وطن کی نئی تصویر

یقینا ہم سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان سے کچھ نہیں سیکھا اور نتیجتاََ ہم اپنا مشرقی بازو گنوا بیٹھے۔


Nighat Farman May 11, 2013

خواب زندگی ہوتے ہیں ۔ جتنا بڑا خواب،اتنی بڑی تعبیر،یعنی ہم جتنے بڑے خواب دیکھتے ہیں ان کی تعبیر اتنی ہی بڑی ہوتی ہے ۔خواب صرف سوتے میں نہیں ،جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی ایک خواب دیکھا تھا ان کا خواب تھا پاکستان۔۔ ۔جو شرمندۂ تعبیر ہوا اور وہ مصور پاکستان کہلائے ۔علامہ اقبال نے اور بھی بہت سے خواب دیکھے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا جب انھوں نے اللہ تعا لیٰ سے دعا کی

خدایا! آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے

اس خواب کی تعبیر جسے دیکھنی ہو وہ تحقیق کرلے ۔ دنیا بھر کی درس گاہوں میں اقبال کو پڑھایا جاتا ہے،اقبال کے فلسفۂ زندگی پر تحقیق ہورہی ہے،ان کی سوچ، فکر اور حالات زندگی پر مبنی سیکڑوں کتب ہمیں مل جائیں گی ۔ بس ہم جتنا بڑا خواب دیکھتے ہیں اتنی ہی بڑی تعبیر ہوتی ہے۔ ہم سب کا بھی ایک خواب ہے کہ اس ملک کی تقدیر بدلے اور ایسا حکمران ملے جو ہماری ڈولتی نیّا کو پار لگا دے اور اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گام زن کردے ۔ پاکستان میں امن کا بول بالا ہو اور زندگی ہر ایک کے لیے آسان ہوجائے لیکن اس خواب کی خوب صورت تعبیر جب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ملک کی باگ ڈور صحیح ہاتھوں کو سونپیں۔

گیارہ مئی عام انتخابات کا دن ہے ۔جوں جوں چناؤ کا دن قریب آرہا ہے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس میں اپنی ساری توانائیاں اور وسائل صرف کر رہی ہیں۔ انتخابات کسی بھی ملک کی فلاح، ترقی اور بقاء کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان ہی کے ذریعے ہم اپنی قیادت کو منتخب کرتے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوری عمل کا سلسلہ بار بار ٹوٹتا رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم غیر یقینی اور سیاسی و معاشی مسائل کا شکار رہے۔ لیکن خوش آیند امر یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے ۔

یہ دوسری بحث ہے کہ اس سے ہمیں کن نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ تسلسل بر قرار رہنا چاہیے۔ انتخاب میں نوجوان ووٹرز کا تناسب47 فی صد ہے اور یہی اب پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔ بد قسمتی سے نوجوان ہی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ اب یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے کہ و ہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے مستقبل کو روشن اور پاکستان کو محفوظ بنائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم سب تمام سیاسی ، لسانی ، مذہبی تعصب سے پاک ہم درد، باصلاحیت ، ذاتی مفادات سے بالاتر ، قیادت کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجیں ۔


ایسے افراد چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ہمارا انتخاب ہونا چاہئیں۔ ہم سب کو اب ہر تعصب سے پاک ہو کر صرف پاکستانی بن کر سوچنا اور فیصلہ کرنا چاہیے۔ آپس کے تمام اختلافات کو بھلا کر نئی امنگوں، جذبوں ، عزم ،حوصلے ،وقار اور جواں مردی سے سارے چیلنجز کا مقابلہ کریں اور اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے کا سفر شروع کریں ۔ غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں اگر ان سے سبق لیا جائے تو ان کا ازالہ ممکن ہے ۔ جو قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ان کا اعادہ کرتی چلی جائیں وہ تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں ۔

یقینا ہم سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان سے کچھ نہیں سیکھا اور نتیجتاََ ہم اپنا مشرقی بازو گنوا بیٹھے۔ لیکن اب ہمارے پاس غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ہم اور ہمارا پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے ہم اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے ۔ ہمیں ہی اس کا حل نکالنا ہے ۔ الیکشن نے ہمیں ایک بار پھر سے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک کی ڈوبتی نیّا کو ساحل سے لگائے اور ہمارے خواب شرمندہ تعبیر کر سکے۔ جو آزادی ، خودمختاری ، عزت ، وقار کا مفہوم جانتی ہو ۔ جو قومی یک جہتی کو فروغ دے کر ہمیں منتشر عوام سے ایک باوقار قوم میں بدل سکے۔ جو آزادی فکر و عمل کی علمبردار ہو اور انسانی حقوق کے سنہرے منشور پر عمل پیرا ہو۔

جو معاشی بدحالی کے شکار پاکستانیوں کے لیے ایسے مواقعے پیدا کرے ، جہاں ہر ایک عزت سے اپنی گزر بسر کر سکے ، جہاں صحت کی تمام سہولتیں بلا معاوضہ میسر ہوں ، جہاں امیر غریب کی تفریق سے بالا تر ہو کر تعلیمی ادارے اور جہاں یکساں نصاب تعلیم ہو، جہاں پرچی کے بجائے میرٹ معیار قرار پائے ، جہاں قانون سب کے لیے ہو ۔ جہاں تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں آزادی سے بروئے کار ہوں، جہاں ہر مذہب و مسلک کو اپنے دائرے میں رہ کر آزادی ہو،جہاں کسی کی بھی بستی نہ جلے، جہاں اپنے مفاد کے لیے کفر کے فتوے دینے کا سدباب کیا جائے ۔

جہاں کوئی بھی غاصب نہ ہو ، جہاں امن و سلامتی اور بھائی چارہ ہو۔لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم انتخابات میں ایسی روشن فکر قیادت کو اپنے ملک کی باگ ڈور سونپیں جنھیں ان مسائل کا صرف ادراک ہی نہ ہو بلکہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کے ساتھ ایک توانا ، متحرک اور جواں حوصلہ ٹیم بھی رکھتے ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی ناکامی اور کامیابی کے پیچھے لیڈر ہی کا ہاتھ ہوتا ہے، اگر ایک کمزور کو طاقتوروں کا لشکر دے دیا جائے تو وہ سارے طاقتوروں کو کمزور بنا دے گا ۔ اور اگر ایک طاقتور کوکمزوروں کی قیادت سونپ دی جائے تو وہ کمزور ، کمزور نہیں رہیں گے بلکہ طاقتور بن جائیں گے۔ آنے والے چناؤ جن پر بے یقینی کے بادل منڈلا رہے تھے پاک فوج کے سپہ سالا ر کی پر عزم یقین دہانی کے بعد اب ہوکر رہیں گے۔ ہماری ذمے دار ی ہے کہ ہم اپنے ووٹ کو اپنی طاقت بنائیں اور اپنی اور پاکستان کی قسمت بدل دیں ۔

دنیا کی ہر اک چیز بدلتی ہے شب و روز
اک سوچ کو یہ لوگ بدلنے نہیں دیتے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں