حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی ؒ

آپؒ نے فرمایا، اس کائنات میں جو کچھ ہے حکم خداوندی ہے، اس کے حکم سے آگ بھڑک بھی سکتی ہے اور بجھ بھی سکتی ہے۔


Naseem Anjum July 22, 2018
[email protected]

حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 565ھ کو ملتان میں پیدا ہوئے اور 666ھ میں آپ نے اسی خطے میں وفات پائی۔ حضرت بہاؤالدینؒ سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں، ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی، دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔

حضرت شیخ بہاؤالدین ذکریاؒ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ نماز کا صدقہ ہے اور جو کچھ مجھے حاصل ہوا ہے وہ نماز کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ ایک اور موقع پر حضرت شیخ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا، جسے سن کر حاضرین بھی حیرت میں مبتلا ہوگئے، ''میں نے بڑے بڑے مشائخ کے جملہ وظائف کا ورد کیا مگر مجھ سے ختم قرآن نہ ہوسکا۔'' مجلس سے ایک عقیدت مند نے اٹھ کر سوال کیا، ''مخدوم! آپ تو حافظ قرآن ہیں، ہزاروں بار کلام الٰہی ختم کرچکے ہیں۔''

حضرت شیخ نے جواباً فرمایا، کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ فلاں بزرگ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک قرآن ختم کرلیا کرتے تھے، میں نے بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا، مگر خاصان خدا کے لیے بہت آسان ہے۔ حضرت شیخ نے سخت سے سخت ریاضتیں کی تھیں اور انھی وظائف نے انھیں روحانیت کے درجے پر پہنچایا، ایک موقع پر بہاؤ الدین ذکریاؒ نے دو رکعت نماز میں پورا قرآن پاک ختم کرنے کا شرف حاصل کیا تھا، ایک رکعت میں ایک قرآن اور چار پارے ختم کیے اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی۔

ایک زمانہ حضرت بہاؤالدین ذکریا کی کشف و کرامات کا قائل تھا، لیکن حاکم وقت اور کچھ تنگ نظر لوگ آپؒ کے علم و حکمت کا اعتراف کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے، ایک بار شہر کا حاکم ماہ رمضان میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور ایک سوال کیا، شیخ! کرامت کسے کہتے ہیں، حضرت شیخ نے جواب دیا کہ جو بات عادت کے خلاف ہو اسے تصوف کی زبان میں کرامت کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر آگ کی فطرت ہے جلانا، اگر کسی شے کو جلانے سے قاصر رہے تو یہ اس شخص کا روحانی تصرف ہوگا جس کی ریاضت کے سبب آگ کی فطرت تبدیل ہوگئی۔

حاکم وقت نے اس منطق کو ماننے سے انکار کردیا۔ آپؒ نے فرمایا، اس کائنات میں جو کچھ ہے حکم خداوندی ہے، اس کے حکم سے آگ بھڑک بھی سکتی ہے اور بجھ بھی سکتی ہے اور جب بندہ ریاضت کی مختلف منازل طے کرتا ہے اپنے عیش و آرام کو قربان کردیتا ہے صرف اور صرف اس کا عشق اللہ اور اس کی تابعداری ہوتا ہے تب سالک کو اللہ کی طرف سے روحانی طاقت بخش دی جاتی ہے۔ لیکن حاکم ملتان پر ایسی باتیں بے اثر ثابت ہوئیں۔

حضرت شیخ نے یہ صورتحال دیکھی تو فرمایا کہ آج تم اور تمہارے مصاحب ہمارے ساتھ روزہ افطار کریں، اس کے ساتھ ہی چند خدمت گاروں کو طلب کرکے پورے شہر میں منادی کرادی کہ آج کا روزہ شہر ملتان کے روزے داروں کے ساتھ حضرت شیخ روزہ کھولیں گے۔ حاکم نے حیران ہوکر کہا اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا انتظار کرو اللہ رب العزت سب کچھ عیاں کردے گا۔ وقت افطار حضرت شیخ نے حسب وعدہ روزہ حاکم اور اس کے مصاحبان کے ساتھ کھولا، اس نے حضرت شیخ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ آپؒ نے ان بے چاروں کو کیوں دھوکے میں رکھا۔

یہ سن کر آپؒ نے کہا کہ ابھی شب پتا چل جائے گا کہ کرامت کسے کہتے ہیں اور اولیا اللہ کون ہیں۔ یہ کہہ کر وہ نماز مغرب ادا کرنے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد حاکم ملتان نے تحقیق کروائی تو شہریوں کی طرف سے جواب ملا کہ حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی نے روزہ اہل ملتان کے ساتھ کھولا ہے اور ان کی خوشی اور عزت میں اضافہ کیا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ حاکم ملتان ناصرالدین قباچہ تھا چونکہ کسی تذکرے میں نام نہیں ملتا ہے لیکن شیخ کا یہ تصرف روحانی دیکھ کر وہ اس بات کا قائل ہوگیا کہ

اولیا را ہست قدرت ازالہ

تیر جستہ باز گرد اندازِ راہ

(مولانا روم)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ''اولیا کو اللہ کی طرف سے یہ قدرت دی جاتی ہے کہ وہ کمان سے چھوٹے ہوئے تیر کو واپس لاسکتے ہیں۔''

حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی شیخ الاسلام حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ کے بارے میں فرماتے ہیں، شیخ الاسلام حضرت بہاؤالدین ذکریا نے درویشی کے ستر ہزار علوم طے کیے تھے، انھیں اس قدر روحانی قوت حاصل ہوچکی تھی اگر آسمان کی جانب نظر اٹھاتے تو عظمت عظیم کا مشاہدہ کرتے اور اگر زمین کی طرف دیکھتے تو تحت الثریٰ کی چیزیں دکھائی دینے لگتی تھیں۔ اولیا اللہ کھلے عام کشف و کرامات کا مظاہرہ کرنا ہرگز پسند نہیں فرماتے ہیں مگر ضرورتاً ان کی عبادت کا ثمر سامنے آنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

شیخ الاسلام حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ لوگوں میں علم و ترویج کے لیے ایک عملی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے تھے جو ان کی خانقاہ سے متصل تھا۔ اس کے دو شعبے تھے ایک شعبے میں علما تربیت حاصل کرتے تھے اور دوسرے میں مبلغین اسلام اسلامی تعلیم اور طور طریقوں سے بذریعہ استاد استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان حضرات کو اس بات کا سبق دیا جاتا تھا کہ وہ جس علاقے یا ملک میں جائیں وہاں کی معاشرت اور زبان سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے، اس کے لیے حضرت شیخ نے کم و بیش ہر ملک سے ایک عالم و فاضل شخص کو ملتان بلاکر اپنی درسگاہ میں بحیثیت استاد کے مقرر کرلیا تھا، اور انھیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔

حضرت شیخ کی تعلیم اور حکم کے مطابق تبلیغی جماعت سوداگروں کے لباس میں جہازوں پر سامان تجارت لاد کر ملتان سے روانہ ہوجاتی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی دکانیں کھولتے اور اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت شروع کردیتے اور جب ان کی ایمانداری، شرافت، عفو و درگزر، تحمل مزاجی سے گاہک اور حلقہ احباب متاثر ہوتے تب وہ اللہ کا پیغام پہنچاتے، اسلام کی دعوت دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں وہ ان بزرگان دین اور صوفیا کرام کی سعی اور تبلیغ کا نتیجہ ہے۔

اولیا اللہ کی کرامات کی بدولت کہ برصغیر کے وہ علاقے جہاں جہالت کی تاریکی نے بے شمار لوگوں کو گمراہی کے جنگل میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ انھیں صدق و کذب کی پہچان نہ تھی وہ نفع نقصان سے واقف نہ تھے وہ خدا کی وحدانیت، تخلیق کائنات کے رازوں، انسان کے دنیا میں آنے کے مقصد سے ناآشنا تھے، وہ جانوروں سے بدتر زندگی بسر کر رہے تھے وہاں اسلام کی روشنی نے انسانیت کو شرف بخشا اور بت خانوں کی بنیادیں تک ہل گئیں۔

ان کے کشف و کرامات کی داستانوں سے لوگوں کے سینے اور کتابیں بھری پڑی ہیں۔ مورخین نے ہر دور کے ولی اللہ مرد قلندر کے کرشموں کو لفظوں کی شکل دی ہے۔ آج دنیا بھر میں جہل کا اندھیرا پھیل گیا ہے، خونریزی، حق تلفی اور ظلم و ستم کو عروج حاصل ہے اس کی وجہ لوگ قرآن کی تعلیم کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں