الیکشن اور نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت
ملک میں 26 ڈویژن ہیں انھیں صوبے کا درجہ دیا جائے اس سے نہ صرف صوبائی اور لسانی تعصب کا خاتمہ ہوسکے گا۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ کشیدہ سیاسی فضا میں مجھ جیسے لکھنے والے جوکوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتے، مجموعی طور پر سیاسی مسائل پر لکھنے سے گھبراتے ہیں لیکن سیاسی فیصلے کسی فرد واحد پر نہیں بلکہ نسلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس پر بھی قلم اٹھایا جائے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ ہے، اس پر بات کرنے سے قبل ہمیں الیکشن کو پیش نظر رکھے بغیر ، تاریخ کے اوراق میں جانا ہوگا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کا تحریک پاکستان میں کردار ناقابل فراموش ہے۔ انھوں نے مسلم ریاست اور اسلامی ریاست کے نظریے کی خاطر لازوال تاریخ رقم کی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ تحریک پاکستان کے نتیجے میں شمالی ہند کے مسلمان مہاجر جب قیام پاکستان کے وقت سرزمین پاکستان میں داخل ہوئے تو اس احساس کے ساتھ آئے تھے کہ وہ پاکستان کے خالق ہیں، انھیں پاکستان میں خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔
پاکستان کے خالق کے تصور اور احساس برتری پر یہاں کی مقامی آبادی میں رد عمل پیدا ہوا، اس صورتحال نے پاکستانی معاشرے بالخصوص سندھ کے معاشرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، اس تبدیلی کا اظہار شہر اور دیہات کے درمیان فرق کی صورت میں سامنے آیا۔ 800 برسوں میں مسلم تشخص کے سایہ میں پروان چڑھنے والے مہاجر جب پاکستان میں آباد ہوئے تو یہاں نہ صرف مسلمانوں کی اکثریت تھی بلکہ غیر مسلم بھی برائے نام تھے۔ تب مسلم تشخص کا اصل مقصد ختم ہوگیا کیونکہ یہاں لسانی بنیادوں پر پہلے سے ذیلی ثقافت موجود تھی۔ اس لیے انھیں اپنی شناخت کا مسئلہ پیش آیا کیونکہ انھوں نے نظریہ پاکستان کی خاطر ہجرت کی تھی اس لیے انھوں نے پاکستان کو اپنے فخر کی بنیاد بنالیا۔
مہاجر ہندوستان کے جن علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے وہ علاقے پاکستان کے علاقوں کے مقابلے میں سیاسی، تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اس بنیاد پر مہاجروں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ایسے کلچر کی بنیاد ڈالی جس میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔اسی بنیاد پر انھوں نے پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مہاجروں میں نہ صرف کسان طبقے کا فقدان تھا بلکہ یہ لوگ جاگیرداری اور قبائلی ڈھانچے سے بھی نا آشنا تھے جس کی وجہ سے مہاجر خود کو اس کلچر سے ہم آہنگ نہ کرسکے اور ہمیشہ ان کا ان قوتوں کے ساتھ ٹکراؤ رہا۔
ماضی میں سندھ کے شہری علاقوں سے دینی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے متوسط طبقے کی قیادت کا منتخب ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کیونکہ مہاجروں کا تعلق ملک کے اقلیتی گروہ سے تھا اس لیے یہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ مہاجروں نے کیونکہ دو قومی نظریے کے تحت ہجرت کی تھی اس لیے اسلام، پاکستان اور اردو کے سب سے بڑے حامی اور ترجمان بن کر سامنے آئے ۔ اس سوچ کی وجہ سے پاکستان کی کسی ذیلی ثقافت میں خود کو ضم نہ کرسکے اس کے برعکس انھوں نے پاکستان میں بسنے والے ذیلی قوتوں کا پرچارکرنے والوں کی مخالفت کی اور انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا اس کے نتیجے میں ذیلی قومیتوں کا پرچار کرنے والوں نے انھیں پاکستان کے خالق کے طور پر دیکھنے کے بجائے پناہ گزین کی حیثیت سے دیکھا۔
مہاجر کیونکہ سیاسی طور پر زیادہ با شعور اور تعلیم یافتہ تھے اس لیے مختلف حکومتوں نے انھیں اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انھیں سیاسی طور پر بے اثر بنانے کی کوشش کی ۔ یہ وہ عوامل تھے جس سے احساس برتری میں مبتلا قوم احساس محرومی کا شکار ہوتی رہی۔ اس احساس محرومی پر کئی مہاجر اکابرین بالخصوص محمود الحق عثمانی اور دیگر اکابرین نے آوازیں بلند کیں، لیکن کیونکہ مہاجر مضبوط مرکز کے حامی تھے اس لیے یہ آوازیں غیر موثر ثابت ہوئی، سقوط ڈھاکا کے واقعے کے بعد محصور مشرقی پاکستان سے لا تعلقی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم اورغیر امتیازی سلوک پر یہاں کی حکومتوں کی خاموشی، کوٹا سسٹم، سندھ پر حکمرانی کے حق سے محرومی اور دیگر امتیازی سلوک ایسے عوامل تھے جس نے مہاجروں کو نئے خطوط پر سوچنے پر مجبورکردیا۔
گوکہ مہاجر ہندوستان کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچے تھے، ان میں علاقائی طور پر نہ صرف دوریاں تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف تعصبات بھی تھے لیکن پھر بھی ان میں ثقافتی اور نظریاتی ہم آہنگی موجود تھیں جس کی بنیاد پر انھیں گروہی تشکیل کا شعور ملا۔ یہ وہ عوامل تھے جس کے نتیجے میں MQMوجود میں آئی۔
MQM کی تیس سالہ سیاسی جد وجہد کے نتیجے میں مہاجروں نے کیا کھویا اور کیا پایا اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار اہل سیاست ہی کرسکتے ہیں۔ موجودہ وقت میں بعض حلقوں کی جانب سے مہاجروں کے مسائل کے حل کے لیے مہاجر صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے مخالفین ہیں جو لفظ مہاجرکے لفظی معنی میں الجھ کر اس کی نفی کرنے پر اپنی تمام توانائی اور صلاحیت کو صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ کشمکش قومی یکجہتی بالخصوص سندھ کی تعمیر اور ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں اس کا ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جس سے سیاسی کشمکش کی فضا کا خاتمہ ہوسکے۔
اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ملک میں 26 ڈویژن ہیں انھیں صوبے کا درجہ دیا جائے اس سے نہ صرف صوبائی اور لسانی تعصب کا خاتمہ ہوسکے گا بلکہ اس سے اسمبلی میں صوبوں کے درمیان نمائندگی کا جو توازن ہے وہ بہتر ہوگا۔ بڑا صوبہ اور چھوٹے صوبے کے نام پر جوکشمکش ہے، اس کا خاتمہ ہوگا۔ یاد رکھیے خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کچھ ایسی بنائی ہے کہ اگر آپ اسے سونے کا نوالہ بھی دیںگے مگر احساس شراکت نہیں دیںگے تب تک وہ قدرتی خوشی محسوس نہیں کرے گا۔ اس لیے ہمیں پاکستان میں بسنے والی تمام ثقافتی اکائیوں کو احساس شراکت دینی ہوگی اس صورت میں ہی ملک سے سیاسی بے چینی کا خاتمہ اور خیر سگالی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کا تحریک پاکستان میں کردار ناقابل فراموش ہے۔ انھوں نے مسلم ریاست اور اسلامی ریاست کے نظریے کی خاطر لازوال تاریخ رقم کی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ تحریک پاکستان کے نتیجے میں شمالی ہند کے مسلمان مہاجر جب قیام پاکستان کے وقت سرزمین پاکستان میں داخل ہوئے تو اس احساس کے ساتھ آئے تھے کہ وہ پاکستان کے خالق ہیں، انھیں پاکستان میں خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔
پاکستان کے خالق کے تصور اور احساس برتری پر یہاں کی مقامی آبادی میں رد عمل پیدا ہوا، اس صورتحال نے پاکستانی معاشرے بالخصوص سندھ کے معاشرے کی ساخت کو بدل کر رکھ دیا، اس تبدیلی کا اظہار شہر اور دیہات کے درمیان فرق کی صورت میں سامنے آیا۔ 800 برسوں میں مسلم تشخص کے سایہ میں پروان چڑھنے والے مہاجر جب پاکستان میں آباد ہوئے تو یہاں نہ صرف مسلمانوں کی اکثریت تھی بلکہ غیر مسلم بھی برائے نام تھے۔ تب مسلم تشخص کا اصل مقصد ختم ہوگیا کیونکہ یہاں لسانی بنیادوں پر پہلے سے ذیلی ثقافت موجود تھی۔ اس لیے انھیں اپنی شناخت کا مسئلہ پیش آیا کیونکہ انھوں نے نظریہ پاکستان کی خاطر ہجرت کی تھی اس لیے انھوں نے پاکستان کو اپنے فخر کی بنیاد بنالیا۔
مہاجر ہندوستان کے جن علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے وہ علاقے پاکستان کے علاقوں کے مقابلے میں سیاسی، تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اس بنیاد پر مہاجروں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ایسے کلچر کی بنیاد ڈالی جس میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔اسی بنیاد پر انھوں نے پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مہاجروں میں نہ صرف کسان طبقے کا فقدان تھا بلکہ یہ لوگ جاگیرداری اور قبائلی ڈھانچے سے بھی نا آشنا تھے جس کی وجہ سے مہاجر خود کو اس کلچر سے ہم آہنگ نہ کرسکے اور ہمیشہ ان کا ان قوتوں کے ساتھ ٹکراؤ رہا۔
ماضی میں سندھ کے شہری علاقوں سے دینی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے متوسط طبقے کی قیادت کا منتخب ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کیونکہ مہاجروں کا تعلق ملک کے اقلیتی گروہ سے تھا اس لیے یہ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ مہاجروں نے کیونکہ دو قومی نظریے کے تحت ہجرت کی تھی اس لیے اسلام، پاکستان اور اردو کے سب سے بڑے حامی اور ترجمان بن کر سامنے آئے ۔ اس سوچ کی وجہ سے پاکستان کی کسی ذیلی ثقافت میں خود کو ضم نہ کرسکے اس کے برعکس انھوں نے پاکستان میں بسنے والے ذیلی قوتوں کا پرچارکرنے والوں کی مخالفت کی اور انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا اس کے نتیجے میں ذیلی قومیتوں کا پرچار کرنے والوں نے انھیں پاکستان کے خالق کے طور پر دیکھنے کے بجائے پناہ گزین کی حیثیت سے دیکھا۔
مہاجر کیونکہ سیاسی طور پر زیادہ با شعور اور تعلیم یافتہ تھے اس لیے مختلف حکومتوں نے انھیں اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انھیں سیاسی طور پر بے اثر بنانے کی کوشش کی ۔ یہ وہ عوامل تھے جس سے احساس برتری میں مبتلا قوم احساس محرومی کا شکار ہوتی رہی۔ اس احساس محرومی پر کئی مہاجر اکابرین بالخصوص محمود الحق عثمانی اور دیگر اکابرین نے آوازیں بلند کیں، لیکن کیونکہ مہاجر مضبوط مرکز کے حامی تھے اس لیے یہ آوازیں غیر موثر ثابت ہوئی، سقوط ڈھاکا کے واقعے کے بعد محصور مشرقی پاکستان سے لا تعلقی بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم اورغیر امتیازی سلوک پر یہاں کی حکومتوں کی خاموشی، کوٹا سسٹم، سندھ پر حکمرانی کے حق سے محرومی اور دیگر امتیازی سلوک ایسے عوامل تھے جس نے مہاجروں کو نئے خطوط پر سوچنے پر مجبورکردیا۔
گوکہ مہاجر ہندوستان کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچے تھے، ان میں علاقائی طور پر نہ صرف دوریاں تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف تعصبات بھی تھے لیکن پھر بھی ان میں ثقافتی اور نظریاتی ہم آہنگی موجود تھیں جس کی بنیاد پر انھیں گروہی تشکیل کا شعور ملا۔ یہ وہ عوامل تھے جس کے نتیجے میں MQMوجود میں آئی۔
MQM کی تیس سالہ سیاسی جد وجہد کے نتیجے میں مہاجروں نے کیا کھویا اور کیا پایا اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار اہل سیاست ہی کرسکتے ہیں۔ موجودہ وقت میں بعض حلقوں کی جانب سے مہاجروں کے مسائل کے حل کے لیے مہاجر صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اس مطالبے کے مخالفین ہیں جو لفظ مہاجرکے لفظی معنی میں الجھ کر اس کی نفی کرنے پر اپنی تمام توانائی اور صلاحیت کو صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ میرے نزدیک یہ کشمکش قومی یکجہتی بالخصوص سندھ کی تعمیر اور ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں اس کا ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جس سے سیاسی کشمکش کی فضا کا خاتمہ ہوسکے۔
اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ملک میں 26 ڈویژن ہیں انھیں صوبے کا درجہ دیا جائے اس سے نہ صرف صوبائی اور لسانی تعصب کا خاتمہ ہوسکے گا بلکہ اس سے اسمبلی میں صوبوں کے درمیان نمائندگی کا جو توازن ہے وہ بہتر ہوگا۔ بڑا صوبہ اور چھوٹے صوبے کے نام پر جوکشمکش ہے، اس کا خاتمہ ہوگا۔ یاد رکھیے خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کچھ ایسی بنائی ہے کہ اگر آپ اسے سونے کا نوالہ بھی دیںگے مگر احساس شراکت نہیں دیںگے تب تک وہ قدرتی خوشی محسوس نہیں کرے گا۔ اس لیے ہمیں پاکستان میں بسنے والی تمام ثقافتی اکائیوں کو احساس شراکت دینی ہوگی اس صورت میں ہی ملک سے سیاسی بے چینی کا خاتمہ اور خیر سگالی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔