کراچی بڑی تبدیلی متوقع نہیں

سندھ کے ساحلی شہر کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں ہیں۔..

سندھ کے ساحلی شہر کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں ہیں۔ فوٹو : فائل

بالآخر وہ تاریخ آن پہنچی، جو گذشتہ چند ماہ سے موضوع بحث بنی ہوئی تھی۔ کروڑوں پاکستانیوں اور دسیوں سیاسی جماعتوں کو اِسی تاریخ کا انتظار تھا کہ آج فیصلے کا دن ہے۔ عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ ووٹ، جو اُن کی قسمت بدل سکتا ہے۔ اُن کے خوابوں کو سچ کر سکتا ہے۔

آج 11 مئی ہے۔ انتخابات کا دن۔ دہشت گردی کے واقعات کے باطن سے جنم لینے والے خدشات اپنی جگہ، مگر امید یہی ہے کہ لوگ جوق در جوق باہر نکلیں گے، جس کے نتیجے میں کئی انتخابی حلقوں میں گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے۔

سندھ کے ساحلی شہر کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں ہیں۔ کُل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 71 لاکھ 71 ہزار 237 ہے۔ روشنیوں کا یہ شہر ایم کیو ایم کی سیاست کا مرکز ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقے ہوں، یا صوبائی اسمبلی کی نشستیں، 88ء کے انتخابات سے ایم کیو ایم کا پلہ بھاری ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اِس جماعت نے قومی اسمبلی کی 17 اور صوبائی اسمبلی کی 34 سیٹوں پر کام یابی حاصل کی۔حالیہ انتخابات میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ بیش تر تجزیہ کاروں کی یہی رائے ہے کہ ایم کیو ایم اِسی بار بھی بیش تر نشستوں پر کام یابی حاصل کرے گی، البتہ چند حلقوں پر گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے۔ اِس تحریر میں ایسے ہی چند حلقوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

NA-240
یہ حلقہ مبصرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں یہاں سے ایم کیو ایم کے امیدوار، سہیل منصورخواجہ نے سخت مقابلے کے بعد پیپلزپارٹی کے امیدوار، عبداﷲ بلوچ کو شکست دی تھی۔ اِس بار سہیل منصور کو بارہ امیدواروں کا سامنا ہے۔ 2002 میں بھی یہاں فاتح ٹھہرنے والے اسرار الدین ایڈووکیٹ (ایم کیو ایم) اور مولانا شیریں محمد (متحدہ مجلس عمل) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا۔ اِس حلقے سے حصہ لینے والوں میں پی پی کے عابد حسین ستی، متحدہ دینی محاذ کے مولانا تاج محمد حنفی، جمعیت علمائے اﷲ کے مفتی فیض الحق اور تحریک انصاف کی ناز بلوچ نمایاں ہیں۔

NA-241
2008 کے انتخابات میں دس امیدواروں کو بھاری اکثریت سے شکست دینے والے ایم کیو ایم کے امیدوار، ایس اے اقبال قادری کو اِس بار این اے241 میں 18 امیدواروں کا سامنا ہے۔ دیگر امیدواروں میں پی پی پی کے علی احمد اور جماعت اسلامی کے محمد لئیق خان نمایاں ہیں۔ یاد رہے کہ 2002 میں یہاں گھمسان کا رن پڑا تھا۔ متحدہ مجلس عمل کے محمد لئیق نے فقط چند سو ووٹوں کے فرق سے کام یابی حاصل کی تھی۔ توقع کی جارہی ہے کہ اِس بار یہاں اچھا مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔

NA-248
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ بھی خبروں میں ہے۔ گذشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر نبیل گبول نے کام یابی حاصل کی تھی، تاہم اختلافات کے باعث اُنھیں پی پی سے الگ ہونا پڑا۔ اِس بار وہ ایم کیو ایم کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ وہ این اے 246 کے علاوہ اِس نشست کے امیدوار بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اس بار شاہ جہاں بلوچ کو نام زد کیا ہے۔ 13 امیدواروں کی فہرست میں ایک اہم نام پاکستان پیپلزپارٹی، شہید بھٹو گروپ کی سربراہ غنوی بھٹو کا ہے۔

NA-249
سیاسی مبصرین کراچی کا تجارتی مرکز تصور کیے جانے والے اِس حلقے میں خصوصی دل چسپی لے رہے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے راہ نما، فاروق ستار نے یہاں سے کام یابی حاصل کی تھی۔ اِس بار بھی وہ اپنی جماعت کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ اُنھیں دس امیدواروں کا سامنا ہے، جن میں پی پی پی کے عبدالعزیز میمن اور جمعیت علمائے اسلام کے محمد اویس صدیقی نمایاں ہیں۔ واضح رہے کہ 2002 کے انتخابات میں یہاں سے کام یابی حاصل کرنے والے ایم کیو ایم کے امیدوار، عامر لیاقت حسین اور متحدہ مجلس عمل کے عبدالمجید نورانی کے درمیان کڑا مقابلہ ہوا تھا۔



NA-250

جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے، کراچی کا یہ حلقہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سابق صدر، پرویز مشرف کا اِس حلقے سے انتخابات لڑنے کا اعلان، گوانتاناموبے کی قیدی عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا اُن کے خلاف میدان میں اترنا، پھر پرویز مشرف کے کاغذات کا مسترد ہونا، یہاں موجود مضبوط امیدوار۔۔۔ ایسے کئی معاملات ہیں، جو خبروں کا موضوع بنے رہے۔

حلقہ این اے 250 میں گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کی امیدوار، خوش بخت شجاعت نے کانٹے کے مقابلے کے بعد پیپلزپارٹی کے مزرا اختیار بیگ پر برتری حاصل کی تھی۔ اِس بار بھی وہ اپنی پارٹی کی نمایندگی کر رہی ہیں۔ انھیں 31 امیدواروں کا سامنا ہے، جن میں سے چند کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ اِن امیدواروں میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی اور پی پی پی کے راشد ربانی نمایاں ہیں۔ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے عبدالستار افغانی نے یہاں سے کام یابی حاصل کی۔ ان کے اور دوسرے نمبر پر آنے والی امیدوار، نسرین جلیل (ایم کیو ایم ) کے ووٹوں میں فقط دوہزار کا فرق تھا۔ مبصرین متفق ہیں کہ اِس بار اس حلقہ میں گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے۔

NA-251
گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار، وسیم اختر نے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی تھی، لیکن اِس بار سید علی رضا عابدی ایم کیو ایم کے پرچم تلے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اِس حلقے سے پی پی پی کے ذوالفقار علی قائم خانی، پی ٹی آئی کے راجہ اظہر علی خان اور جماعت اسلامی کے زاہد سعید سمیت 19 امیدوار قسمت آزما رہے ہیں، جن کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ یاد رہے کہ 2002 کے الیکشن میں یہاں سے ایم کیو ایم کے سید صفوان اﷲ نے سخت مقابلے کے بعد کام یابی حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار، متحدہ مجلس عمل کے عبدالغفار عمر کپاڈیہ ڈیڑھ ہزار ووٹوں کے فرق سے پیچھے رہ گئے تھے۔

NA-252
اِس حلقے سے ایم کیو ایم کے امیدوار، عبدالرشید گوڈیل میدان میں ہیں۔ اس نشست کے لیے مسلم لگ قاف نے پروفیسر رانا سعید احمد، پی ٹی آئی نے سید علی حیدر زیدی اور جماعت اسلامی نے محمد حسین محنتی کو ٹکٹ دیا ہے۔ پی پی کی نمایندگی سید اصغر حسین کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار عبدالرشید گوڈیل اور سید اصغر حسین کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع کر ہے، محمد حسین محنتی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

NA-253
یہ بھی ایک اہم حلقہ ہے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے حیدرعباس رضوی نے اِس نشست سے کام یابی حاصل کی تھی۔ پیپلزپارٹی کے فیصل رضا عابدی سمیت سترہ امیدوار اُن کے مدمقابل تھے۔ اس بار ایم کیو ایم نے محمد مزمل قریشی کو نام زد کیا ہے۔ دیگر امیدواروں میں پی پی پی کے محمد مراد بلوچ اور جماعت اسلامی کے اسد اﷲ بھٹو نمایاں ہیں۔

NA-255
یہ حلقہ بھی مبصرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس نشست کے لیے 11 امیدوار مد مقابل ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے سید آصف حسنین نے یہاں سے کام یابی حاصل کی تھی۔ اس بار بھی ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ دیگر نمایاں امیدواروں میں پی پی پی کے جاوید شیخ، اے این پی کے عبدالرحمان خان اور پی ٹی آئی کے خالد محمد علی نمایاں ہیں۔

چند صوبائی حلقے
مبصرین قومی اسمبلی کے حلقوں کے علاوہ چند صوبائی حلقوں میں بھی سخت مقابلے کی توقع کر رہے ہیں۔ اِس ضمن میں تین حلقے نمایاں ہیں۔

گذشتہ انتخابات میں پی ایس 93 سے اے این پی کے امیدوار، امیر نواب نے کام یابی حاصل کی تھی۔ اس جماعت کے امیدوار، امان اﷲ خان نے پی ایس 128 کی نشست اپنے نام کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حلقوں میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے اے این پی کو پورا زور لگانا پڑا ہے۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے گذشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اِس بار یہ دونوں جماعتوں موجود ہیں، جو آج کی پولنگ میں اے این پی کے لیے مشکل پیدا کر سکتی ہیں۔

پی ایس 114 بھی ایک اہم حلقہ ہے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار، عبدالرؤف صدیقی اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے عرفان اﷲ مروت کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تھا۔ چند سو ووٹوں کے فرق سے ایم کیو ایم نے کام یابی حاصل کی تھی۔ 2002 میں کام یابی عرفان اﷲ مروت کے حصے میں آئی تھی، جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس بار ایم کیو ایم کو اس حلقے میں کام یابی حاصل کرنے کی پوری قوت صرف کرنی ہوگی۔
Load Next Story