ابابیلوں کی کنکریاں اور ہاتھیوں کے لشکر

’’ اچھے خاصے شریف لوگ تھے اماں !! ‘‘ امیدوار بیٹے نے گھگیا کر کہا، ’’ مجھے تو اچھا لگا سب! ‘‘


Shirin Hyder July 22, 2018
[email protected]

'' توبہ ہے... کتنے عجیب سے لوگ تھے!! '' اماں نے اپنی شیشوں کی کڑھائی والی چادر اتار کر پرانا دوپٹہ اوڑھا۔

'' اور نہیں تو کیا... اس کا باپ دیکھا تھا، اس کا قد کتنا ٹھگنا سا تھا، میں نے تو وہیں سوچ لیا کہ اگر کوئی بچہ نانا پر چلاگیا تو وہ ہمارے بیچ کھڑا ہوا بونوں جیسا ہی لگے گا! ''

'' توبہ ہے میاں جی، مجھے تو اس کی ماں کی سرخی کا رنگ ہی اتنا شوہدا سا لگاکہ میں نے ایک پل میں دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہاں نہیں ، اور اس کے بعد میں نے خود پر اس گھر کا نوالہ بھی حرام کر لیا، آپ نے دیکھا کہ میں نے کچھ چکھا تک نہیں حالانکہ وہ اپنے ان لال ہونٹوں سے درجنوں بار میری منتیں کرتی رہی!!''

'' اوہ اچھا، تبھی میں کہوں کہ کیوں آپ بار بار کہہ رہی تھیں کہ گھر سے کھانا کھا کر چلے تھے حالانکہ ان کے گھر سے کھانے کے لیے ہی تو آپ نے ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تھا!! '' سسر کی بات سن کر بڑی بہو کی ہنسی نکل گئی۔

'' اچھا آپ میرا منہ نہ کھلوائیں زیادہ! '' اماں نے اپنا منہ مزید کھولنے کی دھمکی دی تو سب سہم گئے۔

'' اچھے خاصے شریف لوگ تھے اماں !! '' امیدوار بیٹے نے گھگیا کر کہا، '' مجھے تو اچھا لگا سب! ''

'' تم تو لگتا ہے کہ بہت اتاولے ہو رہے ہو، مر رہے ہو شادی کرنے کے لیے اسی لیے جہاں جاتے ہو وہیں مطمئین ہو جاتے ہو! '' ابا میاں نے اسے گھرکا۔

'' ہم خواہ مخواہ میں ہی لوگوں میں مین میخ نکالتے رہتے ہیں، ہمیں علم ہی نہیں ہوپاتا کہ ہم بھی کسی کو پسند آتے ہیں کہ نہیں!! '' بڑے بیٹے نے لقمہ دیا، جانتے ہوئے بھی کہ یہ لقمہ اس کے حلق میں بھی پھنس سکتا تھا۔

'' ارے کیوں بھئی، کیا کمی ہے ہم میں یا ہمارے بیٹے میں... قد کاٹھ نہیں ہے، شکل و صورت کا ماٹھا ہے، ملازمت نہیں کرتا یا لولا لنگڑا ہے؟ '' اماں کے تو سر پر غصے کا بھوت سوار ہو گیا۔

'' اماں جہاں بھی ہم آج تک گئے ہیں، وہ ساری لڑکیاں ہم جانے سے پہلے ہی کافی حد تک چھان پھٹک چکے ہوتے ہیں، پھر بھی ہم وہاں سے لوٹ کر سو طرح کے کیڑے نکالتے ہیں، اس طرح تو... '' بڑی بہو نے خدا خوفی کی بات کی۔

'' اچھا... '' ساسو ماں نے اسے گھورا، '' تو تو چاہتی یہی ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے ایک اور تیری طرح کی بہو لے آئیں اور لوگ کہیں کہ ہماری نظر ہی خراب ہے!! ''

'' کیا برائی ہے اس میں اماں ؟ '' بیٹے نے اپنی بیوی کی ہتک محسوس کی۔

'' بس یہی ایک برائی ہے... اس میں نہ شکل ہے نہ صورت، نہ عقل نہ طریقہ مگر ایک گر ہے کہ تیرے جیسے کو الو کا گوشت کھلا کر کاٹھ کا الو بنا دیا ہے!! '' اماںنے بہو کی ہتک کی توہین کی ۔

'' جہاں جہاں بھی میںآپ کے ساتھ گیا ہوں اماں، وہ سب بچیاں اور ان کے خاندان ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر آپ لوگ تو ایسی ایسی مین میخ نکالتے ہیں کہ آپ کے لیے تو کوئی لڑکی آرڈر پر بنوانا پڑے گی! '' امیدوار بیٹے نے پھر جرات کی، '' ہو گئی اس طرح تو میری شادی! '' وہ پھنکار کر واک آؤٹ کر گیا، '' اس سے بہتر ہے کہ میں اپنی پسند سے کسی لڑکی سے شادی کر لوں !! '' جاتے جاتے اس نے ترپ کا پتا پھینکا۔

'' ننھے میاں... اتنی پہچان نہیں ہے تجھے کہ تو اچھے برے کی پہچان کر سکے، ابھی چند سال پہلے تو تجھے اپنی ناک صاف کرنا آئی ہے اورچلا ہے اپنی پسند سے شادی کرنے!! '' اماں نے غصے سے کہا۔

'' کیا اچھا برا اماں ! '' بڑے بیٹے نے کہا، '' شادی سے پہلے ہم کس طرح اس بات کی قیافہ آرائی کر سکتے ہیں کہ ہمارے بھائی کے بچوں کی شکلیں اور قد کس پر پڑیں گے... یہ تک علم نہیں ہوتا اماں کہ اولاد ہونا بھی نصیب میں ہے کہ نہیں !! ''

'' اسی لیے تو میں ایسے گھروں میں جاتی ہوں جہاں اولادوں کی فراوانی ہو... حالانکہ یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسے بھرے پرے خاندانوں میں ہم ہر وقت سمدھیانوں کے بکھیڑے ہی بھگتاتے رہیں گے، شادیاں، مرگ، سالگرہیں، عقیقے اور جانے کیا الا بلا... مگر چلو اس کا بھی حل ہے، بندہ ایسے موقعوں پر سو بہانے بنا لیتا ہے!! ''

'' اماں آپ نے تو ایڈوانس میں وہ سارے بہانے بھی سوچ رکھے ہوں گے، بلکہ سوچنا کیا ہے، سارے وہی بہانے استعمال کر لیں نا جو کہ آٹھ سال سے آج تک آپ میرے خاندان میں نہ جانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں !! '' بہو نے بھی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع ضائع نہیں کیا۔

'' دیکھا... یہ ہوتا ہے آنکھیں بند کر کے بہوئیں لانے کا نتیجہ... غضب خدا کا ایسی خرچیلی اور شو شا کی شوقین، اوپر سے بد زبانی تو دیکھو اس کی!! '' اماں نے چتون چڑھا کر وار کیا۔

'' اماں جی... یہ سب خوبیاں اور اوصاف تو میں نے اس گھر میں آ کر سیکھے ہیں۔ پہلے تو میں ایسی نہ تھی، اگر ہوتی تو آپ کس طرح مجھے بیاہ کر لاتیں ؟ '' اس نے دوبدو جواب دیا۔

'' مجھے کوئی مغز ماری نہیں کرنا ہے تم سے!! '' بات بڑھنا شروع ہو گئی تھی۔ میاں جی بھی غصے سے بڑی بہو کو سخت برا کہہ رہے تھے اور وہ خاموشی سے بیٹھی سن رہی تھی کیونکہ دو دو توپوں کے دہانے پر بیٹھی تھی۔

'' اچھا چھوڑیں نا اماں، غصہ جانے دیں !!'' بیٹے نے حسب معمول پانی کا گلاس اٹھا کر ماں کے منہ سے لگایا اور انھیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا،

'' آپ کسے ووٹ دے رہے ہیں میاں جی؟ '' اس نے با پ سے سوال کیا۔

'' ظاہر ہے بھئی جسے ووٹ دینے کا فیصلہ برادری کے بڑے کریں گے، صرف میں اور تمہاری ماں ہی نہیں، سارا خاندان اسی کو ووٹ دے گا، تم لوگوں سمیت!!'' میاںجی کا انداز حتمی تھی۔

'' اپنے ووٹوں کا فیصلہ تو ہم خود ہی کریں گے میاں جی، آپ نہ اماں جی اور نہ ہی برادری کے بڑے!!'' اس نے جرات کی۔

'' ناخلف، نا ہنجار... ہمیں کسی قابل ہی نہیں سمجھتا تو... '' میاں جی کے منہ سے کف نکل رہی تھی۔

'' اپنے گھر کے لیے ایک بہو لانے کے لیے تو اتنی چھان پھٹک اور اتنی سوچ ، مین میخ اور کاوشیں میاں جی، ایک گھر جس کی اہمیت اس ملک کے سائز کے حساب سے ایک تنکے کے برابر ہے، وہاں کے لیے انتخاب کی شرائط اتنی کڑی اور جب ملک کے لیے سربراہ چننے کا معاملہ آتا ہے تو اپنی عقل، سوچ، فہم اور اختیار کے بجائے ہم برادری کے فیصلے کو مانیں؟ ''

'' تو اس میںکیا حرج ہے؟ '' میاں جی نے ابرو اچکا کر سوال کیا۔

'' ووٹ ہر شخص کا ذاتی فیصلہ ہے میاں جی، برادری کے ووٹوں میں لاکھ طاقت سہی کیونکہ اس میں اس ملک کی تقدیر بدلنے کی وقعت زیادہ ہوتی ہے، مگر جس طرح ایک ایک قطرہ مل کر بارش بنتا ہے اسی طرح ایک ایک ووٹ اہم ہوتا ہے۔ اس ملک کی تقدیر ہم اپنے گھروں کی تقدیر سے کم اہم سمجھتے ہیں ؟ کیا کبھی آپ اپنی برادری کو اختیار دیں گے کہ وہ آپ کے گھر کے لیے بہو چن کر دے دے آپ کو؟ کیا خود جانچے بغیر اور خود اپنی سوچ سمجھ کو استعمال کیے بغیر آپ اپنے خاندان کی اگلی نسل کا فیصلہ کرنے کا اختیار اپنی برادری کو دیں گے؟ نہیں نا، تو پھر ملک کے مستقبل کے فیصلوں کا اختیار برادری کے پاس کیوں اور کیوں ایسا ہو کہ ہم سب اپنی اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہوئے بھی اس بات کے پابند ہوں کہ ووٹ اسے دیں جسے ہمارے ابا اور اماں چاہتے ہیں؟ میاں جی، میں اور میری بیوی دونوں دو الگ امیدواروں کو سپورٹ کرتے ہیں اور انھیں ووٹ دیں گے، ان میں سے کسی کے جیتنے یا ہارنے سے ہم دونوں کے بیچ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، کیونکہ ہم اپنے ملک کے حق میں مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہیں اس لیے ہمیں شعور ہے کہ ووٹ کی کیا اہمیت ہے، ہم بریانی کی پلیٹوں کے عوض ووٹ بیچنے والے ہیں نہ برادری سے ٹوٹ جانے سے خوفزدہ!! '' میاں جی منہ کھولے اس کی باتیں سن رہے تھے جیسے ان کی سماعتیں سمٹ کر منہ میں آگئی ہوں ۔ بیٹے کو علم تھا کہ اس کا لیکچر ان کے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے کیونکہ ان کی نسل کا ذہن اور سوچ بدلنا مشکل ہے، مگر اسے یقین ہے کہ آپ سب لوگ... اس کالم کو پڑھنے والے ضرور اس کی بات کو سمجھیں گے... اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کریں گے کیونکہ ہر ابابیل کے پنجوں میں پکڑی ہوئی کنکری نے ہاتھیوں کے لشکر کو کچلنے میں اپنا کام کیا تھا!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں