچی میں دیکھ کر سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا۔ متحدہ نے عمران خان اور فضل الرحمن کو کراچی میں بڑے جلسوں کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ ایسے ہی ظرف کا مظاہرہ نواز شریف کے ساتھیوں سے کی جانے کی توقع پر لیگیوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔ اگر ایک واقعہ ہوتا تو گوارا تھا لیکن رائے ونڈ کو سیاسی قبلہ بنانے والے بپھر جانے اور بگڑ جانے کی ہیٹ ٹرک کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ عمران سے بگڑنا 2011 کا بگڑنا تھا۔
طاہر القادری نے دو ہزار بارہ کے سرد موسم میں سیاست کو اور لاہور کو گرما دیا۔ پھر وہ لاہور سے اسلام آباد گئے۔ پنجاب کے دارالخلافے سے وفاق کے دارالخلافے کا پروگرام تو نون لیگ بنارہی تھی۔ اب ان دو مقامات پر ڈیرے ڈال کر انھوں نے ایک مرتبہ پھر رائے ونڈ والوں کو گرما دیا۔ اس مرتبہ بھی نواز شریف کے ساتھیوں سے سنجیدگی کی توقع تھی۔ پندرہ سالہ اقتدار، دس سالہ جلاوطنی اور پھر پانچ سالہ پنجاب کا اقتدار۔ یہ تجربہ کوئی کم نہ تھا۔ جب پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف قادری دھرنے پر بپھرے نہیں رہے تھے اور بگڑ نہیں رہے تھے تو مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کو بھی ''انتظار کرو'' والی پالیسی اپنانی چاہیے تھی۔ انھیں ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو'' والے محاورے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ ایک بالغ نظر پارٹی سے بالغ نظر فیصلوں کی توقع تھی۔
اقتدار و اپوزیشن کے علاوہ جلاوطنی و مقدمے بھگتنے کا لیگیوں کا اتنا تجربہ ہوتو ایک کالم نگار کو یہ توقع باندھنی ہی چاہیے۔ اگر سخت سرد موسم والے ''قادری دھرنے'' پر طنز کی بوچھاڑ نہ کی جاتی تو اسلام آباد کی بارشوں میں لیگیوں کے دھرنے کو ''دھرنی'' نہ کہا جاتا۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسلام آباد کا اقتدار لاہور سے ہوکر جاتا ہے۔ مقبولیت کے دعوے دار ہر مرتبہ زندہ دلان لاہور کے دلوں پر دستک دیں گے۔ اس پر رائے ونڈ کے رہائشیوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے علاوہ ایک تیسری شخصیت بھی ہے جس نے پنجابیوں کو خوش کرنے کی خاطر شریفوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔ شاید اسے پرواہ نہ ہو لیکن یہ شریف برادران کی ناراضگی کی ہیٹ ٹرک ہونے جارہی ہے۔پنجاب میں بظاہر پیچھے رہ جانے والی پیپلز پارٹی شریفوں کے لیے دھماکے کی سالگرہ پر دھماکہ کرسکتی ہے۔
آصف زرداری نے بھٹو کی مقبولیت اور بے نظیر کی تربیت کی بدولت ایک تیز طرار سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وہ چار سال تک نواز شریف کو اگلی باری دینے کا تاثر دیتے رہے۔ ''پنجاب میں تم اور سندھ میں ہم'' کا سا سماں باندھ کر زرداری نے پانچ برس نکال دیے۔ پھر پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبے کی تشکیل کی بات آگے بڑھا کر نواز شریف کو چونکا دیا۔ یوں جوابی حملے کے لیے (ن)لیگ نے اپنے قائد کو سندھ میں آگے بڑھایا۔ پیر پگاڑا اور قادرمگسی سے معاہدے پنجاب میں زرداری کی پیش قدمی کا جواب تھا۔ پیپلز پارٹی نے منظور وٹو کو صوبائی صدر بناکر اور پھر پنجاب کی گورنری محمد احمد کو سونپ کر نہلے پہ دہلا مارا۔ پھر نواز شریف کے سیاسی مرکز سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر جدید اور شاندار سیکریٹریٹ ایک اور پیغام ہے۔
ایسا پیغام کہ لاہور اور پنجاب میں مقابلہ ہوگا۔ اسے نواز شریف کے ساتھیوں کے حوالے اس طرح نہیں کیا جاسکتا جس طرح کہ یہ پچھلے تیس برسوں سے ہے۔ پیپلزپارٹی 77 کے بعد سے پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ نہیں لاسکی۔ یہ خواہش لیے بے نظیر دنیا سے چلی گئیں۔ اب اپنی ماں کے اس خواب کی تعبیر کے لیے بلاول کو انتظار کرنا پڑے گا کہ طبل جنگ بج چکا ہے عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے معرکے کے لیے۔
دوسرا معرکہ آصف زرداری اور شریف میں تب ہوگا جب آصف مقابل کے مقابل نصف نشستوں کے ہوتے ہوئے بھی اقتدار کا کھیل کھیلیں گے۔ عمران خان، طاہر القادری اور آصف زرداری کے آگے بڑھنے کو ہیٹ ٹرک نہیں سمجھا چاہیے۔ کوئی بھی اسلام آباد میں اقتدار کا تصور لاہور کے بغیر نہیں کرسکتا۔ نواز شریف کے ساتھیوں کو لاہور کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے ان مقامات پر وقت دینا چاہیے۔ ''صبح آمد اور شام روانگی'' شاید اب نہ چل سکے۔ لاہور میں دوسروں کی آمد اور لاہوریوں کی دوسرے شہروں و صوبوں میں روانگی وفاق پاکستان کو مضبوط کرے گی۔ سیاسی مخالفت ایک دائرے میں ہونی چاہیے، اس میں تلخی اور دشمنی کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ کوئی لاہور آکر ہم سے کچھ چھیننا چاہتا ہے۔ لاہور پہلے بھٹو کا دیوانہ تھا تو کراچی مذہبی پارٹیوں کا۔
گاھک جی ہاں،گاھک کی طرح ووٹر کی رائے بھی بدلتی رہتی ہے۔ وہ کسی بھی سیاسی دکان سے سودا نہیں لے سکتا ہے۔ اسے وہ مال چاہیے جو اس کے بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کے لیے بہتر ہو۔ نواز شریف کو اپنی سیاسی دکان کے قریب کھل جانے والی نئی یا پرانی سیاسی دکانوں سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ نواز کے ساتھی کبھی عمران تو کبھی طاہر القادری تو کبھی آصف کی لاہور آمد کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ 40 سال قبل بھٹو نے لاہوریوں کے دل پر دستک دی، 20 سال قبل نواز شریف نے تو اب عمران نے۔ لیگیوں کو نہیں گھبرانا چاہیے لاہوریوں کی اس ہیٹ ٹرک پر۔ لاہوری توکرتے ہی رہتے ہیں ہر بیس سال بعد تبدیلیاں۔ ممکن ہے وہ اس برس کر جائیں تبدیلی کی ہیٹ ٹرک؟
دس سالہ جلاوطنی کے دوران انھوں نے پہلے بے نظیر سے بعد میں آصف زرداری سے معاہدے کیے۔ مقصد یہی تھا کہ ہر حکومت اپنی پانچ سالہ معیاد مکمل کرے۔ اسی رجحان نے انھیں مائل کیا کہ جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تو اسے احتجاج کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے پچھلے پانچ برسوں میں ایک دوسرے سے کیا حاصل کیا اور اب مستقبل میں کیا حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ آج ہم دو بڑے لیڈروں کی نفسیاتی کیفیت سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس راستے میں ہم یہ بھی جانیں گے کہ نون لیگ کے لوگ رسی کو سانپ سمجھ کر کیوں خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
آصف زرداری اور نوازشریف 2008میں سیاست کے بڑے کھلاڑی بن کر سامنے آئے۔ ایک طرف دس سالہ قید تھی تو دوسری طرف ایک عشرے کی جلاوطنی۔ اس رسہ کشی میں تین سوالات میاں صاحب سے پوچھے گئے۔ وفاق میں حکومت یا مشرف کی رخصتی، تیس سالہ سیاست اور ساٹھ سالہ زندگی میں اگر کوئی ناپسندیدہ شخصیت ہے تو وہ پرویز مشرف ہیں۔ دوسرا سوال دلچسپ تھا۔ کچھ لو کچھ دو والے آصف زرداری نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی پابندی ختم کی۔ اب یہ پابندی صرف نواز شریف کے لیے تھی کہ بے نظیر تودنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔
مصالحت یا مزاحمت؟ کے تیسرے سوال کا جواب میاں صاحب نے نرمی سے دیا کہ وہ اپنی دو مضبوط حکومتیں سیاسی پارٹیوں سے ٹکراؤ کے سبب گنوا چکے تھے۔ میاں برادران اور ان کے ساتھی ایک ایک دن گزار رہے تھے۔ یہ نظر آرہا تھا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ اب اس اگلی باری میں کوئی بادل رکاوٹیں بننے لگتے ہیں تو رائے ونڈ میں ناگواری و ناراضی کی بارش برسنے لگتی۔ دو ہزار گیارہ، بارہ اور تیرہ میں نواز شریف کو تین جھٹکے سہنے پڑے۔ سرد موسموں میں گرما گرما جھٹکے اور پے درپے تین جھٹکے گویا کوئی قسمت روٹھ جانے کی ہیٹ ٹرک کرنے لگی ہو۔ ڈوب کر ابھرنے والے شریفوں کو ابتداء میں گھبراہٹ نہیں دکھانی چاہیے۔
عمران خان پہلا خطرہ بن کر شریفوں کے ساتھیوں کے ذہنوں پر سوار ہوئے۔ جب فروری 97کے رومانوی موسم میں وہ چھ ماہ کی پارٹی لیے میدان میں آئے تھے تب بھی مضبوط مسلم لیگ کے اعصاب جواب دینے لگے تھے۔ دو ہزار گیارہ کے سرد موسم میں لاکھوں کا جلسہ بدلتی رتوں کا پیغام سمجھا جانے لگا۔ اب نواز لیگ کا میڈیا سیل میدان میں آیا۔ جب چھ ماہ کی دودھ پیتی پارٹی کو خطرہ سمجھا جانے لگا تو سولہ سترہ سال کی جوانوں کو اپیل کرتی پارٹی کو کس طرح نظرانداز کیا جاسکتا تھا؟ سیتا وائٹ کے الزامات اور جمائما پر ٹائلوں کی اسمگلنگ والے الزامات پرانے ہوچکے تھے۔
اب آئی ایس آئی اور جنرل پاشا کے الزامات لگائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) جیسی مضبوط پارٹی کے تجربے کار سیاستدان توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ وہ چودہ سال سے اسلام آباد کے اقتدار سے محرومی کے دکھ جھیل رہے ہیں۔ وہ پانچ سال تک زرداری کو گوارا اس شرط پر کر رہے تھے کہ اب اگلا نصف عشرہ ان کا ہوگا۔ انھوں نے تحریک انصاف کی مقبولیت کو اپنے لیے خطرے کا سگنل سمجھنا شروع کردیا۔ مشکل سے درخت کی آبیاری کے بعد پھل نکلنے کے موسم کی ابتداء محسوس کی جارہی تھی۔ جب عمران خان اپنے ساتھ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کو لے کر آگے بڑھے تو چوہدری نثار، راؤ رشید جیسے سلجھے ہوئے لوگ اسے پتھروں کی بارش سمجھتے ہیں۔انھیں اپنے پیروں سے زمین سرکتی محسوس ہونے لگی۔ جب عمران نے نوجوانوں کی بات کہی تو اس کے توڑ کے لیے لیپ ٹاپ کی تقسیم کا پروگرام بنا۔
اربوں روپوں سے یوتھ فیسٹیول کے پروگرام بنائے گئے۔ مقابل کی طاقت کا مظاہرہ اپنے میدان میں۔ ایسا مظاہرہ ایم کیوایم نے کراچی میں دیکھ کر سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا۔ متحدہ نے عمران خان اور فضل الرحمن کو کراچی میں بڑے جلسوں کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ ایسے ہی ظرف کا مظاہرہ نواز شریف کے ساتھیوں سے کی جانے کی توقع پر لیگیوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔ اگر ایک واقعہ ہوتا تو گوارا تھا لیکن رائے ونڈ کو سیاسی قبلہ بنانے والے بپھر جانے اور بگڑ جانے کی ہیٹ ٹرک کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ عمران سے بگڑنا 2011 کا بگڑنا تھا۔
طاہر القادری نے دو ہزار بارہ کے سرد موسم میں سیاست کو اور لاہور کو گرما دیا۔ پھر وہ لاہور سے اسلام آباد گئے۔ پنجاب کے دارالخلافے سے وفاق کے دارالخلافے کا پروگرام تو نون لیگ بنارہی تھی۔ اب ان دو مقامات پر ڈیرے ڈال کر انھوں نے ایک مرتبہ پھر رائے ونڈ والوں کو گرما دیا۔ اس مرتبہ بھی نواز شریف کے ساتھیوں سے سنجیدگی کی توقع تھی۔ پندرہ سالہ اقتدار، دس سالہ جلاوطنی اور پھر پانچ سالہ پنجاب کا اقتدار۔ یہ تجربہ کوئی کم نہ تھا۔ جب پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف قادری دھرنے پر بپھرے نہیں رہے تھے اور بگڑ نہیں رہے تھے تو مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کو بھی ''انتظار کرو'' والی پالیسی اپنانی چاہیے تھی۔ انھیں ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو'' والے محاورے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ ایک بالغ نظر پارٹی سے بالغ نظر فیصلوں کی توقع تھی۔
اقتدار و اپوزیشن کے علاوہ جلاوطنی و مقدمے بھگتنے کا لیگیوں کا اتنا تجربہ ہوتو ایک کالم نگار کو یہ توقع باندھنی ہی چاہیے۔ اگر سخت سرد موسم والے ''قادری دھرنے'' پر طنز کی بوچھاڑ نہ کی جاتی تو اسلام آباد کی بارشوں میں لیگیوں کے دھرنے کو ''دھرنی'' نہ کہا جاتا۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسلام آباد کا اقتدار لاہور سے ہوکر جاتا ہے۔ مقبولیت کے دعوے دار ہر مرتبہ زندہ دلان لاہور کے دلوں پر دستک دیں گے۔ اس پر رائے ونڈ کے رہائشیوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے علاوہ ایک تیسری شخصیت بھی ہے جس نے پنجابیوں کو خوش کرنے کی خاطر شریفوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔ شاید اسے پرواہ نہ ہو لیکن یہ شریف برادران کی ناراضگی کی ہیٹ ٹرک ہونے جارہی ہے۔پنجاب میں بظاہر پیچھے رہ جانے والی پیپلز پارٹی شریفوں کے لیے دھماکے کی سالگرہ پر دھماکہ کرسکتی ہے۔
آصف زرداری نے بھٹو کی مقبولیت اور بے نظیر کی تربیت کی بدولت ایک تیز طرار سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وہ چار سال تک نواز شریف کو اگلی باری دینے کا تاثر دیتے رہے۔ ''پنجاب میں تم اور سندھ میں ہم'' کا سا سماں باندھ کر زرداری نے پانچ برس نکال دیے۔ پھر پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبے کی تشکیل کی بات آگے بڑھا کر نواز شریف کو چونکا دیا۔ یوں جوابی حملے کے لیے (ن)لیگ نے اپنے قائد کو سندھ میں آگے بڑھایا۔ پیر پگاڑا اور قادرمگسی سے معاہدے پنجاب میں زرداری کی پیش قدمی کا جواب تھا۔ پیپلز پارٹی نے منظور وٹو کو صوبائی صدر بناکر اور پھر پنجاب کی گورنری محمد احمد کو سونپ کر نہلے پہ دہلا مارا۔ پھر نواز شریف کے سیاسی مرکز سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر جدید اور شاندار سیکریٹریٹ ایک اور پیغام ہے۔
ایسا پیغام کہ لاہور اور پنجاب میں مقابلہ ہوگا۔ اسے نواز شریف کے ساتھیوں کے حوالے اس طرح نہیں کیا جاسکتا جس طرح کہ یہ پچھلے تیس برسوں سے ہے۔ پیپلزپارٹی 77 کے بعد سے پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ نہیں لاسکی۔ یہ خواہش لیے بے نظیر دنیا سے چلی گئیں۔ اب اپنی ماں کے اس خواب کی تعبیر کے لیے بلاول کو انتظار کرنا پڑے گا کہ طبل جنگ بج چکا ہے عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے معرکے کے لیے۔
دوسرا معرکہ آصف زرداری اور شریف میں تب ہوگا جب آصف مقابل کے مقابل نصف نشستوں کے ہوتے ہوئے بھی اقتدار کا کھیل کھیلیں گے۔ عمران خان، طاہر القادری اور آصف زرداری کے آگے بڑھنے کو ہیٹ ٹرک نہیں سمجھا چاہیے۔ کوئی بھی اسلام آباد میں اقتدار کا تصور لاہور کے بغیر نہیں کرسکتا۔ نواز شریف کے ساتھیوں کو لاہور کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے ان مقامات پر وقت دینا چاہیے۔ ''صبح آمد اور شام روانگی'' شاید اب نہ چل سکے۔ لاہور میں دوسروں کی آمد اور لاہوریوں کی دوسرے شہروں و صوبوں میں روانگی وفاق پاکستان کو مضبوط کرے گی۔ سیاسی مخالفت ایک دائرے میں ہونی چاہیے، اس میں تلخی اور دشمنی کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ کوئی لاہور آکر ہم سے کچھ چھیننا چاہتا ہے۔ لاہور پہلے بھٹو کا دیوانہ تھا تو کراچی مذہبی پارٹیوں کا۔
گاھک جی ہاں،گاھک کی طرح ووٹر کی رائے بھی بدلتی رہتی ہے۔ وہ کسی بھی سیاسی دکان سے سودا نہیں لے سکتا ہے۔ اسے وہ مال چاہیے جو اس کے بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کے لیے بہتر ہو۔ نواز شریف کو اپنی سیاسی دکان کے قریب کھل جانے والی نئی یا پرانی سیاسی دکانوں سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ نواز کے ساتھی کبھی عمران تو کبھی طاہر القادری تو کبھی آصف کی لاہور آمد کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ 40 سال قبل بھٹو نے لاہوریوں کے دل پر دستک دی، 20 سال قبل نواز شریف نے تو اب عمران نے۔ لیگیوں کو نہیں گھبرانا چاہیے لاہوریوں کی اس ہیٹ ٹرک پر۔ لاہوری توکرتے ہی رہتے ہیں ہر بیس سال بعد تبدیلیاں۔ ممکن ہے وہ اس برس کر جائیں تبدیلی کی ہیٹ ٹرک؟