متحدہ کی پیش رفت
متحدہ اس سے قبل بھی سندھ کے علاوہ آزاد کشمیر اسمبلی میں دو اور گلگت بلتستان میں ایک نشست رکھتی ہے.
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ متحدہ نے ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے اپنے 671 امیدوار کھڑے کیے ہیں اور پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں متحدہ کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں اور اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
متحدہ نے جب سے انتخابی عمل میں حصہ لینا شروع کیا، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کراچی اور ملک بھر میں جاری دہشت گردی کے باعث متحدہ کراچی میں بڑے انتخابی جلسے نہیں کرسکی اور حیدر آباد، سکھر، میرپورخاص کے بعد پنجاب کے شہر جہانیاں میں متحدہ کے جلسوں سے الطاف حسین نے خطاب کیا، مگر منگل کو عمران خان کے زخمی ہوجانے کے باعث راولپنڈی، سیالکوٹ، بھکر اور اسلام آباد میں ہونے والے متحدہ کے جلسوں سے خطاب الطاف حسین نے ملتوی کردیا۔
کراچی متحدہ کا اہم گڑھ ہے، جہاں متحدہ نے حسب سابق تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں اور ملک بھر میں بھی متحدہ نے اپنے جو 671 امیدوار کھڑے کیے ہیں، وہاں بھی متحدہ نے کسی بھی سیاسی جماعت یا اپنے کسی بھی سابق حلیف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، البتہ سندھ میں متعدد دیگر پارٹیوں کے یا آزاد امیدوار متحدہ کے امیدواروں کے حق میں دستبردار ضرور ہوئے ہیں۔
متحدہ اس سے قبل بھی سندھ کے علاوہ آزاد کشمیر اسمبلی میں دو اور گلگت بلتستان میں ایک نشست رکھتی ہے اور کراچی سے باہر متحدہ کی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور متحدہ کو کراچی اور حیدر آباد میں اپنے الیکشن دفاتر کے باہر بم دھماکوں سے اپنے کارکنوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باعث انتخابی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں اور کلفٹن ڈیفنس میں متحدہ نے انتخابی ریلیاں نکالیں جن میں کارکنوں کا جوش دیکھنے جیسا تھا۔
متحدہ کے گڑھ کراچی میں صرف متحدہ ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی بھی کوئی بڑا جلسہ منعقد نہیں کرسکیں۔ تحریک انصاف نے کراچی کا اپنا جلسہ منسوخ کیا اور صرف جماعت اسلامی ہی کراچی میں ایک بڑا جلسہ متحدہ کے یوم سوگ پر کرسکی ہے جب کہ کارنر میٹنگز ہی ہوتی رہیں اور عمران خان کے سوا کسی قومی رہنما نے کراچی آنے کی زحمت گورا نہیں کی۔
2008 میں متحدہ کو کراچی میں کھلا انتخابی میدان کھیلنے کو ملا تھا کیونکہ کراچی میں متحدہ کی سب سے بڑی حریف جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے متحدہ کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں مگر اب کراچی میں بھی صورت حال مختلف ہے جہاں اسے اپنے اکثریتی حلقوں میں نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ دس جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدواروں سے مقابلہ درپیش ہے اور بعض حلقوں میں یہ مقابلہ سخت بھی ہے۔ کراچی میں اتحادی امیدواروں کے علاوہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے امیدوار بھی متحدہ کے مقابلے میں ہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی، جے یو پی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے بھی ووٹ ہیں اور کراچی میں متحدہ کے ووٹ توڑنے میں تحریک انصاف سب سے آگے ہے، بعض حلقوں میں حقیقی نے بھی خاص طور پر متحدہ کی مخالفت میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جنھیں ایک مذہبی جماعت کی حمایت حاصل ہے اور اہل تشیع کی ایک جماعت وحدت المسلمین بھی پہلی بار انتخابی میدان میں ہے جس سے بھی متحدہ اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہوگا۔
کراچی میں متحدہ نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر چار بار سوگ مناکر کاروبار بند کرنے کی اپیل کی جب کہ اے این پی نے اپنے 11 کارکنوں کی ہلاکت پر سوگ ضرور منایا مگر کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند نہیں کرائی جس سے متحدہ کے خلاف منفی سوچ ابھری ۔ شہر کو بند رکھنے کی سیاست مہلک ترین ثابت ہوسکتی ہے۔کیونکہ شہر کی بری معاشی صورت حال میں ہڑتالیں اب غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ متحدہ دس سال تک جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کی اتحادی اور اقتدار میں رہی ہے۔ متحدہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی نظامت میں جو تعمیری اور ترقیاتی کام کراچی میں کرائے وہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جسے متحدہ کے مخالفین نے بھی تسلیم کیا اور دنیا بھر میں بھی متحدہ کے ناظمین کی کارکردگی کو سراہا گیا۔
متحدہ نے ہی صدر زرداری کو نامزد کیا تھا اور 5 سال پہلی بار متحدہ پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی رہی مگر پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت سے اپنے علاقوں کی ترقی کے لیے کوئی خاص کام اور فنڈ نہ لے سکی اور ضلعی نظام ختم ہونے کے بعد صرف اپنے ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے ہی اپنے علاقوں میں تعمیری و ترقیاتی کام کراسکی جب کہ متحدہ کے ناظمین کا یہ دعویٰ تھا کہ انھوں نے بلا امتیاز تعمیری و ترقیاتی کام کرائے جن میں سب سے اہم کراچی کے جزیروں میں پانی کی فراہمی بھی تھی۔
پی پی کے دور حکومت میں متحدہ شریک اقتدار ضرور تھی مگر خود کو بے بس کہتی رہی ۔ اہم وزارتیں پی پی نے خود رکھی ہوئی تھیں اور لیاری کے سوا پی پی نے کراچی کے کسی علاقے کو اہمیت نہیں دی بلکہ کراچی دشمنی کی پالیسی برقرار رکھی جب کہ متحدہ سے معاہدے کے باوجود بلدیاتی انتخابات اس لیے نہیں کرائے کہ کراچی و حیدر آباد کا شہری اقتدار متحدہ کو مل جائے گا۔ متحدہ نے آصف زرداری کو صدر بنوایا۔ پی پی پی کی وفاقی حکومت برقرار رکھوائی مگر پی پی نے متحدہ کو شہری نظام میں بھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا۔ متحدہ حکومت سے ایک ماہ قبل الگ ہوئی اور پی پی پی کی مرضی کا نگراں وزیر اعلیٰ سندھ میں بنوایا اور اسی نگراں حکومت میں متحدہ کراچی میں آزادی سے انتخابی مہم نہیں چلا پائی۔
جنرل پرویز مشرف کا دور متحدہ کے لیے ایک سنہرا دور تھا جس میں متحدہ نے کھل کر کام کیا اور اپنے کاموں سے اندرون ملک بھی پذیرائی حاصل کی اور اپنے علاقوں کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی کام کرائے۔ اندرون سندھ اس وقت متحدہ نے اپنے دفاتر قائم کیے تھے جہاں لوگ اپنے کاموں کے لیے آتے تو انھیں عزت سے کرسی پر بٹھایا جاتا، ان کے مسائل حل کرائے جاتے تھے جس کی وجہ سے اندرون سندھ لوگوں کو ایک سہارا مل گیا تھا اور وڈیروں سرداروں کے مقابلے میں متحدہ کے ذمے دار لوگوں کی سنتے اور ان کے مسائل حل کراتے تھے۔ اگر 12 مئی کا درد ناک واقعہ نہ ہوا ہوتا تو اندرون ملک خصوصاً سندھ میں متحدہ اپنی ساکھ بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی اور متحدہ کے مخالفین کی طرف سے متحدہ کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ ناکام ہوگیا تھا اور سندھ میں متحدہ کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا تھا۔
2013 کے انتخابات میں عام تاثر ہے کہ متحدہ کو سخت مقابلہ درپیش ہے جس سے متحدہ کی موجودہ نشستیں متاثر ضرور ہوں گی مگر متحدہ اس پوزیشن میں ضرور آجائے گی کہ سندھ اور پاکستان میں (ن) لیگ، پی پی، تحریک انصاف اور 10 جماعتی اتحاد کو حکومت بنانے کے لیے متحدہ کو ساتھ ملانا پڑے گا اور اندرون ملک بھی متحدہ کے امیدوار پہلی بار اپنے حلقوں سے پہلے سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
متحدہ نے جب سے انتخابی عمل میں حصہ لینا شروع کیا، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کراچی اور ملک بھر میں جاری دہشت گردی کے باعث متحدہ کراچی میں بڑے انتخابی جلسے نہیں کرسکی اور حیدر آباد، سکھر، میرپورخاص کے بعد پنجاب کے شہر جہانیاں میں متحدہ کے جلسوں سے الطاف حسین نے خطاب کیا، مگر منگل کو عمران خان کے زخمی ہوجانے کے باعث راولپنڈی، سیالکوٹ، بھکر اور اسلام آباد میں ہونے والے متحدہ کے جلسوں سے خطاب الطاف حسین نے ملتوی کردیا۔
کراچی متحدہ کا اہم گڑھ ہے، جہاں متحدہ نے حسب سابق تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں اور ملک بھر میں بھی متحدہ نے اپنے جو 671 امیدوار کھڑے کیے ہیں، وہاں بھی متحدہ نے کسی بھی سیاسی جماعت یا اپنے کسی بھی سابق حلیف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، البتہ سندھ میں متعدد دیگر پارٹیوں کے یا آزاد امیدوار متحدہ کے امیدواروں کے حق میں دستبردار ضرور ہوئے ہیں۔
متحدہ اس سے قبل بھی سندھ کے علاوہ آزاد کشمیر اسمبلی میں دو اور گلگت بلتستان میں ایک نشست رکھتی ہے اور کراچی سے باہر متحدہ کی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور متحدہ کو کراچی اور حیدر آباد میں اپنے الیکشن دفاتر کے باہر بم دھماکوں سے اپنے کارکنوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باعث انتخابی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں اور کلفٹن ڈیفنس میں متحدہ نے انتخابی ریلیاں نکالیں جن میں کارکنوں کا جوش دیکھنے جیسا تھا۔
متحدہ کے گڑھ کراچی میں صرف متحدہ ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی بھی کوئی بڑا جلسہ منعقد نہیں کرسکیں۔ تحریک انصاف نے کراچی کا اپنا جلسہ منسوخ کیا اور صرف جماعت اسلامی ہی کراچی میں ایک بڑا جلسہ متحدہ کے یوم سوگ پر کرسکی ہے جب کہ کارنر میٹنگز ہی ہوتی رہیں اور عمران خان کے سوا کسی قومی رہنما نے کراچی آنے کی زحمت گورا نہیں کی۔
2008 میں متحدہ کو کراچی میں کھلا انتخابی میدان کھیلنے کو ملا تھا کیونکہ کراچی میں متحدہ کی سب سے بڑی حریف جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے متحدہ کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں مگر اب کراچی میں بھی صورت حال مختلف ہے جہاں اسے اپنے اکثریتی حلقوں میں نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ دس جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدواروں سے مقابلہ درپیش ہے اور بعض حلقوں میں یہ مقابلہ سخت بھی ہے۔ کراچی میں اتحادی امیدواروں کے علاوہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے امیدوار بھی متحدہ کے مقابلے میں ہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی، جے یو پی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے بھی ووٹ ہیں اور کراچی میں متحدہ کے ووٹ توڑنے میں تحریک انصاف سب سے آگے ہے، بعض حلقوں میں حقیقی نے بھی خاص طور پر متحدہ کی مخالفت میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جنھیں ایک مذہبی جماعت کی حمایت حاصل ہے اور اہل تشیع کی ایک جماعت وحدت المسلمین بھی پہلی بار انتخابی میدان میں ہے جس سے بھی متحدہ اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہوگا۔
کراچی میں متحدہ نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر چار بار سوگ مناکر کاروبار بند کرنے کی اپیل کی جب کہ اے این پی نے اپنے 11 کارکنوں کی ہلاکت پر سوگ ضرور منایا مگر کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند نہیں کرائی جس سے متحدہ کے خلاف منفی سوچ ابھری ۔ شہر کو بند رکھنے کی سیاست مہلک ترین ثابت ہوسکتی ہے۔کیونکہ شہر کی بری معاشی صورت حال میں ہڑتالیں اب غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ متحدہ دس سال تک جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کی اتحادی اور اقتدار میں رہی ہے۔ متحدہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی نظامت میں جو تعمیری اور ترقیاتی کام کراچی میں کرائے وہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جسے متحدہ کے مخالفین نے بھی تسلیم کیا اور دنیا بھر میں بھی متحدہ کے ناظمین کی کارکردگی کو سراہا گیا۔
متحدہ نے ہی صدر زرداری کو نامزد کیا تھا اور 5 سال پہلی بار متحدہ پیپلز پارٹی کی اہم اتحادی رہی مگر پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت سے اپنے علاقوں کی ترقی کے لیے کوئی خاص کام اور فنڈ نہ لے سکی اور ضلعی نظام ختم ہونے کے بعد صرف اپنے ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے ہی اپنے علاقوں میں تعمیری و ترقیاتی کام کراسکی جب کہ متحدہ کے ناظمین کا یہ دعویٰ تھا کہ انھوں نے بلا امتیاز تعمیری و ترقیاتی کام کرائے جن میں سب سے اہم کراچی کے جزیروں میں پانی کی فراہمی بھی تھی۔
پی پی کے دور حکومت میں متحدہ شریک اقتدار ضرور تھی مگر خود کو بے بس کہتی رہی ۔ اہم وزارتیں پی پی نے خود رکھی ہوئی تھیں اور لیاری کے سوا پی پی نے کراچی کے کسی علاقے کو اہمیت نہیں دی بلکہ کراچی دشمنی کی پالیسی برقرار رکھی جب کہ متحدہ سے معاہدے کے باوجود بلدیاتی انتخابات اس لیے نہیں کرائے کہ کراچی و حیدر آباد کا شہری اقتدار متحدہ کو مل جائے گا۔ متحدہ نے آصف زرداری کو صدر بنوایا۔ پی پی پی کی وفاقی حکومت برقرار رکھوائی مگر پی پی نے متحدہ کو شہری نظام میں بھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا۔ متحدہ حکومت سے ایک ماہ قبل الگ ہوئی اور پی پی پی کی مرضی کا نگراں وزیر اعلیٰ سندھ میں بنوایا اور اسی نگراں حکومت میں متحدہ کراچی میں آزادی سے انتخابی مہم نہیں چلا پائی۔
جنرل پرویز مشرف کا دور متحدہ کے لیے ایک سنہرا دور تھا جس میں متحدہ نے کھل کر کام کیا اور اپنے کاموں سے اندرون ملک بھی پذیرائی حاصل کی اور اپنے علاقوں کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی کام کرائے۔ اندرون سندھ اس وقت متحدہ نے اپنے دفاتر قائم کیے تھے جہاں لوگ اپنے کاموں کے لیے آتے تو انھیں عزت سے کرسی پر بٹھایا جاتا، ان کے مسائل حل کرائے جاتے تھے جس کی وجہ سے اندرون سندھ لوگوں کو ایک سہارا مل گیا تھا اور وڈیروں سرداروں کے مقابلے میں متحدہ کے ذمے دار لوگوں کی سنتے اور ان کے مسائل حل کراتے تھے۔ اگر 12 مئی کا درد ناک واقعہ نہ ہوا ہوتا تو اندرون ملک خصوصاً سندھ میں متحدہ اپنی ساکھ بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی اور متحدہ کے مخالفین کی طرف سے متحدہ کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ ناکام ہوگیا تھا اور سندھ میں متحدہ کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا تھا۔
2013 کے انتخابات میں عام تاثر ہے کہ متحدہ کو سخت مقابلہ درپیش ہے جس سے متحدہ کی موجودہ نشستیں متاثر ضرور ہوں گی مگر متحدہ اس پوزیشن میں ضرور آجائے گی کہ سندھ اور پاکستان میں (ن) لیگ، پی پی، تحریک انصاف اور 10 جماعتی اتحاد کو حکومت بنانے کے لیے متحدہ کو ساتھ ملانا پڑے گا اور اندرون ملک بھی متحدہ کے امیدوار پہلی بار اپنے حلقوں سے پہلے سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔