پنجاب نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک ا نصاف میں بقاء کی جنگ
انتخابی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے صوبہ پنجاب کے طول و عرض میں پھیلے مختلف انتخابی حلقوں...
دوسرے امیدواروں کی حمایت بھی کررہے ہیں ۔ فوٹو : فائل
انتخابی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والے صوبہ پنجاب کے طول و عرض میں پھیلے مختلف انتخابی حلقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ پنجاب کے کچھ اہم حلقوں کا انتخابی منظرنامہ کچھ اس طرح سے ہے۔
این اے 73 بھکر سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار عبدالمجید خان اور آزاد امیدوار ثناء اﷲ مستی خیل کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ ثناء اﷲ مستی خیل 2002ء میں اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ وہ 2008ء کے الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے اور صرف چند سو ووٹوں سے الیکشن ہار گئے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوگئے تھے۔ ثناء اﷲ مستی خیل پی پی 147سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں۔
این اے 105گجرات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی جس پر اس حلقے کو اوپن قرار دے دیا گیا ہے۔ سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی اس نشست سے امیدوار ہیں اور ان کے روائتی حریف چوہدری احمد مختار پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ چوہدری مبشر حسین مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ چودھری پرویز الٰہی کے کزن بھی ہیں ۔ محمد افضل گوندل تحریک انصاف اور چوہدری انصر محمود جماعت اسلامی کے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے اس حلقے سے کئی بار اپنے امیدوار تبدیل کئے۔
پہلے چوہدری احمد سعید کو مسلم لیگ کا امیدوار بنایا گیا مگر انہوں نے اپنے بھائی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے سے معذررت کرلی، اورنگ زیب بٹ بھی امیدوار تھے مگر انہیں ٹکٹ نہ دیا گیا اور نصیر سدھ کو ٹکٹ مل گیا۔ وہ مقامی نہیں تھے اور ان کا تعلق کھاریاں سے ہے پھر اچانک چوہدری پرویز الٰہی کے کزن چوہدری مبشر حسین تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے اور انہیں ن لیگ کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ چوہدری احمد مختار 93ء اور 2008ء میں اس نشست پر مسلم لیگ(ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو شکست دے چکے ہیں۔
جبکہ چوہدری شجاعت حسین 85، 88، 90، 97ء اور 2002ء میں اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہے ہیں ۔ 1962ء میں چوہدری ظہور الٰہی پہلی بار اس حلقے سے کامیاب ہوئے وہ 1970ء میں بھی کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر گجرات میں الیکشن جیت گئے تھے۔ چوہدری احمد سعید 88ء میں بھی اس حلقے سے ٹکٹ کے امیدوار تھے مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے میاں مشتاق حسین پگانوالہ کو ٹکٹ دے دیا اور وہ چوہدری شجاعت حسین کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔ چوہدری مبشر حسین بڑی تاخیر سے میدان میں آئے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف گجرات میں جلسہ بھی نہیں کرسکے اس سے مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا ہے۔ دوسری طرف چوہدری برادران اس نشست کو اپنی سیاسی بقاء کی جنگ کے طور پر لے رہے ہیں اور ان کے خاندان کی خواتین بھی ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار چوہدری احمد مختار صدر زرداری کی مداخلت پر پگانوالہ خاندان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس پر فخر پگانوالہ کو پیپلزپارٹی گجرات کا صدر بنادیا گیا ہے اور انہوں نے پگانوالہ ہاؤس چوہدری احمد مختار کا بڑا جلسہ بھی کروایا ہے۔
این اے 116نارووال میں مسلم لیگ(ن) کے دانیال عزیز اور پیپلزپارٹی کے طارق انیس کے درمیان کانٹے دارمقابلہ ہے۔ جماعت اسلامی کے ڈاکٹرمحمد عبداﷲ اور تحریک انصاف کی وجیہہ اکرم سمیت دیگر امیدوار بھی میدا ن میں ہیں۔ طارق انیس کے بھائی کرنل(ر) محمد عباس چوہدری صوبائی حلقہ پی پی 134 میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہیں ۔ طارق انیس نے کئی ناراض دھڑوں کو منالیا ہے اور مینگڑی پل پرجلسے سے بھی انہیں یہ امید ہے کہ ان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔
دوسری طرف دانیال عزیز اپنے ذاتی ووٹ بینک کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی حیثیت سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دانیال عزیز پی پی 134سے آزاد امیدوار اشفاق تاج کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے اب وہ آزاد امیدوار کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں جس پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار صوبائی اسمبلی منان خاں کے تحفظات ہیں ۔این اے 115سے بھی مسلم لیگ(ن) کے امیدوار میاں رشید اورپی پی 132 سے پارٹی امیدوار اویس قاسم بھی اکٹھے نہیں چل رہے۔ میاں رشید آزاد امیدوار سید سعید الحسن شاہ کے ساتھ چل رہے ہیں۔سعید الحسن شاہ 2002 ء میں آزاد ایم پی اے منتخب ہوگئے تھے اور صوبائی وزیر اوقاف رہے ہیں ۔
لاہورکے سرحدی حلقہ این اے 130میں پیپلزپارٹی کی ثمینہ گھرکی ، مسلم لیگ(ن) کے سہیل شوکت بٹ ، تحریک انصاف کے چودھری طالب سندھو اور جماعت اسلامی کے چودھری منظور گجر امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہے ۔ پیپلزپارٹی کی ثمینہ خالدگھرکی اس حلقے سے دومرتبہ ایم این اے منتخب ہوچکی ہیں اوراس باران کا سیاسی حریف ڈیال خاندان بھی انکے ساتھ ہے جس سے ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے امیدوارچوہدری طالب سندھو بھی محنت کر رہے ہیں۔
تاہم ان کے صوبائی اسمبلی کے دونوں امیدوارحامدسرور اورطاھرمجیدمیو اپنے اپنے حلقوں میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں اورخاطرخواہ ووٹ حاصل کرینگے ۔جماعت اسلامی کے چوہدر ی منظورگجربھی خاصا ووٹ بنک رکھتے ہیں وہ سابق یوسی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔این اے 137ننکانہ میں سابق ہوم سیکرٹری اور جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ، مسلم لیگ(ن) کے رائے منصب علی، آزاد امیدوار مہر سعید ظفر پڈھیار، تحریک انصاف کے رائے اکرم بھٹی اور پیپلزپارٹی کے رائے شاہ جہاںبھٹی امیدوار ہیں۔2008ء میں مہر سعید ظفر بطور آزاد امیدوار 54ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ رائے منصب علی خان نے بطور امیدوار مسلم لیگ(ق) 44ہزار ووٹ حاصل کئے تھے، وہ 2002ء میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔
مہر سعید ظفر 1985ء ، 1988ء ، 1993ء میں ایم پی اے رہ چکے ہیں۔این اے 140 قصور میں انتہائی دلچسپ مقابلہ ہے ۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار خورشید محمود قصوری ،آزاد امیدوار سردار آصف احمد علی، مسلم لیگ(ق) کے امیدوار عظیم الدین لکھوی اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ملک رشید ایک سال کے دوران اپنی اپنی سابقہ پارٹیاں بدل چکے ہیں ۔ سردار آصف 1985ء میں بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور پھر ہر الیکشن سے پہلے پارٹی بدلتے رہے۔ وہ 2008 ء کا الیکشن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر جیتے اور وزیرتعلیم بنے، وہ وزارت سے فارغ ہوئے تو الیکشن سے ایک سال قبل تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ 1991-93نواز شریف کے وزیر برائے اقتصادی امور رہے۔1993 ء میں مسلم لیگ(ج) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر خارجہ بن گئے۔
سردار آصف احمد علی تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ملنے پر اب بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں ۔ اس سیٹ پر ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی پیپلزپارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہیں۔عظیم الدین لکھوی نے گزشتہ انتخابات میں سردار آصف احمد علی کی خالی کی گئی نشست پر ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا جس میں انہیں ملک رشید کے مقابلے میں 89ووٹوں سے عین آخری وقت میں ڈرامائی طور میں ہرادیا گیا تھا۔ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کے بقول ان کے ساتھ زیادتی کی گئی کیونکہ وہ جیت رہے تھے اور ابتدائی نتائج میں ان کی کامیابی کا اعلان بھی کردیا گیا تھا ۔
لیکن بعد ازاں نتائج میں تبدیلی کرتے ہوئے انہیں ناکام قرار دے دیا گیا۔ اس مرتبہ دونوں امیدوار پھر سے آمنے سامنے ہیںتاہم مقابلہ عظیم الدین لکھوی، تحریک انصاف کے امیدوار خورشید محمود قصوری اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ملک رشید کے درمیان متوقع ہے۔سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے صاحبزادے سید علی حیدر گیلانی کے اغواء کے بعد ملتان کا حلقہ این اے 151اس وقت ملک بھر میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے اس حلقے سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بڑے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں سکندر حیات بوسن مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی 1985ء سے اس نشست پر منتخب ہورہے ہیں۔
وہ 1988ء میں اس حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف کو بھی شکست دے چکے ہیں 1997ء اور 2002ء میں اس حلقے سے سکندر حیات بوسن الیکشن جیتے تھے۔ سابق وزیراعظم نااہل ہوئے تو عبدالقادر گیلانی ضمنی الیکشن میں اسی حلقے سے کامیاب ہوئے۔ سید علی حیدر گیلانی پی پی 200 ملتان سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں اس حلقے سے احمد حسن ڈاہر الیکشن جیتے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے شوکت حیات خان بوسن ان کے مدمقابل امیدوار تھے۔این اے 186میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں طارق بشیر چیمہ ق لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ ریاض حسین پیرزادہ مسلم لیگ(ن) اور نعیم الدین وڑائچ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔
نواب آف بہاولپور186 اور 187میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار طارق بشیر چیمہ کو سپورٹ کررہے ہیں۔ نواب آف بہاولپور نے مقامی سطح پر مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ 2008ء میں این اے 187 سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سعود مجید نے سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو شکست دی تھی جبکہ طارق بشیر چیمہ نے 2002ء کے الیکشن میں اس حلقے سے چوہدری اعتزاز احسن کو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب کروایا تھا۔این اے 173ڈیرہ غازیخان سے مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ کے صاحبزادے سردار سیف الدین خان کھوسہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن میںحصہ لے رہے ہیں اور ان کا مقابلہ آزاد امیدوار اویس احمد خان لغاری سے ہوگا ۔
مسلم لیگ(ن) نے اس حلقے میں کوئی امیدوار نہیں دیا۔ سردار ذوالفقار خان کھوسہ پی پی 243اور ان کے بڑے صاحبزادے سردار حسام الدین کھوسہ پی پی 244سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ پی پی 243سے سیف الدین کھوسہ اپنے والد سردار ذوالفقار علی خاں کھوسہ کے مقابلے میں بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیںتاہم وہ این اے 173پر ہی زیادہ توجہ دے رہے ہیں ۔ صوبائی حلقہ پی پی 243 پر اصل مقابلہ ذوالفقار کھوسہ اور اویس لغاری کے درمیان ہی ہوگا۔ پی پی 242 میں دو بھائی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اس حلقے میں محسن عطاء کھوسہ مسلم لیگ(ن) اور عرفان اﷲ کھوسہ پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔
این اے 197ضلع رحیم یارخان پنجاب میں قومی اسمبلی کا آخری حلقہ ہے۔ اس حلقے سے گورنر پنجاب مخدوم سید امحمد محمود کے چھوٹے صاحبزادے مخدوم سید مرتضیٰ محمود پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں ان کے مد مقابل مسلم لیگ(ن) کے ارشد خاں لغاری اور تحریک انصاف کے سردار رفیق حیدر لغاری اور دیگر امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ مخدوم سید مرتضٰی محمود اورمحمد ارشد خاں لغاری کے درمیان متوقع ہے ۔ مخدوم احمد محمود 1990، 1993 اور 1997 ء میں اس حلقے سے ایم این اے رہے ہیں ۔
2002ء میں نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں اس حلقہ میں شامل جمال دین والی سمیت دیگر موضع جات کو الگ کردیا گیا۔رئیس منیر احمد بھی اس حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ کیلئے امیدوار تھے مگر انہیں ٹکٹ نہیں مل سکا جس پر وہ این اے 197 ء میں پیپلزپارٹی کے امیدوار مخدوم سید مرتضیٰ محمود اور صوبائی حلقے پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار چودھری شفیق کی حمایت کر رہے ہیں ۔ اس حلقے میں رئیس خاندان کی حمایت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
چکوال
عبدالستار ندیم
حلقہ این اے 60 چکوال پر پانچ امیدوار سردار غلام عباس (آزاد) میجر طاہر اقبال ملک امیدوار مسلم لیگ (ن)، راجہ یاسر ہمایوں سرفراز ( پاکستان تحریک انصاف)، راجہ ثناء الحق ( پاکستان پیپلز پارٹی) اور (تحریک تحفظ پاکستان کے) پیر عبدالشکور نقشبندی آنے سامنے ہیں۔ این اے 61 چکوال II پر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار ممتاز خان ٹمن اور پاکستان تحریک انصاف کے سردار منصور حیات ٹمن کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
عوام کی رائے اور سیاسی حلقوں کے تجزیوں کے مطابق این اے 60 پر اصل مقابلہ ن لیگ کے میجر(ر) طاہر اقبال ملک، سردار گروپ کے سردار غلام عباس اور تحریک انصاف کے راجہ یاسر سرفراز کے درمیان رہے گا۔ گزشتہ انتخابات 2008 میں ن لیگ کے چوہدری ایاز امیر، سردار نواب خان سے جیتے تھے، اب ایاز امیر نے پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس نے ن لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ سردار غلام عباس کو ن لیگ کے باغی ووٹر کی حمایت بھی حاصل ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اگر سردار غلام عباس کی پوزیشن 20 پر تھی تو میجر (ر) طاہر اقبال بھی 19 پر پہنچی ہوئی تھی لیکن ان پر انتقامی سیاست کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔
اٹک
ندیم رضا خان
اٹک سے قومی اسمبلی کی 3اور پنجاب اسمبلی کی 5نشستوں پر بھی کانٹے کے مقابلے ہو رہے ہیں ۔ اٹک کا حلقہ این اے 57 انتہائی اہمیت اختیا ر کرچکا ہے۔ یہاں سے سابق ضلع ناظم میجر طاہر صادق این اے57 اور 58 سے آزاد امیدوار ہیں۔ میجر طاہر صادق، ن لیگ کے شیخ آفتاب احمد اور تحریک انصاف کے ملک امین اسلم کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔ قومی اسمبلی کے این اے 58 ، جو تحصیل جنڈ اور پنڈی گھیب پر مشتمل ہے، میں 5 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔
یہاں بھی مقابلہ میجر طاہر صادق، تحریک انصاف کے ملک سہیل خان کمڑیال اور ن لیگ کے ملک اعتبار خان کے درمیان ہے۔ این اے 59 ، جو تحصیل فتح جنگ، حسن ابدال، اٹک کی 2 یونین کونسلوں اور سنجوال کینٹ پر مشتمل ہے، میں 8 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے، جن میں میجر گروپ کے محمد زین الٰہی، ن لیگ کے آصف علی ملک ایڈووکیٹ، پی پی پی کے سردار سلیم حیدر خان، تحریک انصاف کے سردار محمد علی خان کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔ پی پی 15، جو تحصیل اٹک، کامرہ کینٹ اور اٹک کینٹ پر مشتمل ہے، میں 20 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔