سندھ کے کئی حلقوں میں پیپلزپارٹی کو مشکلات کا سامنا
لوئر سندھ پر مشتمل حیدرآباد و میرپورخاص ڈویژن میں قومی اسمبلی کی21 نشستیں ہیں۔۔۔
لوئر سندھ پر مشتمل حیدرآباد و میرپورخاص ڈویژن میں قومی اسمبلی کی21 نشستیں ہیں، جن میں سے بعض نشستوں پر ووٹوں کے حصول کی بڑی کلوز فائٹ متوقع ہے۔
انہی نشستوں میں ضلع مٹیاری سے این اے218 کی نشست شامل ہے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر اور مٹیاری سے چھے بار مسلسل جیتنے والے مخدوم امین فہیم کی نشست بھی شامل ہے، طویل عرصے کے بعد دس جماعتی اتحاد کے امیدوار اور فنکشنل لیگ کے راہ نما عبدالرزاق میمن عرف غفور میمن مدمقابل ہیں بظاہر یہاں سے ایم کیو ایم کے غلام شبیر شاہ بھی مقابل ہیں، لیکن اس نشست پر مقابلہ مخدوم امین فہیم اور غفور میمن کے درمیان ہی ہے۔
پھر سعید آباد کے علاقے سے مسلم لیگ فنکشنل کے نذیر احمد راہو اُس نشست پر مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے مخدوم جمیل الزماں کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ نذیر احمد راہو، صدر آصف علی زرداری کے دوستوں میں سے ہیں اس لیے ان کی جانب سے مخدوم جمیل کے مقابل کھڑے ہونے سے لوگوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ اب اگر مٹیاری کی نشست پر بات کریں تو پی ایس 44 پر پی پی پی نے مخدوم امین فہیم کے بھائی مخدوم رفیق الزماں کو پارٹی ٹکٹ دے دیا جو مٹیاری کے عوام کے فیورٹ نہیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مٹیاری کے عوام اپنے علاقے سے کھڑے ہونے والے امیدوار کا زیادہ ساتھ دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر پی پی پی، پی ایس 44 سے مخدوم رفیق کے بجائے سابق ایم پی اے اور پی پی کے ضلعی صدر امیر علی شاہ ہاشمی کو ٹکٹ دیتی تو معاملہ پی پی پی کے حق میں بہتر ہوتا یا پھر گذشتہ دنوں آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے پی پی پی جوائن کرنے والے سابق ایم پی اے جلال شاہ جاموٹ کو کھڑا کیا جاتا، تو اس کا فائدہ بھی پی پی پی اور مخدوم امین فہیم کو ہوتا کیوں کہ فنکشنل لیگ نے یہاں سے سابق ضلع ناظم و نوجوان راہ نما محمد علی شاہ جاموٹ کو کھڑا کیا ہے، جو دس جماعتی اتحاد کے امیدوار بھی ہیں۔
یوں مٹیاری اور سعید آباد کے علاقوں کے عوام کی ہمدردیاں اگر نذیر راہو اور محمد علی شاہ کے ساتھ رہیں تو وہ لازماً ان دونوں صوبائی نشستوں کے ساتھ واقع این اے 218 پر مخدوم امین فہیم بھی شدید متاثر ہوں گے، کیوں کہ ان کے سامنے لڑنے والے غفور میمن، خود میمن اتحاد کے راہ نما ہیں، جب کہ گذشتہ روز اولڈ ہالا میں فنکشنل لیگ اور پی پی پی کے کارکنان میں تلخ کلامی کے بعد مخدوم جمیل الزماں کے ڈرائیور علی شیر سولنگی کے ہلاکت پر پی پی پی کے راہ نماؤں نے فنکشنل لیگ اور میمن اتحاد کے راہ نماؤں عامر بہزاد، نصیر میمن اور منیر ارباب کو قتل کی ایف آئی آر میں نامزد کر کے گرفتار کرا دیا گیا ۔
لیکن تحقیق سے ثابت ہوا کہ علی شیر کی موت دل کے دورے سے ہوئی جس پر قتل کا مقدمہ خارج ہوگیا اوریہ ر ہ نما رہا ہوکر جب مٹیاری پہنچے تو ان کا شان دار استقبال ہو۔ اگر فنکشنل لیگ اور اس کا ساتھ نبھانے والی دیگر نو جماعتوں نے گیارہ مئی کو اپنے اپنے ووٹرز سے تیر کے مقابلے میں پھول کو ووٹ ڈلوا دیے تو پھر1970کے بعد پہلی بار ضلع مٹیاری میں پی پی پی کو مشکل کا سامنا کرنا ہو گا۔
این اے220 حیدرآباد شہر سے متحدہ قومی موومنٹ کے وسیم حسین اور جے یو پی کے ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، کیوں کہ اس نشست پر 2002 میں بھی صاحبزادہ زبیر، ایم کیو ایم کے امیدوار آفتاب شیخ کو شکست دے چکے ہیں، جب کہ 2008 میں وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرگئے تھے۔ اب 2013 میں صاحبزادہ زبیر، جہاں ایک جانب جے یو پی، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، این پی پی، سنی تحریک، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، رسول بخش پلیجو اور ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک اور سائیں جی ایم سید کے پوتے سید جلال محمود شاہ کی سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں، جن کے حق میں ٹنڈو آغا کی بااثر شخصیت میر حیدرعلی تالپور بھی بیٹھ گئے ہیں،
جب کہ مجلس وحدت المسلمین اور بہت سے سنی علماء و مشائخ نے بھی صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی حمایت کی ہے۔ اس وقت صاحبزادہ زبیر کو 2002کے مقابلے میں زیادہ سیاسی، مذہبی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ اگر جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ پی ایس 45 اور46 میں آباد چھیپا برادری اور الور سے تعلق رکھنے والی مختلف برادریوں نے اپنا ووٹ دے دیا تو مقابلہ بہت سخت ہو جائے گا لیکن پی ایس 45 پر دس جماعتی اتحاد کے تحت ایک امیدوار کے منتخب نہ ہونے کا نقصان بھی صاحبزادہ زبیر ہی کو ہو گا،
کیوںکہ یہاں سے فنکشنل لیگ کے امیدوار چوہدری نظام بھی جے یو پی کے امیدوار حسین بخش حسینی اور ایم کیو ایم کے امیدوار دلاور قریشی ایڈووکیٹ کے سامنے آئے ہیں۔ یہاں سے سنی تحریک کے امیدوار، جے یو پی کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں، جب کہ یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان کینیڈی، متحدہ دینی محاذ کے مولانا سعید جدون اور پی پی پی کے جنید سومرو بھی میدان میں ہیں۔ اس لیے این اے 220 اور پی ایس 45 پر مقابلہ سخت ہو گا۔ اگر پی ایس 45 پر بھی امیدوار کم ہو جاتے تو یہاں سب مل کر ہی متحدہ کے امیدوار سے انتخابی جنگ لڑ سکتے تھے۔ الگ الگ کھڑے رہنے کا فائدہ ایم کیو ایم کو ہو گا۔
این اے 223 ٹنڈوالہ یار پر اصل مقابلہ پی پی پی کے عبدالستار بچانی اور مسلم لیگ نون میں ایک ماہ پہلے شامل ہونے والی آزاد مگسی اتحاد کی ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کے درمیان ہو گا، یہاں ایم کیو ایم کے ٹنڈوالہ یار شہر سے نہایت قیمتی ووٹ ہیں اگر ایم کیو ایم اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کراتی ہے تو اس کا نقصان ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کو ہو گا۔ اطلاعات ہیں کہ آزاد مگسی اتحاد کی جانب سے ایم کیو ایم کے مقامی ذمے داران اے ساجد وہاب خانزادہ کو دستبردار کرانے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا، جس پر ایم کیو ایم کی جانب سے باور کر دیا گیا تھا کہ اگر ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی مسلم لیگ نون جوائن نہ کرتیں تو بات چیت ہو سکتی تھی۔
این اے 225 بدین پر بظاہر تو مقابلہ پی پی کی فہمیدہ مرزا کے حق میں ہے لیکن دس جماعتی اتحاد کی جانب سے فنکشنل لیگ کی بی بی یاسمین شاہ کی حمایت اور پھر یہاں پر مختلف برادریوں کی جانب سے بی بی یاسمین شاہ کی حمایت سے ایک مرحلے پر لگ رہا تھا کہ کانٹے کا مقابلہ ہو گا، لیکن فہمیدہ مرزا کے شوہر سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا میدان میں کودے اور وہ مقابلے کو یکطرفہ حیثیت کی طرف لے جا رہے ہیں، لیکن علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سیٹ پر سخت مقابلہ ہو گا۔
این اے226 میرپورخاص پر بھی متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے سنیئر راہ نما شبیر احمد قائم خانی کو میدان میں اتارا ہے، یہاں پر گزشتہ دو انتخابات سے پیر آفتاب شاہ جیلانی جیتتے آ رہے ہیں، اس بار ٹکٹ ان کے بھائی اور سابق ضلعی ناظم شفقت حسین شاہ عرف جانی شاہ کو ٹکٹ ملا ہے۔ اسی حلقے سے فنکشنل کے قربان علی شاہ بھی میدان میں ہیں علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سیٹ پر میرپورخاص کا شہری ووٹ اگر مکمل طور پر کاسٹ ہو گیا تو 1990 کی طرح یہ سیٹ ایک بار پھر متحدہ کے امیدوار جیت سکتے ہیں۔
ادھر میرپورخاص کی پنہور برادری نے فنکشنل لیگ کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح فنکشنل لیگ نے میرپورخاص کے دیہی علاقے میں خود کو نہایت منظم کیا ہے، جب کہ فنکشنل لیگ میرپورخاص سے متصل عمرکوٹ میں پہلے ہی بہت مضبوط ہے۔ فنکشنل لیگ کو میرپورخاص ضلع میں پی پی پی جیلانی خاندان سے مقابلہ کرنا ہے، جب کہ شہر میں ایم کیو ایم ہے۔ یہاں ایم کیو ایم کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ پی ایس 64 کے ایک آزاد امیدوار کے انتقال کی وجہ سے پولنگ ملتوی ہونا ہے۔ یوں پی ایس 64 کے بجائے میرپورخاص شہر میں عوام کو صرف این اے 226 کے لیے ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر آنا ہوگا۔
این اے 228 عمر کوٹ پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور پی پی پی کے نواب یوسف تالپور کے درمیان مقابلہ بہت دل چسپ ہو گیا ہے، کیوں کہ عمرکوٹ سے نوجوان راہ نما اور صحافی لال مالھی ہزاروں ہندو ووٹوں کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، جنہیں پی ٹی آئی نے اقلیت کی مخصوص نشست پر اپنا امیدوار بھی نام زد کردیا ہے۔ اس لیے غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا شاہ محمود قریشی کو لال مالھی سمیت ہندو کمیونٹی کی مکمل حمایت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ پی پی پی کے ہمیر سنگھ بھی پی پی پی چھوڑکر فنکشنل لیگ جوائن کر چکے ہیں اور پیر صاحب پگارہ کے حکم پر وہ بھی شاہ محمود قریشی کی حمایت کر رہے ہیں۔
غوثیہ جماعت میں شامل پلی برادری کی درخواست پر شاہ محمود قریشی، عمرکوٹ اور تھرپارکر سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور عمرکوٹ جہاں ہندو ووٹ چالیس فیصد تک ہیں، وہاں انہیں ہندو برادری کی مکمل حمایت حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایسے میں رہی سہی کسر پیپلز مسلم لیگ کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کرکے پوری کردی ہے۔ لگ رہا ہے کہ سندھ میں ضلع مٹیاری کے بعد دوسرا بڑا اپ سیٹ یہاں ہوسکتا ہے جہاں عمرکوٹ میں لوگ، مخدوم شاہ محمود قریشی کو وننگ امیدوار کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔
این اے 229 اور این اے 230 پر بھی اس بار تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ پیپلز مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم نے ماضی میں این اے 229 سے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو اس نشست سے کام یاب کررہا تھا، لیکن اس بار وہ خود صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھانجے فواد رزاق کو یہاں سے پی پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتاررہے ہیں۔
شاید یہی وجہ رہی کہ این اے 230 جہاں سے ہمیشہ ارباب غلام رحیم کے حمایت یافتہ ڈاکٹر غلام حیدر سمیجو جیتے آئے تھے، وہاں سے اس بار پی پی پی نے علاقے کے باشندوں کے لیے روحانی شخصیت پیر نور محمد شاہ جیلانی کو میدان میں اتار دیا تو وہیں ارباب غلام رحیم نے اچانک اپنے امیدوار کو تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی کے حق میں دستبردار کرادیا ہے۔ سانگھڑ کی تینوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر اچھے مقابلے دیکھنے میں آئیں گے۔
این اے 234 سانگھڑ ون پر فنکشنل لیگ کے پیر بخش جونیجو اور پی پی پی کے فدا حسین ڈیرو کے درمیان مقابلہ ہے، جب کہ این اے 235 پر فنکشنل لیگ سندھ کے صدر اور موجودہ پیر صاحب پگارہ کے بھائی پیر صدر الدین شاہ راشدی اور پی پی کی شازیہ مری کے مابین مقابلہ ہے یہ دونوں نشستیں فنکشنل لیگ اچھے مقابلے کے بعد جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ٹھٹھہ میں این اے 237 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق صوبائی وزیر صادق میمن ہیں، جن کا مقابلہ نون لیگ کی ماروی میمن اور شیرازی ملکانی اتحاد کے ریاض شاہ شیرازی سے ہے۔ الیکشن مہم ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے اطلاع آئی کہ سندھ ہائی کورٹ نے دہری شہریت چھپانے کے کیس میں صادق میمن کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ چناں چہ یہ سطور لکھے جانے تک پی پی پی تذبذب کا شکار تھی کہ کس کی حمایت کرے۔ این اے 238 پر بھی مقابلہ ہو گا، جہاں شیرازیوں نے پی پی پی میں شامل ہو کر پہلے پیپلزپارٹی کا کوئی راہ نما کھڑے نہ ہونے دیا، لیکن پیپلزپارٹی نے پیپلزمسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ارباب میز الدین کو پارٹی جوائن کرواکے پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے جو اب علاقے کے بااثر شیرازی ملکانی اتحاد کے امیدوار ایاز شاہ شیرازی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہی نشستوں میں ضلع مٹیاری سے این اے218 کی نشست شامل ہے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر اور مٹیاری سے چھے بار مسلسل جیتنے والے مخدوم امین فہیم کی نشست بھی شامل ہے، طویل عرصے کے بعد دس جماعتی اتحاد کے امیدوار اور فنکشنل لیگ کے راہ نما عبدالرزاق میمن عرف غفور میمن مدمقابل ہیں بظاہر یہاں سے ایم کیو ایم کے غلام شبیر شاہ بھی مقابل ہیں، لیکن اس نشست پر مقابلہ مخدوم امین فہیم اور غفور میمن کے درمیان ہی ہے۔
پھر سعید آباد کے علاقے سے مسلم لیگ فنکشنل کے نذیر احمد راہو اُس نشست پر مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے مخدوم جمیل الزماں کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ نذیر احمد راہو، صدر آصف علی زرداری کے دوستوں میں سے ہیں اس لیے ان کی جانب سے مخدوم جمیل کے مقابل کھڑے ہونے سے لوگوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے۔ اب اگر مٹیاری کی نشست پر بات کریں تو پی ایس 44 پر پی پی پی نے مخدوم امین فہیم کے بھائی مخدوم رفیق الزماں کو پارٹی ٹکٹ دے دیا جو مٹیاری کے عوام کے فیورٹ نہیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مٹیاری کے عوام اپنے علاقے سے کھڑے ہونے والے امیدوار کا زیادہ ساتھ دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر پی پی پی، پی ایس 44 سے مخدوم رفیق کے بجائے سابق ایم پی اے اور پی پی کے ضلعی صدر امیر علی شاہ ہاشمی کو ٹکٹ دیتی تو معاملہ پی پی پی کے حق میں بہتر ہوتا یا پھر گذشتہ دنوں آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے پی پی پی جوائن کرنے والے سابق ایم پی اے جلال شاہ جاموٹ کو کھڑا کیا جاتا، تو اس کا فائدہ بھی پی پی پی اور مخدوم امین فہیم کو ہوتا کیوں کہ فنکشنل لیگ نے یہاں سے سابق ضلع ناظم و نوجوان راہ نما محمد علی شاہ جاموٹ کو کھڑا کیا ہے، جو دس جماعتی اتحاد کے امیدوار بھی ہیں۔
یوں مٹیاری اور سعید آباد کے علاقوں کے عوام کی ہمدردیاں اگر نذیر راہو اور محمد علی شاہ کے ساتھ رہیں تو وہ لازماً ان دونوں صوبائی نشستوں کے ساتھ واقع این اے 218 پر مخدوم امین فہیم بھی شدید متاثر ہوں گے، کیوں کہ ان کے سامنے لڑنے والے غفور میمن، خود میمن اتحاد کے راہ نما ہیں، جب کہ گذشتہ روز اولڈ ہالا میں فنکشنل لیگ اور پی پی پی کے کارکنان میں تلخ کلامی کے بعد مخدوم جمیل الزماں کے ڈرائیور علی شیر سولنگی کے ہلاکت پر پی پی پی کے راہ نماؤں نے فنکشنل لیگ اور میمن اتحاد کے راہ نماؤں عامر بہزاد، نصیر میمن اور منیر ارباب کو قتل کی ایف آئی آر میں نامزد کر کے گرفتار کرا دیا گیا ۔
لیکن تحقیق سے ثابت ہوا کہ علی شیر کی موت دل کے دورے سے ہوئی جس پر قتل کا مقدمہ خارج ہوگیا اوریہ ر ہ نما رہا ہوکر جب مٹیاری پہنچے تو ان کا شان دار استقبال ہو۔ اگر فنکشنل لیگ اور اس کا ساتھ نبھانے والی دیگر نو جماعتوں نے گیارہ مئی کو اپنے اپنے ووٹرز سے تیر کے مقابلے میں پھول کو ووٹ ڈلوا دیے تو پھر1970کے بعد پہلی بار ضلع مٹیاری میں پی پی پی کو مشکل کا سامنا کرنا ہو گا۔
این اے220 حیدرآباد شہر سے متحدہ قومی موومنٹ کے وسیم حسین اور جے یو پی کے ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، کیوں کہ اس نشست پر 2002 میں بھی صاحبزادہ زبیر، ایم کیو ایم کے امیدوار آفتاب شیخ کو شکست دے چکے ہیں، جب کہ 2008 میں وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرگئے تھے۔ اب 2013 میں صاحبزادہ زبیر، جہاں ایک جانب جے یو پی، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، این پی پی، سنی تحریک، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، رسول بخش پلیجو اور ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک اور سائیں جی ایم سید کے پوتے سید جلال محمود شاہ کی سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں، جن کے حق میں ٹنڈو آغا کی بااثر شخصیت میر حیدرعلی تالپور بھی بیٹھ گئے ہیں،
جب کہ مجلس وحدت المسلمین اور بہت سے سنی علماء و مشائخ نے بھی صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی حمایت کی ہے۔ اس وقت صاحبزادہ زبیر کو 2002کے مقابلے میں زیادہ سیاسی، مذہبی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ اگر جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ پی ایس 45 اور46 میں آباد چھیپا برادری اور الور سے تعلق رکھنے والی مختلف برادریوں نے اپنا ووٹ دے دیا تو مقابلہ بہت سخت ہو جائے گا لیکن پی ایس 45 پر دس جماعتی اتحاد کے تحت ایک امیدوار کے منتخب نہ ہونے کا نقصان بھی صاحبزادہ زبیر ہی کو ہو گا،
کیوںکہ یہاں سے فنکشنل لیگ کے امیدوار چوہدری نظام بھی جے یو پی کے امیدوار حسین بخش حسینی اور ایم کیو ایم کے امیدوار دلاور قریشی ایڈووکیٹ کے سامنے آئے ہیں۔ یہاں سے سنی تحریک کے امیدوار، جے یو پی کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں، جب کہ یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان کینیڈی، متحدہ دینی محاذ کے مولانا سعید جدون اور پی پی پی کے جنید سومرو بھی میدان میں ہیں۔ اس لیے این اے 220 اور پی ایس 45 پر مقابلہ سخت ہو گا۔ اگر پی ایس 45 پر بھی امیدوار کم ہو جاتے تو یہاں سب مل کر ہی متحدہ کے امیدوار سے انتخابی جنگ لڑ سکتے تھے۔ الگ الگ کھڑے رہنے کا فائدہ ایم کیو ایم کو ہو گا۔
این اے 223 ٹنڈوالہ یار پر اصل مقابلہ پی پی پی کے عبدالستار بچانی اور مسلم لیگ نون میں ایک ماہ پہلے شامل ہونے والی آزاد مگسی اتحاد کی ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کے درمیان ہو گا، یہاں ایم کیو ایم کے ٹنڈوالہ یار شہر سے نہایت قیمتی ووٹ ہیں اگر ایم کیو ایم اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کراتی ہے تو اس کا نقصان ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کو ہو گا۔ اطلاعات ہیں کہ آزاد مگسی اتحاد کی جانب سے ایم کیو ایم کے مقامی ذمے داران اے ساجد وہاب خانزادہ کو دستبردار کرانے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا، جس پر ایم کیو ایم کی جانب سے باور کر دیا گیا تھا کہ اگر ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی مسلم لیگ نون جوائن نہ کرتیں تو بات چیت ہو سکتی تھی۔
این اے 225 بدین پر بظاہر تو مقابلہ پی پی کی فہمیدہ مرزا کے حق میں ہے لیکن دس جماعتی اتحاد کی جانب سے فنکشنل لیگ کی بی بی یاسمین شاہ کی حمایت اور پھر یہاں پر مختلف برادریوں کی جانب سے بی بی یاسمین شاہ کی حمایت سے ایک مرحلے پر لگ رہا تھا کہ کانٹے کا مقابلہ ہو گا، لیکن فہمیدہ مرزا کے شوہر سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا میدان میں کودے اور وہ مقابلے کو یکطرفہ حیثیت کی طرف لے جا رہے ہیں، لیکن علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سیٹ پر سخت مقابلہ ہو گا۔
این اے226 میرپورخاص پر بھی متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے سنیئر راہ نما شبیر احمد قائم خانی کو میدان میں اتارا ہے، یہاں پر گزشتہ دو انتخابات سے پیر آفتاب شاہ جیلانی جیتتے آ رہے ہیں، اس بار ٹکٹ ان کے بھائی اور سابق ضلعی ناظم شفقت حسین شاہ عرف جانی شاہ کو ٹکٹ ملا ہے۔ اسی حلقے سے فنکشنل کے قربان علی شاہ بھی میدان میں ہیں علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سیٹ پر میرپورخاص کا شہری ووٹ اگر مکمل طور پر کاسٹ ہو گیا تو 1990 کی طرح یہ سیٹ ایک بار پھر متحدہ کے امیدوار جیت سکتے ہیں۔
ادھر میرپورخاص کی پنہور برادری نے فنکشنل لیگ کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح فنکشنل لیگ نے میرپورخاص کے دیہی علاقے میں خود کو نہایت منظم کیا ہے، جب کہ فنکشنل لیگ میرپورخاص سے متصل عمرکوٹ میں پہلے ہی بہت مضبوط ہے۔ فنکشنل لیگ کو میرپورخاص ضلع میں پی پی پی جیلانی خاندان سے مقابلہ کرنا ہے، جب کہ شہر میں ایم کیو ایم ہے۔ یہاں ایم کیو ایم کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ پی ایس 64 کے ایک آزاد امیدوار کے انتقال کی وجہ سے پولنگ ملتوی ہونا ہے۔ یوں پی ایس 64 کے بجائے میرپورخاص شہر میں عوام کو صرف این اے 226 کے لیے ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر آنا ہوگا۔
این اے 228 عمر کوٹ پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور پی پی پی کے نواب یوسف تالپور کے درمیان مقابلہ بہت دل چسپ ہو گیا ہے، کیوں کہ عمرکوٹ سے نوجوان راہ نما اور صحافی لال مالھی ہزاروں ہندو ووٹوں کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، جنہیں پی ٹی آئی نے اقلیت کی مخصوص نشست پر اپنا امیدوار بھی نام زد کردیا ہے۔ اس لیے غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا شاہ محمود قریشی کو لال مالھی سمیت ہندو کمیونٹی کی مکمل حمایت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ پی پی پی کے ہمیر سنگھ بھی پی پی پی چھوڑکر فنکشنل لیگ جوائن کر چکے ہیں اور پیر صاحب پگارہ کے حکم پر وہ بھی شاہ محمود قریشی کی حمایت کر رہے ہیں۔
غوثیہ جماعت میں شامل پلی برادری کی درخواست پر شاہ محمود قریشی، عمرکوٹ اور تھرپارکر سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور عمرکوٹ جہاں ہندو ووٹ چالیس فیصد تک ہیں، وہاں انہیں ہندو برادری کی مکمل حمایت حاصل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایسے میں رہی سہی کسر پیپلز مسلم لیگ کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کرکے پوری کردی ہے۔ لگ رہا ہے کہ سندھ میں ضلع مٹیاری کے بعد دوسرا بڑا اپ سیٹ یہاں ہوسکتا ہے جہاں عمرکوٹ میں لوگ، مخدوم شاہ محمود قریشی کو وننگ امیدوار کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔
این اے 229 اور این اے 230 پر بھی اس بار تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ پیپلز مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم نے ماضی میں این اے 229 سے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو اس نشست سے کام یاب کررہا تھا، لیکن اس بار وہ خود صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھانجے فواد رزاق کو یہاں سے پی پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتاررہے ہیں۔
شاید یہی وجہ رہی کہ این اے 230 جہاں سے ہمیشہ ارباب غلام رحیم کے حمایت یافتہ ڈاکٹر غلام حیدر سمیجو جیتے آئے تھے، وہاں سے اس بار پی پی پی نے علاقے کے باشندوں کے لیے روحانی شخصیت پیر نور محمد شاہ جیلانی کو میدان میں اتار دیا تو وہیں ارباب غلام رحیم نے اچانک اپنے امیدوار کو تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی کے حق میں دستبردار کرادیا ہے۔ سانگھڑ کی تینوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر اچھے مقابلے دیکھنے میں آئیں گے۔
این اے 234 سانگھڑ ون پر فنکشنل لیگ کے پیر بخش جونیجو اور پی پی پی کے فدا حسین ڈیرو کے درمیان مقابلہ ہے، جب کہ این اے 235 پر فنکشنل لیگ سندھ کے صدر اور موجودہ پیر صاحب پگارہ کے بھائی پیر صدر الدین شاہ راشدی اور پی پی کی شازیہ مری کے مابین مقابلہ ہے یہ دونوں نشستیں فنکشنل لیگ اچھے مقابلے کے بعد جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ٹھٹھہ میں این اے 237 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق صوبائی وزیر صادق میمن ہیں، جن کا مقابلہ نون لیگ کی ماروی میمن اور شیرازی ملکانی اتحاد کے ریاض شاہ شیرازی سے ہے۔ الیکشن مہم ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے اطلاع آئی کہ سندھ ہائی کورٹ نے دہری شہریت چھپانے کے کیس میں صادق میمن کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ چناں چہ یہ سطور لکھے جانے تک پی پی پی تذبذب کا شکار تھی کہ کس کی حمایت کرے۔ این اے 238 پر بھی مقابلہ ہو گا، جہاں شیرازیوں نے پی پی پی میں شامل ہو کر پہلے پیپلزپارٹی کا کوئی راہ نما کھڑے نہ ہونے دیا، لیکن پیپلزپارٹی نے پیپلزمسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ارباب میز الدین کو پارٹی جوائن کرواکے پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے جو اب علاقے کے بااثر شیرازی ملکانی اتحاد کے امیدوار ایاز شاہ شیرازی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔