اسرائیل کا نیا قانون

اسرائیل نے اپنا قبضہ مزید پختہ کرنے کی خاطر باقاعدہ ایک قانون وضع کیا ہے۔


Editorial July 22, 2018
اسرائیل نے اپنا قبضہ مزید پختہ کرنے کی خاطر باقاعدہ ایک قانون وضع کیا ہے۔ فوٹو : فائل

عالم عرب کی سب سے زیادہ سرسبز و زرخیز ریاست فلسطین کے قلب میں اسرائیل کے قیام کو عالمی مبصرین نے مشرق وسطیٰ کے قلب میں خنجر گاڑ دینے کے مترادف قرار دیا تھا اور یہ بات درست بھی تھی کہ اس وقت سے فلسطین مسلسل خاک وخون میں غلطاں ہے۔

ہر فلسطینی گھرانے سے ہر روز جواں سال فلسطینیوں کی لاشیں اٹھتی ہیں، فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کی املاک پر اسرائیلیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی فلسطینی اس ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کے لیے باہر نکل آتا ہے تو اس پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے اور اس الزام کو امریکا اور یورپ کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے۔

اسرائیل کی اس علاقے میں مضبوطی سے موجودگی عربوں کے تیل کے وسیع و عریض ذخائر پر اسرائیلی قبضہ کی ضمانت بھی ہے جس کی بناء پر مغرب کے اسلحہ سازی کے کارخانے چوبیس گھنٹے تواتر کے ساتھ رواں دواں رہتے ہیں جو ایک طرف مغربی نوجوانوں کو پکی نوکریاں فراہم کرتے ہیں، دوسری طرف اسلحے کی من چاہے داموں فروخت سے مغربی معیشت ہمہ وقت عروج میں رہتی ہے۔

اسرائیل کے قیام کے روز اول سے ہی ان کی ہر ممکن کوشش رہی ہے کہ فلسطین پر عربوں کی شناخت کو رفتہ رفتہ بالکل ختم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے تازہ ترین غیر منصفانہ اقدام یہ ہے کہ اسرائیل کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کر کے مقبوضہ القدس میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ مقبوضہ القدس صدیوں سے تینوں مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے لیے ایک متبرک و مقدس شہر کی حیثیت سے قائم تھا۔

اب اسرائیل نے اپنا قبضہ مزید پختہ کرنے کی خاطر باقاعدہ ایک قانون وضع کیا ہے کہ ارض فلسطین (اسرائیل) یہودیوں کا قومی وطن ہے۔ اس کے ساتھ ہی عربی زبان کا درجہ گھٹاتے ہوئے عبرانی زبان کو اس پر فوقیت دینے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جو اسرائیل کی سرکاری زبان ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ اسے اپنے وجود کے غیر حقیقی ہونے کا اندر سے شدید احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے قانون کا سہارا لے کر اپنے ملک کے وجود کو تقویت دینے کی کوشش کی۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب معاہدہ بالفور کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو اس علاقے میں یہودیوں کی تعداد صرف آٹھ لاکھ تھی جو اب ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے انصاف پسند اراکین نے اس قانون کی مخالفت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی غزہ میں طویل عرصہ سے محصور فلسطینی بھی اشتعال میں آ گئے جن پر اسرائیلی فوجی بمباری اور فائرنگ کی ہے ۔

اسرائیلی بمباری سے ابتدائی اطلاعات کے مطابق 4 فلسطینی شہید اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے۔ قبل ازیں جو متنازعہ مسودہ قانون اسرائیلی پارلیمنٹ نے منظور کیا اس کا نام یہودیوں کی قومی ریاست بل رکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہودی آبادکاری قومی مفاد میں ہے۔

تاریخ کے تناظر میں یہ بات یاد رہے کہ برطانیہ اور فرانس نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں سے اس وعدے پر مالی منفعت حاصل کی کہ جنگ میں کامیابی کی صورت میں یہودیوں کی الگ ریاست قائم کر دی جائے گی۔ اس وقت یہودیوں کی آبادی صرف آٹھ لاکھ تھی جو رفتہ رفتہ ایک کروڑ سے متجاوز ہو چکی ہے جب کہ اسرائیل میں 20 فیصد عرب مسلمان اور عیسائی موجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔